Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دابتہ الارض جس جانور کا یہاں ذکر ہے یہ لوگوں کے بالکل بگڑ جانے اور دین حق کو چھوڑ بیٹھنے کے وقت آخر زمانے میں ظاہر ہوگا ۔ جب کہ لوگوں نے دین حق کو بدل دیا ہوگا ۔ بعض کہتے ہیں یہ مکہ شریف سے نکلے گا بعض کہتے ہی اور کسی جگہ سے جس کی تفصیل ابھی آئے گی ان شاء اللہ تعالی ۔ وہ بولے گا باتیں کرے گا اور کہے گا کہ لوگ اللہ کی آیتوں کا یقین نہیں کرتے تھے ابن جریر اسی کو مختار کہتے ہیں ۔ لیکن اس قول میں نظر ہے واللہ اعلم ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ وہ انہیں زخمی کرے گا ایک روایت میں ہے کہ وہ یہ اور وہ دونوں کرے گا ۔ یہ قول بہت اچھا ہے اور دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ، واللہ اعلم ۔ وہ احادیث جو دابتہ الارض کے بارے میں مروی ہیں ۔ ان میں سے کچھ ہم یہاں بیان کرتے ہیں واللہ المستعان ۔ صحابہ کرام ایک مرتبہ بیٹھے قیامت کا ذکر کررہے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے آئے ۔ ہمیں ذکر میں مشغول دیکھ کر فرمانے لگے کہ قیامت قائم نہ ہوگی کہ تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا ، دھواں ، دابتہ الارض ، یاجوج ماجوج ، عیسی بن مریم کا ظہور ، اور دجال کانکلنا اور مغرب ، مشرق اور جزیرہ عرب میں تین خسف ہونا ، اور ایک آگ کا عدن سے نکلنا جو لوگوں کا حشر کرے گی ۔ انہی کے ساتھ رات گزارے گی اور انہی کے ساتھ دوپہر کا سوناسوئے گی ( مسلم وغیرہ ) ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ دابتہ الارض تین مرتبہ نکلے گا دور دراز کے جنگل سے ظاہر ہوگا اور اس کا ذکر شہر یعنی مکہ تک نہ پہنچے گا پھر ایک لمبے زمانے کے بعد دوبارہ ظاہر ہوگا اور لوگوں کی زبانوں پر اس کا قصہ چڑھ جائے گا یہاں تک کہ مکہ میں بھی اس کی شہرت پہنچے گی ۔ پھر جب لوگ اللہ کی سب سے زیادہ حرمت وعظمت والی مسجد مسجد حرام میں ہوں گے اسی وقت اچانک دفعتا دابتہ الارض انہیں وہی دکھائی دے گا کہ رکن مقام کے درمیان اپنے سر سے مٹی جھاڑ رہا ہوگا ۔ لوگ اس کو دیکھ کر ادھر ادھر ہونے لگیں گے یہ مومنوں کی جماعت کے پاس جائے گا اور ان کے منہ کو مثل روشن ستارے کے منور کردے گا اس سے بھاگ کر نہ کوئی بچ سکتا ہے اور نہ چھپ سکتا ہے ۔ یہاں تک کہ ایک شخص اس کو دیکھ کر نماز کو کھڑا ہوجائے گا یہ اس کو کہے گا اب نماز کو کھڑا ہوا ہے؟ پھر اس کے پیشانی پر نشان کردے گا اور چلا جائے گا اس کے ان نشانات کے بعد کافر مومن کا صاف طور امتیاز ہوجائے گایہاں تک کہ مومن کافر سے کہے گا کہ اے کافر میرا حق ادا کر اور کافر مومن سے کہے گا اے مومن میرا حق ادا کر یہ روایت حذیفہ بن اسید سے موقوفا بھی مروی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ہوگا جب کہ آپ بیت اللہ شریف کا طواف کررہے ہونگے لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں ہے ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ سب سے پہلے جو نشانی ظاہر ہوگی وہ سورج کا مغرب سے نکلنا اور دابتہ الارض کا ضحی کے وقت آجانا ہے ۔ ان دونوں میں سے جو پہلے ہوگا اس کے بعد ہی دوسرا ہوگا ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے آپ نے فرمایا چھ چیزوں کی آمد سے پہلے نیک اعمال کرلو ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا ، دھویں کا آنا ، دجال کا آنا ، اور دابتہ الارض کا آنا تم میں سے ہر ایک کا خاص امر اور عام امر ۔ یہ حدیث اور سندوں سے دوسری کتابوں میں بھی ہے ۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ دابتہ الارض کے ساتھ حضرت عیسیٰ کی لکڑی اور حضرت سلیمان کی انگوٹھی ہوگی ۔ کافروں کی ناک پر لکڑی سے مہر لگائے گا اور مومنوں کے منہ انگوٹھی سے منور کردے گا یہاں تک کہ ایک دسترخوان بیٹھے ہوئے مومن کافر سب ظاہر ہونگے ۔ ایک اور حدیث میں جو مسند احمد میں ہے ، مروی ہے کہ کافروں کے ناک پر انگوٹھی سے مہر کرے گا اور مومنوں کے چہرے لکڑی سے چمکا دے گا ۔ ابن ماجہ میں حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر مکہ کے پاس ایک جنگل میں گئے ۔ میں نے دیکھا کہ ایک خشک زمین ہے جس کے ارد گرد ریت ہے ۔ فرمانے لگے یہیں سے دابتہ الارض نکلے گا ۔ ابن بریدہ کہتے ہیں اس کے کئی سال بعد میں حج کے لئے نکلا تو مجھے لکڑی دکھائی دی جو میری اس لکڑی کے برابر تھی ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس کے چار پیر ہونگے صفا کے کھڈ سے نکلے گا بہت تیزی سے خروج کرے گا جیسے کہ کوئی تیز رفتار گھوڑا ہو لیکن تاہم تین دن میں اس کے جسم کا تیسرا حصہ بھی نہ نکلا ہوگا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے جب اس کی بابت پوچھا گیا تو فرمانے لگے جیاد میں ایک چٹان ہے اس کے نیچے سے نکلے گا میں اگر وہاں ہوتا تو تمہیں وہ چٹان دکھا دیتا ۔ یہ سیدھا مشرق کی طرف جائے گا اور اس شور سے جائے گا کہ ہر طرف اس کی آواز پہنچ جائے گی ۔ پھر شام کی طرف جائے گا وہاں بھی چیخ لگا کر ، پھر یمن کی طرف متوجہ ہوگایہاں بھی آواز لگا کر شام کے وقت مکہ سے چل کر صبح کو عسفان پہنچ جائے گا ۔ لوگوں نے پوچھا پھر کیا ہوگا ؟ فرمایا پھر مجھے معلوم نہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کا قول ہے کہ مزدلفہ کی رات کو نکلے گا ۔ حضرت عزیر کے ایک کلام کی حکایت ہے کہ سدوم کے نیچے سے یہ نکلے گا ۔ اس کے کلام کو سب سنیں گے حاملہ کے حمل وقت سے پہلے گرجائیں گے ، میٹھا پانی کڑوا ہوجائے گادوست دشمن ہوجائیں گے حکمت جل جائی گی علم اٹھ جائے گا نیچے کی زمین باتیں کرے گی انسان کی وہ تمنائیں ہونگی کہ جو کبھی پوری نہ ہوں ، ان چیزوں کی کوشش ہوگی جو کبھی حاصل نہ ہو ۔ اس بارے میں کام کریں گے جسے کھائیں گے نہیں ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے اس کے جسم پر سب رنگ ہونگے ۔ اس کے دوسینگوں کے درمیان سوار کے لئے ایک فرسخ کی راہ ہوگی ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ موٹے نیزے کی اور بھالے کی طرح کا ہوگا ۔ حضرت علی فرماتے ہیں اس کے بال ہونگے کھر ہونگے ڈاڑھی ہوگی دم نہ ہوگی ۔ تین دن میں بمشکل ایک تہائی باہر آئے گا حالانکہ تیز گھوڑے کی چال چلتا ہوگا ۔ ابو زبیر کا قول ہے کہ اس کا سر بیل کے سرکے مشابہ ہوگا آنکھیں خنزیر کی آنکھوں کے مشابہ ہونگی ، کان ہاتھی جیسے ہوں گے ، سینگ کی جگہ اونٹ کی طرح ہوگی ، شتر مرغ جیسی گردن ہوگی ، شیر جیسا سینہ ہوگا ، چیتے جیسا رنگ ہوگا بلی جیسی کمر ہوگی مینڈے جیسی دم ہوگی اونٹ جیسے پاؤں ہونگے ہر دو جوڑ کے درمیان بارہ گز کا فاصلہ ہوگا ۔ حضرت موسیٰ کی لکڑی اور حضرت سلیمان کی انگوٹھی ساتھ ہوگی ہر مومن کے چہرے پر اپنے عصائے موسوی سے نشان کرے گا جو پھیل جائے گا اور چہرہ منور ہوجائے گا اور ہر کافر کے چہرے پر خاتم سلیمانی سے نشانی لگادے گا جو پھیل جائے گا اور اس کا سارا چہرہ سیاہ ہوجائے گا ۔ اب تو اس طرح مومن کافر ظاہر ہوجائیں گے کہ خرید وفروخت کے وقت کھانے پینے کے وقت لوگ ایک دوسروں کو اے مومن اور اے کافر کہہ کر بلائیں گے ۔ دابتہ الارض ایک ایک کا نام لے کر ان کو جنت کی خوشخبری یا جہنم کی بدخبری سنائے گا ۔ یہی معنی ومطلب اس آیت کا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

