Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

881یہ قیامت والے دن ہوگا کہ پہاڑ اپنی جگہوں پر نہیں رہیں گے بلکہ بادلوں کی طرح چلیں گے اور اڑیں گے۔ 882یعنی یہ اللہ کی عظیم قدرت سے ہوگا جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا ہے۔ لیکن وہ ان مضبوط چیزوں کو بھی روئی کے گالوں کی طرح کردینے پر قادر ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٥] یعنی جب قیامت قائم ہوگی تو اس کا آغاز اس طرح ہوگا کہ نظام کائنات میں زبردست خلل واقع ہوجائے گا۔ زمین مسلسل ہچکولے کھانے لگے لگی۔ اور پہاڑوں جیسی ٹھوس، سخت اور جامد چیز اپنی جڑیں چھوڑ کر ریزہ ریزہ ہوجائے گی اور ان ریزوں کی دھول فضا میں اس طرح اڑتی پھرے گی جیسے دھنکی ہوئی روئی) القارعہ : ٥) اور اس مقام پر یہ تشبیہ دی گئی ہے کہ جیسے بادل فضا میں اڑتے پھرتے ہیں ویسے ہی پہاڑ بھی اڑتے پھریں گے۔- [٩٦] حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی جس چیز کو بھی بنایا وہ اس اس کی کاریگری کا بےمثال نمونہ ہے اور اتقل الامر کے معنی کسی چیز کو فنی مہارت کے ساتھ مضبوط بنانا ہے۔ جو مدت بعد تک کام کرنے پر بھی خراب نہ ہوں۔ مثلاً یہ سورج، یہ چاند، یہ ستارے، یہ زمین اور یہ آسمان، یہ سب اللہ نے جس دن سے پیدا کی ہیں اور جس مقصد کے لئے پیدا کی ہیں۔ وہ مقصد نہایت عمدگی سے پورا کر رہی ہیں۔ کبھی نہ ان کی چال میں فرق آتا ہے۔ نہ لمحہ بھر کی تقدیم و تاخیر ہوتی ہے اور نہ وہ خراب ہوتی ہیں اور نہ اپنا کام چھوڑ دیتی ہیں۔ اور یہ چیزیں تاقیام قیامت اسی حال پر برقرار رہیں گی اور ان میں خلل یا بگاڑ صرف اس وقت پیدا ہوگا جب اللہ کو منظور ہوگا اور قیامت قائم ہوگی۔- [٩٧] تمہارے افعال و اعمال سے پوری طرح باخبر ہے اور تمہاری نیتوں سے بھی واقف ہے۔ پھر تمہارے ان اعمال و افعال اوراقوال کا پورا پورا ریکارڈ بھی اس کے پاس محفوظ ہے اور یہی وہ دن ہوگا جب تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً ۔۔ : یعنی اس وقت صرف انسان ہی نہیں بلکہ وہ پہاڑ جنھیں دیکھ کر تم خیال کرتے ہو کہ اپنی جگہ نہایت مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں، انھیں کوئی چیز ہلا نہیں سکتی، وہ قیامت کے دن بادل کی طرح فضا میں اڑتے پھریں گے۔ قیامت کے دن پہاڑوں کے مختلف احوال مذکور ہیں، سب کا حاصل یہ ہے کہ ان کو اڑا کر زمین صاف کردی جائے گی۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (١٠٥) ، معارج (٩) ، حاقہ (١٤) ، مزمل (١٤) ، قارعہ (٥) ، فرقان (٢٣) اور واقعہ (٦) اور ان پر گزرنے والی کیفیات کی ترتیب کے لیے سورة نبا کی آیت (٢٠) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔- صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۔۔ : اتقان کا معنی کسی چیز کو پوری مہارت کے ساتھ مضبوط بنانا ہے، یعنی پہاڑوں کو بادل کی طرح اڑا دینا اس اللہ کی کاری گری ہے جس نے صرف پہاڑ ہی نہیں، بلکہ ہر چیز کو مضبوط اور محکم بنایا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے اور اس بات کی بھی کہ وہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے، حتیٰ کہ لوگ جو کچھ بھی کرتے ہیں، اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ کیونکہ اتقان قدرت کے بغیر ممکن نہیں اور قدرت علم کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے اس علم و قدرت ہی سے قیامت قائم ہوگی اور اسی سے لوگوں کو ان کے افعال کی جزا یا سزا ملے گی، جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِىَ تَمُــرُّ مَرَّ السَّحَابِ ، مراد یہ ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ کر اس طرح چلیں گے جیسے بادل کہ دیکھنے والا اس کو اپنی جگہ جما ہوا سمجھتا ہے حالانکہ وہ تیزی سے چل رہے ہیں۔ تمام بڑے اجسام جن کی ابتداء و انتہاء انسان کی نظر کے سامنے نہیں ہوتی جب وہ کسی ایک سمت کی طرف حرکت کریں تو خواہ حرکت کتنی بھی تیز ہو دیکھنے والوں کو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنی جگہ جمے ہوئے ہیں جس کا مشاہدہ سب کو گہرے بادل اور دور تک چھائی ہوئی گھٹا سے ہوتا ہے کہ یہ بادل اپنی جگہ جمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں حالانکہ وہ چل رہے ہوتے ہیں مگر ان کی حرکت دیکھنے والوں کو اس وقت محسوس ہوتی ہے جب وہ اتنی دور چلے جائیں کہ افق کا کنارہ اس سے کھل جائے۔- خلاصہ یہ ہے کہ پہاڑوں کا جامد ہونا دیکھنے والے کی نظر کے اعتبار سے ہے اور اس کا حرکت کرنا حقیقت کے اعتبار سے عامہ مفسرین نے آیت کا مطلب یہی قرار دیا ہے اور خلاصہ تفسیر مذکور میں یہ اختیار کیا گیا ہے کہ یہ دو حال دو وقتوں کے ہیں۔ جامد ہونا اس وقت کے اعتبار سے جس کو دیکھ کر ہر دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ کبھی اپنی جگہ سے نہ ہلیں گے۔ اور تَمُــرُّ مَرَّ السَّحَاب قیامت کے دن کے اعتبار سے ہے۔ بعض علماء نے فرمایا کہ قرآن کریم میں قیامت کے روز پہاڑوں کے حالات مختلف بیان ہوئے ہیں۔ پہلا حال اندکاک اور زلزلہ ہے جو پوری زمین کے پہاڑوں کو محیط ہوگا۔ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا اور اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا دوسرا حال اس کی بڑی بڑی چٹانوں کا دھنکی ہوئی روئی کی طرح ہوجانا ہے وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ اور یہ اس وقت ہوگا جب اوپر سے آسمان بھی پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا زمین سے پہاڑ روئی کی طرح اوپر جائیں گے اوپر سے آسمان نیچے آئیں گے اور دونوں مل جائیں گے يَوْمَ تَكُوْنُ السَّمَاۗءُ كَالْمُهْلِ وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ تیسرا حال یہ ہے کہ وہ دھنکی ہوئی روئی کے ایک جسم متصل کے بجائے ریزہ ریزہ اور ذرہ ذرہ ہوجائے۔ وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا، فَكَانَتْ هَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا، چوتھا حال یہ ہے کہ وہ ریزہ ریزہ ہو کر پھیل جائے فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا پانچواں حال یہ ہے کہ یہ پہاڑ جو ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح زمین پر پھیل گئے ہیں ان کو ہوائیں اوپر اٹھا کرلے جائیں اور چونکہ یہ غبار ساری زمین پر چھایا ہوگا تو اگرچہ یہ بادل کی طرح تیز حرکت کرتا ہوگا مگر دیکھنے والا اس کو اپنی جگہ جما ہوا دیکھے گا تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِىَ تَمُــرُّ مَرَّ السَّحَابِ ان میں سے بعض حالات صور کے نفخہ اولی کے وقت ہوں گے اور بعض نفخہ ثانیہ کے بعد اس وقت جبکہ زمین کو ایک سطح مستوی بنادیا جائے کہ نہ اس میں کوئی غار رہے گا نہ پہاڑ نہ کوئی عمارت نہ درخت فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا، فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا، لَّا تَرٰى فِيْهَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا (از قرطبی و روح المعانی) واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بحقیقتہ الحال - صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ، صنع بمعنے صنعت ہے اور اتقن، اتقان سے مشتق ہے جس کے معنے کسی چیز کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے آتے ہیں۔ بظاہر یہ جملہ تمام مضامین سابقہ کے ساتھ متعلق ہے جن میں حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور صنعت عجیبیہ کا ذکر ہے جس میں لیل و نہار کا انقلاب بھی ہے اور نفخ صور سے لے کر حشر و نشر تک کے سب حالات بھی اور مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں کچھ حیرت اور تعجب کی نہیں کیونکہ ان کا صانع کوئی محدود علم وقدرت والا انسان یا فرشتہ نہیں بلکہ رب العالمین ہے۔ اور اگر اس کا تعلق قریبی جملے تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً الآیتہ سے کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ پہاڑوں کا یہ حال کہ دیکھنے والے ان کو جما ہوا دیکھیں اور وہ واقع میں چل رہے اور حرکت کر رہے ہیں کچھ مستبعد اور جائے تعجب نہیں کیونکہ یہ صنعت اللہ رب العزت کی ہے۔ جس کی قدرت میں سب کچھ ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً وَّہِىَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ۝ ٠ۭ صُنْعَ اللہِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ۝ ٨٨- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - جامدۃ۔ اسم فاعل واحد مؤنث جمود سے جن کے معنی جمنے اور ٹھرنے کے ہیں۔ جمی ہوئی۔ ٹھہری ہوئی۔