1 6 1یہ اتفاقیہ قتل اگرچہ کبیرہ گناہ نہیں تھا، کیونکہ کبیرہ گناہوں سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی حفاطت فرماتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایسا گناہ نظر آتا تھا جس کے لئے بہت بخشش انہوں نے ضروری سمجھی۔ دوسرے، انھیں خطرہ تھا کہ فرعون کو اس کی اطلاع ملی تو اس کے بدلے انھیں قتل نہ کر دے۔
[٢٦] معلوم ایسا ہوتا ہے کہ مقتول کوئی بڈھا اور کمزور سا انسان ہوگا اور پہلے ہی مرنے کے قریب ہوگا۔ اوپر سے موسیٰ جیسے طاقتور انسان کے ایک ہی مکا سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ ورنہ عام حالات میں کسی طاقتور کے مکہ سے بھی کم از کم موت واقع نہیں ہوئی۔ اور سبطی سے تو وہ اس شہ پر لڑ رہا تھا کہ وہ حکمران قوم کا فرد تھا۔ اب موسیٰ کے ہاتھوں جو اس کی موت واقع ہوگئی تو یہ بہرحال قتل کا جرم تو تھا اگر نادانستہ طور پر ایسا ہوا تھا اس قتل خطا کے جرم کی موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ جرم معاف فرما دیا۔- اس آیت میں غَفَرَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور غَفَرَ کا معنی معاف کرنا بھی ہے اور ڈھانپنا، چھپانا اور پردہ پوشی کرنا بھی اور مَغْفَرٌ اس خول کو کہتے ہیں جو سپاہی دوران جنگ سر پر رکھ لیتے ہیں۔ اور ان معنوں میں بھی اس لفظ کا استعمال عام ہے۔ اس لحاظ سے حضرت موسیٰ کی دعا کا مطلب یہ ہوگا کہ یاللہ میرے اس جرم یا میری خطا پر پردہ ڈال دے تاکہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ یہی بات فرقہ وارانہ اشتعال کا باعث بن کر بنی اسرائیل پر کسی عظیم فتنہ کا پیش خیمہ بن جائے۔ اور بہتر یہی ہے کہ موسیٰ کی اس دعا کو دونوں معنوں پر محمول کیا جائے۔۔ چناچہ واقعتاً اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی اس خطا پر پردہ ڈال دیا اور سوائے اس اسرائیلی کے جس کی آپ نے مدد کی تھی کسی کو بھی اس واقعہ کی خبر نہ ہوسکی۔
قَالَ رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ ۔۔ : گو موسیٰ (علیہ السلام) نے جان بوجھ کر قتل نہیں کیا تھا، مگر پیغمبروں کی شان بڑی ہے، ان کی شان کے لحاظ سے یہ بےاحتیاطی بھی مناسب نہ تھی، اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے گناہ سمجھا اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کے طلب گار ہوئے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مغفرت فرما دی، مگر موسیٰ (علیہ السلام) اس کے بعد بھی نادم رہے اور قیامت کے دن جب لوگ ان کے پاس جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری شفاعت کیجیے تو اپنی ندامت کا اظہار ان الفاظ میں کریں گے : ( إِنِّيْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُوْمَرْ بِقَتْلِھَا ) [ مسلم، الإیمان، باب أدنٰی أھل الجنۃ منزلۃ فیھا : ١٩٤ ] ” میں نے ایک شخص قتل کردیا جس کے قتل کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا۔ “- 3 قرآن کے بیان سے ظاہر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ قتل نا دانستہ ہوا تھا، مگر بائبل موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل عمد کا مجرم ٹھہراتی ہے۔ چناچہ اس کی روایت ہے کہ ” مصری اور اسرائیلی کو لڑتے دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) نے ادھر ادھر نگاہ کی اور جب دیکھا کہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے، تو اس مصری کو جان سے مار کر اسے ریت میں چھپا دیا۔ “ (خروج : ٢ : ١٢) یہ یہود کی ان تحریفات میں سے ہے جن کی اصلاح قرآن نے فرمائی، جو پہلی تمام کتابوں پر مہیمن ہے۔- 3 موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا ” اغْفِرْ لِيْ “ میں بخشش کی درخواست کے ساتھ پردہ ڈالنے کی درخواست کا مفہوم بھی شامل ہے۔ ” مِغْفَرٌ“ اس خود کو کہتے ہیں جس کے ساتھ جنگ میں سر ڈھانپتے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو معاف فرما دیا اور اس واقعہ پر پردہ بھی ڈال دیا اور اگلے دن پیش آنے والے واقعہ تک کسی کو خبر نہیں ہوئی کہ قتل کس نے کیا ہے۔
قَالَ رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ فَغَفَرَ لَهٗ ، اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ اس قبطی کافر کا قتل جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بلا ارادہ صادر ہوگیا تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو بھی اپنے منصب نبوت و رسالت اور پیغمبرانہ عظمت شان کے لحاظ سے اپنا گناہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔ یہاں پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ قبطی کافر شرعی اصطلاح کے لحاظ سے ایک حربی کافر تھا جس کا قتل عمداً بھی مباح اور جائز تھا کیونکہ نہ یہ کسی اسلامی حکومت کا ذمی تھا نہ موسیٰ (علیہ السلام) سے اس کا کوئی معاہدہ تھا پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو عمل شیطان اور گناہ کیوں قرار دیا۔- جواب یہ ہے کہ معاہدہ جیسے قولی اور تحریری ہوتا ہے جیسے عموماً اسلامی حکومتوں میں اہل ذمہ سے معاہدہ یا کسی غیر مسلم حکومت سے صلح کا معاہدہ اور یہ معاہدہ باتفاق واجب العمل اور اس کی خلاف ورزی عذر اور عہد شکین کے سبب حرام ہوتی ہے اسی طرح معاہدہ عملی بھی ایک قسم کا معاہدہ ہی ہوتا ہے۔ اس کی بھی پابندی لازمی اور خلاف ورزی عہد شکنی کے مترادف ہے۔- معاہدہ عملی کی صورت یہ ہے کہ جس جگہ مسلمان اور کچھ غیر مسلم کسی دوسری حکومت میں باہمی امن و اطمینان کے ساتھ رہتے بستے ہوں، ایک دوسرے پر حملہ کرنا یا لوٹ مار کرنا طرفین سے غداری سمجھا جاتا ہو تو اس طرح کی معاشرت اور معاملات بھی ایک قسم کا عملی معاہدہ ہوتے ہیں ان کی خلاف ورزی جائز نہیں اس کی دلیل حضرت مغیرہ بن شعبہ کی وہ طویل حدیث ہے جس کو امام بخاری نے کتاب الشروط میں مفصل روایت کیا ہے اور واقعہ اس کا یہ تھا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ قبل از اسلام اپنے زمانہ جاہلیت میں ایک جماعت کفار کے ساتھ مصاحبت اور معاشرت رکھتے تھے پھر ان کو قتل کر کے ان کے اموال پر قبضہ کرلیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر سلمان ہوگئے اور جو مال ان لوگوں کا لیا تھا وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردیا اس پر آپ نے ارشاد فرمایا، امّا الاسلام فاقبل وامّا المال فلست منہ فی شئی اور ابو داؤد کی روایت میں اس کے الفاظ یہ ہیں، امّا المال فمال غدر لاحاجتہ لنا فیہ، یعنی آپ کا اسلام تو ہم نے قبول کرلیا اور اب آپ مسلمان ہیں مگر یہ مال ایسا مال ہے جو غدر اور عہد شکنی سے حاصل ہوا ہے اس لئے ہمیں اس مال کی کوئی حاجت نہیں۔ شارح بخاری حافظ ابن حجر نے شرح میں فرمایا کہ اس حدیث سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ کفار کا مال حالت امن میں لوٹ لینا حلال نہیں کیونکہ ایک بستی کے رہنے والے یا ایک ساتھ کام کرنے والے ایک دوسرے سے اپنے کو مامون سمجھتے ہیں ان کا یہ عملی معاہدہ بھی ایک امانت ہے جس کا صاحب امانت کو ادا کرنا فرض ہے چاہے وہ کافر ہو یا مسلم اور کفار کے اموال جو مسلمانوں کے لئے حلال ہوتے ہیں تو وہ صرف محاربہ اور مغالبہ کی صورت میں حلال ہوتے ہیں حالت امن وامان میں جبکہ ایک دوسرے سے اپنے کو مامون سمجھ رہا ہو کسی کافر کا مال لوٹ لینا جائز نہیں اور قسطلانی نے شرح بخاری میں فرمایا۔- ان اموال المشرکین ان کانت مغنومۃ عند القھر فلا یحل اخذھا عند الامن فاذا کان الانسان مصاحبا لھم فقد امن کل واحد منھم صاحبہ فسفک الدماء و اخذ المال مع ذلک غدر حرام الا ان ینبذ الیھم عھدھم علی سواء۔- بیشک مشرکین کے اموال جنگ اور جہاد کے وقت مغنوم و مباح ہیں لیکن امن کی حالت میں حلال نہیں اس لئے جو مسلمان کفار کے ساتھ رہتا سہتا ہو کہ عملی طور پر ایک دوسرے سے مامون ہو تو ایسی حالت میں کسی کافر کا خون بہانا یا مال زبردستی لینا غدر حرام ہے جب تک کہ ان کے اس عملی معاہدہ سے دست برداری کا اعلان نہ کرے۔