Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت موسیٰ اور شعیب علیہما السلام کا معاہدہ ان دونوں بچیوں کی بکریوں کو جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پانی پلادیا تو یہ اپنی بکریاں لیکر واپس اپنے گھر گئیں ۔ باپ نے دیکھا کہ آج وقت سے پہلے یہ آگئیں ہیں تو دریافت فرمایا کہ آج کیا بات ہے؟ انہوں نے سچا واقعہ کہہ سنایا ۔ آپ نے اسی وقت ان دونوں میں سے ایک کو بھیجا کہ جاؤ اور ان کو میرے پاس لے آؤ ۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں اور جس طرح گھر گھر ہست پاک دامن عفیفہ عورتوں کا دستور ہوتا ہے شرم وحیا سے اپنی چادر میں لپٹی ہوئی پردے کے ساتھ چل رہی تھی ۔ منہ بھی چادر کے کنارے سے چھپائے ہوئے تھیں پھر اس دانائی اور صداقت کو دیکھئے کہ صرف یہی نہی کہاکہ میرے ابا آپ کو بلا رہے ہیں کیونکہ اس میں شبہ کی باتوں کی گنجائش تھی صاف کہہ دیا کہ میرے والد آپ کی مزدوری دینے کے لئے اور اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے بلا رہے ہیں ۔ جو آپ نے ہماری بکریوں کو پانی پلاکر ہمارے ساتھ کیا ہے ۔ کلیم اللہ کو جو بھوکے پیاسے تن تنہا مسافر اور بےخرچ تھے یہ موقعہ غنیمت معلوم ہوا یہاں آئے ۔ انہیں ایک بزرگ سمجھ کر ان کے سوال پر اپنا سارا واقعہ بلاکم وکاست سنایا ۔ انہوں نے دل جوئی کی اور فرمایا اب کیا خوف ہے؟ ان ظالموں کے ہاتھ سے آپ نکل آئے ۔ یہاں ان کی حکومت نہیں ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ بزرگ حضرت شعیب علیہ السلام تھے جو مدین والوں کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے ہوئے تھے ۔ یہ مشہور قول امام حسن بصری رحمۃ اللہ کا ہے اور بہت سے علماء بھی یہی فرماتے ہیں ۔ طبرانی کی ایک حدیث میں ہے کہ جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی قوم کی طرف سے ایلچی بن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا شعیب کی قوم اور موسیٰ کے سسرال والوں کو مرحبا ہو کہ تمہیں ہدایت کی گئی ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حضرت شعیب کے بھتیجے تھے کوئی کہتا ہے کہ قوم شعیب کے ایک مومن مرد تھے ۔ بعض کا قول ہے کہ شعیب علیہ السلام کا زمانہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے بہت پہلے کا ہے ۔ ان کا قول قرآن میں اپنی قوم سے یہ مروی ہے کہ ( وَمَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِيْدٍ 89 ؀ ) 11-ھود:89 ) لوط کی قوم تم سے کچھ دور نہیں ۔ اور یہ بھی قرآن سے ثابت ہے کہ لوطیوں کی ہلاکت حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے زمانے میں ہوئی تھی ۔ اور یہ بھی بہت ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان کا زمانہ بہت لمبا زما نہ ہے ۔ تقریبا چار سو سال کا ہے جیسے اکثر مورخین کا قول ہے ہاں بعض لوگوں نے اس مشکل کا یہ جواب دیا ہے کہ حضرت شعیب کی بڑی لمبی عمر ہوئی تھی ۔ ان کا مقصد غالبا اس اعتراض سے بچنا ہے واللہ اعلم ۔ ایک اور بات بھی خیال میں رہے کہ اگر یہ بزرگ حضرت شعیب علیہ السلام ہی ہوئے تو چاہئے تھا کہ قرآن میں اس موقعہ پر ان کا نام صاف لے دیا جاتا ۔ ہاں البتہ بعض احادیث میں یہ آیا ہے کہ یہ حضرت شعیب علیہ السلام تھے ۔ لیکن ان احادیث کی سندیں صحیح نہیں جیسے کہ ہم عنقریب وارد کریں گے ان شاء اللہ تعالٰی ، بنی اسرائیل کی کتابوں میں ان کا نام ثیرون بتلایا گیا ہے واللہ اعلم ۔ حضرت ابن مسعود کے صاحبزادے فرماتے ہیں ثیرون حضرت شعیب کے بھتیجے تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ یثربی تھے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں یہ بات اس وقت ہوتی کہ جب اس بارے میں کوئی خبر مروی ہوتی اور ایسا ہے نہیں ۔ ان کی دونوں صاحبزادیوں میں سے ایک نے باپ کی توجہ دلائی ۔ یہ توجہ دلانے والی صاحبزادی وہی تھیں جو آپ کو بلانے گئی تھیں ۔ کہا کہ انہیں آپ ہماری بکریوں کی چرائی پر رکھ لیجئے کیونکہ وہ کام کرنے والا اچھا ہوتا ہے جو قوی اور امانت دار ہو ۔ باپ نے بیٹی سے پوچھا تم نے یہ کیسے جان لیا کہ ان میں یہ دونوں وصف ہیں ۔ بچی نے جواب دیا کہ دس آدمی مل کر جس پتھر کو کنویں سے ہٹا سکتے تھے انہوں نے تنہا اس کو ہٹادیا ان سے انکی قوت کا اندازہ با آسانی ہوسکتا ہے ۔ امانت داری کا علم مجھے اس طرح ہوا کہ جب میں انہیں لے کر آپ کے پاس آنے لگی تو اس لئے کہ راستے سے ناواقف تھے میں آگے ہولی انہوں نے کہاتم میرے پیچھے رہو اور جہاں راستہ بدلنا ہو اس طرف کنکر پھینک دینا میں سمجھ لونگا کہ مجھے اس راستے چلنا چاہیے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تین شخص کی سی زیرکی ، معاملہ فہی ، دانائی اور دوربینی کسی اور میں نہیں پائی گئی ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دانائی کہ جب انہوں نے اپنے بعد خلافت کے لئے جناب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتخب کیا ۔ حضرت یوسف کے خریدنے والے مصری جنہوں نے بیک نظر حضرت یوسف کو پہچان لیا اور جاکر اپنی بیوی سے فرمایا کہ انہیں اچھی طرح رکھو ۔ اور اس بزرگ کی صاحبزادی جنہوں نے حضرت موسی کی نسبت اپنے باپ سے سفارش کی کہ انہیں اپنے کام پر رکھ لیجئے ۔ یہ سنتے ہی اس بچی کے باپ نے فرمایا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں اس مہر پر ان دو بچیوں میں سے ایک کا نکاح آپ کے ساتھ کردیتا ہوں کہ آپ آٹھ سال تک ہماری بکریاں چرائیں ۔ ان دونوں کا نام صفورا اور اولیا تھا یا صفورا اور شرفایا صفوررا ورلیا ۔ اصحاب ابی حنیفہ رحمۃ اللہ نے اسی سے استدلال کیا ہے کہ جب کوئی شخص اس طرح کی بیع کرے کہ ان دوغلاموں میں سے ایک کو ایک سوکے بدلے فروخت کرتا ہوں اور خریدار منظور کرلے تو یہ بیع ثابت اور صحیح ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اس بزرگ نے کہا کہ آٹھ سال تو ضروری ہے اس کے بعد آپ کو اختیار ہے دس سال کا ۔ اگر آپ اپنی خوشی سے دوسال تک اور بھی میراکام کریں تو اچھا ہے ورنہ آپ پر لازمی نہیں ۔ آپ دیکھیں گے کی میں بد آدمی نہیں آپ کو تکلیف نہ دونگا ۔ امام اوزاعی نے اس سے استدلال کرکے فرمایا ہے کہ اگر کوئی کہے میں فلاں چیز کو نقد دس اور ادھار بیس پر بیچتا ہوں تو یہ بیع صحیح ہے اور خریدار کو اختیار ہے کہ دس پر نقد لے بیس پر ادھارلے ۔ وہ اس حدیث کا بھی یہی مطلب لے رہے ہیں جس میں ہے جو شخص دو بیع ایک بیع میں کرے اسکے لئے کمی والی بیع ہے یاسود ۔ لیکن یہ مذہب غور طلب ہے جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں واللہ اعلم ۔ اصحاب امام محمد نے اس آیت سے استدلال کرکے کہا ہے کہ کھانے پینے اور کپڑے پر کسی کو مزدوری اور کام کاج پر لگالینا درست ہے ۔ اس کی دلیل میں ابن ماجہ کی ایک حدیث بھی ہے جو اس بات میں ہے کہ مزدور مقرر کرنا اس مزدوری پر کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھالیاکرے گا اس میں حدیث لائیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ طس کی تلاوت کی جب حضرت موسیٰ کے ذکر تک پہنچے تو فرمانے لگے موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پیٹ کے بھرنے اور اپنی شرم گاہ کو بچانے کے لئے آٹھ سال یادس سال کے لئے اپنے آپ کو ملازم کرلیا ۔ اس حدیث کا راوی مسلمہ بن علی خشنی ہے جو ضعیف ہے ۔ یہ حدیث دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن وہ سند بھی نظر سے خالی نہیں ۔ کلیم اللہ نے برزگ کی اس شرط کو قبول کرلیا اور فرمایا کہ ہم تم میں یہ طے شدہ فیصلہ ہے مجھے اختیار ہوگا کہ خواہ دس سال پورے کروں یا آٹھ سال کے بعد چھوڑ دوں آٹھ سال کے بعد آپ کا کوئی حق مزدوری مجھ پر لازم نہیں ۔ ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے اس معاملہ پر گواہ کرتے ہیں اسی کی کارسازی کافی ہے ۔ تو گو دس سال پورا کرنا مباح ہے لیکن وہ فاضل چیز ہے ضروری نہیں ضروری آٹھ سال ہیں جیسے منی کے آخری دو دن کے بارے میں اللہ کا حکم ہے اور جیسے کہ حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا جو بکثرت روزے رکھاکرتے تھے کہ اگر تم سفر میں روزے رکھو تو تمہیں اختیار ہے اور اگر نہ رکھو تو تمہیں اختیار ہے باوجودیکہ دوسری دلیل سے رکھنا افضل ہے ۔ چنانچہ اس کی دلیل بھی آچکی ہے کہ حضرت موسیٰ نے دس سال ہی پورے کئے ۔ بخاری شریف میں ہے سعید بن جبیر سے یہودیوں نے سوال کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آٹھ سال پورے کئے تھے یادس سال؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے خبر نہیں پھر میں عرب کے بہت بڑے عالم حضرت ابن عباس کے پاس گیا اور ان سے یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا ان دونوں میں جو زیادہ اور پاک مدت تھی وہی آپ نے پوری کی یعنی دس سال ۔ اللہ تعالیٰ کے نبی جو کہتے ہیں پورا کرتے ہیں ۔ حدیث فنون میں ہے کہ سائل نصرانی تھا لیکن بخاری میں جو ہے وہی اولیٰ ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے سوال کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کون سی مدت پوری کی تھی تو جواب ملا کہ ان دونوں میں سے جو کامل اور مکمل مدت تھی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا آپ نے جبرائیل سے پوچھا جبرائیل نے اور فرشتے سے یہاں تک کہ فرشتے نے اللہ سے ۔ اللہ نے جواب دیا کہ دونوں میں ہی پاک اور پوری مدت یعنی دس سال ۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال کی مدت کا پورا کرنا بتایا کہ یہ بھی فرمایا کہ اگر تجھ سے پوچھا جائے کہ کون سی لڑکی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نکاح کیا تھا تو جواب دینا کہ دونوں میں جو چھوٹی تھیں اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدت دراز کو پوراکرنا بتایا پھر فرمایا کہ جب موسیٰ حضرت شیعب علیہ السلام سے رخصتی لے کر جانے لگے تو اپنی بیوی صاحبہ سے فرمایا کہ اپنے والد سے کچھ بکریاں لے لو جن سے ہمارا گزارہ ہوجائے آپ نے اپنے والد سے سوال کیا جس پر انہوں نے وعدہ کیا کہ اس میں سے جتنی چت کبری بکریاں ہونگی سب تمہاری حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بکریوں کے پیٹ پر اپنی لکڑی پھیری تو ہر ایک کو دو دو تین تین بچے ہوئے اور سب کے سب چت کبرے جن کی نسل اب تک تلاش کرنے سے مل سکتی ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت شعیب کی سب بکریاں کالے رنگ کی خوبصورت تھیں ۔ جتنے بچے ان کے اس سال ہوئے سب کے سب بےعیب تھے اور بڑے بڑے بھرے ہوئے تھنوں والے اور زیادہ دودھ دینے والے ان تمام روایتوں کا مدار عبد اللہ بن لہیعہ پر ہے جو حافظہ کے اچھے نہیں اور ڈر ہے کہ یہ روایتیں مرفوع نہ ہوں ۔ چنانچہ اور سند سے یہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفا مروی ہے ۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ سب بکریوں کے بچے اس سال ابلق ہوئے سوائے ایک بکری کے ۔ جن سب کو آپ لے گئے ۔ علیہ السلام