821یعنی جب نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا نہیں رہ جائے گا۔ 822یہ وہی ہے جو قرب قیامت کی علامات میں سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو، ان میں ایک جانور نکلنا ہے۔ (صحیح بخاری) دوسری روایت میں ہے سب سے پہلی نشانی جو ظاہر ہوگی، وہ ہے سورج کا مشرق کی بجائے، مغرب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت جانور کا نکلنا۔ ان دونوں میں سے جو پہلے ظاہر ہوگی، دوسری اس کے فوراً بعد ظاہر ہوجائے گی (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ ۔۔ : یعنی جس وعید کو یہ لوگ جھٹلا رہے ہیں اور اسے لانے کی جلدی مچا رہے ہیں، جب اس کا وقت آجائے گا تو ہم زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو انوکھی قسم کا ہوگا (تنوین تنکیر سے انوکھے کا مفہوم پیدا ہو رہا ہے) ۔ وہ جانور قیامت کی علامات میں سے ہوگا، اس کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، کیونکہ آخرت کی حقیقتوں سے حجاب اٹھنے کے بعد آزمائش کا مقصد ختم ہوجاتا ہے۔ بعض تفاسیر میں ہے کہ وہ جانور ستر ہاتھ لمبا ہوگا، اس کی چار ٹانگیں اور دو پر ہوں گے، اس کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا اور سلیمان (علیہ السلام) کی انگوٹھی ہوگی وغیرہ۔ مگر کسی صحیح حدیث میں اس جانور کی کیفیت بیان نہیں ہوئی، اس لیے ہمیں اتنا ہی کافی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا۔ بعض لوگوں نے اسے حدیث دجّال میں مذکور جانور ” جساسہ “ قرار دیا ہے اور بعض نے یاجوج ماجوج، مگر یہ سب اندھیرے میں تیر ہیں۔- تُكَلِّمُهُمْ : وہ جانور لوگوں سے بات کرے گا۔ قیامت کے قریب اس قسم کے عجیب و غریب واقعات کثرت سے ہوں گے کہ وہ چیزیں جو عام طور پر کلام نہیں کرتیں، کلام کریں گی۔ ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تُکَلِّمَ السِّبَاعُ الإِْنْسَ ، وَ حَتّٰی یُکَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَۃُ سَوْطِہِ وَشِرَاکُ نَعْلِہِ وَتُخْبِرُہُ فَخِذُہُ بِمَا أَحْدَثَ أَھْلُہُ بَعْدَہُ ) [ ترمذي، الفتن، باب ما جاء في کلام السباع : ٢١٨١، و قال الألباني صحیح و رواہ أحمد : ٣؍٨٤، ح : ١١٧٩٨ ] ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ درندے انسانوں سے کلام کریں گے اور آدمی سے اس کے کوڑے کا کنارا اور جوتے کا تسمہ بات کرے گا اور اس کی ران اسے بتائے گی کہ اس کے گھر والوں نے اس کے بعد کیا کیا۔ “ حتیٰ کہ جب قیامت بالکل قریب ہوگی اور اس کی علامات خاصہ کا ظہور شروع ہوگا، جن کے ظاہر ہونے کے بعد کسی کا ایمان لانا قبول نہیں ہوگا (دیکھیے انعام : ١٥٨) اس وقت وہ جانور زمین سے نکلے گا۔ حذیفہ بن اسید غفاری (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بالا خانے سے ہمیں جھانک کر دیکھا، ہم قیامت کے بارے میں باتیں کر رہے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّھَا لَنْ تَقُوْمَ حَتّٰی تَرَوْنَ قَبْلَھَا عَشْرَ آیَاتٍ ، فَذَکَرَ الدُّخَانَ ، وَالدَّجَّالَ ، وَالدَّابَّۃَ ، وَ طُلُوْعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِھَا، وَنُزُوْلَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ ، وَیَأْجُوْجَ وَ مَأْجُوْجَ ، وَثَلَاثَۃَ خُسُْوْفٍ ، خَسْفٌ بالْمَشْرِقِ ، وَ خَسْفٌ بالْمَغْرِبِ ، وَ خَسْفٌ بِجَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ ، وَ آخِرُ ذٰلِکَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْیَمَنِ ، تَطْرُدُ النَّاسَ إِلٰی مَحْشَرِھِمْ ) [ مسلم، الفتن، باب في الآیات التي تکون قبل الساعۃ : ٢٩٠١ ] ” قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم دس نشانیاں دیکھو۔ “ اور آپ نے وہ نشانیاں شمار کیں کہ سورج کا اس کے مغرب سے طلوع ہونا، دخان (دھواں) ، دابہ (زمین سے نکلنے والا جانور) ، یاجوج ماجوج کا نکلنا، عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) اور دجال کا نکلنا اور تین خسف (زمین کا دھنس جانا) ایک خسف مغرب میں، ایک خسف مشرق میں اور ایک خسف جزیرۂ عرب میں اور آخر میں یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو ہانکتی ہوئی ان کے محشر کی طرف لے جائے گی۔ “ - عبد اللہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک حدیث سنی، جو میں ابھی تک نہیں بھولا، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ( إِنَّ أَوَّلَ الْآیَاتِ خُرُوْجًا، طُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِھَا، وَخُرُوْجُ الدَّابَّۃِ عَلَی النَّاسِ ضُحًی، وأَیُّھُمَا مَا کَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِھَا، فَالْأُخْرٰی عَلٰی إِثْرِھَا قَرِیْبٌ ) [ مسلم، الفتن، باب في خروج الدجال۔۔ : ٢٩٤١ ] ” آیات (نشانیوں) میں سب سے پہلی سورج کا اس کے مغرب سے طلوع ہونا اور دابہ (ایک جانور) کا دوپہر کے وقت لوگوں کے سامنے نکلنا، ان میں سے جو بھی دونوں سے پہلے ہوگی، دوسری اس کے بعد قریب ہی ظاہر ہوجائے گی۔ “ ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( تَخْرُجُ الدَّابَّۃُ فَتَسِمُ النَّاسَ عَلٰی خَرَاطِیْمِھِمْ ، ثُمَّ یُغْمَرُوْنَ فِیْکُمْ حَتّٰی یَشْتَرِيَ الرَّجُلُ الْبَعِیْرَ فَیَقُوْلَ مِمَّنِ اشْتَرَیْتَہُ ؟ فَیَقُوْلُ اشْتَرَیْتُہُ مِنْ أَحَدِ الْمُخَطَّمِیْنَ ) [ مسند أحمد : ٥؍٢٦٨، ح : ٢٢٣٧١۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٣٢٢ ] ”(زمین سے) ایک جانور نکلے گا، جو لوگوں کی پیشانیوں پر نشان لگائے گا اور وہ (نشان زدہ) لوگ بہت زیادہ ہوجائیں گے، حتیٰ کہ آدمی کسی سے اونٹ خریدے گا تو کوئی پوچھے گا کہ یہ تو نے کس سے خریدا ہے ؟ وہ جواب دے گا کہ میں نے یہ کسی نشان زدہ سے خریدا ہے۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (بَادِرُوْا بالْأَعْمَالِ سِتًّا طُلُوْعَ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِھَا، أَوِ الدُّخَانَ ، أَوِ الدَّجَّالَ ، أَوِ الدَّابَّۃَ ، أَوْ خَاصَّۃَ أَحَدِکُمْ ، أَوْ أَمْرَ الْعَامَّۃِ ) [ مسلم، الفتن، باب في بقیۃ من أحادیث الدجال : ٢٩٤٧ ] ” چھ چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرلو، ایک سورج کا مغرب سے نکلنا، دوسری دخان (دھواں) ، تیسری دجّال، چوتھی زمین کا جانور، پانچویں موت اور چھٹی قیامت۔ “ - اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا ۔۔ : اس کی ایک تفسیر وہ ہے جس کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے کہ ” النَّاسَ “ سے مراد مخصوص لوگ ہیں، یعنی وہ جانور لوگوں سے یہ کلام کرے گا کہ فلاں فلاں لوگ (النَّاسَ ) ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے، یعنی وہ ایمان نہ لانے والوں کی نشان دہی کرے گا، جیسا کہ اوپر عبداللہ بن عمرو (رض) کی حدیث میں گزرا ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” اَن النَّاسَ “ سے پہلے لام محذوف ہے، گویا عبارت یوں ہے : ” تُکَلِّمُھُمْ لِأَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰیَاتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ “ یعنی وہ دابہ ان سے کلام کرے گا، کیونکہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔ اس صورت میں اس دابّہ کا کلام کرنا ہی قیامت کی نشانی ہوگا۔ دونوں معنوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پہلی صورت میں یہ ” ان النَّاسَ “ جانور کا کلام ہے اور بعد والے معنی کے لحاظ سے یہ ” ان النَّاسَ “ جانور یا کلام دابہ کی وجہ بیان ہوئی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور جب وعدہ (قیامت کا) ان (لوگوں) پر پورا ہونے کو ہوگا (یعنی قیامت کا زمانہ قریب آپہنچے گا) تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک (عجیب) جانور نکالیں گے کہ وہ ان سے باتیں کرے گا (کافر) لوگ ہماری (یعنی اللہ تعالیٰ کی) آیتوں پر (خصوصاً ان آیتوں پر جو قیامت کے متعلق ہیں) یقین نہیں لاتے تھے (مگر اب قیامت آپہنچی اس کی علامتوں میں ایک علامت میرا ظہور بھی ہے۔ )- معارف و مسائل - دابتہ الارض کیا ہے اور کہاں اور کب نکلے گا :- مسند احمد میں حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو۔ 1 آفتاب کا جانب مغرب سے طلوع ہونا۔ 2 دخان۔ 3 دابہ۔ 4 خروج یا جوج ماجوج۔ 5 نزول عیسیٰ علیہ السلام۔ 6 دجال۔ 7، 8، 9) تین خسوف ایک مغرب میں دوسرا مشرق میں تیسرا جزیرة العرب میں ہوگا۔ 10 ایک آگ جو قعر عدن سے نکلے گی اور سب لوگوں کو ہنکا کر میدان حشر کی طرف لے آئیگی جس مقام پر لوگ رات گزارنے کے لئے ٹھہریں گے یہ آگ بھی ٹھہر جائے گی پھر ان کو لے چلے گی (ہکذا رواہ مسلم و اہل السنن من طرق و قال الترمذی حدیث حسن صحیح)- اس حدیث سے قرب قیامت میں زمین سے ایک ایسے جانور کا نکلنا ثابت ہوا جو لوگوں سے باتیں کرے گا۔ اور لفظ دابة کی تنوین میں اس جانور کے عجیب الخلقت ہونے کی طرف بھی اشارہ پایا گیا اور یہ بھی کہ یہ جانور عام جانوروں کی طرح توالد و تناسل کے طریق پر پیدا نہیں ہوگا بلکہ اچانک زمین سے نکلے گا اور یہ بات بھی اسی حدیث سے سمجھ میں آتی ہے کہ دابتہ الارض کا خروج بالکل آخری علامات میں سے ہوگا جس کے بعد بہت جلد قیامت آجائے گی۔ ابن کثیر نے بحوالہ ابو داؤد طیالسی حضرت طلحہ بن عمر سے ایک طویل حدیث میں روایت کیا ہے کہ یہ دابتہ الارض مکہ مکرمہ میں کوہ صفا سے نکلے گا اور اپنے سر سے مٹی جھاڑتا ہوا مسجد حرام میں حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان پہنچ جائے گا۔ لوگ اس کو دیکھ کر بھاگنے لگیں گے ایک جماعت رہ جائے گی یہ دابہ ان کے چہروں کو ستاروں کی طرح روشن کر دے گا۔ اس کے بعد وہ زمین کی طرف نکلے گا، ہر کافر کے چہرے پر کفر کا نشان لگا دے گا۔ کوئی اس کی پکڑ سے بھاگ نہ سکے گا یہ ہر مومن و کافر کو پہچانے گا ( ابن کثیر) اور مسلم بن حجاج نے حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک حدیث سنی تھی جس کو میں کبھی بھولتا نہیں وہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کی آخری علامات میں سب سے پہلے آفتاب کا طلوع مغرب کی طرف سے ہوگا اور آفتاب بلند ہونے کے بعد دابتہ الارض نکلے گا ان دونوں علامتوں میں سے جو بھی پہلے ہوجائے اس کے فوراً بعد قیامت آجائے گی۔ (ابن کثیر)- شیخ جلال الدین محلی نے فرمایا کہ خروج دابہ کے وقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احکام منقطع ہوجائیں گے اور اس کے بعد کوئی کافر اسلام قبول نہ کرے گا۔ یہ مضمون بہت سی احادیث و آثار سے مستنبط ہوتا ہے (مظہری) ابن کثیر وغیرہ نے اس جگہ دابتہ الارض کی ہیئت اور کیفیات و حالات کے متعلق مختلف روایات نقل کی ہیں جن میں سے اکثر قابل اعتماد نہیں اس لئے جتنی بات قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ عجیب الخلقت جانور ہوگا۔ بغیر توالد و تناسل کے زمین سے نکلے گا۔ اس کا خروج مکہ مکرمہ میں ہوگا پھر ساری دنیا میں پھرے گا۔ یہ کافر و مومن کو پہچانے گا اور ان سے کلام کرے گا بس اتنی بات پر عقیدہ رکھا جائے، زائد کیفیات و حالات کی تحقیق و تفتیش نہ ضروری ہے نہ اس سے کچھ فائدہ ہے۔- رہا یہ معاملہ کہ دابتہ الارض لوگوں سے کلام کرے گا اس کا کیا مطلب ہے ؟ بعض حضرات نے فرمایا کہ اس کا کلام یہی ہوگا جو قرآن میں مذکور ہے اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ ، یہ کلام وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو سنائے گا، بہت سے لوگ آج سے پہلے ہماری آیتوں پر یقین نہ رکھتے تھے اور مطلب یہ ہوگا کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ان سب کو یقین ہوجائے گا مگر اس وقت کا یقین شرعاً معتبر نہیں ہوگا اور حضرت ابن عباس، حسن بصری، قتادہ سے منقول ہے اور ایک روایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی ہے کہ یہ دابتہ لوگوں سے خطاب اور کلام کرے گا جس طرح عام کلام ہوتا ہے۔ (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْہِمْ اَخْرَجْنَا لَہُمْ دَاۗبَّۃً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُہُمْ۝ ٠ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ۝ ٨٢ۧ- وقع - الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] ،- ( و ق ع ) الوقوع - کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔- إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔ - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - دب - الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] - ( د ب ب ) دب - الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- يقن - اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما .- ( ی ق ن ) الیقین - کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ - إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٢) اور جس وقت ان پر نزول عذاب کا وقت آجائے گا تو ہم صفا ومروہ کے درمیان سے ایک جانور نکالیں گے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا یا یہ کہ اس کے ساتھ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا ہوگا اور وہ ان سے باتیں کرے گا اس لیے کہ لوگ ہماری آیات یعنی قرآن کریم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یا یہ کہ خروج دابہ پر یقین نہیں کرتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ ) ” - ” دابّۃ الارض “ کا ظہور قیامت کی آخری علامات میں سے ہے۔ احادیث کے مطابق سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کے بعد کوہ صفا پھٹے گا اور اس میں سے یہ جانور برآمد ہوگا۔ واللہ اعلم

