Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

گھونسے سے موت حضرت موسیٰ کے لڑکپن کا ذکر کیا اب ان کی جوانی کا واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ اللہ نے انہیں حکمت وعلم عطا فرمایا ۔ یعنی نبوت دی ۔ نیک لوگ ایسا ہی بدلہ پاتے ہیں ، پھر اس واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے مصر چھوڑنے کا باعث بنا اور جس کے بعد اللہ کی رحمت نے ان کارخ کیا یہ مصر چھوڑ کر مدین کی طرف چل دئیے ۔ آپ ایک مرتبہ شہر میں آتے ہیں یا تو مغرب کے بعد یا ظہر کے وقت کہ لوگ کھانے پینے میں یا سونے میں مشغول ہیں راستوں پر آمد ورفت نہیں تھی تو دیکھتے ہیں کہ دو شخص لڑ جھگڑرہے ہیں ۔ ایک اسرائیلی ہے دوسرا قبطی ہے ۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ سے قبطی کی شکایت کی اور اس کا زور ظلم بیان کیا جس پر آپ کو غصہ آگیا اور ایک گھونسہ اسے کھینچ مارا جس سے وہ اسی وقت مرگیا ۔ موسیٰ گھبراگئے اور کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے اور شیطان دشمن اور گمراہ ہے اور اس کا دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہونا بھی ظاہر ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنے لگے اور استغفار کرنے لگے ۔ اللہ نے بھی بخشش دیا وہ بخشنے والا مہربان ہی ہے ۔ اب کہنے لگے اے اللہ تونے جو جاہ وعزت بزرگی اور نعمت مجھے عطافرمائی ہے میں اسے سامنے رکھ کر وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی کسی نافرمان کی کسی امر میں موافقت اور امداد نہیں کرونگا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141حکم اور علم سے مراد نبوت ہے تو اس مقام تک کس طرح پہنچے، اس کی تفصیل اگلی آیات میں ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد نبوت نہیں بلکہ عقل اور دانش اور وہ علوم ہیں جو انہوں نے اپنے آبائی اور خاندانی ما حول میں رہ کر سیکھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢١] بچپن میں آپ کو خالص دیندارانہ ماحول میسر آگیا۔ لہذا آپ حضرت یعقوب اور یوسف کی تعلیم سے واقف ہوگئے۔ آپ کے والدین کا گھرانہ ایک شریف اور دیندار گھرانہ تھا اور بچہ جو عادات و خضائل اس عمر میں سیکھتا ہے وہی تمام زندگی اس میں نمایاں رہتی ہیں۔ اس کے بعد آپ شاہی خاندان کے فرد بنے تو مصر میں متداول جدید علوم سے بہرہ ور ہوئے اور اصول جہاں بانی اور حکمرانی بھی از خود اخذ کرتے رہے کیونکہ آپ میں خداداد ذہانت موجود تھی۔ اس مقام پر صحت اور علم سے مراد نبوت نہیں کیونکہ نبوت تو آپ کو بہت مدت بعد عطا ہوئی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَاسْتَوٰٓى : یہاں ایک لمبی بات حذف کردی گئی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے رضاعت کے ایام اپنی والدہ کے پاس گزرے، جس سے انھیں اپنے والدین، بھائی بہن اور خاندان سے شناسائی ہوگئی اور آئندہ بھی اس تعلق کی وجہ سے میل جول جاری رہا، جس سے وہ اپنے آبائے کرام ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) اور ان کے دین سے واقف ہوگئے اور بنی اسرائیل کی زبوں حالت پر براہ راست مطلع رہنے لگے۔ رضاعت کے بعد شاہی محل میں منتقل ہونے کے ساتھ ان کی پرورش اور تربیت ایک شہزادے کی حیثیت سے ہوئی، انھیں اس وقت کے تمام علوم و فنون، لکھنے پڑھنے اور جہانبانی کے طریقے سکھائے گئے، جنگ میں درکار عام تربیت اور سپہ سالاری کے لیے خاص تربیت دی گئی۔ ان تمام چیزوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی خاص نگرانی اور تربیت تھی، جس کے ذریعے سے انھیں آنے والی ذمہ داری کے لیے تیار کیا گیا، حتیٰ کہ وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گئے۔ ” بَلَغَ اَشُدَّهٗ “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة یوسف (٢٢) وہاں یوسف (علیہ السلام) کے لیے صرف ” بَلَغَ اَشُدَّهٗ “ کا لفظ آیا ہے، جب کہ یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے ” وَاسْتَوٰٓى“ کا لفظ بھی آیا ہے، یعنی وہ پورے طاقت ور ہوگئے، کیونکہ جسمانی قوت یوسف (علیہ السلام) میں موسیٰ (علیہ السلام) جیسی نظر نہیں آتی۔- اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا : ” حُكْمًا “ کا معنی فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے اور ” عِلْمًا “ سے مراد دنیا اور دین کا علم ہے، یعنی جوان ہونے پر ہم نے انھیں حق و باطل میں فیصلہ کرنے کی اہلیت عطا فرمائی اور دنیا و دین دونوں کا علم عطا فرمایا۔ جس میں سے دنیا کے علوم شاہی محل کے ذریعے سے حاصل ہوئے اور دین کا علم اور اس کا فہم والدہ کے گھر اور خاندان کے ذریعے سے حاصل ہوا۔ بعض مفسرین نے ” حُكْمًا وَّعِلْمًا “ سے مراد نبوت لی ہے، مگر یہاں یہ معنی درست معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ نبوت تو اس کے دس سال بعد طور پر عطا ہوئی، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔- وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کا معنی نیک کام کرنا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احسان کی تفسیر ” أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ “ کے ساتھ فرمائی ہے کہ ” اللہ کی عبادت ایسے کرنا گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، پھر اگر اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ “ [ دیکھیے بخاري، الإیمان، باب سؤال جبریل ۔۔ : ٥٠ ] احسان کا ایک معنی یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی معاوضہ کی طلب یا خواہش کے بغیر کسی کے ساتھ نیکی کرنا، جیسا کہ بنی اسرائیل کے نیک لوگوں نے قارون کو نصیحت کی تھی : (وَاَحْسِنْ كَمَآ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ ) [ القصص : ٧٧ ] ” اور احسان کر جیسے اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے۔ “ فرمایا : ” ہم محسنین کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں “ اس سے معلوم ہوا موسیٰ (علیہ السلام) احسان کی صفت سے پوری طرح آراستہ تھے، جس کی جزا میں اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم و علم عطا فرمایا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور جب (پرورش پاکر) اپنی بھری جوانی (کی عمر) کو پہنچے اور (قوت جسمانیہ و عقلیہ سے) درست ہوگئے تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا فرمایا (یعنی نبوت سے پہلے ہی فہم سلیم و عقل مستقیم جس سے حسن و قبح میں امتیاز کرسکیں عنایت فرمائی) اور ہم نیکو کاروں کو یوں ہی صلہ دیا کرتے ہیں (یعنی عمل صالح سے فیضان علمی میں ترقی ہوتی ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ فرعون کے مشرب کو موسیٰ (علیہ السلام) نے کبھی اختیار نہ کیا تھا بلکہ اس سے نفور رہے) اور (اسی زمانہ کا ایک