Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

171یعنی جو کافر اور تیرے حکموں کا مخالف ہوگا، تو نے مجھ پر جو انعام کیا ہے، اس کے سبب میں اس کا مددگار نہیں ہوں گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧] موسیٰ پر اللہ تعالیٰ کا انعام یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خطا پر پردہ ڈال دیا۔ کہ حکومتی اہلکاروں میں سے کسی کو بھی یہ پتا نہ چل سکا۔ کہ اس مقتول قبطی کا قاتل کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے شکریہ کے طور پر موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ آئندہ وہ کسی مجرم کی حمایت یا مدد نہیں کریں گے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ موسیٰ نے پہلے کون سے مجرم کی حمایت کی تھی جو اب اللہ سے ایسا عہد کررہے ہیں۔ اس کا جواب بعض لوگوں نے یہ دیا ہے کہ موسیٰ کی اس سے مراد وہ سبطی تھا جو آپ سے یہ جرم کروانے کا باعث بنا تھا۔ ممکن ہے اس کا بھی کچھ قصور ہو۔ لیکن آپ نے بلاتحقیق اس سبطی کی حمایت میں قبطی کو گھونسا رسید کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ لیکن ہمارے خیال میں اس کی وہی توجیہہ درست ہے جسے اکثر مفسرین نے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسیٰ نے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ وہ اس مجرم اور کافرانہ حکومت کی امداد و اعانت سے مکمل طور پر دستبردار ہوجائیں گے۔ اور یہی وہ عہد تھا جسے انہوں نے بعد میں ساری عمر نباہا تھا۔ یعنی اس واقعہ کے بعد انہوں نے شاہی خاندان کا فرد رہنے سے بیزاری کا اعلان کردیا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ ۔۔ : ” بما “ میں باء سببیت کے لیے ہے، یعنی اے میرے رب تو نے جو مجھ پر انعام کیا کہ مجھے ہر قسم کی نعمت سے نوازا اور میرے فعل پر پردہ ڈال دیا، اس وجہ سے میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا۔ ممکن ہے موسیٰ (علیہ السلام) کی مراد مجرم سے وہ اسرائیلی ہو جس کی انھوں نے مدد کی تھی، کیونکہ وہ جرم کا سبب بنا تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ” مجرمین “ سے فرعون اور اس کی قوم کے لوگ مراد لیے ہوں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور مجرم تھے اور ان کے اللہ تعالیٰ کے حضور عہد کرنے کا مطلب یہ ہو کہ تو نے جو مجھے نعمت و عزت اور راحت و قوت عطا فرمائی ہے اس کا شکر یہ ہے کہ اسے ان مجرموں کی حمایت و اعانت میں صرف نہ کروں، بلکہ ان سے اپنا تعلق منقطع کرلوں اور اس ظالم حکومت کا کل پرزہ نہ بنوں۔ ابن جریر اور بہت سے دوسرے مفسرین نے موسیٰ (علیہ السلام) کے اس عہد کا یہی مطلب لیا ہے اور حافظ ابن کثیر نے بھی اس کے مطابق تفسیر فرمائی ہے۔ اس آیت سے ظالم حکمرانوں کا ساتھ دینے اور ان کا تعاون کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِيْرًا لِّلْمُجْرِمِيْنَ ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس لغزش کو جب حق تعالیٰ نے معاف فرما دیا تو آپ نے اس نعمت کے شکر میں یہ عرض کیا کہ میں آئندہ کسی مجرم کی مدد نہ کروں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جس اسرائیلی کی مدد کے لئے یہ اقدام کیا تھا دوسرے واقعہ سے یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ وہ خود ہی جھگڑالو ہے، جھگڑا لڑائی اس کی عادت ہے اس لئے اس کو مجرم قرار دے کر آئندہ کسی ایسے شخص کی مدد نہ کرنے کا عہد فرمایا اور حضرت ابن عباس سے اس جگہ مجرمین کی تفسیر کافرین کے ساتھ منقول ہے اور قتادہ نے بھی تقریباً ایسا ہی فرمایا ہے اس تفسیر کی بنا پر واقعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلی جس کی امداد موسیٰ (علیہ السلام) نے کی تھی یہ بھی مسلمان نہ تھا مگر اس کو مظلوم سمجھ کر امداد فرمائی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس ارشاد سے دو مسئلے ثابت ہوئے۔ - مسئلہ : اول یہ کہ مظلوم اگرچہ کافر یا فاسق ہی ہو اس کی امداد کرنا چاہئے۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ کسی مجرم ظالم کی مدد کرنا جائز نہیں۔ علماء نے اس آیت سے استدلال فرما کر ظالم حکام کی ملازمت کو بھی ناجائز قرار دیا ہے کہ وہ بھی ان کے ظلم کے شریک سمجھے جائیں گے اور اس پر سلف صالحین سے متعدد روایات نقل کی ہیں (کما فی روح المعانی) کفار یا ظالموں کی امداد و اعانت کی مختلف صورتیں ہیں اور ان کے احکام کتب فقہ میں مفصل مذکور ہیں۔ احقر نے احکام القرآن میں بزبان عربی اسی آیت کے ذیل میں اس مسئلہ کی پوری تحقیق و تنقیح لکھ دی ہے اہل علم اس کو دیکھ سکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَہِيْرًا لِّلْمُجْرِمِيْنَ۝ ١٧- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- ظھیر - ، وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ 22] ، أي : معین «3» . فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ- [ القصص 86] ، وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم 4] ، وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً- [ الفرقان ] ، أي : معینا للشّيطان علی الرّحمن . وقال أبو عبیدة «1» : الظَّهِيرُ هو المَظْهُورُ به . أي : هيّنا علی ربّه کا لشّيء الذي خلّفته، من قولک :- ظَهَرْتُ بکذا، أي : خلفته ولم ألتفت إليه .- ظھیر - الظھیر۔ مدد گار ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ 22] اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے ۔ فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص 86] تو تم ہر گز کافروں کے مددگار نہ ہونا ۔ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم 4] اور ان کے علاوہ اور فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زورمارتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ کافر خدائے رحمٰن کی مخالفت میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں ظھیر کے معنی ہیں پس پشت ڈالا ہوا اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر کی مثال اس چیز کی سی ہے جسے بےوقعت سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ ظھر ت بکذا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور درخواعتناء نہ سمجھا ۔- جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧) اور آئندہ کے لیے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار آپ نے جو مجھ پر معرفت توحید اور مغفرت کے انعامات فرمائے ہیں تو آپ کبھی بھی ان مشرکین یعنی فرعون اور اس کی قوم کی مدد کا مجھے موقع نہ دیجیے کہ میں مجرموں کی مدد کروں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ اَکُوْنَ ظَہِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ ) ” - یعنی چونکہ تو نے مجھے معاف فرما کر مجھ پر احسان فرمایا ہے ‘ لہٰذا میں عہد کرتا ہوں کہ میں آئندہ کبھی بھی کسی غلط کار شخص کا حمایتی نہیں بنوں گا۔- [ مفسرین نے لکھا ہے کہ اسی روز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کی حکومت سے قطع تعلق کرلینے کا فیصلہ کرلیا ‘ کیونکہ وہ ایک ظالم حکومت تھی اور اس نے اللہ کی زمین پر ایک مجرمانہ نظام قائم کر رکھا تھا۔ (اضافہ از مرتب) ]

