Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

151اس سے بعض نے مغرب اور عشاء کے درمیان کا وقت اور بعض نے نصف النہار مراد لیا۔ جبکہ لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں۔ 152یعنی فرعون کی قوم قبط میں سے تھا۔ 153اسے شیطانی فعل اس لئے قرار دیا کہ قتل ایک نہایت سنگین جرم ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مقصد اسے ہرگز قتل کرنا نہیں تھا۔ 154جس کی انسان سے دشمنی بھی واضح ہے اور انسان کو گمراہ کرنے کے لئے وہ جو جو جتن کرتا ہے وہ بھی مخفی نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢] اس آیت یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہی محلات شہر یا عام لوگوں کی رہائشی آبادی سے کچھ دور تھے۔ جیسا کہ عام دستور ہے کہ بڑے بڑے لوگ عام آدمیوں میں گھل مل کر رہنا پسند نہیں کرتے بلکہ شہر سے باہر کھلی فضا میں اپنی رہائش گاہیں، بنگلے، کوٹھیاں اور محل بنواتے ہیں۔- [٢٣] یعنی جب لوگ سو رہے تھے اور راستے اور سڑکیں سنسان اور بےآباد معلوم ہوتی تھیں۔ ایسا وقت عموماً علی الصبح ہوا کرتا ہے سورج کے طلوع ہونے سے بہت پہلے یا گرمیوں میں دوپہر کے بعد جب اکثر لوگ آرام کررہے ہوتے ہیں۔- [٢٤] موسیٰ جب ایسے شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ان میں ایک قبطی ہے یعنی مصر کا قدیمی باشندہ یا حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والا ہے اور دوسرا قبطی یا بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والا ہے۔ موسیٰ بچپن ہی میں دیکھ رہے تھے کہ بنی اسرائیل پر حکومت وقت کیا کیا مظالم ڈھا رہی ہے۔ اور انھیں کیسے معاشرہ میں ذلیل و رسوا بنا کر رکھا جارہا ہے۔ ان لڑنے والوں میں سے سبطی نے آپ کو مدد کے لئے پکارا کہ میں اسے قبطی کے ظلم سے چھڑاؤں۔ یہ قبطی شاہی باورچی خانے کا نوکر تھا۔ جو سبطی سے بیگار یہ لینا چاہ رہا تھا کہ ایندھن کا گٹھا بلامعاوضہ باورچی خانہ تک چھوڑ کر آؤ۔ حضرت موسیٰ کے دل میں قبطیوں کے خلاف نفرت تو پہلے سے موجود تھی۔ سبطی کی فریاد پر وہاں پہنچے اور جب انھیں معلوم ہوا کہ زیادتی قبطی ہی کر رہا ہے تو تو رگ حمیت جوش میں آگئی اور اسے ایک گھونسا رسید کیا۔ آپ ماشاء اللہ بڑے طاقتور جوان تھے۔ گھونسے کا لگنا تھا کہ قبطی کا کام تمام ہوگیا۔- [٢٥] حضرت موسیٰ سے اس طرح ایک قبطی کا قتل ہوجانا دراصل ایک بڑے فتنہ کا سبب بن سکتا تھا۔ اب یہ اتفاق کی بات ہے کہ آس پاس کوئی گواہ موجود نہ تھا۔ اور یہ بات صیغہ راز میں ہی رہ گئی کہ اس قبطی کا قاتل کون ہے اور اگر پتا چل بھی جاتا تو بنی اسرائیل پر ان کی زندگی اور بھی اجیرن بنادی جاتی۔ موسیٰ کو جب قتل کے اس انجام کا خیال آیا تو فوراً پکار اٹھے کہ یہ کام مجھ سے شیطان نے کروایا ہے۔ وہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ ایسے فتنے کھڑے ہوتے رہے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَدَخَلَ الْمَدِيْنَةَ عَلٰي حِيْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا : ” شہر میں داخل ہوا “ سے معلوم ہوا کہ شاہی محلاّت عام آبادی سے باہر واقع تھے، جہاں سے وہ شہر میں داخل ہوئے۔ ” غَفْلَةٍ “ میں تنوین کی وجہ سے ” کسی قدر غفلت “ ترجمہ کیا گیا ہے۔ ایک دفعہ وہ شہر میں ایسے وقت میں آئے جو کسی قدر غفلت کا وقت تھا۔ یہ صبح سویرے یا عشاء کے بعد یا دوپہر کے وقت میں سے کوئی وقت بھی ہوسکتا ہے، مگر غالب یہی ہے کہ وہ دوپہر کا وقت تھا جب سڑکیں سنسان ہوتی ہیں، لوگ گرمی کی وجہ سے گھروں میں آرام کر رہے ہوتے ہیں۔ چناچہ ابن ابی حاتم نے اپنی صحیح سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول ذکر فرمایا ہے : ” نِصْفُ النَّھَارِ “ ”(یعنی یہ) دوپہر کا وقت تھا۔ “ [ ابن أبي حاتم : ١٦٧٥٥ ]- فَوَجَدَ فِيْهَا رَجُلَيْنِ يَـقْتَتِلٰنِ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ وہ بنی اسرائیل سے ہیں، وہ قبطیوں کے بنی اسرائیل پر مظالم سے بھی آگاہ تھے اور ہر روز اپنی آنکھوں سے ان مظالم کا مشاہدہ کرتے تھے، اس لیے قدرتی طور پر ان کی ہمدردیاں اپنی قوم کے ساتھ تھیں۔ قوم بھی جانتی تھی کہ وہ ان کے ایک فرد ہیں۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ جھگڑ رہے ہیں، ان میں سے ایک ان کی قوم سے ہے اور دوسرا قبطی ہے، جو ان کے دشمن تھے۔ قبطی حسب عادت غلام سمجھ کر اسرائیلی پر زیادتی کر رہا تھا۔ اسرائیلی اگر مقابلہ کرسکتا ہوتا تو اسے مدد مانگنے کی ضرورت نہ تھی۔ جب وہ بےبس ہوگیا تو اس نے مدد کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو آواز دی۔ موسیٰ (علیہ السلام) طبعی طور پر کمزوروں اور مظلوموں کے ہمدرد تھے۔ اب ظلم ہوتے دیکھا تو مظلوم کو بچانے کے لیے آگے بڑھے اور قبطی کو ایک گھونسا مارا، جس سے اس کا کام تمام ہوگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا اسے قتل کرنے کا نہ ارادہ تھا نہ ان کے وہم و گمان میں یہ بات تھی کہ وہ ایک گھونسے سے مرجائے گا۔ جب اچانک یہ واقعہ ہوا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے انجام پر غور کیا کہ ان کے اور ان کی قوم کے حق میں اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے، تو وہ سخت پریشان ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ شیطان کا کام ہے جس نے بڑے فساد کے لیے مجھے غصہ دلا کر یہ کام کروایا ہے۔ وہ تو ایسا دشمن ہے جو کھلم کھلا گمراہ کردینے والا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَدَخَلَ الْمَدِيْنَۃَ عَلٰي حِيْنِ غَفْلَۃٍ مِّنْ اَہْلِہَا فَوَجَدَ فِيْہَا رَجُلَيْنِ يَـقْتَتِلٰنِۡ ہٰذَا مِنْ شِيْعَتِہٖ وَہٰذَا مِنْ عَدُوِّہٖ۝ ٠ۚ فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِہٖ عَلَي الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّہٖ ۙ فَوَكَزَہٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَيْہِ ٠ۤۡ قَالَ ہٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِيْنٌ۝ ١٥- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- مدن - المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] .- ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔- حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔ - غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا - أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- شيع - الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ- [ الصافات 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] .