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

251اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمالی اور دونوں میں سے ایک لڑکی انہیں بلانے آگئی۔ لڑکی کی شرم و حیا کا قرآن نے بطور خاص ذکر کیا ہے کہ یہ عورت کا اصل زیور ہے اور مردوں کی طرح حیاء و حجاب سے بےنیازی اور بےباکی عورت کے لئے شرعا ناپسندیدہ ہے۔ 252بچیوں کا باپ کون تھا ؟ قرآن کریم نے وضاحت سے کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ مفسرین کی اکثریت نے اس سے مراد حضرت شعیب (علیہ السلام) کو لیا ہے جو اہل مدین کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ امام شوکانی نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا زمانہ نبوت، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بہت پہلے کا ہے۔ اس لئے یہاں حضرت شعیب (علیہ السلام) کا برادر زادہ یا کوئی اور قوم شعیب (علیہ السلام) کا شخص مراد ہے، واللہ اعلم۔ بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بچیوں کے ساتھ ہمدردی اور احسان کیا، وہ بچیوں نے جا کر بوڑھے باپ کو بتلایا، جس سے باپ کے دل میں بھی ہمدردی پیدا ہوئی کہ احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دیا جائے یا اس کی محنت کی اجرت ہی ادا کردی جائے۔ 253یعنی اپنے مصر کی سرگزشت اور فرعون کے ظلم و ستم کی تفصیل سنائی جس پر انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ فرعون کی حدود حکمرانی سے باہر ہے اس لئے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے ظالموں سے نجات عطا فرما دی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] یہ عورتیں دل ہی دل میں ان کی احسان مند تھیں کہ ایک اجنبی شخص نے ان سے کیسی بھلائی کی ہے۔ واپس جاتے ہوئے مڑ کر جو دیکھا تو موسیٰ ایک درخت کے سایہ میں آبیٹھے تھے۔ اس سے انہوں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ کوئی مسافر ہے۔ جس کے رہنے کے لئے یہاں کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔ موسیٰ کو ابھی سایہ میں بیٹھے اور اللہ سے دعا کئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی، کہ ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک لڑکی لجائی شرمائی منہ چھپائے اور گھونگٹ لٹکائے آپ کے پاس آکر کہنے لگی کہ میرا والد آپ کو بلا رہا ہے۔ آپ نے ہماری بکریوں کو پانی پلا کر ہم پر جو احسان فرمایا ہے وہ آپ کو اس کا کچھ بدلہ دینا چاہتا ہے۔ گویا اللہ نے حضرت موسیٰ کی دعا کو بہت بلند شرف قبولیت بخشا اور جس خیر کو طلب کر رہے تھے اللہ نے غیر متوقع طور پر اس خبر کا فوراً سامان کردیا۔- موسیٰ فوراً اس لڑکی کے ساتھ ہو لئے۔ اسی بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بھوک سے کس قدر بےتاب تھے۔ پھر وہ اس جگہ ٹھکانا بھی چاہتے تھے اور اپنا کوئی مونس غم خوار بھی انھیں درکار تھا۔ ورنہ ایک شریف آدمی نے اگر عورت ذات کو پریشانی میں مبتلا دیکھ کر اس کی کوئی مدد کردی ہو تو حضرت موسیٰ جیسے عالی ظرف انسان کے لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کام کا بدلہ دینے کے لئے کہا جائے تو وہ فوراً اٹھ کھڑے ہوں۔ آپ نے بھی اس لڑکی سے کہا کہ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں مگر میں آگے آگے چلوں گا تم میرے پیچھے پیچھے آؤ۔ البتہ مجھے راستہ کی رہنمائی کرتے جانا اور یہ آپ نے اس لئے کہا کہ اجنبی عورت پر عمداً نظر پڑنے کی نوبت نہ آئے۔ چناچہ وہ پیچھے پیچھے راستہ بتلاتی انھیں لے کر اپنے گھر پہنچ گئی۔