Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے چاہا کہ قطبی کو پکڑ لیں، کیونکہ وہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کا دشمن تھا، تاکہ لڑائی زیادہ نہ بڑھے۔ 192فریادی (اسرائیلی) سمجھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) شاید اسے پکڑنے لگے ہیں تو وہ بول اٹھا کہ اے موسٰی، جس سے قبطی کے علم میں یہ بات آگئی کہ کل جو قتل ہوا تھا، اس کا قاتل موسیٰ (علیہ السلام) ہے، اس نے جا کر فرعون کو بتلا دیا جس پر فرعون نے اس کے بدلے میں موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا عزم کرلیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٩] سبطی کو اس طرح ملامت کرنے کے بعد موسیٰ نے ارادہ کیا کہ قبطی کو پکڑ کر اس سبطی کو اس سے نجات دلائیں۔ مگر سبطی یہ سمجھا کہ موسیٰ نے چونکہ آج مجھے ہی ملامت کی ہے۔ لہذا مجھی پر ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں۔ لہذا وہ فوراً بک اٹھا اور کہنے لگا کہ موسیٰ کیا تم مجھے اسی طرح موت کے گھاٹ اتارنا چاہتے ہو جس طرح کل تم نے ایک آدمی کو مار ڈالا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان جھگڑے کی صورت میں کسی نہ کسی کو مار ڈالنا ہی جانتے ہو۔ ان کا مقدمہ سن کر ان میں صلح یا سمجھوتہ کرانا نہیں جانتے۔- قبطی نے جب سبطی کے منہ سے یہ بات سنی تو اس نے لڑائی جھگڑا تو وہیں چھوڑا اور ایک دم بھاگ کر فرعون اور اس کے اہلکاروں کو یہ اطلاع دے دی کہ کل جو قبطی قتل ہوا ہے اس کا قاتل موسیٰ ہے۔ گویا جس راز پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہے۔ اسے اسی احمق سبطی نے فاش کر ڈالا جس کی حمایت میں آپ نے قبطی کو مارا تھا۔ جب فرعون کے اہلکاروں کو قتل کے مجرم کا پتا چل گیا تو موسیٰ کی گرفتار کا حکم صادر ہوگیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّآ اَنْ اَرَادَ اَنْ يَّبْطِشَ بِالَّذِيْ ہُوَ عَدُوٌّ لَّہُمَا۝ ٠ۙ قَالَ يٰمُوْسٰٓى اَتُرِيْدُ اَنْ تَــقْتُلَنِيْ كَـمَا قَتَلْتَ نَفْسًاۢ بِالْاَمْسِ۝ ٠ۤۖ اِنْ تُرِيْدُ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ جَبَّارًا فِي الْاَرْضِ وَمَا تُرِيْدُ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِيْنَ۝ ١٩- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - بطش - البَطْشُ : تناول الشیء بصولة، قال تعالی: وَإِذا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ [ الشعراء 130] ، يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] ، وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر 36] ، إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج 12] . يقال : يد بَاطِشَة .- ( ب ط ش ) البطش کے معنی کوئی چیز زبردستی لے لینا کے ہیں قرآن میں : وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ ( سورة الشعراء 130) اور جب کسی کو پکڑتے تو ظالمانہ پکڑتے ہو ۔ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر 36] اور لوط نے ان کو ہماری گرفت سے ڈرایا ۔ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج 12] بیشک تمہاری پروردگار کی گرفت بڑی سخت ہے ید کا طشۃ سخت گیر ہاتھ ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- جبر - أصل الجَبْر : إصلاح الشیء بضرب من القهر، - والجبّار في صفة الإنسان يقال لمن يجبر نقیصته بادّعاء منزلة من التعالي لا يستحقها، وهذا لا يقال إلا علی طریق الذم، کقوله عزّ وجل : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] - ( ج ب ر ) الجبر - اصل میں جبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ الجبار انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلی سے اپنے نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا ۔ بدیں معنی اس کا استعمال بطور مذمت ہی ہوتا ہے ۔ جیسے قران میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہ گیا ۔ - صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩) سو جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قبطی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اسرائیلی کو شبہ ہوا کہ شاید آج مجھ سے مواخذہ کریں گے گھبرا کر کہنے لگا اے موسیٰ (علیہ السلام) کیا آج مجھ کو قتل کرنا چاہتے ہو جیسا کہ کل ایک قبطی کو قتل کرچکے ہو معلوم ہوتا ہے کہ سر زمین مصر میں تم اپنا زور بٹھانا چاہتے ہو امر بالعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے صلح کرانا نہیں چاہتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (فَلَمَّآ اَنْ اَرَادَ اَنْ یَّبْطِشَ بالَّذِیْ ہُوَ عَدُوٌّ لَّہُمَالا) ” - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آگے تو بڑھے تھے اس قبطی کو پکڑنے کے لیے تاکہ اسے اپنے اسرائیلی بھائی کو مارنے سے روک سکیں ‘ لیکن چونکہ آپ ( علیہ السلام) کے غصے کا رخ اسرائیلی کی طرف تھا اور اس کو سختی سے ڈانٹتے ہوئے آپ ( علیہ السلام) نے اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ کہا تھا ‘ اس لیے وہ سمجھا کہ آپ ( علیہ السلام) اس کی پٹائی کرنا چاہتے ہیں ‘ چناچہ :- (قَالَ یٰمُوْسٰٓی اَتُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْ کَمَا قَتَلْتَ نَفْسًام بالْاَمْسِق) ” - گویا اس نے اپنی حماقت سے بھانڈا ہی پھوڑ دیا کہ کل والا قتل موسیٰ (علیہ السلام) نے کیا تھا۔- (وَمَا تُرِیْدُ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ ) ” - گویا اس مکالمے سے اس اسرائیلی نے ثابت کردیا کہ وہ خود ایک منفی سوچ کا حامل اور گھٹیا کردار کا مالک شخص تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 28 بائیبل کا بیان یہاں قرآن کے بیان سے مختلف ہے ۔ بائیبل کہتی ہے کہ دوسرے دن کا جھگڑا دو اسرائیلیوں کے درمیان تھا ۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ یہ جھگڑا بھی اسرائیلی اور مصری کے درمیان ہی تھا ، قرین قیاس بھی یہی دوسرا بیان معلوم ہوتا ہے ، کیونکہ پہلے دن کے قتل کا راز فاش ہونے کی جو صورت آگے بیان ہو رہی ہے وہ اسی طرح رونما ہوسکتی تھی کہ مصری قوم کے ایک شخص کو اس واقعہ کی خبر ہوجاتی ۔ ایک اسرائیلی کے علم میں اس کے آجانے سے یہ امکان کم تھا کہ اپنی کے پشیبان شہزادے کے اتنے بڑے قصور کی اطلاع پاتے ہی وہ جاکر فرعونی حکومت میں اس کی مخبری کردیتا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 29 یہ پکارنے والا وہی اسرائیلی تھا جس کی مدد کے لیے حضرت موسی آگے بڑھے تھے ۔ اس کو ڈانٹنے کے بعد جب آپ مصری کو مارنے کے لیے چلے تو اس اسرائیلی نے سمجھا کہ یہ مجھے مارنے آرہے ہیں ، اس لیے اس نے چیخنا شروع کردیا اور اپنی حماقت سے کل کے قتل کا راز فاش کر ڈالا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہاتھ تو اس مصری قبطی کی طرف بڑھایا تھا، تاکہ اسے مارنے سے روکیں، لیکن اسرائیلی نے جب اُن کا یہ جملہ سناکہ: ’’تم بڑے شریر آدمی ہو‘‘ تو وہ یہ سمجھا کہ وہ اِس کو مارنے کے لئے ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ اِس لئے اس نے یہ بات کہی۔