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 25 یعنی یہ احسان کہ میرا فعل چھپا رہ گیا اور دشمن قوم کے کسی فرد نے مجھ کو نہیں دیکھا ، اور مجھے بچ نکلنے کا موقع مل گیا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 26 حضرت موسی کا یہ عہد بہت وسیع الفاظ میں ہے ۔ اس سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ میں کسی مجرم فرد کا مددگار نہیں بنوں گا ، بلکہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ میری امداد و اعانت کبھی ان لوگوں کے ساتھ نہ ہوگی ، جو دنیا میں ظلم و ستم کرتے ہیں ۔ ابن جریر اور متعدد دوسرے مفسرین نے اس کا یہ مطلب بالکل ٹھیک لیا ہے کہ اسی روز حضرت موسی نے فرعون اور اس کی حکومت سے قطع تعلق کرلینے کا عہد کرلیا ، کیونکہ وہ ایک ظالم حکومت تھی اور اس نے خدا کی زمین پر ایک مجرمانہ نظام قائم کر رکھا تھا ، انہوں نے محسوس کیا کہ کسی ایمان دار آدمی کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ ایک ظالم سلطنت کا کل پرزہ بن کر رہے اور اس کی حشمت و طاقت میں اضافے کا موجب بنے ۔ علماء اسلام نے بالعموم حضرت موسی کے اس عہد سے یہ استدلال کیا ہے کہ ایک مومن کو ظالم کی اعانت سے کامل اجتناب کرنا چاہیے ، خواہ وہ ظالم فرد ہو یا گروہ یا حکومت و سلطنت ، مشہور تابعی حضرت عطاء بن ابی رباح سے ایک صاحب نے عرض کیا کہ میرا بھائی بنی امیہ کی حکومت میں کونے کے گورنر کا کاتب ( سکرٹری ) ہے ۔ معاملات کے فیصلے کرنا اس کا کام نہیں ہے ۔ البتہ جو فیصلے کیے جاتے ہیں وہ اس کے قلم سے جاری ہوتے ہیں ۔ یہ نوکری وہ نہ کرے تو مفلس ہوجائے ۔ حضرت عطاء نے جواب میں یہی آیت پڑھی اور فرمایا تیرے بھائی کو چاہیے کہ اپنا قلم پھینک دے ، رزق دینے والا اللہ ہے ۔ ایک اور کاتب نے عامر شعبی سے پوچھا اے ابو عمرو ، میں بس احکام لکھ کر جاری کرنے کا ذمہ دار ہوں ، فیصلے کرنے کا ذمہ دار نہیں ہوں ، کیا یہ رزق میرے لیے جائز ہے؟ انہوں نے کہا ہوسکتا ہے کہ کسی بے گناہ کے قتل کا فیصلہ کیا جائے اور وہ تمہارے قلم سے جاری ہو ۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کا مال ناحق ضبط کیا جائے ، یا کسی کا گھر گرانے کا حکم دیا جائے اور وہ تمہارے قلم سے جاری ہو ، پھر امام موصوف نے یہ آیت پڑھی جسے سنتے ہی کاتب نے کہا آج کے بعد میرا قلم بنی امیہ کے احکام جاری کرنے میں استعمال نہ ہوگا امام نے کہا پھر اللہ بھی تمہیں رزق سے محروم نہ فرمائے گا ۔ ضحاک کو تو عبدالرحمن بن مسلم نے صرف اس خدمت پر بھیجنا چاہا تھا کہ وہ بخارا کے لوگوں کی تنخواہیں جاکر بانٹ آئیں ، مگر انہوں نے اس سے بھی انکار کردیا ، ان کے دوستوں نے کہا آخر اس میں کیا حرج ہے؟ انہوں نے کہا میں ظالموں کے کسی کام میں بھی مددگار نہیں بننا چاہتا ( روح المعانی ، ج 2 ، ص 49 ) امام ابو حنیفہ کا یہ واقعہ ان کے تمام مستند سوانح نگاروں ، الموفق المکی ، ابن البزاز اکروری ، ملا علی قاری وغیرہم نے لکھا ہے کہ انہی کی تلقین پر منصور کے کمانڈر انچیف حسن بن قحطبہ نے یہ کہہ کر اپنے عہدے سے استعفا دے دیا تھا کہ آج تک میں نے آپ کی سلطنت کی حمایت کے لیے جو کچھ کیا ہے یہ اگر خدا کی راہ میں تھا تو میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے ، لیکن اگر یہ ظلم کی راہ میں تھا تو میں اپنے نامہ اعمال میں مزید جرائم کا اضافہ نہیں کرنا چاہتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: اب تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے ساتھ رہ رہے تھے اور اس کے ساتھ آتے جاتے تھے، اس واقعہ نے ان کے دل میں ایک انقلاب پیدا کردیا اور انہیں یہ محسوس ہوا کہ یہ سارا جھگڑا در حقیقت فرعون کے جابرانہ طرز حکومت کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے مصریوں کو اسرائیلیوں پر ظلم ڈھانے کی جرأت ہوئی ہے، اس لئے اس واقعے کے بعد انہوں نے تہیہ کرلیا کہ آئندہ میں فرعون اور اس کے اہل کاروں سے مکمل علیحدگی اختیار کرلوں گا تاکہ اس کی بالواسطہ بھی کسی بھی قسم کی مدد کا، ارتکاب نہ ہو۔