- [٣٥] گھر پہنچ کر موسیٰ نے لڑکیوں کے باپ کو اپنی زندگی کے مختصراً اور واقعہ قتل اور وہاں سے فرار ہونے کا واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ سنا دیا۔ اگرچہ لڑکیوں کے باپ کے متعلق یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا وہ شعیب تھے یا کوئی اور بزرگ تھے۔ لیکن اکثر مفسرین نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ وہ شعیب تھے۔ بہرحال جو بزرگ بھی وہ تھے، نیک اور دیندار تھے وہ دین ابراہیمی کے پیرو تھے۔ ان میں اور موسیٰ کے عقائد و خیالات اور کردار میں پوری ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ چناچہ موسیٰ کے حالات سن کر انہوں نے تسلی دی کہ اب گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ آپ اس ظالم قوم کی حکومت کی حدود سے باہر آچکے ہیں اور اب آپ میرے ہاں قیام فرمائیے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے وقتی طور پر موسیٰ کے قیام و طعام کا مسئلہ حل فرما دیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَجَاۗءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِيْ عَلَي اسْـتِحْيَاۗءٍ : ” عَلٰی حَیَاءٍ “ کا معنی ہے حیا کے ساتھ، ” عَلَي اسْـتِحْيَاۗءٍ “ میں حروف زیادہ ہونے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، یعنی بہت حیا کے ساتھ۔- 3 شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ” عورتوں نے پہچانا کہ چھاؤں پکڑتا ہے مسافر ہے، دور سے آیا ہوا تھکا، بھوکا، جا کر اپنے باپ سے کہا۔ “ ابن کثیر لکھتے ہیں : ” جب وہ دونوں باپ کے پاس جلدی واپس پہنچ گئیں تو اسے تعجب ہوا اور اس نے ان سے اس کے متعلق پوچھا، انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے احسان کا ذکر کیا، تو اس نے ان میں سے ایک کو انھیں بلانے کے لیے بھیجا۔ “- ” تو ان دونوں میں سے ایک بہت حیا کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ کے پاس آئی۔ “ سبحان اللہ وہ خاتون کس قدر باحیا ہوگی جس کے بہت حیا کی شہادت رب العالمین نے دی ہے۔ ” تَمْشِيْ باسْتِحْیَاءٍ “ کے بجائے ” تَمْشِيْ عَلَي اسْـتِحْيَاۗءٍ “ اس لیے فرمایا گویا وہ حیا کی سواری پر سوار ہو کر چلی آرہی تھی، حیا کی ہر صورت اس کی دسترس میں تھی۔ ابن ابی حاتم نے عمر (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ( فَجَاۗءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِيْ عَلَي اسْـتِحْيَاۗءٍ ) قَاءِلَۃٌ بِثَوْبِھَا عَلٰی وَجْھِھَا لَیْسَتْ بِسَلْفَعِ مِنَ النِّسَاءِ وَلَّاجَۃً ، خَرَّاجَۃً ) [ طبري : ٢٧٥٨٥۔ ابن أبي حاتم : ١٦٨٣٢] ” وہ نہایت حیا کے ساتھ اپنا کپڑا چہرے پر ڈالے ہوئے آئی، بےباک عورتوں کی طرح نہیں جو بےدھڑک اور بےخوف چلی آتی ہوں، ہر جگہ جا گھستی ہر طرف نکل جاتی ہوں۔ “ ابن کثیر نے فرمایا : ” ھٰذَا إِسْنَادٌ صَحِیْحٌ“ اور تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا : ” وَ سَنَدُہُ صَحِیْحٌ۔ “ ظاہر یہی ہے کہ یہ اسرائیلی روایت ہے، مگر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام (رض) کے ہاں حیا کا مطلب کیا تھا۔ جو لوگ چہرے کے پردے کے قائل نہیں انھیں غور کرنا چاہیے کہ امیر المومنین چہرہ ڈھانکنے کو حیا قرار دے رہے ہیں۔- قَالَتْ اِنَّ اَبِيْ يَدْعُوْكَ : اس خاتون کے بلانے کے انداز سے بھی اس کی کمال دانائی اور حیا ظاہر ہو رہی ہے۔ اس نے اپنی طرف سے ساتھ چلنے کو نہیں کہا، بلکہ باپ کی طرف سے پیغام دیا، کیونکہ ایک باحیا خاتون کو زیب ہی نہیں دیتا کہ کسی اجنبی مرد کو ساتھ چلنے کے لیے کہے۔