واقعہ یہ ہوا کہ ایک بار) موسیٰ (علیہ السلام) شہر میں (یعنی مصر میں کذا فی الروح عن ابن اسحاق کہیں باہر سے) ایسے وقت پہنچے کہ وہاں کے (اکثر) باشندے بیخبر (پڑے سو رہے) تھے (اکثر روایات سے یہ وقت دوپہر کا معلوم ہوتا ہے اور بعض روایات سے کچھ رات گئے کا وقت معلوم ہوتا ہے کہ کذا فی الدر المنثور) تو انہوں نے وہاں دو آدمیوں کو لڑتے دیکھا، ایک تو ان کی برادری (یعنی بنی اسرائیل میں کا تھا اور دوسرا ان کے مخالفین (یعنی فرعون کے متعلقین ملازمین) میں سے تھا (دونوں کسی بات پر الجھ رہے تھے اور زیادتی اس فرعونی کی تھی) سو وہ جو ان کی برادری کا تھا اس نے (جو) موسیٰ (علہ السلام کو دیکھا تو ان) سے اس کے مقابلہ میں جو کہ ان کے مخالفین میں سے تھا مدد چاہی ( موسیٰ (علیہ السلام) نے اول اس کو سمجھایا جب اس پر بھی وہ باز نہ آیا) تو موسیٰ (علیہ السلام) نے (تادیباً دفع ظلم کیلئے) اس کو (ایک) گھوسا مارا سو اس کا کام بھی تمام کردیا (یعنی اتفاق سے وہ مر ہی گیا) موسیٰ (علیہ السلام اس خلاف توقع نتیجہ سے بہت پچھتائے اور) کہنے لگے کہ یہ تو شیطانی حرکت ہوگئی بیشک شیطان (بھی آدمی کا) کھلا دشمن ہے کسی غلطی میں ڈال دیتا ہے (اور نادم ہو کر حق تعالیٰ سے) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار مجھ سے قصور ہوگیا آپ معاف کر دیجئے سو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا، بلاشبہ وہ غفور و رحیم ہے (گو ظہور اور علم اس معافی کا قطعی طور پر وقت عطاء نبوت کے ہوا کما فی النمل اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْـنًۢا بَعْدَ سُوْۗءٍ فَاِنِّىْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ اور اس وقت خواہ الہام سے معلوم ہوگیا ہو یا بالکل نہ معلوم ہوا ہو) موسیٰ (علیہ السلام) نے (توبہ عن الماضی کے ساتھ مستقبل کے متعلق یہ بھی) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار چونکہ آپ نے مجھ پر (بڑے بڑے) انعامات فرمائے ہیں (جن کا ذکر طہ میں ہے وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً اُخْرٰٓى الی قولہ وَلَا تَحْزَنَ ) سو کبھی میں مجرموں کی مدد نہ کروں گا (یہاں مجرمین سے مراد وہ ہیں جو دوسروں سے گناہ کا کام کرانا چاہیں، کیونکہ گناہ کرانا کسی سے یہ بھی جرم ہے پس اس میں شیطان بھی داخل ہوگیا کہ وہ گناہ کراتا ہے اور گناہ کرنے والا اس کی مدد کرتا ہے خواہ عمداً یا خطاءً جیسے اس آیت میں ہے وکان الکافر علی ربہ ظہیراً ای للشیطان، مطلب یہ ہوا کہ میں شیطان کا کہنا کبھی نہ مانوں گا یعنی مواقع محتملہ خطاء میں احتیاط و تیقظ سے کام لوں گا اور اصل مقصود اتنا ہی ہے مگر شمول حکم کے لئے مجرمین جمع کا صیغہ لایا گیا کہ اوروں کو بھی عام ہوجاوے غرض اس اثناء میں اس کا چرچا ہوگیا مگر بجز اسرائیلی کے کوئی واقف راز نہ تھا اور چونکہ اسی کی حمایت میں یہ واقعہ ہوا تھا اس لئے اس نے اظہار نہیں کیا اس وجہ سے کسی کو اطلاع نہ ہوئی مگر موسیٰ (علیہ السلام) کو اندیشہ رہا، یہاں تک رات گزری) پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو شہر میں صبح ہوئی خوف اور وحشت کی حالت میں کہ اچانک (دیکھتے کیا ہیں کہ) وہی شخص جس نے کل گزشتہ میں ان سے امداد چاہی ہے وہ پھر ان کو (مدد کے لئے) پکار رہا ہے کہ (کسی اور سے الجھ پڑا تھا) موسیٰ (علیہ السلام یہ دیکھ کر اور کل کی حالت یاد کر کے اس پر ناخوش ہوئے اور) اس