- ( ش ی ع ) الشیاع - کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم : قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب : ایندھن ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات 83] اور ان ہی یعنی نوح (علیہ السلام) کے پیرؤں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - غوث ( استغاث)- الغَوْثُ يقال في النّصرة، والغَيْثُ في المطر، واسْتَغَثْتُهُ : طلبت الغوث أو الغیث، فَأَغَاثَنِي من الغوث، وغَاثَنِي من الغیث، وغَوَّثت من الغوث، قال تعالی: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ- [ الأنفال 9] ، وقال : فَاسْتَغاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ، وقوله : وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغاثُوا بِماءٍ كَالْمُهْلِ [ الكهف 29] ، فإنّه يصحّ أن يكون من الغیث، ويصحّ أن يكون من الغوث، وکذا يُغَاثُوا، يصحّ فيه المعنیان . والغيْثُ : المطر في قوله : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید 20] ، قال الشاعر : سمعت النّاس ينتجعون غيثا ... فقلت لصیدح انتجعي بلالا - ( غ و ث)- الغوث کے معنی مدد اور الغیث کے معنی بارش کے ہیں اور استغثتہ ض ( استفعال ) کے معنی کسی کو مدد کے لیے پکارنے یا اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنا آتے ہیں جب کہ اس معنی مدد طلب کرنا ہو تو اس کا مطاوع اغاثنی آئیگا مگر جب اس کے معنی بارش طلب کرنا ہو تو اس کا مطاوع غاثنی آتا ہے اور غوثت میں نے اس کی مدد کی یہ بھی غوث سے مشتق ہے جس کے معنی مدد ہیں قرآن پاک میں ہے :إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ [ الأنفال 9] جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے ۔ فَاسْتَغاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] تو جو شخص ان کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ کے دشمنوں میں سے تھا ، موسیٰ سے مدد طلب کی ۔ اور آیت کر یمہ ؛وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغاثُوا بِماءٍ كَالْمُهْلِ [ الكهف 29] اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی دادرسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم ہوگا ۔ میں یستغیثوا غوث ( مدد ما نگنا) سے بھی ہوسکتا ہے ۔ اور غیث ( پانی مانگنا ) سے بھی اسی طرح یغاثوا ( فعل مجہول ) کے بھی دونوں معنی ہوسکتے ہیں ( پہلی صورت میں یہ اغاث یعنی ( باب افعال ) سے ہوگا دوسری صورت میں غاث ، یغیث سے اور آیت کریمہ : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید 20] جیسے بارش کہ اس سے کھیتی اگتی اور کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے ۔ میں غیث کے معنی بارش ہیں چناچہ کو شاعر نے کہا ہے ۔ (332) سمعت الناس ینتجعون غیثا فقلت لصیدح انتجعی بلالا میں نے سنا ہے کہ لوگ بارش کے مواضع تلاش کرتے ہیں تو میں نے اپنی اونٹنی صیدح سے کہا تم بلال کی تلاش کرو ۔- وكز - الوَكْزُ : الطّعن، والدّفع، والضّرب بجمیع الکفّ. قال تعالی: فَوَكَزَهُ مُوسی[ القصص 15] .- ( و ک ز ) الوکز ( س ض ) کے معنی کچوکا لگانے ، دھکا دینے اور مکا مارنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ فَوَكَزَهُ مُوسی[ القصص 15] تو موسٰی (علیہ السلام) نے اس کا مکامارا ۔- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

نبی سے کوئی جرم سرزد ہو تو خدا سے معافی مانگتا ہے - قول باری ہے : (فوکزہ موسیٰ فقضی علیہ۔ موسیٰ نے اس کو ایک گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کردیا) نیز قول باری ہے (وقتلت نفسا۔ تونے ایک آدمی کو قتل کردیا تھا) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بتادیا کہ انہوں نے گھونسا مار کر اس شخص کو قتل کردیا تھا پھر اپنے اس فعل پر جن الفاظ میں ندامت کا اظہار کیا تھا اس کا ذکر قرآن میں اس طرح ہوا ہے : (رب انی ظلمت نفسی۔ اے میرے پروردگار میں نے اپنے نفس پر ظلم کرلیا) ۔- بعض حضرات کا قول ہے کہ تھپڑ مار کر کسی کی جان لے لینا قتل عمد ہے اگر یہ بات نہ ہوتی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) علی الاطلاق یہ نہ کہتے کہ ” پروردگار میں نے اپنے اوپر ظلم کرلیا۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس جملے کا مفہوم یہ ہو کہ ” میں نے گھونسا مارنے کا اقدام کرکے اپنے اوپر ظلم کرلیا جبکہ اس بارے میں ابھی مجھے اوپر سے کوئی ہدایت نہیں ملی تھی۔ “ اس واقعہ میں اس بات پر بھی دلالت موجود نہیں ہے کہ قتل کا یہ واقعہ قتل عمد تھا کیونکہ ظلم صرف قتل کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتا بلکہ اس کے دائرے میں ظلم کی چھوٹی چھوٹی صورتیں بھی داخل ہیں۔- کیا بیوی کو اس کے والدین سے جدا کرنا جائز ہے ؟- قول باری ہے : (فلما قضی موسیٰ الاجل وسارباھلہ۔ جب موسیٰ نے مدت پوری کرلی اور وہ اپنے اہل وعیال کو لے کر چلا) تا آخر آیت۔ اس سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ سفر کرنے اور اسے دوسرے شہر میں لے جانے نیز اسے اپنے والدین سے الگ کردینے کا اختیار ہوتا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ میرے نزدیک ان امور پر آیت کی کوئی دلالت نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی بیوی کی رضامندی سے یہ قدم اٹھایا ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥) اور موسیٰ (علیہ السلام) شہر میں ایسے وقت پہنچے کہ وہاں کے اکثر باشندے بیخبر تھے قیلولہ کا وقت تھا یا مغرب کے بعد کا تو انہوں نے وہاں ایک اسرائیلی اور ایک قبطی کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھا ایک تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی برادری یعنی بنی اسرائیل میں سے تھا اور دوسرا مخالفین میں سے یعنی قبطی تھا۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی برادری میں سے جو تھا اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ کر اس مخالف کے مقابلہ میں مدد چاہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو گھونسا مارا تو وہ ہلاک ہوگیا کہنے لگے کہ یہ شیطانی حرکت ہوگئی بیشک شیطان بھی انسان کا کھلا دشمن ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (وَدَخَلَ الْمَدِیْنَۃَ عَلٰی حِیْنِ غَفْلَۃٍ مِّنْ اَہْلِہَا) ” - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) شاہی محل میں رہتے تھے اور عام طور پر شاہی محلات عام شہری آبادی سے الگ علاقے میں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ( علیہ السلام) کے شہر میں آنے کا یہاں خصوصی انداز میں ذکر ہوا ہے۔ عَلٰی حِیْنِ غَفْلَۃٍ کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو آپ ( علیہ السلام) علی الصبح شہر میں آئے ہوں گے جب لوگ ابھی نیند سے بیدار نہیں ہوئے تھے یا پھر وہ دوپہر کو قیلولے کا وقت تھا۔- (ہٰذَا مِنْ شِیْعَتِہٖ وَہٰذَا مِنْ عَدُوِّہٖ ج) ” - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے وہاں شہر میں ایک اسرائیلی اور ایک قبطی کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھا۔- (قَالَ ہٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ ) ” (- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نیت تو قتل کرنے کی نہیں تھی لیکن اتفاق سے ضرب زیادہ شدید تھی اور وہ شخص مرگیا۔ یہ حرکت سرزد ہوتے ہی آپ ( علیہ السلام) کو فوراً احساس ہوا کہ یہ مجھ سے شیطانی کام صادر ہوگیا ہے۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) نے فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 20 ہوسکتا ہے کہ وہ صبح سویرے کا وقت ہو ، یا گرمی میں یا دوپہر کا ، یا سردیوں میں رات کا ۔ بہرحال مراد یہ ہے کہ جب سڑکیں سنسان تھیں اور شہر میں سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ شہر میں داخل ہوا ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دار السلطنت کے شاہی محلات عام آبادی سے باہر واقع تھے ، حضرت موسی علیہ السلام چونکہ چاہی محل میں رہتے تھے اس لیے شہر میں نکلے کہنے کے بجائے شہر میں داخل ہوئے فرمایا گیا ہے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 21 اصل میں لفظ وکر استعمال ہوا ہے جس کے معنی تھپڑ مارنے کے بھی ہیں اور گھونسا مارن کے بھی ۔ ہم نے اس خیال سے کہ تھپڑ سے موت واقع ہوجانا گھونسے کی بہ نسبت بعید تر ہے اس کا ترجمہ گھونسا مارنا کیا ہے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 22 اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گھونسا کھا کر جب مصری گرا ہوگا اور اس نے دم توڑ دیا ہوگا تو کیسی سخت ندامت اور گھبراہٹ کی حالت میں یہ الفاظ حضرت موسی کی زبان سے نکلے ہوں گے ، ان کو کوئی ارادہ قتل کا نہ تھا ، نہ قتل کے لیے گھونسا مارنا جاتا ہے ، نہ کوئی شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ ایک گھونسا کھاتے ہی ایک بھلا چنگا آدمی پران چھوڑ دے گا ۔ اس بنا پر حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ شیطان کا کوئی شریرانہ منصوبہ معلوم ہوتا ہے ۔ اس نے ایک بڑا فساد کھڑا کرنے کے لیے مجھ سے یہ کام کرایا ہے تاکہ ایک اسرائیلی کی حمایت میں ایک قبطی کو مار ڈالنے کا الزام مجھ پر عائد ہو اور صرف میرے ہی خلاف نہیں بلکہ تمام بنی اسرا٤یل کے خلاف مصر میں ایک طوفان عظیم اٹھ کھڑا ہو ۔ اس معاملہ میں بائیبل کا بیان قرآن سے مختلف ہے ۔ وہ حضرت موسی کو قتل عمد کا مجرم ٹھہراتی ہے ۔ اس کی روایت یہ ہے کہ مصری اور اسرائیلی کو لڑتے دیکھ کر حضرت موسی نے ادھر ادھر نگاہ کی اور جب دیکھا کہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے تو اس مصری کو جان سے مار کر اسے ریت میں چھپا دیا ( خروج 2 ۔ 12 ) یہی بات تلمود میں بھی بیان کی گئی ہے ، ۔ اب یہ ہر شخس دیکھ سکتا ہے کہ بنی اسرائیل اپنے اکابر کی سیرتوں کو خود کس طرح داغدار کرتے ہیں اور قرآن کس طرح ان کی پوزیشن صاف کرتا ہے ۔ عقل بھی یہی کہتی ہے کہ ایک حکیم و دانا آدمی ، جسے آگے چل کر ایک اولوالعزم پیغمبر ہونا تھا اور جسے انسان کو عدل و انصاف کا ایک عظیم قانون دینا تھا ، ایسا اندھا قوم پرست نہیں ہوسکتا کہ اپنی قوم کے ایک فرد سے دوسری قوم کے کسی شخص کو لڑتے دیکھ کر آپے سے باہر ہوجائے اور جان بوجھ کر اسے قتل کر ڈالے ۔ ظاہر ہے کہ اسرائیلی کو مصری کے پنجے سے چھڑانے کے لیے اسے قتل کردینا تو روا نہ ہوسکتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: یعنی اکثر لوگ دوپہر کے وقت بے خبر سوئے ہوئے تھے 6: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مقصد تو صرف یہ تھا کہ اسرائیلی شخص کو اس کے ظلم سے بچائیں، اسے قتل کرنا مقصود نہیں تھا، لیکن وہ ایک ہی مکے سے مر گیا۔