Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111موسیٰ کی بہن کا نام مریم بنت عمران تھا جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا مریم بنت عمران تھیں نام اور ولدیت دونوں میں اتحاد تھا۔ 112چناچہ وہ دریا کے کنارے کنارے، دیکھتی رہی تھی، حتّٰی کہ اس نے دیکھ لیا کہ اسکا بھائی فرعون کے محل میں چلا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧] ام موسیٰ کے تین بچے تھے۔ سب سے بڑی لڑکی تھی۔ اس کے بعد ہارون پیدا ہوئے پھر ان کے ایک سال بعد موسیٰ کی پیدائش ہوئی۔ حضرت ہارون کی پیدائش تک بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا حکم نافذ نہیں ہوا تھا۔ لہذا وہ بھی زندہ تھے اور بہن تو ان سے آٹھ دس سال بڑی تھی۔ جب ام ّموسیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا برد کرچکی اور دل بےقرار ہونے لگا تو ایک احتیاطی تدبیر اس کے ذہن میں آئی کہ شاید اس تدبیر کا کسی وقت فائدہ پہنچ جائے۔ اس نے موسیٰ کی بہن سے کہا کہ اس دریا کے کنارے کنارے چلی جاؤ۔ اور بچہ کو دیکھتی رہو کہ کہاں جاتا ہے۔ لیکن یہ احتیاط ملحوظ رکھنا کہ اس طریقہ سے چھپتی چھپاتی جانا کہ کسی کو یہ گمان نہ ہوسکے کہ یہ لڑکی اس ٹوکرے کی نگہداشت کر رہی ہے۔ اور اس کی ٹوہ میں لگی ہوئی ہے۔- اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب آل فرعون نے یہ تابوت دریا سے نکالا اور اس سے بچہ برآمد ہوا تو اس واقعہ کی خبر سارے شہر میں آناً فاناً پھیل گئی۔ اس وقت ام موسیٰ نے حضرت موسیٰ کی بہن سے کہا کہ جاؤ اور اس بچہ کا پتہ لگاؤ اور علیحدہ رہ کر دیکھنا کہ کیا ماجرا ہوتا ہے۔ لڑکی ہوشیار تھی وہ اس مقام پر پہنچ گئی جہاں بچہ کے گرد بھیڑ لگی تھی کہ وہاں وہ ایک طرف کھڑے ہو کر اور بےتعلق سی بن کر دور سے دیکھتی رہی اور لوگوں کی باتیں سنتی رہی مگر کسی کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ لڑکی اس بچہ کی بہن ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّيْهِ ” قَصَّ یَقُصُّ “ کا معنی بیان کرنا بھی ہے اور پیچھے پیچھے جانا بھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں نے ان کی بہن سے کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے جاؤ۔ اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک بھائی ہارون تھے اور ایک بہن تھی۔ - فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ : ” عن جنب “ کا معنی ” دور سے “ یا ” جانب سے “ یعنی وہ کنارے پر رہ کر ساتھ چلتی ہوئی دور سے اسے دیکھتی رہی، اس طرح کہ کسی کو معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ اس کا پیچھا کر رہی ہے۔ اس سے اس لڑکی کی دانائی اور ذہانت کا پتا چلتا ہے۔ ماں نے صرف پیچھے پیچھے جانے کو کہا تھا، یہ اس کی دانش مندی تھی کہ پیچھے کس طرح جانا ہے۔ ایک عرب شاعر نے خوب کہا ہے ؂- إِذَا کُنْتَ فِيْ حَاجَۃٍ مُرْسِلاً- فَأَرْسِلْ حَکِیْمًا وَ لَا تُوْصِہٖ- ” جب تم کسی کام کے لیے بھیجو تو دانا آدمی کو بھیجو، پھر اسے سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَتْ لِاُخْتِہٖ قُصِّيْہِ۝ ٠ۡفَبَصُرَتْ بِہٖ عَنْ جُنُبٍ وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۝ ١١ۙ- قصص - الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِقُصِّيهِ [ القصص 11] - ( ق ص ص ) القص - کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔- بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - جنب - أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال،- ( ج ن ب ) الجنب - اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١) آخر کار انہوں نے سنبھال کر یہ تدبیر سوچی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن مریم سے کہا ذرا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا سراغ تو لگاؤ چناچہ اس نے دور سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا اور ان لوگوں کو یہ خبر بھی نہیں تھی کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَبَصُرَتْ بِہٖ عَنْ جُنُبٍ وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ) ” - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن اپنی والدہ کے کہنے پر دریا کے کنارے کنارے صندوق پر دھیان رکھے اس انداز سے چلتی رہی جیسے صندوق سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔ اس طرح وہ بچے کے پیچھے پیچھے بڑی ہوشیاری سے فرعون کے محل میں پہنچ گئی۔ لیکن اس نے اپنے انداز سے وہاں بھی یہی ظاہر کیا جیسے وہ ایک راہ چلتی بچی ہے جو دریا میں تیرتے ہوئے صندوق کو دیکھنے کے لیے ادھر تک پہنچ گئی ہے اور یوں وہاں کسی کو اس کی اصل منصوبہ بندی کے بارے میں گمان تک نہ ہوا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 13 یعنی لڑکی نے اس طریقے سے ٹوکرے پر نگاہ رکھی کہ بہتے ہوئے ٹوکرے کے ساتھ ساتھ وہ اس کو دیکھتی ہوئی چلتی بھی رہی اور دشمن یہ نہ سمجھ سکے کہ اس کا کوئی تعلق اس ٹوکرے کے ساتھ ہے ، اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت موسی کی یہ بہن اس وقت 10 ۔ 12 برس کی تھیں ۔ ان کی ذہانت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ بھائی کا پیچھا کیا اور یہ پتہ چلا لیا کہ وہ فرعون کے محل میں پہنچ چکا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani