8 1 1یعنی جن کو اللہ تعالیٰ حق سے اندھا کر دے، آپ ان کی اس طرح رہنمائی نہیں فرما سکتے جو انھیں مطلوب یعنی ایمان تک پہنچا دے۔
[٨٥] یعنی ان کافروں کے ہدایت پانے کی چار ہی صورتیں ممکن ہیں۔ جن میں سے دو سننے سے تعلق رکھتی ہیں اور دو دیکھنے سے۔ سننے کی پھر دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ صرف زندہ سن سکتا ہے۔ مردہ نہیں سن سکتا۔ اب چونکہ ان کے دل مرچکے ہیں۔ لہذا اس طریقہ سے ان کی ہدایت ناممکن ہوتی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ سماعت رکھنے والا تو بات سن سکتا ہے۔ لیکن بہرا نہیں سن سکتا۔ یہ لوگ چونکہ دل کے بہرے ہیں۔ لہذا یہ صورت بھی ناممکن ہوئی۔ تیسری صورت یہ تھی کہ ہو تو بہرا مگر کم از کم وہ توبہ تو کرتا ہو۔ اور بات سننے کی کچھ خواہش تو رکھتا ہو۔ اس صورت میں بھی کچھ اشاروں اور انداز خطاب سے اس کے کچھ نہ کچھ پلے پڑ سکتا تھا۔ مگر یہ لوگ تو پیٹھ پھیرے بھاگے جارہے ہیں لہذا یہ تیسری صورت بھی ناممکن ہوئی۔ اور چوتھی صورت یہ ہے کہ ہدایت کا طالب اگر کچھ سن سکتا تو دیکھ کر بات سمجھ لے۔ اگر اسے کوئی اشارہ سے راہ بتلائے تو اس سیدھی کی راہ کی طرف آئے۔ یا کم از کم جو لوگ سیدھی راہ پر چل رہے ہیں انھیں دیکھ کر ہی ان کے پیچھے ہولے۔ اب یہ کفار چونکہ دلوں کے اندھے بھی ہیں۔ لہذا ان کے ہدایت پانے کی چوتھی صورت بھی ناممکن ہوگئی۔ لہذا ایسے مردہ دل، دل کے بہرے اور اندھے لوگوں سے ہدایت پانے اور اسلام لانے کی توقع رکھنا بےکار ہے۔- [٨٦] یعنی آپ کی نصیحت اور ہدایت صرف ان لوگوں کے حق میں مقید ہوسکتی ہے۔ جو خود بھی ہدایت کے طالب ہوں۔ آپ کی باتوں کو غور سے سنتے ہوں ان کے دل زندہ ہوں۔ دل کے کانوں سے سنتے ہوں۔ اور دل کی آنکھوں سے اللہ کی آیات میں غور و فکر کرتے ہوں۔ اور ایسے ہی لوگ ایمان لاتے ہیں۔ اور ایسے ہی لوگوں سے ایمان لانے اور ہدایت پانے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
وَمَآ اَنْتَ بِهٰدِي الْعُمْىِ ۔۔ : یعنی آپ دل کے اندھوں کو راہ راست پر نہیں لاسکتے، آپ تو اسی کو سنائیں گے اور اسی کو راہ راست پر لائیں گے جو ہماری آیتوں کو سن کر ان کا اثر قبول کرتے ہیں اور اثر قبول کرنا یہی ہے کہ آپ کی دعوت پر ایمان لے آئیں۔
اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ يُّؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ ، یعنی آپ تو صرف ایسے ہی لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان لائیں اور اطاعت قبول کریں۔ اس پورے مضمون میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس جگہ سننے سنانے سے مراد محض کانوں میں آواز پہنچنا نہیں بلکہ مراد اس سے وہ سماع اور سننا ہے جو نفع بخش ہو۔ جو سماع نافع نہ ہو اس کو قرآن نے مقصد کے اعتبار سے عدم سماع سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ آخر آیت میں یہ ارشاد کہ آپ تو صرف ان لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو ایمان لائیں۔ اگر اس میں سنانے سے مراد محض ان کے کان تک آواز پہنچانا ہوتا تو قرآن کا یہ ارشاد خلاف مشاہدہ اور خلاف واقع ہوجاتا کیونکہ کافروں کے کانوں تک آواز پہنچانے اور ان کے سننے جواب دینے کی شہادتیں بیشمار ہیں کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ اس سے واضح ہوا کہ سنانے سے مراد سماع نافع ہے۔ ان کو مردہ لاش سے تشبیہ دے کر جو یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اس کے معنے بھی یہی ہوئے کہ جیسے مردے اگر کوئی بات حق کی سن بھی لیں اور اس وقت وہ حق کو قبول کرنا بھی چاہیں تو یہ ان کے لئے نافع نہیں، کیونکہ وہ دنیا کے دارالعمل سے گزر چکے ہیں جہاں ایمان و عمل نافع ہوسکتا تھا مرنے کے بعد برزخ یا محشر میں تو سبھی کافر منکر ایمان و عمل صالح کی تمنائیں کریں گے مگر وہ وقت ایمان و عمل کے قبول ہونے کا وقت نہیں۔ اس لئے اس آیت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ مردے کوئی کلام کسی کا سن ہی نہیں سکتے۔ اس لئے سماع اموات کے مسئلہ سے درحقیقت یہ آیت ساکت ہے۔ یہ مسئلہ اپنی جگہ قابل نظر ہے کہ مردے کسی کلام کو سن سکتے ہیں یا نہیں ؟- مسئلہ سماع اموات :- یہ مسئلہ کہ مردے کوئی کلام سن سکتے ہیں یا نہیں ان مسائل میں سے ہے جن میں خود صحابہ کرام کا باہم اختلاف رہا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر سماع موتی کو ثابت قرار دیتے ہیں اور حضرت ام المومنین صدیقہ عائشہ اس کی نفی کرتی ہیں۔ اسی لئے دوسرے صحابہ وتابعین میں بھی دو گروہ ہوگئے بعض اثبات کے قائل ہیں بعض نفی کے اور قرآن کریم میں یہ مضمون ایک تو اسی موقع پر سورة نمل میں آیا ہے دوسرے سورة روم میں تقریباً انہی الفاظ کے ساتھ دوسری آیت آئی ہے اور سورة فاطر میں یہ مضمون ان الفاظ سے آیا ہے وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ یعنی آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو کہ قبروں میں ہیں۔- ان تینوں آیتوں میں یہ بات قابل نظر ہے کہ ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ مردے سن نہیں سکتے بلکہ تینوں آیتوں میں نفی اس کی کی گئی ہے کہ آپ نہیں سنا سکتے۔ تینوں آیتوں میں اسی تعبیر و عنوان کو اختیار کرنے سے اس طرف واضح اشارہ نکلتا ہے کہ مردوں میں سننے کی صلاحیت تو ہو سکتی ہے۔ مگر ہم با اختیار خود ان کو نہیں سنا سکتے۔- ان تینوں آیتوں کے بالمقابل ایک چوتھی آیت جو شہداء کے بارے میں آئی ہے وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ شہداء کو اپنی قبروں میں ایک خاص قسم کی زندگی عطا ہوتی ہے اور اس زندگی کے مطابق رزق بھی ان کو ملتا ہے اور اپنے پسماندہ متعلقین کے متعلق بھی منجانب اللہ ان کو بشارت سنائی جاتی ہے آیت یہ ہے وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتً آ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ، فَرِحِيْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِھٖ ۙ وَيَسْـتَبْشِرُوْنَ بالَّذِيْنَ لَمْ يَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ ۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ، یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ مرنے کے بعد بھی روح انسانی میں شعور اور ادراک باقی رہ سکتا ہے بلکہ شہداء کے معاملہ میں اس کے وقوع کی شہادت بھی یہ آیت دے رہی ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ یہ حکم تو شہیدوں کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے اموات کے لئے نہیں، سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے کم از کم اتنا تو ثابت ہوگیا کہ مرنے کے بعد بھی روح انسانی میں شعور و ادراک اور اس دنیا کے ساتھ علاقہ باقی رہ سکتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے شہداء کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ ان کی ارواح کا تعلق ان کے اجساد اور قبور کے ساتھ قائم رہتا ہے اسی طرح جب اللہ تعالیٰ چاہیں تو دوسرے اموات کو یہ موقع دے سکتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر جو سماع اموات کے قائل ہیں ان کا یہ قول بھی ایک صحیح حدیث کی بنا پر ہے جو حضرت عبداللہ بن عمر سے اسناد صحیح کے ساتھ منقول ہے وہ یہ ہے۔- ما من احد یمر بقبر اخیہ المسلم کان یعرفہ فی الدنیا فیلسم علیہ الا رد اللہ علیہ روحہ حتی یرد (علیہ السلام) (ذکرہ ابن کثیر فی تفسیرہ مصححا عن ابن عمر)- جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی قبر پر گزرتا ہے جس کو وہ دنیا میں پہچانتا تھا اور وہ اس کو سلام کرے تو اللہ تعالیٰ اس مردے کی روح اس میں واپس بھیج دیتے ہیں تاکہ وہ سلام کا جواب دے۔- اس سے بھی یہ ثابت ہوا کہ جب کوئی شخص اپنے مردہ مسلمان بھائی کی قبر پر جا کر سلام کرتا ہے تو وہ مردہ اس کے سلام کو سنتا ہے اور جواب دیتا ہے اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت اس کی روح اس دنیا میں واپس بھیج دیتے ہیں۔ اس سے دو باتیں ثابت ہوئیں اول یہ کہ مردے سن سکتے ہیں دوسرے یہ کہ ان کا سننا اور ہمارا سنانا ہمارے اختیار میں نہیں البتہ اللہ تعالیٰ جب چاہیں سنا دیں، جب نہ چاہیں نہ سنائیں۔ مسلمان کے سلام کرنے کے وقت تو اس حدیث نے بتلا دیا کہ حق تعالیٰ مردہ کی روح واپس لا کر اس کو سلام سنا دیتے ہیں اور اس کو سلام کا جواب دینے کی بھی قدرت دیتے ہیں۔ باقی حالات و کلمات کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ مردہ ان کو سنے گا یا نہیں۔ اسی لئے امام غزالی اور علامہ سبکی وغیرہ کی تحقیق یہ ہے کہ اتنی بات تو احادیث صحیحہ اور قرآن کی آیت مذکورہ سے ثابت ہے کہ بعض اوقات میں مردے زندوں کا کلام سنتے ہیں لیکن یہ ثابت نہیں کہ ہر مردہ ہر حال میں ہر شخص کے کلام کو ضرور سنتا ہے اس طرح آیات و روایات کی تطبیق بھی ہوجاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مردے ایک وقت میں احیاء کے کلام کو سن سکیں دوسرے وقت نہ سن سکیں، یہ بھی ممکن ہے کہ بعض کے کلام کو سنیں بعض کے کلام کو نہ سنیں، یا بعض مردے سنیں بعض نہ سنیں، کیونکہ سورة نمل، سورة روم، سورة فاطر کی آیات سے بھی یہ ثابت ہے کہ مردوں کو سنانا ہمارے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں سنا دیتے ہیں اس لئے جن مواقع میں حدیث کی روایات صحیحہ سے سننا ثابت ہے وہاں سننے پر عقیدہ رکھا جائے اور جہاں ثابت نہیں وہاں دونوں احتمال میں اس لئے نہ قطعی اثبات کی گنجائش ہے نہ قطعی نفی کی۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم - اس مسئلہ کی مکمل تحقیق میں احقر نے ایک مستقل رسالہ بنام تکمیل الحبور بسماع اہل القبور لکھا ہے جو احکام القرآن سورة روم حزب خامس میں بزبان عربی شائع ہوا ہے جس میں آیات و روایات اور اقوال سلف و خلف اور شرح الصدور وغیرہ سے بہت سے واقعات و مخاطبات اہل قبور کے نقل کئے گئے ہیں۔ اہل علم وہاں دیکھ سکتے ہیں عوام کے لئے اس کا ضروری خلاصہ لکھا گیا ہے۔
وَمَآ اَنْتَ بِہٰدِي الْعُمْىِ عَنْ ضَلٰلَتِہِمْ ٠ۭ اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ يُّؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا فَہُمْ مُّسْلِمُوْنَ ٨١- عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔
(٨١) اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے بچا کر ہدایت کا راستہ دکھلانے والے ہیں آپ تو صرف ان ہی کو سنا سکتے ہیں جو ہماری کتاب اور رسول کا یقین رکھتے ہیں اور پھر وہ عبادت اور توحید خداوندی میں مخلص بھی ہیں۔
سورة النمل حاشیہ نمبر : 99 یعنی ان کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی انہیں سیدھے راستے پر کھینچ لانا اور گھسیٹ کر لے چلنا تو تمہارا کام نہیں ہے ، تم تو صرف زبان اور اپنی مثال ہی سے بتا سکتے ہو کہ یہ سیدھا راستہ ہے اور وہ راستہ غلط ہے جس پر یہ لوگ چل رہے ہیں ، مگر جس نے اپنی آنکھیں بند کرلی ہوں اور جو دیکھنا ہی نہ چاہتا ہو اس کی رہنمائی کیسے کرسکتے ہو ۔