- خلاصہ یہ ہے کہ قبطی کا قتل اس عملی معاہدہ کی بناء پر اگر بالقصد ہوتا تو جائز نہیں تھا مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے قتل کا ارادہ نہیں کیا تھا بلکہ اسرائیلی شخص کو اس کے ظلم سے بچانے کے لئے ہاتھ کی ضرب لگائی جو عادة سبب قتل نہیں ہوتی مگر قبطی اس ضرب سے مر گیا تو موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ احساس ہوا کہ اس کو دفع کرنے کے لئے اس ضرب سے کم درجہ بھی کافی تھا یہ زیادتی میرے لئے درست نہ تھی اسی لئے اس کو عمل شیطان قرار دے کر اس سے مغفرت طلب فرمائی۔- فائدہ : یہ تحقیق حکیم الامۃ مجدد الملۃ سیدی حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کی ہے جو آپ نے بزبان عربی احکام القرآن سورة قصص لکھتے وقت ارشاد فرمائی تھی، اور یہ آخری علمی تحقیق ہے جس کا استفادہ احقر نے حضرت سے کیا کیونکہ آپ نے یہ ارشاد 2 رجب 1362 ھ میں فرمایا تھا اس کے بعد مرض کی شدت بڑھی اور 16 رجب کو یہ آفتاب عالم غروب ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون - اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اگرچہ قبطی کا قتل مباح تھا مگر انبیائ (علیہم السلام) مباحات میں بھی اہم معاملات میں اس وقت تک اقدام نہیں کرتے جب تک خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت و اشارہ نہ ملے، اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خصوصی اجازت کا انتظار کئے بغیر یہ اقدام فرمایا تھا اس لئے اپنی شان کے مطابق اس کو گناہ قرار دے کر استغفار کیا (کذا فی الروح وغیرہ ولہ وجہ)
قَالَ رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ فَغَفَرَ لَہٗ ٠ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ١٦- ظلم) تاریکی)- الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ- [ البقرة 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] - ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔- کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40]- ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40]- ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
(١٦) اور اپنی غلطی پر نادم ہو کر عرض کیا اے میرے پروردگار مجھ سے قصور ہوگیا کہ غلطی سے یہ قبطی مرگیا سو آپ میرے اس قصور کو معاف کردیجیے اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا وہ بڑا غفور رحیم ہے۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 23 مغفرت کے معنی درگزر کرنے اور معاف کردینے کے بھی ہیں ، اور ستر پوشی کرنے کے بھی ، حضرت موسی کی دعا کا مطلب یہ تھا کہ میرے اس گناہ کو ( جسے تو جانتا ہے کہ میں نے عمدا نہیں کیا ہے ) معاف بھی فرمادے اور اس کا پردہ بھی ڈھانک دے تاکہ دشمنوں کو اس کا پتہ نہ چلے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 24 اس کے بھی دو مطلب ہیں ، اور دونوں یہاں مراد ہیں ۔ یعنی اللہ تعالی نے ان کا یہ قصور معاف معاف بھی فرما دیا اور حضرت موسی کا پردہ بھی ڈھانک دیا ، یعنی قبطی قوم کے کسی فرد اور قبطی حکومت کے کسی آدمی کا اس وقت ان کے آس پاس کہیں گزر نہ ہوا کہ وہ قتل کے اس واقعہ کو دیکھ لیتا ۔ اس طرح حضرت موسی کو خاموشی کے ساتھ موقع واردات سے نکل جانے کا موقع مل گیا ۔
7: چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جان بوجھ کر اسے قتل نہیں کیا تھا بلکہ وہ بلا ارادہ مارا گیا، اس لئے اصل میں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) معذور تھے ؛ لیکن بہر حال کسی کا قتل ہوجانا ایک سنگین معاملہ ہے اور ایک ہونے والے پیغمبر کے شایان شان نہیں، اس لئے وہ شرمندہ بھی ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگی، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس جگہ مسلمان اور غیر مسلم آپس میں امن کے ساتھ رہ رہے ہوں، خواہ وہاں حکومت غیر مسلموں ہی کی ہو، وہاں مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ کسی غیر مسلم کو قتل کرے یا اس کی جان ومال کو کسی اور طرح نقصان پہنچائے۔