9 3 1کہ جو کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک دلیل قائم نہیں کردیتا۔ 9 3 2ہم انھیں آفاق وانفس میں اپنی نشانیاں دکھلائیں گے تاکہ ان پر حق واضح ہوجائے اگر زندگی میں یہ نشانیاں دیکھ کر ایمان نہیں لاتے تو موت کے وقت تو ان نشانیوں کو دیکھ کر ضرور پہچان لیتے ہیں۔ لیکن اس وقت کی معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی، اس لئے کہ اس وقت ایمان مقبول نہیں۔ 9 3 2بلکہ ہر چیز کو وہ دیکھ رہا ہے۔ اس میں کافروں کے لئے ترہیب شدید اور تہدید عظیم ہے۔
[١٠٣] یعنی ایسی نشانیاں جن سے تمہیں بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ جو باتیں میں کہتا تھا وہی حق اور درست تھیں۔ یعنی تمہیں اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ذلیل و خوار کرے گا اور مسلمانوں کا ہر آڑے وقت میں ساتھ دے گا اور ان کی مدد فرمائے گا۔ اور تمہاری سر توڑ معاندانہ کوششوں کے باوجود اسلام سربلند ہو کے رہے گا۔ اس وقت تم ٹھیک طرح پہچان لو گے کہ تم سے کئے گئے وعدے بھی درست تھے، یہ قرآن بھی درست اور حق تھا اور میں بھی فی الواقع اللہ کا پیغمبر ہوں۔ اور یہ سب کچھ مانے بغیر تمہارے لئے دوسرا کوئی چارہ کار نہ رہے گا۔ چناچہ فتح مکہ اور پھر اس کے بعد اعلان برات پر سب کفار اور مشرکین پر یہ حقائق منکشف ہوگئے اور ایمان لانے کے لئے ان کے لئے کوئی دوسرا راستہ نہ رہا۔
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ : اور کہہ دے کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام صفات کمال کا جامع ہے۔ کسی کے ہدایت قبول کرنے یا نہ کرنے سے اس کی حمد میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اگر تمام جنّ و انس اور پہلے اور پچھلے سب سے متقی شخص کے دل والے ہوجائیں تو اس سے اس کی بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور اگر تمام جنّ و انس اور اول و آخر سب سے فاجر شخص کے دل والے ہوجائیں تو اس سے اس کی بادشاہت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ - سَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَا : عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا، تو تم انھیں پہچان لو گے کہ ہاں یہ وہی نشانیاں ہیں جن کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول نے کیا تھا، مگر اس وقت کا پہچاننا تمہیں کوئی فائدہ نہ دے سکے گا۔ یہ خطاب کفار مکہ سے ہے، اسلامی فتوحات اور تباہ شدہ قوموں کے آثار بھی ان میں شامل ہیں اور قرب قیامت کی نشانیاں بھی اس کے تحت آجاتی ہیں۔ دیکھیے سورة حٰم السجدہ (٥٣) ۔- وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ : آیت کے اس جملے کے تحت ابن کثیر نے ابن ابی حاتم سے جید سند کے ساتھ عمر بن عبدالعزیز کا قول ذکر کیا ہے، انھوں نے فرمایا : ( فَلَوْ کَان اللّٰہُ مُغْفِلًا شَیْءًا لَأَغْفَلَ مَا تَعَفِّي الرِّیَاحُ مِنْ أَثَرِ قَدَمَيِ ابْنِ آدَمَ ) [ ابن کثیر : ٦؍ ٢١٩ ] ” اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز سے غفلت کرنے والا ہوتا، تو ابن آدم کے قدموں کے نشانوں سے ضرور غفلت برتتا، جنھیں ہوائیں مٹا دیتی ہیں (مگر اللہ تعالیٰ ان سے بھی غافل نہیں) ۔ “ مراد یہ آیت ہے : (اِنَّا نَحْنُ نُـحْيِ الْمَوْتٰى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْ ) [ یٰس : ١٢ ] ” بیشک ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم لکھ رہے ہیں جو عمل انھوں نے آگے بھیجے اور ان کے چھوڑے ہوئے نشان بھی۔ “ اور ابن کثیر نے امام احمد (رح) کے متعلق نقل فرمایا کہ وہ یہ دو اشعار پڑھا کرتے تھے، جو یا تو ان کے ہیں یا کسی اور کے - إِذَا مَا خَلَوْتَ الدَّھْرَ یَوْمًا فَلاَ تَقُلْ- خَلَوْتُ وَلٰکِنْ قُلْ عَلَيَّ رَقِیْبُ- وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ یَغْفُلُ سَاعَۃً- وَ لَا أَنَّ مَا یَخْفٰی عَلَیْہِ یَغِیْبُ- ” یعنی جب تو کسی بھی وقت اکیلا ہو تو یہ نہ کہنا کہ میں اکیلا ہوں، بلکہ کہنا کہ مجھ پر ایک زبردست نگران ہے اور نہ کبھی گمان کرنا کہ اللہ تعالیٰ ایک لمحے کے لیے بھی غافل ہے اور نہ یہ کہ کوئی پوشیدہ چیز اس کے علم سے باہر ہے۔ “
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلہِ سَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِہٖ فَتَعْرِفُوْنَہَا ٠ ۭ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ٩٣ ۧ - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- عرف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، - قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- [يوسف 58] - ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛- فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔- غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
(٩٣) چناچہ ارشاد ہوا کہ آپ ان سے فرما دیجیے سب خوبیاں اور وحدانیت خاص اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے وہ عنقریب بدر کے دن تم پر عذاب نازل کرکے اپنی وحدانیت اور قدرت کی نشانیاں تمہیں دکھادے گا سو تم اس وقت پہچان لو گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ تم سے فرماتے تھے وہ حق اور سچ تھا اور یہ جو کفر وشرک کر رہے ہیں آپ کا پروردگار ان سے غافل نہیں کفار کو اللہ کی جانب سے کفر وشرک پر وعید ہے یا یہ کہ جو تم لوگ مکر و خیانت اور فساد کے کام کر رہے ہو اللہ تعالیٰ ان کی سزا دینے سے چوک فرمانے والا نہیں۔
39: اﷲ تعالیٰ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حقانیت اور اپنی قدرت کی بہت سی نشانیاں دُنیا میں دکھاتا رہا ہے، مثلاً بہت سی پیشگی خبریں جو آپ نے وحی کی بیناد پر دی تھیں، وہ لوگوں نے کھلی آنکھوں سے پوری ہوتی ہوئی دیکھیں، جیسا کہ سورۂ روم کے شروع میں اُس کی ایک مثال آنے والی ہے۔ یہاں اس قسم کی نشانیاں بھی مراد ہوسکتی ہیں، اور قیامت بھی مراد ہوسکتی ہے کہ اُس وقت قیامت کے منکر بھی اسے پہچان لیں گے، لیکن اُس وقت کا پہچاننا فائدہ مند نہیں ہوگا، کیونکہ ایمان لانے کا وقت گذر چکا ہوگا۔