Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

271ہمارے ملک میں کسی لڑکی والے کی طرف سے نکاح کی خواہش کا اظہار معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن شریعت اللہ میں یہ برا نہیں ہے۔ صفات محمودہ کا حامل لڑکا اگر مل جائے تو اسے یا اس کے گھر والوں سے اپنی لڑکی کے لئے رشتے کی بابت بات چیت کرنا برا نہیں ہے۔ بلکہ محمود اور پسندیدہ ہے، عہد رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی یہی طریقہ تھا۔ 272اس سے علماء نے اجارے کے جواز پر استدلال کیا ہے یعنی کرائے اور اجرت پر مرد کی خدمات حاصل کرنا جائز ہے 273یعنی مزید دو سال کی خدمت میں مشقت اور ایزاء محسوس کریں تو آٹھ سال کے بعد جانے کی اجازت ہوگی۔ 274نہ جھگڑا کرونگا نہ اذیت پہنچاؤں گا، نہ سختی سے کام لونگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٧] باپ نے بھی لڑکیوں کی اس رائے سے اتفاق کرلیا۔ مگر اب مشکل یہ تھی کہ گھر میں اتنی آسودگی تو تھی نہیں کہ موسیٰ کو کچھ ماہوار تنخواہ پر ملازم رکھا جاسکتا۔ اور اس سے بھی بڑی مشکل یہ تھی کہ گھر میں ایک نوجوان کو کیسے ملازم رکھا جاسکتا ہے جبکہ گھر میں دو نوجوان لڑکیاں بھی موجود ہوں۔ لڑکیوں سے باہمی مشورہ کے بعد ایک دن موسیٰ سے پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ میں ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اور آپ نکاح کے بعد میرے ہی پاس رہ کر گھر کا سارا کام کاج سنبھال لیں۔ اور نکاح کے بعد کم از کم آٹھ سال تو ضرور میرے پاس رہیں۔ اور اگر یہ مدت آٹھ سال سے بڑھا کر دس سال کردیں تو آپ کی مہربانی ہوگی۔ میری طرف سے اس زائد مدت کے لئے پابندی نہ ہوگی۔ اور میں انشاء اللہ اس معاملہ کو نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کی کوشش کروں گا اور کوئی سخت خدمت تم سے نہ لوں گا۔ اور نہ کسی طرح کی سختی تم مجھ میں دیکھو گے۔- اس مقام پر بعض لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ آیا ایک باپ اپنی لڑکی کے حق مہر کے عوض خود معاوضہ لے سکتا ہے یا نہیں ؟ ہمارے خیال میں یہ سوال غلط مبحث ہے۔ یہاں معاملہ ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک نکاح کا معاملہ۔ دوسرے نکاح کے بعد گھر کا کام سنبھالنے کا معاملہ۔ یعنی شعیب نے شرط صرف یہ لگائی تھی کہ نکاح کے بعد تم اپنی بیوی کو لے کر چلے نہیں بنو گے۔ بلکہ تم کم از کم آٹھ سال میرے ہاں ہی قیام پذیر رہو گے۔ اس وقت یہ گھر جیسے میرا ہے ویسے ہی تمہارا بھی ہوگا۔ یہ سوال صرف اس صورت میں اٹھایا جاسکتا تھا جب آٹھ یا دس سال کی مدت گزرنے کے بعد شعیب اپنی لڑکی کا نکاح موسیٰ سے کرتے۔ آپ کی مجبوری ہی یہ تھی کہ لڑکیوں والے گھر میں ایک اجنبی آدمی کیسے رہ سکتا ہے۔ لہذا جلد از جلد اس کا نکاح کرکے اسے گھر میں رکھا جاسکے۔ رہا نکاح کے مہر کے مسولہ تو وہ تھوڑے سے تھوڑا بھی ہوسکتا ہے۔ حتیٰ کہ لوہے کی ایک انگوھی بھی اور اتنا حق مہر ایک پردیسی بھی ادا کرسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَـتَيَّ هٰتَيْنِ ۔۔ : باپ نے بیٹی کی رائے سے اتفاق کرلیا، مگر جوان بیٹیوں کی موجودگی میں ایک غیر محرم مرد کو گھر میں رکھنا مناسب نہیں تھا، اس لیے اس مرد دانا نے فیصلہ کیا کہ ایک بیٹی کا اس صالح جوان کے ساتھ نکاح کر کے اسے مزدور کے طور پر گھر میں رکھ لے۔ چناچہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : (اِنِّیْ اُرِیْدُ ) ” یقیناً میں ارادہ رکھتا ہوں۔ “ اہل علم فرماتے ہیں، اس بزرگ نے ”إِنَّ “ کے ساتھ تاکید اس لیے کی کہ عام طور پر لوگ کسی اجنبی جوان کو جو مالی لحاظ سے بھی فقیر ہو، رشتہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اس لیے اس نے کہا، یقیناً میں ارادہ رکھتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تجھ سے کر دوں، اس شرط پر کہ تو آٹھ سال میری مزدوری کرے گا۔۔- 3 اس سے معلوم ہوا کہ کسی صالح آدمی کو اپنی بیٹی کے رشتے کی پیش کش خود کردینے میں کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ ایسا ہونا چاہیے۔ بیشمار لڑکیاں اس لیے نکاح سے محروم بیٹھی ہیں کہ ان کے والد انتظار میں ہیں کہ کوئی ہم سے رشتہ پوچھے، جبکہ لڑکوں کے والدین انکار کے خوف سے رشتہ مانگنے کی جرأت نہیں کرتے۔ نتیجہ اس کا لڑکے لڑکیوں دونوں کا نکاح سے محروم رہنا ہے۔ صحابہ کرام میں سے عمر (رض) کا عمل اس کا بہترین نمونہ ہے۔ ان کی بیٹی حفصہ (رض) خنیس بن حذافہ (رض) کے فوت ہونے سے بیوہ ہوگئی، جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بدری صحابہ میں سے تھے۔ عمر (رض) نے فرمایا : ” میں عثمان بن عفان (رض) کے پاس گیا اور انھیں حفصہ کا رشتہ پیش کیا، انھوں نے کہا، میں اس بارے میں سوچوں گا، کچھ راتیں گزریں تو مجھے ملے اور کہنے لگے : ” میری رائے یہی ٹھہری ہے کہ میں ان دنوں نکاح نہ کروں۔ “ عمر (رض) فرماتے ہیں : ” پھر میں ابوبکر صدیق (رض) سے ملا اور ان سے کہا : ” اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ بنت عمر کا نکاح آپ سے کر دوں۔ “ ابوبکر خاموش رہے، مجھے کچھ جواب نہیں دیا، میں دل میں ان پر عثمان سے بھی زیادہ ناراض ہوا۔ چند راتیں گزریں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے نکاح کا پیغام بھیج دیا، تو میں نے حفصہ کا نکاح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کردیا۔ “ [ بخاري، النکاح، باب عرض الإنسان ابنتہ أو أختہ علی أھل الخیر : ٥١٢٢ ] دیکھیے عمر بن خطاب (رض) سے بڑھ کر غیرت مند کون ہوگا، مگر اپنی بیٹی کے رشتے کی پیش کش خود کر رہے ہیں۔- 3 بعض لوگ اس واقعہ سے استدلال کرتے ہیں کہ نکاح میں لڑکی کا مہر یہ ہوسکتا ہے کہ خاوند اس کے والد کی مزدوری کرے، مگر یہ استدلال درست نہیں، کیونکہ مہر عورت کا حق ہے نہ کہ اس کے باپ کا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے بیان میں صرف نکاح کے ارادے اور اس کی شرط کا ذکر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کم از کم آٹھ سال اپنے سسر کے ساتھ رہیں گے، اس سے پہلے اپنی بیوی کو لے کر نہیں جائیں گے۔ اگر یہ عقد نکاح ہوتا تو اس میں دو لڑکیوں میں سے ایک لڑکی کی تعیین ہوتی اور ارادے کے الفاظ کے بجائے یہ الفاظ ہوتے کہ میں نے اپنی فلاں لڑکی کا نکاح اتنے مہر میں تمہارے ساتھ کیا۔ قرآن نے نکاح کے لیے ابتدائی گفتگو اور والد کی شرط کا ذکر کیا ہے، عقد نکاح اور مہر وغیرہ کی تفصیل کا ذکر چھوڑ دیا ہے، کیونکہ اس کے بیان کی یہاں ضرورت نہیں تھی۔ - 3 اس واقعہ سے مزدوری کرنے کا جواز بلکہ اس کا استحباب ثابت ہوتا ہے اور اس کے ضمن میں بکریاں رکھنے اور انھیں چرانے کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اجرت پر بکریاں چرائی ہیں۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا بَعَثَ اللّٰہُ نَبِیًّا إِلَّا رَعَی الْغَنَمَ ) ” اللہ تعالیٰ نے جو بھی نبی بھیجا اس نے بکریاں چرائی ہیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے پوچھا : ” تو کیا آپ نے بھی (چرائی ہیں) ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( نَعَمْ کُنْتُ أَرْعَاھَا عَلٰی قَرَارِیْطَ لِأَھْلِ مَکَّۃَ ) [ بخاري، الإجارۃ، باب رعي الغنم علی قراریط : ٢٢٦٢ ] ” ہاں، میں اہل مکہ کے لیے چند قیراطوں پر بکریاں چرایا کرتا تھا۔ “- 3 یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی لمبی مدت تک بکریاں چرانے کی اجرت کیا تھی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مزدوری صرف کھانا اور کپڑا ہی تھی، جیسا کہ عتبہ بن ندر السلمی (رض) سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” طسم “ کی تلاوت کی، یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے پر پہنچے، تو فرمایا : ” موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی شرم گاہ کی عفت اور پیٹ کے کھانے پر آٹھ سال یا دس سال اپنے آپ کو مزدور بنائے رکھا۔ “ [ ابن ماجہ، الرھون، باب إجارۃ الأجیر علی طعام بطنہ : ٢٤٤٤ ] ابن کثیر (رض) نے اس پر فرمایا : ” اس طریق سے یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ مسلمہ بن علی ( خُشنی، دمشقی اور ہلالی) ائمہ کے نزدیک روایت میں ضعیف ہے۔ ایک اور سند سے بھی یہ حدیث آئی ہے مگر اس میں بھی نظر ہے۔ “- ابن کثیر (رض) نے بعض روایات نقل کی ہیں کہ جس سال موسیٰ (علیہ السلام) نے رخصت ہونا تھا اس سال ان کے سسر نے ان سے کہا کہ اس سال جو بکری اپنے رنگ سے مختلف بچہ دے وہ تمہارا ہوگا، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ایسی کسی روایت کی سند صحیح نہیں۔ بعض صحابہ کے اقوال موجود ہیں، مگر ظاہر ہے کہ وہ اسرائیلیات سے ہیں، کیونکہ وہ صحابہ اس واقعہ کے وقت موجود نہیں تھے، نہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات روایت کرتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ یہ بات اسی طرح چھوڑ دی جائے جس طرح قرآن نے تفصیل کے بغیر چھوڑ دی ہے، اگر یہ بات ہدایت کے لیے ضروری ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور بیان فرما دیتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

کوئی ملازمت یا عہدہ سپرد کرنے کے لئے اہم شرطیں دو ہیں :- حضرت شعیب (علیہ السلام) کی صاحبزادی کی زبان پر اللہ تعالیٰ نے بڑی حکمت کی بات جاری فرمائی۔ آج کل سرکاری عہدوں اور ملازمتوں کے لئے کام کی صلاحیت اور ڈگریوں کو تو دیکھا جاتا ہے مگر دیانت و امانت کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عام دفتروں اور عہدوں کی کارروائی میں پوری کامیابی کے بجائے رشوت خوری، اقرباء پروری وغیرہ کی وجہ سے قانون معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ کاش لوگ اس قرآنی ہدایت کی قدر کریں تو سارا نظام درست ہوجائے۔- قَالَ اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَـتَيَّ هٰتَيْنِ ، یعنی لڑکیوں کے والد حضرت شعیب (علیہ السلام) نے خود ہی اپنی طرف سے اپنی لڑکی کو ان کے نکاح میں دینے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کے ولی کو چاہئے کہ کوئی مرد صالح ملے تو اس کا انتظار نہ کرے کہ اسی کی طرف سے نکاح کے معاملہ کی تحریک ہو، بلکہ خود بھی پیش کردینا سنت انبیاء ہے جیسا کہ عمر بن خطاب نے اپنی صاحبزادی حضرت حفصہ کے بیوہ ہوجانے کے بعد از خود ہی صدیق اکبر اور عثمان غنی سے ان کے نکاح کی پیشکش کی تھی۔ (قرطبی)- اِحْدَى ابْنَـتَيَّ هٰتَيْنِ ، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے دونوں لڑکیوں میں سے کسی کو معین کر کے گفتگو نہیں فرمائی بلکہ اس کو مبہم رکھا کہ ان میں سے کسی ایک کو آپ کے نکاح میں دینے کا ارادہ ہے مگر چونکہ یہ گفتگو باقاعدہ عقد نکاح کی گفتگو نہ تھی جس میں ایجاب و قبول گواہوں کے سامنے ہونا شرط ہے بلکہ معاملہ کی گفتگو تھی کہ آپ کو آٹھ سال کی نوکری اس نکاح کے عوض میں منظور ہو تو ہم نکاح کردیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس پر معاہدہ کرلیا۔ آگے یہ خود بخود ظاہر ہے کہ باقاعدہ نکاح کیا گیا ہو اور قرآن کریم عموماً قصہ کے ان اجزاء کو ذکر نہیں کرتا جن کا وقوع سیاق وسباق سے ظاہر اور یقینی ہو۔ اس تحقیق کی بناء پر یہاں یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ زوجہ منکوحہ کو متعین کئے بغیر نکاح کیسے ہوگیا یا گواہوں کے بغیر کیسے ہوگیا (کذا فی الروح وبیان القرآن) - عَلٰٓي اَنْ تَاْجُرَنِيْ ثَمٰـنِيَ حِجَجٍ ، یہ آٹھ سال کی ملازمت و خدمت نکاح کا مہر قرار دیا گیا اس میں ائمہ فقہاء کا اختلاف ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی خدمت و ملازمت کو اس کا مہر قرار دے سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کی مکمل تحقیق مع دلائل کے بزبان عربی احکام القرآن سورة قصص میں مفصل لکھ دی گئی ہے اہل علم وہاں دیکھ سکتے ہیں عوام کے لئے اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ اگر یہ معاملہ مہر کا شریعت محمدیہ کے لحاظ سے درست نہ ہو تو ہوسکتا ہے کہ شریعت شعیب (علیہ السلام) میں درست ہو اور شرائع انبیاء میں ایسے فروعی فرق ہونا نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔- امام اعظم ابوحنیفہ سے ظاہر الروایت میں یہی صورت منقول ہے کہ خدمت زوجہ کو مہر نہیں بنایا جاسکتا مگر ایک روایت جس پر علماء متاخرین نے فتوی دیا ہے یہ ہے کہ خود بیوی کی خدمت کو مہر بنانا تو شوہر کی تکریم و احترام کے خلاف ہے مگر بیوی کا کوئی ایسا کام جو گھر سے باہر کیا جاتا ہے جیسے مواشی چرانا یا کوئی تجارت کرنا اگر اس میں شرائط اجارہ کے مطابق مدت معین کردی گئی ہو جیسا کہ اس واقعہ میں آٹھ سال کی مدت معین ہے تو اس کی صورت یہ ہوگی کہ اس مدت کی ملازمت کی تنخواہ جو بیوی کے ذمہ لازم ہو تو اس تنخواہ کو مہر قرار دینا جائز ہے (ذکرہ فی البدائع عن نوادر ابن سماعہ)- ہاں ایک دوسرا سوال یہاں یہ ہوتا ہے کہ مہر تو بیوی کا حق ہے بیوی کے باپ یا کسی عزیز کو بغیر اجازت زوجہ مہر کی رقم نقد بھی دے دی جائے تو مہر ادا نہیں ہوتا۔ اس واقعہ میں اَنْ تَاْجُرَنِيْ کے الفاظ اس پر شاہد ہیں کہ والد نے ان کو اپنے کام کے لئے ملازم رکھا تو ملازمت کا جو معاوضہ ہے وہ والد کو ملا، تو یہ زوجہ کا مہر کیسے بن گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً تو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ بکریاں لڑکیوں ہی کی ملک ہوں اور یہ ملازمت کا فائدہ اس حیثیت سے خود لڑکی کو پہنچا۔ دوسرے اگر باپ ہی کا کام انجام دیا اور اس کی تنخواہ والد کے ذمہ لازم ہوئی تو یہ زر مہر لڑکی کا ہوگیا لڑکی کی اجازت سے والد کو بھی اس کا استعمال درست ہے یہاں ظاہر ہے کہ یہ معاملہ لڑکی کی اجازت سے ہوا ہے۔- مسئلہ : لفظ اُنْكِحَكَ سے ثابت ہوا کہ نکاح کا معاملہ والد نے کیا ہے باجماع فقہاء ایسا ہی ہونا چاہئے کہ لڑکی کا ولی اس کے نکاح کے معاملہ کی کفالت کرے، لڑکی خود اپنا نکاح نہ کرے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کسی لڑکی نے خود اپنا نکاح کسی ضرورت و مجبوری سے کرلیا تو وہ منعقد ہوجاتا ہے یا نہیں ؟ اس میں ائمہ فقہاء کا اختلاف ہے امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک نکاح منعقد ہوجاتا ہے اور یہ آیت اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں دیتی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَـتَيَّ ہٰتَيْنِ عَلٰٓي اَنْ تَاْجُرَنِيْ ثَمٰـنِيَ حِجَجٍ ٠ ۚ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ۝ ٠ ۚ وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَيْكَ۝ ٠ ۭ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللہُ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝ ٢٧- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - نكح - أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی - [ النور 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ- [ النساء 25] إلى غير ذلک من الآیات .- ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔- تمَ- تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ- [ الصف 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] .- ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- شق ( مشقت)- والشِّقُّ : الْمَشَقَّةُ والانکسار الذي يلحق النّفس والبدن، وذلک کاستعارة الانکسار لها . قال عزّ وجلّ : لَمْ تَكُونُوا بالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل 7] ، والشُّقَّةُ : النّاحية التي تلحقک المشقّة في الوصول إليها، وقال : بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] - ( ش ق ق ) الشق - الشق اس مشقت کو کہتے ہیں جو تگ دود سے بدن نا نفس کو ناحق ہوتی ہے جیسا کہ الانکسار کا لفظ بطور استعارہ نفس کی درماندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل 7] زحمت شاقہ کے بغیر الشقۃ وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے ۔ قرآن میں ہے َبَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] لیکن مسافت ان کو دور ( دراز ) نظر آئی ۔ - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

شعراء کی دو اقسام - قول باری ہے : (والشعرآء یتبعھم الغادون۔ رہے شعرآء ، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلتے ہیں) سفیان نے سلمہ بن کہیل سے روایت کی ہے، انہوں نے مجاہد سے کہ آیت میں نافرمان قسم کے جن مراد ہیں۔ خصیف نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ جب دو شاعر ایک دوسرے کی ہجو کرتے ہیں تو سرکش اور بہکے ہوئے لوگوں کا ایک گروہ ایک کا ساتھ دیتا ہے اور دوسرا گروہ دوسرے کا۔ “ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان شعراء کا ذکر کیا جن کی نشانیاں یہ ہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو خود کرتے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس شخص کے ساتھ تشبیہ دی جو منہ اٹھائے ہر اس وادی میں بھٹکتا پھرتا ہے جو اسے نظر آجاتی ہے وہ یہ رویہ خواہشات کے غلبے کے تحت اختیار کرتا ہے اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے آیا وہ غلط ہے یا صحیح یا اس کا نجام کیا ہوگا۔- حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ نے (فی کل واد یھیمون) وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں کہ تفسیر میں کہا ہے۔ ” وہ ہر لغو اور بےہودہ بات بات میں گھس پڑتے ہیں۔ کسی کی تعریف کرتے ہیں اور کسی کی مذمت۔ دونوں صورتوں میں ان کے پیش نظر جھوٹ اور خلاف واقعہ باتیں ہوتی ہیں۔ “- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کا یہ ارشاد مروی ہے : (لان یمتلی جوف احدکم قیحا حتی یریہ خیر لہ من ان یمتلی شعرا۔ ) اگر تم میں سے کسی کا خول پیپ سے بھر جائے یہاں تک کہ وہ اس کے پھیپھڑے کو زخمی کردے یہ بات اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ اس کا خول شعروں سے پر ہوجائے۔ اس ارشاد میں قابل مذمت اشعار مراد ہیں جن کے قائلین کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مذمت کی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان شعرآء کو ان سے مستثنیٰ کردیا ہے چناچہ ارشاد ہے : (الاالذین امنوا وعملوا الصالحات وذکروا اللہ کثیرا وانتصروا من بعد ما ظلموا) بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کیے اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان بن ثابت (رض) سے فرمایا تھا : (اھجھم ومعک روح القدس۔ ان کی خبر لو، تمہارے ساتھ روح القدس ہے۔ ) یہ بات قول باری (اوانتصروا من بعد ماظلموا) کے مطابق ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (ولمن انتصر بعد ظلمہ فالئک ما علیھم من سبیل۔ ) جن لوگوں پر ظلم ہوا ہے وہ اگر صرف بدلہ لے لیں تو ان پر کوئی گرفت نہیں ہے۔- نیز ارشاد ہے : (لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم۔ اللہ یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کوئی آدمی بدگوئی پر زبان کھولے الا یہ کہ اس پر ظلم کیا گیا ہو۔ ) حضرت ابی بن کعب (رض) اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان من الشعر لحکمۃ بعض اشعار حکمت کی باتوں پر مشتمل ہوتے ہیں)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٧) فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں لڑکیوں میں میں سے ایک کی تمہارے ساتھ شادی کر دوں، اس شرط پر کہ تم آٹھ سال تک میری بکریاں چراؤ پھر اگر تم دس سال پورے کر دو تو یہ تمہاری طرف سے احسان ہے اور میں اس دس سال کے پورا کرنے میں تمہیں مجبور کرنا نہیں چاہتا تم مجھے انشاء اللہ خوش معاملہ پاؤ گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (قَالَ اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ اُنْکِحَکَ اِحْدَی ابْنَتَیَّ ہٰتَیْنِ ) ” - چنانچہ شیخ مدین اپنی بیٹی کے مشورے کی روشنی میں جو ارادہ کرچکے تھے اس بارے میں انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اعتماد میں لینا چاہا کہ وہ اپنی ایک بیٹی ان کے نکاح میں دینا چاہتے ہیں۔- (عَلٰٓی اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمٰنِیَ حِجَجٍ ج) ” - ممکن ہے اس وقت اس علاقے میں نکاح کے بدلے لڑکے سے معاوضہ لینے کا رواج ہو۔ بہر حال شیخ مدین نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اگر وہ آٹھ سال تک ان کی خدمت کریں ‘ ان کی بھیڑ بکریاں چرائیں اور گھر کے دوسرے کام کاج کریں تو اس کے بدلے میں وہ اپنی ایک بیٹی ان کے نکاح میں دے دیں گے۔- (فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِکَ ج) ” - یعنی اگر تم آٹھ سال کے بجائے دس سال پورے کر دو یہ تمہاری طرف سے ایک طرح کا احسان ہوگا۔- (وَمَآ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْکَ ط) ” - یعنی تمہیں اطمینان ہونا چاہیے کہ اس دوران میری طرف سے تم پر کوئی بےجا سختی نہیں کی جائے گی اور بہت بھاری کام کے باعث کسی بےجا مشقت میں نہیں ڈالا جائے گا۔- (سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآء اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ) ” - معاملات کے سلسلے میں ان شاء اللہ تم مجھے ایک راست باز اور کھرا آدمی پاؤ گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر :38 یہ بھی ضروری نہیں کہ بیٹی کی بات سنتے ہی باپ نے فورا حضرت موسی سے یہ بات کہہ دی ہو ، قیاس چاہتا ہے کہ انہوں نے بیٹی کے مشورے پر غور کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہوگی کہ آدمی شریف سہی مگر جوان بیٹیوں کے گھر میں ایک جوان ، تندرست و توانا آدمی کو یونہی ملازم رکھ چھوڑنا مناسب نہیں ہے ۔ جب یہ شریف ، تعلیم یافتہ ، مہذب اور خاندانی آدمی ہے ( جیسا کہ حضرت موسی کا قصہ سن کر انہیں معلوم ہوچکا ہوگا ) تو کیوں نہ اسے داماد بنا کر ہی گھر میں رکھا جائے ۔ اس رائے پر پہنچنے کے بعد انہوں نے کسی مناسب وقت پر حضرت موسی سے یہ بات کہی ہوگی ۔ یہاں پھر بنی اسرائیل کی ایک کرم فرمائی ملاحظہ ہو جو انہوں نے اپنے جلیل القدر نبی ، اپنے سب سے بڑے محسن اور قومی ہیرو پر کی ہے ، تلمود میں کہا گیا ہے کہ موسی رعویل کے ہاں رہنے لگے اور وہ اپنے میزبان کی بیٹی صفورہ پر نظر عنایت رکھتے تھے ، یہاں تک کہ آخر کار انہوں نے اس سے بیاہ کرلیا ۔ ایک اور یہودی روایت جو جیوش انسائیکلوپیڈیا میں نقل کی گئی ہے ، یہ ہے کہ حضرت موسی نے جب یتھرو کو اپنا سارا ماجرا سنایا تو اس نے سمجھ لیا کہ یہی وہ شخص ہے جس کے ہاتھوں فرعون کی سلطنت تباہ ہونے کی پیشن گوئیاں کی گئی تھیں ، اس لیے اس نے فورا حضرت موسی کو قید کرلیا تاکہ انہیں فرعون کے حوالہ کر کے انعام حاصل کرے ، سات یا دس سال تک وہ اس کی قید میں رہے ، ایک تاریک تہ خانہ تھا جس میں وہ بند تھے ، مگر یتھرو کی بیٹی زفورا ( یا صفورا ) جس سے کنویں پر ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی ، چپکے چپکے ان سے قید خانہ میں ملتی رہی اور انہیں کھانا پانی بھی پہنچاتی رہی ، ان دونوں میں شادی کی خفیہ قرارداد ہوچکی تھی ، سات یا دس سال کے بعد زفورا نے اپنے باپ سے کہا کہ اتنی مدت ہوئی آپ نے ایک شخص کو قید میں ڈال دیا تھا اور پھر اس کی خبر تک نہ لی ، اب تک اسے مرجانا چاہیے تھا ، لیکن اگر وہ اب بھی زندہ ہو تو ضرور کوئی کدا رسیدہ آدمی ہے ، یتھرو اس کی یہ بات سن کر جب قید خانے میں گیا تو حضرت موسی کو زندہ دیکھ کر اسے یقین آگیا کہ وہ معجزے سے زندہ ہیں ، تب اس نے زفورا سے ان کی شادی کردی ۔ جو مغربی مستشرقین قرآنی قصوں کے مآخذ ڈھونڈتے پھرتے ہیں انہیں کہیں یہ کھلا فرق بھی نظر آتا ہے جو قرآن کے بیان اور اسرائیلی روایات میں پایا جاتا ہے؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

18: اُس وقت تو حضرت شعیب علیہ السلام نے دونوں میں سے کسی ایک صاحبزادی کی تعیین نہیں کی، لیکن جب باقاعدہ نکاح ہوا تو متعین کر کے معروف طریقے کے مطابق ہوا۔ اور اُجرت پر کام کرنے سے مراد بکریاں چرانا تھا۔ بہت سے فقہا اور مفسرین نے یہ قرار دیا ہے کہ بکریاں چرانے کو حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی صاحبزادی کا مہر مقرر کیا تھا، لیکن اس پر اوّل تو یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آیا بیوی کا کوئی کام کرنا مہر بن سکتا ہے یا نہیں؟ اِس میں فقہا کا اختلاف ہے، دوسرے یہاں تو بیوی کا نہیں، بلکہ بیوی کے والد کا کام کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ جو حضرات اس معاہدے کو مہر قرار دیتے ہیں اگرچہ اُنہوں نے اس اشکال کا بھی جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن وہ تکلّف سے خالی نہیں ہے۔ اس کے برعکس بعض مفسرین اور فقہا نے یہ موقف اختیار فرمایا ہے کہ بکریاں چرانا بطور مہر نہیں تھا۔ بلکہ یہ دو الگ الگ باتوں کی مفاہمت تھی، حضرت شعیب علیہ السلام یہ چاہتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اُن کی بکریاں بھی چرائیں جس کی اجرت الگ مقرّر ہو، اور ان کی صاحبزادی سے نکاح بھی کریں، جس کا مہر الگ سے قاعدے کے مطابق طے کیا جائے اِن دونوں باتوں کے بارے میں ان کی مرضی معلوم کرنے کے لئے آپ نے دونوں باتیں ذکر فرمائیں، تاکہ جب وہ ان باتوں کو منظور کر کے وعدہ کرلیں تو نکاح اس کے اپنے طریقے سے کیا جائے جس میں لڑکی کا تعین بھی ہو، گواہ بھی ہوں اور مہر بھی مقرّر کیا جائے اور ملازمت کا معاہدہ اپنے طریقے سے کیا جائے جس میں اجرت باقاعدہ مقرّر کی جائے۔ چنانچہ یہ دونوں معاملات اپنے اپنے اِحکام کے مطابق اپنے اپنے وقت پر انجام پائے اور اُس وقت صرف اِن معاملات کو آئندہ وجود میں لانے کا دونوں طرف سے وعدہ کیا گیا۔ لہٰذا اس پر یہ اشکال بھی نہیں ہوسکتا کہ ایک معاملے کو دوسرے معاملے کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ یہی مؤقف علامہ بدر الدین عینیؒ نے شرح بخاری میں اختیار فرمایا ہے۔ (دیکھئے عمدۃ القاری، کتاب الاجارات، ص : 85 ج 12)