- مرر - المُرُورُ : المضيّ والاجتیاز بالشیء . قال تعالی: وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ- [ المطففین 30] - ( م ر ر ) المرور - کے معنی کسی چیز کے پاس سے گزر جانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین 30] اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو باہم آنکھوں سے اشارہ کرتے - سحب - أصل السَّحْبِ : الجرّ کسحب الذّيل، والإنسان علی الوجه، ومنه : السَّحَابُ ، إمّا لجرّ الرّيح له، أو لجرّه الماء، أو لانجراره في مرّه، قال تعالی: يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] ، وقال تعالی: يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر 71] ، وقیل : فلان يَتَسَحَّبُ علی فلان، کقولک : ينجرّ ، وذلک إذا تجرّأ عليه، والسَّحَابُ : الغیم فيها ماء أو لم يكن، ولهذا يقال : سحاب جهام «4» ، قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور 43] ، حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف 57] ، وقال : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] ، وقد يذكر لفظه ويراد به الظّلّ والظّلمة، علی طریق التّشبيه، قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] .- ( س ح ب ) السحب اس کے اصل معنی کھینچنے کے ہیں ۔ چناچہ دامن زمین پر گھسیٹ کر چلنے یا کسی انسان کو منہ کے بل گھسیٹنے پر سحب کا لفظ بولا جاتا ہے اسی سے بادل کو سحاب کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ ہوا اسے کھینچ کرلے چلتی ہے اور یا اس بنا پر کہ وہ چلنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھسٹتا ہوا چل رہا ہے قرآن میں ہے :۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] جس دن ان کو انکے منہ کے بل ( دوزخ کی ) آگ میں گھسیٹا جائیگا ۔ اور فرمایا : يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر 71] انہیں دوزخ میں کھینچا جائے گا ۔ محاورہ ہے :۔ فلان یتسحب علی فلان : کہ فلاں اس پر جرات کرتا ہے ۔ جیسا کہ یتجرء علیہ کہا جاتا ہے ۔ السحاب ۔ ابر کو کہتے ہیں خواہ وہ پانی سے پر ہو یا خالی اس لئے خالی بادل کو سحاب جھام کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور 43] کیا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ بادل کو چلاتا ہے ۔ حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف 57] حتی کہ جب وہ بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں ۔ وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] اور وہ بھاری بادل اٹھاتا ہے ۔ اور کبھی لفظ سحاب بول کر بطور تشبیہ کے اس سے سایہ اور تاریکی مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] یا ( ان کے اعمال کی مثال ) بڑے گہرے دریا کے اندورنی اندھیروں کی سی ہے کہ دریا کو لہر نے ڈھانپ رکھا ہے اور ( لہر بھی ایک نہیں بلکہ ) لہر کے اوپر لہر ان کے اوپر بادل ( کی تاریکی غرض اندھیرے ہیں ایک کے اوپر ایک ۔- صنع - الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] ، - ( ص ن ع ) الصنع - ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔- اتقن ماضی واحد مذکر غائب اتقان ( افعال) مصدر۔ تقن مادہ اس نے درست کیا۔ اس نے مضبوط کیا۔- خبیر - والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم،- ( خ ب ر ) الخبر - کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٨) اور جن پہاڑوں کے متعلق تم یہ خیال کر رہے ہو کہ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کریں گے، اس وقت فضاء میں بادلوں کی طرح اڑے اڑے پھریں گے کہ اللہ کا کام ہوگا جس نے ہر چیز کو اپنے انداز پر مضبوط بنا رکھا ہے جو کچھ تم نیکی و برائی کرتے ہو اس کو سب خبر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٨ (وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً وَّہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِط ) ” - پہاڑ اس دن بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔ ہوائی سفر کے دوران ہم میں سے اکثرنے بادلوں کی ماہیت کا قریب سے مشاہدہ کیا ہوگا۔ یہ بظاہر دیکھنے میں ٹھوس نظر آتے ہیں لیکن جہاز بغیر کسی رکاوٹ کے انہیں چیرتے ہوئے آگے گزر جاتا ہے۔ قیامت کے دن پہاڑوں کی ٹھوس حیثیت کو ختم کردیا جائے گا اور وہ ذرّات کے غبار میں تبدیل ہو کر بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔ - (صُنْعَ اللّٰہِ الَّذِیْٓ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ ط) ” - یہ اللہ کیّ صناعی کا کرشمہ ہے کہ اس نے اس وقت پہاڑوں کو ایسی محکم اور ٹھوس شکل دے رکھی ہے ‘ لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے انہیں دھنکی ہوئی روئی کے گالوں اور بادلوں کی طرح بےوزن اور نرم کردے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النمل حاشیہ نمبر : 107 یعنی ایسے خدا سے تم یہ توقع نہ رکھو کہ اپنی دنیا میں تم کو عقل و تمیز اور تصرف کے اختیارات دے کر وہ تمہارے اعمال و افعال سے بے خبر رہے گا ، اور یہ نہ دیکھے گا کہ اس کی زمین میں تم ان اختیارات کو کیسے استعمال کرتے رہے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani