Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

801یہ ان کافروں کی پروا نہ کرنے اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھنے کی دوسری وجہ ہے کہ یہ لوگ مردہ ہیں جو کسی کی بات سن کر فائدہ نہیں اٹھا سکتے یا بہرے ہیں جو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں اور نہ راہ یاب ہونے والے ہیں۔ گویا کافروں کو مردوں سے تشبیہ دی جن میں حس ہوتی ہے نہ عقل اور بہروں سے، جو وعظ و نصیحت سنتے ہیں نہ دعوت الی اللہ قبول کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٤] اس آیت میں موتیٰ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دل مردہ ہوچکے ہیں۔ یعنی آپ کی نصیحت اور ہدایت نہ تو ان لوگوں کو کچھ فائدہ دے سکتی ہے جن کے دل مرچکے ہیں اور نہ ان کو جن کے دلوں کے کان بہرہ ہوچکے ہیں۔ بالخصوص اس صورت میں وہ بہرے الٹے پاؤں بھاگے جارہے ہوں۔ بہرے کا بھی چہرہ اگر بات کرنے والی کی طرف ہو تو وہ متکلم کے اشاروں سے یا بات کرنے کے انداز سے ہی اس کا کچھ نہ کچھ مفہوم سمجھ سکتا ہے۔ لیکن اگر اس کا رخ ہی بات کرنے والے سے الٹی طرف ہو، مزید براں وہ بھاگے جارہا ہو۔ تو اس سے کیا توقع ہوسکتی ہے کہ وہ متکلم کی بات کو کچھ نہ کچھ سمجھ سکے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَاتُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ ۔۔ : یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے کہ آپ ان لوگوں کے قرآن پر ایمان نہ لانے سے دل گرفتہ نہ ہوں، ضد، عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے انھوں نے طے کر رکھا ہے کہ انھوں نے ایمان لانا ہی نہیں۔ یہ کافر لوگ مردوں کی طرح ہیں، جنھیں دعوت دینا اور نصیحت کی کوئی بات سنانا قطعی سود مند نہیں اور یہ ان بہروں کی طرح ہیں جو پیٹھ دے کر بھاگ رہے ہوں۔ اگر وہ سامنے دیکھ رہے ہوتے تو شاید توجہ کے ساتھ کچھ سمجھ جاتے، مگر پیٹھ دے کر بھاگنے کی صورت میں تو ممکن ہی نہیں کہ وہ کوئی بات سن سکیں۔ روحانی موت اور روحانی بہرے پن کو جسمانی موت اور جسمانی بہرے پن کے ساتھ تشبیہ سے ظاہر ہے کہ مردوں کو کوئی بات سنائی نہیں جاسکتی۔ یہ نفی عام ہے، اس سے صرف وہ مواقع مستثنیٰ ہیں جو دلیل (کتاب و سنت) سے ثابت ہوں اور وہ صرف دو ہیں، ان کے علاوہ کسی آیت یا صحیح حدیث سے مردوں کا سننا ثابت نہیں۔ ایک موقع وہ ہے جو انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِيْ قَبْرِہِ وَتُوُلِّيَ وَ ذَھَبَ أَصْحَابُہُ حَتّٰی إِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ ، أَتَاہُ مَلَکَانِ فَأَقْعَدَاہُ فَیَقُوْلَانِ لَہُ مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ ھٰذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ ؟ فَیَقُوْلُ أَشْھَدُ أَنَّہُ عَبْدُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلُہُ ، فَیُقَالُ انْظُرْ إِلٰی مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ أَبْدَلَکَ اللّٰہُ بِہِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّۃِ ، قَال النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَیَرَاھُمَا جَمِیْعًا، وَ أَمَّا الْکَافِرُ أَوِ الْمُنَافِقُ فَیَقُوْلُ لَا أَدْرِيْ ، کُنْتُ أَقُوْلُْ مَا یَقُوْلُ النَّاسُ ، فَیُقَالُ لَا دَرَیْتَ وَلَا تَلَیْتَ ، ثُمَّ یُضْرَبُ بِمِطْرَقَۃٍ مِّنْ حَدِیْدٍ ضَرْبَۃً بَیْنَ أُذُنَیْہِ فَیَصِیْحُ صَیْحَۃً یَسْمَعُھَا مَنْ یَلِیْہِ إِلَّا الثَّقَلَیْنِ ) [ بخاري، الجنائز، باب المیت یسمع ۔۔ : ١٣٣٨ ]” بندہ جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس سے رخ پھیرلیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس چل دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے، تو اس کے پاس دو فرشتے آجاتے ہیں، اسے بٹھا دیتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : ” اس شخص یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں تو کیا کہتا ہے ؟ “ وہ جواب دیتا ہے : ” میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ “ تو اس سے کہا جاتا ہے : ” جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھ، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں تیرے لیے ایک ٹھکانا جنت میں بنادیا ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پھر اس بندۂ مومن کو جنت و جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں۔ اور رہا کافر یا منافق تو وہ (اس سوال کے جواب میں) کہتا ہے : ” مجھے نہیں معلوم، میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا، وہی میں بھی کہتا رہا۔ “ تو اسے کہا جاتا ہے : ” نہ تو نے کچھ سمجھا اور نہ (اچھے لوگوں کی) پیروی کی۔ “ اس کے بعد ہتھوڑے کے ساتھ اس کے دونوں کانوں کے درمیان (یعنی سر پر) بڑی زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقے سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق اس چیخ چیخ پکار کو سنتی ہے۔ “- دوسرا موقع ابو طلحہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن قریش کے سرداروں میں سے چوبیس آدمیوں کے متعلق حکم دیا تو وہ بدر کے کنوؤں میں سے ایک خبیث گندگی والے کنویں میں پھینک دیے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی قوم پر فتح پاتے تو میدان میں تین دن ٹھہرتے تھے۔ جب بدر میں تیسرا دن ہوا تو آپ نے اپنی اونٹنی کے متعلق حکم دیا تو اس پر اس کا پالان کسا گیا، پھر آپ چل پڑے اور آپ کے پیچھے آپ کے اصحاب بھی چل پڑے اور کہنے لگے، ہمارا خیال یہی ہے کہ آپ اپنے کسی کام کے لیے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ آپ اس کنویں کے کنارے پر کھڑے ہوگئے اور انھیں ان کے اور ان کے باپوں کے نام لے لے کر پکارنے لگے : ( یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ ، وَ یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ أَیَسُرُّکُمْ أَنَّکُمْ أَطَعْتُمُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ ؟ فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا، فَھَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ؟ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا تُکَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لَا أَرْوَاحَ لَھَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُوْلُ مِنْھُمْ ) [ بخاري، المغازي، باب قتل أبي جھل : ٣٩٧٦ ] ” اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں کیا تمہیں پسند ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی، کیونکہ ہم نے تو جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا اسے حق پایا، تو کیا تم نے بھی جو تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا، حق پایا ؟ “ تو عمر (رض) نے کہا : ” یا رسول اللہ آپ ان جسموں سے کیا بات کرتے ہیں جن میں روحیں نہیں ہیں۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے تم ان سے زیادہ وہ باتیں سننے والے نہیں جو میں انھیں کہہ رہا ہوں۔ “- 3 ہمارا ایمان ہے کہ ان دونوں موقعوں پر مردے وہ بات سنتے ہیں جس کا حدیث میں ذکر ہے، ان کے سوا مردے زندوں کی کوئی بات نہیں سنتے، مگر ان دو احادیث کو بنیاد بنا کر بعض لوگوں نے عقیدہ بنا لیا کہ تمام مردے سنتے ہیں اور ہر بات ہر وقت سنتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ مردہ پرستی اور غیر اللہ کو پکارنے اور ان سے فریاد کرنے کی بنیاد یہی عقیدہ ہے کہ مردے سنتے ہیں، ورنہ اگر یقین ہو کہ وہ سنتے ہی نہیں تو پاگل ہی ہوگا جو انھیں پکارے گا۔ قرآن مجید میں مردوں کے نہ سننے کا مضمون متعدد جگہ بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورة روم (٥٢) اور فاطر (١٩ تا ٢٢) بلکہ مردوں کو خبر ہی نہیں کہ کوئی انھیں پکار رہا ہے۔ دیکھیے سورة نحل (٢٠، ٢١) ، فاطر (١٣، ١٤) اور احقاف (٤ تا ٦) اور قیامت سے پہلے فوت شدہ لوگ واپس بھی نہیں آتے۔ دیکھیے سورة یٰس (٣١) اور انبیاء (٩٥) عزیر (علیہ السلام) اور جن حضرات کا دنیا میں زندہ ہونا قرآن یا صحیح حدیث سے ثابت ہے، وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔- 3 قبر پرستوں کے برعکس کچھ لوگوں نے ان دو مواقع پر بھی مردوں کے سننے سے انکار کردیا، پھر ان میں سے بعض نے تو صاف ان حدیثوں کا انکار کردیا، حالانکہ یہ صحیح بخاری کی احادیث ہیں جن کی صحت پر امت کا اتفاق ہے اور بعض نے ان کی ایسی لغو تاویلیں کیں جو انکار سے بھی بدتر ہیں، حالانکہ حق افراط و تفریط کے درمیان ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے ہیں (خصوصاً ) جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چل دیں اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے (بچا کر) رستہ دکھانے والے ہیں، آپ تو صرف ان ہی کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں کا یقین رکھتے ہیں (اور) پھر وہ مانتے (بھی) ہیں۔