سے فرمانے لگے بیشک تو صریح بد راہ (آدمی) ہے کہ روز لوگوں سے لڑا کرتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) کو قرآئن سے معلوم ہوا ہوگا کہ اس کی طرف سے بھی کوئی غصہ ہوا ہے لیکن زیادتی فرعونی کی دیکھ کر اس کو روکنے کا ارادہ کیا) سو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس پر ہاتھ بڑھایا جو دونوں کا مخالف تھا (مراد فرعونی ہے کہ وہ اسرائیلی کا بھی مخالف تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں سے ہیں اور وہ لوگ سب بنی اسرائیل کے مخالف تھے گویا بالتعیین موسیٰ (علیہ السلام) کو اسرائیلی نہ سمجھا ہو اور یا موسیٰ (علیہ السلام) چونکہ فرعون کے طریقہ سے نفور تھے یہ امر مشہور ہوگیا ہو اس لئے فرعون والے ان کے مخالف ہوگئے ہوں۔ بہرحال جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس فرعونی پر ہاتھ لپکایا اور اس سے پہلے اسرائیلی پر خفا ہوچکے تھے تو اس سے اس اسرائیلی کو شبہ ہوا کہ شاید آج مجھ پر دارو گیر کریں گے تو گھبرا کر) وہ اسرائیلی کہنے لگا اے موسیٰ کیا (آج) مجھ کو قتل کرنا چاہتے ہو جیسا کہ کل ایک آدمی کو قتل کرچکے ہو (معلوم ہوتا ہے کہ) بس تم دنیا میں اپنا زور بٹھلانا چاہتے ہو اور صلح ( اور ملاپ) کروانا نہیں چاہتے (یہ کلمہ اس فرعونی نے سنا، قاتل کی تلاش ہو رہی تھی اتنا سراغ لگ جانا بہت ہے فوراً فرعون کو خبر پہنچا دی۔ فرعون اپنے آدمی کے مارے جانے سے برہم تھا یہ سن کر آشفتہ ہوا اور شاید اس سے اس کا وہ خواب کا اندیشہ قوی ہوگیا ہو کہ کہیں وہ شخص یہی نہ ہو، خصوصاً اگر موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعونی طریقہ کو ناپسند کرنا بھی فرعون کو معلوم ہو تو کچھ عداوت اس سبب سے ہوگی اس پر یہ مزید ہوا۔ بہرحال اس نے اپنے درباریوں کو مشورہ کے لئے جمع کیا اور اخیر رائے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی قرار پائی) اور (اس مجمع میں) ایک شخص ( موسیٰ (علیہ السلام) کے محب اور خیر خواہ تھے وہ) شہر کے (اس) کنارے سے (جہاں یہ مشورہ ہو رہا تھا موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس نزدیک کی گلیوں سے) دوڑتے ہوئے آئے (اور) کہنے لگے کہ اے موسیٰ اہل دربار آپ کے متعلق مشورہ کر رہے ہیں کہ آپ کو قتل کردیں سو آپ (یہاں سے) چل دیجئے میں آپ کی خیر خواہی کر رہا ہوں پس (یہ سن کر) موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے (کسی طرف کو) نکل گئے، خوف اور وحشت کی حالت میں (اور چونکہ راستہ معلوم نہ تھا دعا کے طور پر) کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار مجھ کو ان ظالم لوگوں سے بچا لیجئے (اور امن کی جگہ پہنچا دیجئے۔- معارف ومسائل - وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَاسْتَوٰٓى، اشد کے لفظی معنے قوت و شدت کی انتہا پر پہنچنا ہے یعنی انسان بچپن کے ضعف سے تدریجاً قوت و شدت کی طرف بڑھتا ہے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کے وجود میں جتنی قوت و شدت آسکتی تھی وہ پوری ہوجائے اس وقت کو اشد کہا جاتا ہے اور یہ زمین کے مختلف خطوں اور قوموں کے مزاج کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے کسی کا اشد کا زمانہ جلد آجاتا ہے کسی کا دیر میں۔ لیکن حضرت ابن عباس اور مجاہد سے بروایت عبد ابن حمید یہ منقول ہے کہ اشد عمر کے تینتیس سال میں ہوتا ہے اسی کو سن کمال یا سن وقوف کہا جاتا ہے جس میں بدن کا نشو و نما ایک حد پر پہنچ کر رک جاتا ہے اس کے بعد چالیس کی عمر تک وقوف کا زمانہ ہے اسی کو استوی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے چالیس سال کے بعد انحطاط اور کمزوری شروع ہوجاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عمر کا اشد تینتیس سال کی عمر سے شروع ہو کر چالیس سال تک رہتا ہے۔ (روح و قرطبی)- اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا، حکم سے مراد نبوت و رسالت ہے اور علم سے مراد احکام الہیہ شرعیہ کا علم ہے۔ وَدَخَلَ الْمَدِيْنَةَ عَلٰي حِيْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا، المدینہ سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک شہر مصر ہے۔ اس میں داخل ہونے کے لفظ سے معلوم ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے باہر کہیں گئے ہوئے تھے پھر ایک روز اس شہر میں ایسے وقت داخل ہوئے جو عام لوگوں کی غفلت کا وقت تھا۔ آگے قتل قبطی کے قصہ میں اس کا بھی تذکرہ ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی نبوت و رسالت کا اور دین حق کا اظہار شروع کردیا تھا اسی کے نتیج میں کچھ لوگ ان کے مطیع و فرمانبردار ہوگئے تھے جو ان کے متبعین کہلاتے تھے مِنْ شِيْعَتِهٖ کا لفظ اس پر شاہد ہے۔ ان تمام قرائن سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے جو ابن اسحاق اور ابن زید سے منقول ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ہوش سنبھالا اور دین حق کی کچھ باتیں لوگوں سے کہنے لگے تو فرعون ان کا مخالف ہوگیا اور قتل کا ارادہ کیا مگر فرعون کی بیوی حضرت آسیہ کی درخواست پر ان کے قتل سے باز آیا مگر ان کو شہر سے نکالنے کا حکم دیدیا۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) شہر میں کسی جگہ رہنے لگے اور کبھی کبھی چھپ کر مصر شہر میں آتے تھے اور عَلٰي حِيْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک دوپہر کا وقت ہے جبکہ لوگ قیلولہ میں تھے۔ (قرطبی)- فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى، وکز کے معنے مکا مارنے کے ہیں، فَقَضٰى عَلَيْهِ ، قضاہ اور قضی علیہ کا محاورہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی شخص کا بالکل کام تمام کردے اور فارغ ہوجائے۔ اسی لئے یہاں اس کے معنی قتل کردینے کے ہیں۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَاسْتَوٰٓى اٰتَيْنٰہُ حُكْمًا وَّعِلْمًا۝ ٠ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ١٤- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - شد - الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء :- قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] ،- ( ش دد ) الشد - یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے - : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ - استوا - أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6]- ( س و ی ) المسا واۃ - کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے - حکمت ( نبوۃ)- قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه .- قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] - ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤) جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اٹھارہ سال سے گزر کر چالیس سال کو پہنچے ہم نے ان کو حکمت اور نبوت عطا فرمائی اور اسی طرح ہم انبیاء کرام کو فہم ونبوت دیا کرتے ہیں یا یہ کہ صالحین کو علم و حکمت دیا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَاسْتَوٰٓی اٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا ط) ” - یعنی جب آپ ( علیہ السلام) کے ظاہری اور باطنی قویٰ پورے اعتدال کے ساتھ استوار ہوگئے اور آپ ( علیہ السلام) پختگی کی عمر کو پہنچ گئے تو آپ ( علیہ السلام) کو خصوصی علم و حکمت سے نوازا گیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے نبوت مراد ہے ‘ مگر عمومی رائے یہی ہے کہ نبوت آپ ( علیہ السلام) کو بعد میں ملی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 18 یعنی جب ان کا جسمانی و ذہنی نشوونما مکمل ہوگیا ، یودی روایات میں اس وقت حضرت موسی کی مختلف عمریں بتائی گئی ہیں ۔ کسی نے 18 سال لکھی ہے ، کسی نے 20 سال ، اور کسی نے 40 سال ۔ بائیبل کے نئے عہد نامے میں 40 سال عمر بتائی گئی ہے ۔ ( اعمال 7 ۔ 23 ) لیکن قرآن کسی عمر کی تصریح نہیں کرتا ۔ جس مقصد کے لیے قصہ بیان کیا جارہا ہے اس کے لیے بس اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ آگے جس واقعہ کا ذکر ہورہا ہے وہ اس زمانے کا ہے جب حضرت موسی پورے شباب کو پہنچ چکے تھے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 19 حکم سے مراد حکمت ، دانائی ، فہم و فراست اور قوت فیصلہ ۔ اور علم سے مراد دینی اور دنیوی علوم دونوں ہیں ۔ کیونکہ اپنے والدین کے ساتھ ربط ضبط قائم رہنے کی وجہ سے ان کو اپنے باپ دادا ( حضرت یوسف ، یعقوب ، اسحاق اور ابراہیم علیہم السلام ) کی تعلیمات سے بھی واقفیت حاصل ہوگئی ، اور بادشاہ وقت کے ہاں شاہزادے کی حیثیت سے پرورش پانے کے باعث ان کو وہ تمام دنیوی علوم بھی حاصل ہوئے جو اس زمانے کے اہل مصر میں متداول تھے ، اس حکم اور علم کے عطیہ سے مراد نبوت کا عطیہ نہیں ہے ۔ کیونکہ حضرت موسی کو نبوت تو اس کے کئی سال بعد عطا فرمائی گئی ، جیسا کہ آگے آرہا ہے اور اس سے پہلے سورہ شعراء ( آیت 21 ) میں بھی بیان ہوچکا ہے ۔ اس زمانہ شاہزادگی کی تعلیم و تربیت کے متعلق بائیبل کی کتاب الاعمال میں بتایا گیا ہے کہ موسی نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کام اور کلام میں قوت والا تھا ( 7 ۔ 22 ) تلمود کا بیان ہے کہ موسی علیہ السلام فرعون کے گھر میں ایک خوبصورت جوان بن کر اٹھے ۔ شاہزادوں کا سا لباس پہنتے تھے ، شاہزادوں کی طرح رہتے ، اور لوگ ان کی نہایت تعظیم و تکریم کرتے تھے ، وہ اکثر جشن کے علاقے میں جاتے جہاں اسرائیلیوں کی بستیاں تھیں ، اور ان تمام سختیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے جو ان کی قوم کے ساتھ قبطی حکومت کے ملازمین کرتے تھے ، انہی کی کوشش سے فرعون نے اسرائیلیوں کے لیے ہفتہ میں ایک دن کی چھٹی مقرر کی ۔ انہوں نے فرعون سے کہا کہ دائما مسلسل کام کرنے کی وجہ سے یہ لوگ کمزور ہوجائیں گے اور حکومت ہی کے کام کا نقصان ہوگا ۔ ان کی قوت بحال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ہفتے میں ایک دن آرام کا دیا جائے ۔ اسی طرح اپنی دانائی سے انہوں نے اور بہت سے ایسے کام کیے جن کی وجہ سے تمام ملک مصر میں ان کی شہرت ہوگئی تھی ۔ ( اقتباسات تلمود ۔ صفحہ 129 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani