2 6 1بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ باپ نے بچیوں سے پوچھا تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ یہ طاقتور بھی ہے اور ایمان دار بھی، جس پر بچیوں نے بتلایا کہ جس کنویں سے پانی پلایا، اس پر اتنا بھاری پتھر رکھا ہوتا ہے کہ اسے اٹھانے کے لئے دس آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ اس شخص نے وہ پتھر اکیلے ہی اٹھا لیا اور پھر بعد میں رکھ دیا اسی طرح جب میں اس کو بلا کر ساتھ لا رہی تھی، تو چونکہ راستے کا علم مجھے ہی تھا، میں آگے آگے چل رہی تھی اور یہ پیچھے پیچھے لیکن ہوا سے میری چادر اڑ جاتی تھی تو اس شخص نے کہا تو پیچھے چل، میں آگے آگے چلتا ہوں تاکہ میری نگاہ تیرے جسم کے کسی حصے پر نہ پڑے۔ راستے کی نشان دہی کے لئے پیچھے سے پتھر کی کنکری مار دیا کر، واللہ اعلم (ابن کثیر)
[٣٦] حضرت شعیب کا کوئی لڑکا نہ تھا۔ بس دو لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں جنہیں اندر اور باہر دونوں طرف کے کام کرنا پڑتے تھے۔ لہذا شعیب پہلے اس جستجو میں تھے کہ کوئی شریف آدمی مل جائے تو اسے ملازم رکھ لیا جائے۔ حضرت موسیٰ کے چند روزہ قیام میں ہی گھر کے سب افراد نے حضرت موسیٰ کے متعلق یہ رائے قائم کرکے اس پر اتفاق کرلیا کہ اگر یہی پردیسی نوجوان ہمارے ہاں رہنا قبول کرلی تو یہ بہت مناسب رہے گا۔ چناچہ ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک لڑکی نے اپنے باپ سے کہا کہ اگر آپ کوئی آدمی ملازم رکھنا ہی چاہتے ہیں تو شاید اس سے بہتر آپ کو کوئی آدمی نہ مل سکے۔ کیونکہ یہ شخص نوجوان ہے اور طاقتور ہے۔ ہلکے اور بھاری سب کام کرسکتا ہے۔ دوسرے یہ امین بھی ہے۔ اور یہ باتیں اس لڑکی نے اپنے مشاہدہ کی بنا پر کہی تھیں۔ حضرت موسیٰ نے اکیلے وہ ڈول کنوئیں سے کھینچ لیا تھا۔ جسے دو آدمی بمشکل کھینچتے تھے۔ پھر وہ لڑکی جب انھیں گھر لانے کے لئے گئی تھی۔ تو اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کس قدر باحیا، دیانت دار، خدا ترس اور امین آدمی ہے۔- ضمناً اس آیت یہ بھی معلوم ہوا کہ ملازمت کے لئے دو باتوں کو دیکھنا ضروری ہے ایک یہ کہ جس کام کے لئے کوئی شخص ملازم رکھا جارہا ہے۔ وہ اس کی اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ بالفاظ دیگر اس کام کا اسے پہلے سے کچھ علم اور تجربہ ہے ؟ اور اگر کوئی محنت والا کام ہے تو کیا اس کی جسمانی حالت اور قوت اتنی ہے کہ وہ اس کام کو بجا لاسکے۔ اور دوسرے یہ کہ وہ دیانتدار اور امین ہو۔ اور یہ دیانت و امانت دین سے بیزار اور خدا فراموش آدمیوں میں کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔- اب تعجب کی بات یہ ہے کہ جب کسی شخص نے کوئی نجی یا گھریلو ملازم رکھنا ہو تو وہ ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھتا ہے تو سرکاری ملازمتوں کے وقت صرف شرط اول یعنی اہلیت کو تو ملحوظ رکھا جاتا ہے لیکن دوسری شرط کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اور غالباً اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ملازم رکھنے والے افسروں میں بھی یہ دوسری شرط مفقود ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رشوت عام ہوجاتی ہے۔ جس کا تعلق ملازمین سے ہی ہوتا ہے۔ لوگوں کے حقوق غصب اور تلف ہوتے ہیں۔ ظالمانہ قسم کی حکومت قائم ہوجاتی ہے اور عوام کے لئے اتنی شکایات اور مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کا حل ناممکن ہوجاتا ہے۔ اور اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہوتی ہے کہ شرائط ملازمت میں سے دوری شرط دیانت و امانت کو درخور اعتناء سمجھا ہی نہیں جاتا۔
قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا يٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ : ان دونوں میں سے ایک نے کہا، ابا جان آپ اسے مزدور رکھ لیں، تاکہ ہم عورتوں کو بکریاں چرانے کی مشقت سے رہائی مل جائے۔ ضروری نہیں کہ اس نے یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) کی اس کے باپ سے پہلی ملاقات کے وقت ہی کہہ دی ہو۔ تین دن مہمان نوازی تو حق ہے، اس لیے غالب یہی ہے کہ اس دوران ان لڑکیوں اور ان کے والد نے موسیٰ (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ کا اچھی طرح سے مشاہدہ کرلیا تو لڑکی نے اپنے باپ سے یہ بات کہی۔- اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ : تفسیر ابن کثیر میں ہے : ” عمر، ابن عباس، شریح قاضی، ابو مالک، قتادہ، محمد بن اسحاق اور کئی ایک نے فرمایا کہ اس کے والد نے پوچھا، تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی ؟ اس نے کہا، اس نے وہ پتھر اٹھا لیا جو دس آدمیوں سے کم اٹھا نہیں سکتے اور جب میں اس کے ساتھ آئی تو اس کے آگے چل رہی تھی، اس نے مجھ سے کہا، میرے پیچھے چلی آؤ اور جہاں راستہ بدلنا ہو مجھے کنکری کے ساتھ اشارہ کر دو ، میں سمجھ جاؤں گا کس طرف جانا ہے۔ “ تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا، عمر اور ابن عباس (رض) کا قول ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ [ ابن أبي حاتم : ١٦٨٤٣ ] دوسرے ائمہ کے اقوال بھی طبری (٢٧٦٠٩) یا ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیے ہیں، مگر یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی نہیں، اس لیے اس کا ماخذ اسرائیلی روایات ہی ہے۔ - 3 سب سے بہتر شخص جسے تم اجرت پر رکھو وہ ہے جو قوت والا اور امانت دار ہو۔ یہ ہے وہ قاعدہ جو کسی شخص کو ذمہ داری دیتے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک وقت میں یہ دونوں صفات بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ کوئی شخص اگر کام کی اہلیت اور قوت رکھتا ہے تو امانت میں کمزور ہے اور اگر امین ہے تو قوت و اہلیت نہیں رکھتا۔ آج کل حکومتیں کسی عہدے پر مقرر کرنے سے پہلے امتحانات اور انٹرویو کے ذریعے سے اہلیت کا اندازہ تو کرتی ہیں مگر امانت کا نہیں، نتیجہ بےحساب بددیانتی اور خیانت ہے، جس نے مسلمان ملکوں کی معیشت اور معاشرت دونوں کا بیڑا غرق کردیا ہے۔- 3 اس بات سے اس لڑکی کی کمال فراست اور آدمیوں کی پہچان کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : ” لوگوں میں سب سے زیادہ فراست والے تین ہیں، ابوبکر (رض) کی فراست عمر (رض) کے بارے میں، عزیز مصر کی یوسف (علیہ السلام) کے متعلق فراست، جب اس نے بیوی سے کہا : (اَکْرِمِیْ مَثْواہ) [ یوسف : ٢١ ] ” اس کی رہائش باعزت رکھ۔ “ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ والی خاتون کی فراست کہ جس نے کہا : (يٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ ۡ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ ) [ القصص : ٢٦ ] ” اے میرے باپ اسے اجرت پر رکھ لے، کیونکہ سب سے بہتر شخص جسے تو اجرت پر رکھے طاقت ور، امانت دار ہی ہے۔ “ [ ابن أبي حاتم : ١٦٨٣٨ ]
اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ ، یعنی شعیب (علیہ السلام) کی ایک صاحبزادی نے اپنے والد سے عرض کیا کہ آپ کو گھر کے کاموں کے لئے ملازم کی ضرورت ہے آپ ان کو نوکر رکھ لیجئے کیونکہ ملازم میں دو صفتیں ہونا چاہئیں ایک کام کی قوت و صلاحیت دوسرے امانتداری۔ ہمیں ان کے پتھر اٹھا کر پانی پلانے سے ان کی قوت وقدرت کا، اور راستہ میں لڑکی کو اپنے پیچھے کردینے سے امانتداری کا تجربہ ہوچکا ہے۔
قَالَتْ اِحْدٰىہُمَا يٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْہُ ٠ۡاِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ ٢٦- أجير - والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔
(٢٦) اس چھوٹی لڑکی نے کہا کہ اباجان ان کو ملازم رکھ لیجیے کیوں کہ اچھا نوکر وہ ہے جو مضبوط اور امانت دار بھی ہو۔
آیت ٢٦ (قَالَتْ اِحْدٰٹہُمَا یٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْہُز) ” - اِسْتَاْجَرَ ” اج ر “ مادہ سے باب استفعال ہے۔ ” مُسْتأجِر “ وہ شخص ہے جو کسی کو اجرت پر ملازم رکھے ‘ جبکہ اجرت پر کام کرنے والے کو عربی میں ” آجر “ یا ” اَجِیر “ کہا جاتا ہے (ہمارے ہاں عام طور پر آجر کے معنی اجرت دینے والا یا ملازم رکھنے والا کے لیے جاتے ہیں جو غلط ہیں) ۔ بہر حال عربی میں یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں۔ ” اَجِیر “ صفت مشبہ ہے اور ” آجر “ اسم الفاعل ۔- (اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ ) ” - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت کی یہ دونوں خصوصیات ان بچیوں کے مشاہدے میں آچکی تھیں۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ جب ان کی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے آپ ( علیہ السلام) کنویں کی طرف بڑھے تھے تو آپ کا ڈیل ڈول دیکھ کر کسی چرواہے نے آپ ( علیہ السلام) سے الجھنے کی جرأت نہیں کی تھی اور سب نے بلا چون و چرا آپ ( علیہ السلام) کو پانی پلانے کا موقع دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ ان بچیوں کو آپ ( علیہ السلام) کے شریفانہ رویہ سے آپ ( علیہ السلام) کی امانت داری کا تجربہ بھی ہوچکا تھا۔ کسی مردکاسامنا کرتے ہوئے ایک شریف عورت فطری طور پر اس کی نظر کے بارے میں بہت حساسّ ہوتی ہے۔ آپ ( علیہ السلام) نے چونکہ لڑکیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ‘ اس لیے انہوں نے آپ ( علیہ السلام) کی امانتداری کی گواہی دی کہ جس شخص کی نگاہ میں خیانت نہیں ہے وہ کسی اور معاملے میں بھی خیانت نہیں کرے گا۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 37 ضروری نہیں کہ یہ بات لڑکی نے اپنے باپ سے حضرت موسی کی پہلی ملاقات کے وقت ہی کہہ دی ہو ۔ اغلب یہ ہے کہ اس کے والد نے اجنبی مسافر کو ایک دو روز اپنے پاس ٹھہرا لیا ہوگا اور اس دوران میں کسی وقت بیٹی نے باپ کو یہ مشورہ دیا ہوگا ، اس مشورے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی کبر سنی کے باعث مجبورا ہم لڑکیوں کو کام کے لیے نکلنا پڑتا ہے ۔ ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے کہ باہر کے کام سنبھالے ، آپ اس شخص کو ملازم رکھ لیں ، مضبوط آدمی ہے ، ہر طرح کی مشقت کرے گا ، اور بھرسے کے قابل آدمی ہے ، محض اپنی شرافت کی بنا پر اس نے ہم عورتوں کو بے بس کھڑا دیکھ کر ہماری مدد کی ، اور کبھی ہماری طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا ۔
17: یہ وہی خاتون تھیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے گئی تھیں، اِن کا نام صفورا تھا، اور پھر انہی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نکاح ہوا، گھر میں ایک ایسے مرد کی ضرورت تھی جو گھر کے باہر کے کاموں کی دیکھ بھال کرے، اور عورتوں کو بکریاں چرانے اور انہیں پانی پلانے کی ضرورت نہ پڑے، اس لئے اُنہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ آپ اِنہیں اس کام پر رکھ لیں اور اس کی باقاعدہ اجرت طے کرلیں، اور خاتون کا یہ جملہ کہ : ’’آپ کسی سے اجرت پر کام لیں تو اِس کے لئے بہترین شخص وہ ہے جو طاقتور بھی ہو، امانت دار بھی۔‘‘ ان کی کمال عقل مندی کا ثبوت ہے، اﷲ تعالیٰ نے ان کا یہ جملہ نقل فرماکر ملازمت کے فیصلے کے لئے بہترین معیار عطا فرمادیا ہے کہ ایک اچھے ملازم میں یہی دو بنیادی خصوصیات ہونی چاہئیں، ایک یہ کہ جو فرائض اُس کے سپرد کئے گئے ہیں، وہ اُن کو بجالانے کی جسمانی اور ذہنی طاقت رکھتا ہو، اور دوسرے یہ کہ امانت دار ہو۔ خاتون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان دونوں باتوں کا تجربہ ہوچکا تھا، پانی پلانے کے لئے اُنہوں نے جو طریقہ اختیار فرمایا کہ ایک نہایت بھاری پتھر کو ہٹا کر کنویں سے پانی نکالا، یہ اُن کی جسمانی اور ذہنی صلاحیت کی دلیل تھی، اور جہاں تک امانت داری کا تعلق ہے، اُس کا تجربہ خاتون کو اس طرح ہوا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام خاتون کے ساتھ چلنے لگے تو اُن سے کہا کہ آپ میرے پیچھے رہیں، اور راستہ بتاتی جائیں، تاکہ اُن کی شرم و حیا اور عفت و عصمت کا پورا احترام ہو۔ اس قسم کی امانت چونکہ کم دیکھنے میں آتی ہے، اس لئے وہ سمجھ گئیں کہ امانت و دیانت ان کا خاص وصف ہے۔