- معارف ومسائل - ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انسانوں کے ساتھ جو شفقت و ہمدردی کا جذبہ رکھتے تھے اس کا تقاضا تھا کہ سب کو اللہ کا پیغام سنا کر جہنم سے بچا لیں جو لوگ اس پیغام کو قبول نہ کرتے تو آپ کو سخت صدمہ پہنچتا تھا اور آپ ایسے غمگین ہوتے تھے جیسے کسی کی اولاد اس کے کہنے کے خلاف آگ میں جا رہی ہو۔ اس لئے قرآن نے جا بجا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے مختلف عنوانات اختیار فرمائے ہیں۔ سابقہ آیات میں وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِيْ ضَيْقٍ ، اسی سلسلہ کا ایک عنوان تھا۔ مذکور الصدر آیت میں بھی تسلی کا مضمون دوسرے انداز سے بیان فرمایا ہے کہ آپ کا کام پیغام حق کو پہنچا دینے کا وہ آپ پورا کرچکے ہیں جن لوگوں نے اس کو قبول نہیں کیا اس میں آپ کا کوئی قصور اور کوتاہی نہیں جس پر آپ غم کریں بلکہ وہ اپنی صلاحیت قبول ہی کو کھو چکے ہیں۔ ان کے گم کردہ صلاحیت ہونے کو اس آیت میں قرآن کریم نے تین مثالوں میں ثابت کیا ہے۔ اول یہ کہ یہ لوگ قبول حق کے معاملہ میں بالکل مردہ لاش کی طرح ہیں جو کسی کی بات سن کر کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ دوسرے یہ کہ ان کی مثال اس بہرے آدمی کی ہے جو بہرا ہونے کے ساتھ بات سننا بھی نہیں چاہتا بلکہ جب کوئی سنانا چاہے تو اس سے پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے۔ تیسرے یہ کہ ان کی مثال اندھوں کی سی ہے کہ کوئی ان کو راستہ دکھانا بھی چاہے تو وہ نہیں دیکھ سکتے ان تین مثالوں کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں فرمایا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِـــعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ۝ ٨٠- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل «3» ، وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ- دُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ، أي :- قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ- «1» ( وأَدْبَار النّجوم) «2» ، فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٠) اور آپ حق و ہدایت کی آواز ایسے لوگوں کو جن کے دل مردہ ہوچکے ہیں یا یہ کہ وہ مردوں کی طرح ہیں اور اسی طرح بہروں کو نہیں سنا سکتے خصوصا جب کہ وہ راہ حق و ہدایت سے منہ پھیر کر چل دیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ (اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی) ” - یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان مخاطبین میں سے اکثر لوگوں کے دل مردہ ہیں ‘ ان کی روحیں ان کے دلوں کے اندر دفن ہوچکی ہیں۔ یہ لوگ صرف حیوانی طور پر زندہ ہیں جبکہ روحانی طور پر ان میں زندگی کی کوئی رمق موجود نہیں ہے۔ چناچہ ابو جہل اور ابولہب کو آپ زندہ مت سمجھیں ‘ یہ تو محض چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔ اس کیفیت میں وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان باتوں کو کیسے سن سکتے ہیں میر درد نے اپنے اس شعر میں انسان کی اسی روحانی زندگی کا ذکر کیا ہے : ؂- مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے - کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے - (وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ ) ” - یعنی ایک بہرا شخص آپ کے رو برو ہو ‘ آپ کی طرف متوجہ ہو تو پھر بھی امکان ہے کہ آپ اشارے کنائے سے اپنی کوئی بات اسے سمجھانے میں کامیاب ہوجائیں ‘ لیکن جب وہ پلٹ کر دوسری طرف چل پڑے تو اسے کوئی بات سمجھانا یا سنانا ممکن نہیں رہتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 97 یعنی ایسے لوگوں کو جن کے ضمیر مرچکے ہیں اور جن میں ضد اور ہٹ دھرمی اور رسم پرستی نے حق و باطل کا فرق سمجھنے کی کوئی صلاحیت باقی نہیں چھوڑی ہے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 98 یعنی جو تمہاری بات کے لیے صرف اپنے کان بند کرلینے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس جگہ سے کترا کر نکل جاتے ہیں ، جہاں انہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں تمہاری بات ان کے کان میں نہ پڑ جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani