1 2 1یعنی ہم نے اپنی قدرت اور تکوینی حکم کے ذریعے سے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی ماں کے علاوہ کسی اور انا کا دودھ پینے سے منع کردیا، چناچہ بسیار کوشش کے باوجود کوئی انا انھیں دودھ پلانے اور چپ کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ 1 2 2یہ سب منظر ان کی ہمشیرہ خاموشی کے ساتھ دیکھ رہی تھیں، بالآخر بول پڑیں کہ میں تمہیں ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچہ کی تمہارے لئے پرورش کرے۔ 1 2 3چناچہ انہوں نے ہمشیرہ موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ جا اس عورت کو لے آ چناچہ وہ دوڑی دوڑی گئی اور اپنی ماں کو، جو موسیٰ (علیہ السلام) کی بھی ماں تھی، ساتھ لے آئی۔
[١٨] جب فرعون اور اس کی بیوی نے یہ طے کرلیا کہ وہ خود اس بچہ کی پرورش کریں گے۔ تو اس کے لئے دودھ پلانے والی انا کی تلاش ہونے لگی۔ مگر جو بھی انا یا دایہ لائی جاتی۔ حضرت موسیٰ کو اس کا دودھ پینے کی کچھ رغبت نہ ہوتی۔ یہ بھی دراصل مشیت الٰہی کا ایک کرشمہ تھا کہ کئی دنوں سے بھوکا بچہ کسی بھی دایہ کا دودھ پینے سے انکار کردیتا تھا۔ فرعون کے گھر والوں کے سخت تشویش لاحق ہوئی کہ اس کی تربیت کا معاملہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔ وہ لوگ اس تلاش و تجسّس میں تھے کہ موسیٰ کی بہن نے مشورہ کے طور پر ان سے کہا کہ میں تم کو ایک گھرانے کا پتا بتلائے دیتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس بچہ کو پال دیں گے۔ شریف گھرانہ ہے۔ غور و فکر سے اس بچے کی تربیت بھی کریں گے۔ چناچہ لڑکی کے مشورہ کے مطابق ام موسیٰ کو طلب کیا گیا جونہی ام موسیٰ نے بچہ اپنی چھاتی سے لگایا تو بچہ نے دودھ پینا شروع کردیا۔ اس طرح آل فرعون کی ایک بہت بڑی پریشانی دور ہوگئی۔
وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ :” الْمَرَاضِعَ “ ” مُرْضِعٌ“ کی جمع بھی ہوسکتی ہے، یعنی دودھ پلانے والیاں اور ” مَرْضَعٌ“ کی بھی جو ظرف مکان ہو تو مراد دودھ پلانے کی جگہ ہوگی، یعنی دودھ کی چھاتیاں اور اگر مصدر میمی ہو تو مراد تمام دودھ ہوں گے، یعنی ہم نے اپنی تقدیر میں طے شدہ حکم کے ذریعے سے موسیٰ (علیہ السلام) پر تمام دودھ پہلے ہی حرام کردیے تھے، یعنی پینے سے منع کردیا تھا۔ فرعون کی بیوی کو موسیٰ (علیہ السلام) سے بےپناہ محبت ہوگئی تھی اور وہ ہر قیمت پر ان کے لیے دودھ کا انتظام کرنا چاہتی تھی، مگر جو دایہ بھی لائی گئی، موسیٰ نے اس کا دودھ پینے سے انکار کردیا۔ فرعون کی بیوی سخت فکر مند تھی کہ دودھ نہ پینے کی وجہ سے اتنا پیارا بچہ کہیں فوت نہ ہوجائے۔- فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰٓي اَهْلِ بَيْتٍ يَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن اجنبی بن کر یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو دودھ پلانے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو اس نے موقع پا کر کہا، کیا میں تمہیں ایک ایسے گھر والے بتاؤں جو تمہارے لیے اس کی کفالت کریں گے اور وہ اس کے خیر خواہ ہوں گے۔ یہاں درمیان کی بات چھوڑ دی گئی ہے، کیونکہ وہ خود بخود سمجھ میں آرہی ہے کہ فرعون کے گھر والوں نے اس سے پوچھا کہ وہ گھر والے کون ہیں ؟ اس نے کہا، میری ماں۔ انھوں نے کہا، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بچہ تمہارا ہے اور تم اس کے متعلق جانتی ہو۔ اس نے کہا، بلکہ ہم بادشاہ کے خیرخواہ اور مخلص محبت کرنے والے ہیں، اس لیے اس بچے کی خیر خواہی اور خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔ انھوں نے کہا، تمہاری اماں کے ہاں دودھ کہاں سے آیا ؟ اس نے کہا، میرا بھائی ہارون پچھلے سال پیدا ہوا ہے اور دودھ پی رہا ہے۔ غرض انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو بلوایا، کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ سلطنت کی ملکہ ہر حال میں اس کے لیے دودھ کا انتظام کرنا چاہتی تھی، جوں ہی ماں نے بچے کے منہ سے اپنی چھاتی لگائی، بچہ خوش ہو کر دودھ پینے لگا۔
وَحَرَّمْنَا عَلَيْہِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ ہَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰٓي اَہْلِ بَيْتٍ يَّكْفُلُوْنَہٗ لَكُمْ وَہُمْ لَہٗ نٰصِحُوْنَ ١٢- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك :- وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً- [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» «1» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن،- ( ح ر م ) الحرام - وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔- رضع - يقال : رَضَعَ المولود يَرْضِعُ «1» ، ورَضِعَ يَرْضَعُ رَضَاعاً ورَضَاعَةً ، وعنه استعیر : لئيم رَاضِعٌ: لمن تناهى لؤمه، وإن کان في الأصل لمن يرضع غنمه ليلا، لئلّا يسمع صوت شخبه «2» ، فلمّا تعورف في ذلک قيل : رَضُعَ فلان، نحو : لؤم، وسمّي الثّنيّتان من الأسنان الرَّاضِعَتَيْنِ ، لاستعانة الصّبيّ بهما في الرّضع، قال تعالی:- وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ [ البقرة 233] ، فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَ [ الطلاق 6] ، ويقال : فلان أخو فلان من الرّضاعة، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «يحرم من الرَّضَاعِ ما يحرم من النّسب» «3» ، وقال تعالی: وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ [ البقرة 233] ، أي : تسومونهنّ إرضاع أولادکم .- ( ر ض ع ) بچے کا دودھ پینا ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر انتہائی کمینے کو لئیم راضع کہا جاتا ہے ۔ درا صل یہ لفظ اس کنجوس شخص پر بولا جاتا ہے جو انتہائی بخل کی وجہ سے رات کے وقت اپنی بکریوں کے پستانوں سے دودھ چوس لے تاکہ کوئی ضرورت مند دودھ دوہنے کی آواز سنکر سوال نہ کرے ۔ پھر اس سے رضع فلان بمعنی لئم استعمال ہونے لگا ہے راضعتان بچے کے اگلے دو دانت جن کے ذریعے وپ مال کی چھاتی سے دودھ چوستا ہے ۔ اور ارضاع ( افعال ) کے معنی دودھ پلانا کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ [ البقرة 233] اور جو شخص پوری مدت تک دودھ پلانا چاہے تو اس کی خاطر مائیں اپنی اولاد کو پورے دو برس دودھ پلائیں ۔ نیز فرمایا : ۔ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَ [ الطلاق 6] اگر وہ ( بچے کو ) تمہارے لئے دودھ پلانا چاہیں تو انہیں ان کی دودھ پلائی دو ۔ عام محاورہ ہے : ۔ فلان اخوہ من الرضاعۃ : ( بضم الراء ) وہ فلاں کا رضاعی بھائی ہے ۔ حدیث میں ہے : یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب ۔ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ بوجہ رضاعت کے بھی حرام ہوجاتے ہیں ۔ الاسترضاع کسی سے دودھ پلوانا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ [ البقرة 233] اگر تم اپنی اولاد کو ( کسی دایہ سے ) دودھ پلوانا چاہو ۔ یعنی انہیں مزدوری دے کر دودھ پلوانے کا ارادہ ہو ۔- دلَ- الدّلالة : ما يتوصّل به إلى معرفة الشیء، کدلالة الألفاظ علی المعنی، ودلالة الإشارات،- والرموز، والکتابة، والعقود في الحساب، وسواء کان ذلک بقصد ممن يجعله دلالة، أو لم يكن بقصد، كمن يرى حركة إنسان فيعلم أنه حيّ ، قال تعالی: ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ- [ سبأ 14] . أصل الدّلالة مصدر کالکتابة والإمارة، والدّالّ : من حصل منه ذلك، والدلیل في المبالغة کعالم، وعلیم، و قادر، وقدیر، ثم يسمّى الدّالّ والدلیل دلالة، کتسمية الشیء بمصدره .- ( د ل ل ) الدلا لۃ - ۔ جس کے ذریعہ کسی چی کی معرفت حاصل ہو جیسے الفاظ کا معانی پر دلالت کرن اور اشارات در ہو ز اور کتابت کا اپنے مفہوم پر دلالت کرنا اور حساب میں عقود کا عدد مخصوص پر دلالت کرنا وغیرہ اور پھر دلالت عام ہے کہ جاہل یعنی واضح کی وضع سے ہوا یا بغیر وضع اور قصد کے ہو مثلا ایک شخص کسی انسان میں حرکت دیکھ کر جھٹ جان لیتا ہے کہ وہ زندہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ 14] تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑز سے ۔ اصل میں دلالۃ کا لفظ کنایہ وامارۃ کی طرح مصدر ہے اور اسی سے دال صیغہ صفت فاعل ہے یعنی وہ جس سے دلالت حاصل ہو اور دلیل صیغہ مبالغہ ہے جیسے ہے کبھی دال و دلیل بمعنی دلالۃ ( مصدر آجاتے ہیں اور یہ تسمیہ الشئ بمصدر کے قبیل سے ہے ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - كفل - الْكَفَالَةُ : الضّمان، تقول : تَكَفَّلَتْ بکذا، وكَفَّلْتُهُ فلانا، وقرئ : وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا - [ آل عمران 37] «3» أي : كفّلها اللہ تعالی، ومن خفّف «4» جعل الفعل لزکريّا، المعنی: تضمّنها . قال تعالی: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] ، والْكَفِيلُ : الحظّ الذي فيه الکفاية، كأنّه تَكَفَّلَ بأمره . نحو قوله تعالی: فَقالَ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] أي : اجعلني کفلا لها، والکِفْلُ : الكفيل، قال : يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] أي : كفيلين من نعمته في الدّنيا والآخرة، وهما المرغوب إلى اللہ تعالیٰ فيهما بقوله : رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201]- ( ک ف ل ) الکفالۃ - ضمانت کو کہتے ہیں اور تکفلت بکذا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں ۔ اور کفلتہ فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا[ آل عمران 37] اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا ۔ بعض نے کفل تخفیف فاء کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس کا فاعل زکریا (علیہ السلام) ہوں گے یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو پانی کفالت میں لے لیا ۔ اکفلھا زیدا اسے زید کی کفالت میں دیدیا ) قرآن میں ہے : ۔ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] یہ بھی میری کفالت مٰن دے دو میرے سپرد کر دو الکفیل اصل میں بقدر ضرورت حصہ کو کہتے ہیں ۔ گویا وہ انسان کی ضرورت کا ضامن ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] اور تم خدا کو اپنا کفیل بنا چکے ہو ۔ اور الکفل کے معنی بھی الکفیل یعنی حصہ کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] وہ تمہیں اپنی رحمت سے اجر کے دو حصے عطا فرمائیگا ۔ یعنی دنیا اور عقبیی دونون جہانوں میں تمہیں اپنے انعامات سے نوزے گا ۔ اور یہی دوقسم کی نعمیتں ہیں جن کے لئے آیت رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201- نصح - النُّصْحُ : تَحَرِّي فِعْلٍ أو قَوْلٍ فيه صلاحُ صاحبِهِ. قال تعالی: لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 79]- ( ن ص ح ) النصح - کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 79] میں نے تم کو خدا کا پیغام سنادیا ۔ اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔
(١٢) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی والدہ کے آنے سے پہلے دودھ پلانے والیوں کہ وہ کسی کا دودھ نہ لیتے تھے یہ موقع دیکھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے فرعونیوں سے کہا کیا میں تمہیں ایسے گھرانے کا پتا بتاؤں جو اس بچے کی اچھی طرح پرورش کریں اور عادت کے موافق دل سے اس کی خیر خواہی کریں۔
آیت ١٢ (وَحَرَّمْنَا عَلَیْہِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ ) ” - یہ سب کچھ اس بچی کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ہوچکا تھا۔ یعنی یکے بعد دیگرے دودھ پلانے والی بہت سی خواتین کو بلایا گیا تھا مگر بچے نے کسی کی چھاتی کو منہ نہیں لگایا تھا۔ سورة طٰہٰ کی آیت ٣٩ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بچپنے کی من موہنی صورت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ ج) کہ میں نے تم پر اپنی محبت کا پرتو ڈال دیا تھا۔ چناچہ وہ سب لوگ آپ ( علیہ السلام) کی صورت کے گرویدہ ہو رہے تھے مگر ساتھ ہی سخت تشویش میں مبتلا بھی تھے کہ آپ ( علیہ السلام) کی خوراک کا کیا انتظام کیا جائے۔ کسی خاتون کا دودھ آپ ( علیہ السلام) قبول ہی نہیں کر رہے تھے اور اس زمانے میں بچے کو دودھ پلانے کا کوئی دوسرا طریقہ تھا ہی نہیں۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 14 یعنی فرعون کی بیوی جس انا کو بھی دودھ پلانے کے لیے بلاتی تھی بچہ اس کی چھاتی کو منہ نہ لگاتا تھا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 15 اس سے معلوم ہوا کہ فرعون کے محل میں بھائی کے پہنچ جانے کے بعد بہن گھر نہیں بیٹھ گئی ، بلکہ وہ اپنی اسی ہوشیاری کے ساتھ محل کے آس پاس چکر لگاتی رہی ، پھر جب اسے پتہ چلا کہ بچہ کسی کا دودھ نہیں پی رہا ہے اور ملکہ عالیہ پریشان ہیں کہ کوئی ایسی انا ملے جو بچے کو پسند آئے تو وہ ذہین لڑکی سیدھی محل میں پہنچ گئی اور جاکر کہا کہ میں ایک اچھی انا کا پتہ بتاتی ہوں جو اس بچے کو بڑی شفقت کے ساتھ پا لے گی ۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قدیم زمانے میں ان ممالک کے بڑے اور خاندانی لوگ بچوں کو اپنے ہاں پالنے کے بجائے عموما اناؤں کے سپرد کردیتے تھے اور وہ اپنے ہاں ان کی پرورش کرتی تھیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بھی یہ ذکر آتا ہے کہ مکہ میں وقتا فوقتا اطراف و نواح کی عورتیں انا گیری کی خدمت کے لیے آتی تھیں اور سرداروں کے بچے دودھ پلانے کے لیے اچھے اچھے معاوضوں پر حاصل کر کے ساتھ لے جاتی تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی حلیمہ سعدیہ کے ہاں صحرا میں پرورش پائی ہے ۔ یہی طریقہ مصر میں بھی تھا ، اسی بنا پر حضرت موسی کی بہن نے یہ نہیں کہا کہ میں ایک اچھی انا لا کر دیتی ہوں ، بلکہ یہ کہا کہ میں ایسے گھر کا پتہ بتاتی ہوں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمہ لیں گے اور اسے خیر خواہی کے ساتھ پالیں گے ۔
4: فرعون کی اہلیہ نے جب بچے کو پالنے کا ارادہ کرلیا تو ان کو دودھ پلانے والی کی تلاش شروع ہوئی، لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کسی بھی عورت کا دودھ منہ میں نہیں لیتے تھے۔ حضرت آسیہ نے اپنی کنیزیں بھیجیں کہ وہ کوئی ایسی عورت تلاش کریں جس کا دودھ یہ قبول کرلیں۔ ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی الدہ بچے کو دریا میں ڈالنے کے بعد بے چین تھیں۔ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن کو دیکھنے کے لیے بھیجا کہ بچہ کا انجام کیا ہوا؟ یہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسی جگہ پہنچ گئیں، جہاں فرعون کی کنیزیں پریشانی کے عالم میں دودھ پلانے والی عورتوں کو تلاش کر رہی تھیں۔ ان کو موقع مل گیا، اور انہوں نے اپنی والدہ کو یہ خدمت سونپنے کی تجویز پیش کی، اور انہیں وہاں لے بھی آئیں۔ جب انہوں نے بچے کو دودھ پلانا چاہا تو بچے نے آرام سے دودھ پی لیا، اور پھر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق بچہ دوبارہ ان کے پاس آگیا۔