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 100 یعنی قیامت قریب آجائے گی جس کا وعدہ ان سے کیا جارہا ہے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 101 ابن عمر کا قول ہے کہ یہ اس وقت ہوگا جب زمین کوئی نیکی کا حکم کرنے والا اور بدی سے روکنے والا باقی نہ رہے گا ۔ ابن مردویہ نے ایک حدیث ابو سعید خدری سے نقل کی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ یہی بات انہوں نے خود حضور سے سنی تھی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیں گے تو قیامت قائم ہونے سے پہلے اللہ تعالی ایک جانور کے ذریعہ سے آخری مرتبہ حجت قائم فرمائے گا ۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ ایک ہی جانور ہوگا یا ایک خاص قسم کی جنس حیوان ہوگی جس کے بہت سے افراد روئے زمین پر پھیل جائیں گے ۔ دابۃ من الارض کے الفاظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے ، بہر حال جو بات وہ کہے گا وہ یہ ہوگی کہ لوگ اللہ تعالی کی ان آیات پر یقین نہیں کرتے تھے جن میں قیامت کے آنے اور آخرت برپا ہونے کی خبریں دی گئی تھیں ، تو لو اب اس کا وقت آن پہنچا ہے اور جان لو کہ اللہ کی آیات سچی تھیں ، یہ فقرہ کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے یا تو اس جانور کے اپنے کلام کی نقل ہے ، یا اللہ تعالی کی طرف سے اس کے کلام کی حکایت ، اگر یہ اسی کے الفاظ کی نقل ہے تو ہماری کا لفظ وہ اسی طرح استعمال کرے گا جس طرح ایک حکومت کا ہر کارندہ ہم کا لفظ اس معنی میں بولتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کی طرف سے بات کررہا ہے نہ کہ اپنی شخصی حیثیت میں ۔ دوسری صورت میں بات صاف ہے کہ اللہ تعالی اس کے کلام کو چونکہ اپنے الفاظ میں بیان فرما رہا ہے اس لیے اس نے ہماری آیات کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ اس جانور کے نکلنے کا وقت کون سا ہوگا ؟ اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا اور ایک روز دن دہاڑے یہ جانور نکل آئے گا ، ان میں سے جو نشان بھی پہلے ہو وہ بہرحال دوسری کے قریب ہی ظاہر ہوگی ( مسلم ) دوسری روایات جو مسلم ، ابن ماجہ ، ترمزی اور مسند احمد وغیرہ میں آئی ہیں ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ قیامت کے قریب زمانے میں دجال کا خروج ، دابۃ الارض کا ظہور ، دخان ( دھواں ) اور آفتاب کا مغرب سے طلوع وہ نشانیاں ہیں جو یکے بعد دیگرے ظاہر ہوں گی ۔ اس جانور کی ماہیت ، شکل و صورت ، نکلنے کی جگہ اور ایسی ہی دوسری تفصیلات کے متعلق طرح طرح کی روایات نقل کی گئی ہیں جو باہم بہت مختلف اور متضاد ہیں ۔ ان چیزوں کے زکر سے بجز ذہن کی پراگندگی کے اوپر کچھ حاصل نہیں ہوتا اور ان کے جاننے کا کوئی فائدہ بھی نہیں کیونکہ جس مقصد کے لیے قرآن میں یہ ذکر کیا گیا ہے اس سے ان تفصیلات کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ رہا کسی جانور کا انسانوں سے انسانی زبان میں کلام کرنا ، تو یہ اللہ کی قدرت کا ایک کرشمہ ہے ، وہ جس چیز کو چاہے نطق کی طاقت بخش سکتا ہے ۔ قیامت سے پہلے تو وہ ایک جانور ہی کو نطق بخشے گا ، مگر جب وہ قیامت قائم ہوجائے گی تو اللہ کی عدالت میں انسان کی آنکھ اور کان اور اس کے جسم کی کھال تک بول اٹھے گی ، جیسا کہ قرآن میں بتصریح بیان ہوا ہے حَتّىٰٓ اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ، وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْٓ اَنْــطَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۔ ( حم السجدہ ، آیات 20 ۔ 21 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

36: قیامت کی آخری علامتوں میں سے ایک علامت قیامت کے بالکل قریب یہ ظاہر ہوگی کہ اللہ تعالیٰ زمین سے ایک عجیب الخلقت جانور پیدا کریں گے جو انسانوں سے بات کرے گا بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے فوراً بعد قیامت آجائے گی، اور اس جانور کے نکلنے کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا۔