- لِيَجْزِيَكَ اَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا : یہ بات بھی اس نے حیا ہی کی وجہ سے کہی، کیونکہ ایک غیر مرد کو ساتھ لے جانے کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے، اس کے بغیر شبہات پیدا ہوسکتے تھے، جن کا اس نے پہلے ہی سدباب کردیا۔- 3 یہاں مفسرین نے ایک سوال اٹھایا ہے کہ انبیاء تو احسان کا بدلا نہیں لیتے، پھر موسیٰ (علیہ السلام) پانی پلانے کی اجرت لینے کے لیے کیوں چل پڑے ؟ جواب اس کا ایک تو یہ ہے کہ یہ معروف معنوں میں اجرت نہیں، بلکہ احسان کا بدلا ہے، احسان کے بدلے میں کوئی احسان کرے تو اسے قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، جیسا کہ فرمایا : (هَلْ جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ ) [ الرحمٰن : ٦٠ ]” نیکی کا بدلا نیکی کے سوا کیا ہے۔ “ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہدیہ قبول کرتے تھے اور اس کا بدلا بھی دیتے تھے، حدیث کے الفاظ ہیں : ( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْبَلُ الْھَدِیَّۃَ وَ یُثِیْبُ عَلَیْھَا ) [ بخاري، الھبۃ، باب المکافأۃ في الھبۃ : ٢٥٨٥ ] پھر موسیٰ (علیہ السلام) اس وقت سخت اضطرار کی حالت میں تھے، انھوں نے اس دعوت کو اپنی دعا کی قبولیت کا نتیجہ سمجھا اور خواہ مخواہ کی خود داری سے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اس موقع کو ضائع نہیں کیا۔ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ اگر کسی کو اصرار ہو کر یہ اجرت ہی تھی تو محنت کے بدلے میں مزدوری لینا موسیٰ (علیہ السلام) منع نہیں سمجھتے تھے، نہ ہی یہ منع ہے، خصوصاً جب کوئی بلا طلب مزدوری دے دے، جیسا کہ خضر (علیہ السلام) کے واقعہ میں ہے کہ جب انھوں نے گرتی ہوئی دیوار سیدھی کردی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا : ( لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ اَجْرً ) [ الکہف : ٧٧ ] ” اگر تو چاہتا تو ضرور اس پر کچھ اجرت لے لیتا۔ “- فَلَمَّا جَاۗءَهٗ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ : جب موسیٰ (علیہ السلام) اس بزرگ کے پاس آئے تو ظاہر ہے سب سے پہلی بات تعارف تھا، چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا نام و نسب، اپنی قوم پر فرعون کا ظلم و ستم، اپنی پیدائش اور پرورش کا قصہ اور ایک نادانستہ قتل پر فرعون کے ان کی جان کے درپے ہونے کا حال بیان کیا۔- قَالَ لَا تَخَفْ ۔۔ : اس بزرگ نے کھانا وغیرہ پیش کرنے سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کا خوف دور کیا، کیونکہ خوف میں مبتلا شخص بھوک کے مارے کھانا کھائے بھی تو اس میں اسے لذت نہیں ملتی، اس لیے سب سے پہلے اس نے کہا ڈرو مت، اس جگہ فرعون کی حکومت نہیں، تم ان ظالموں سے نجات پاچکے ہو۔ اس کے بعد نہایت عزت و احترام سے ان کی مہمان نوازی کی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَجَاۗءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِيْ عَلَي اسْـتِحْيَاۗءٍ ، قرآنی اسلوب کے مطابق یہاں قصہ کو مختصر کردیا گیا ہے۔ پورا واقعہ یہ ہوا کہ یہ عورتیں اپنے مقررہ وقت سے پہلے جلدی سے گھر پہنچ گئیں تو ان کے والد نے وجہ دریافت کی، لڑکیوں نے واقعہ بتلایا۔ والد نے چاہا کہ اس شخص نے احسان کیا ہے۔ اس کی مکافات کرنا چاہئے اس لئے انہیں لڑکیوں میں سے ایک کو ان کے بلانے کے لئے بھجیا۔ یہ حیا کے ساتھ چلتی ہوئی پہنچی۔ اس میں بھی اشارہ ہے کہ باوجود پردہ کے باقاعدہ احکام نازل نہ ہونے کے نیک عورتیں مردوں سے بےمحابا خطاب نہ کرتی تھیں۔ ضرورت کی بناء پر یہ وہاں پہنچی تو حیاء کے ساتھ بات کی جس کی صورت میں بعض مفسرین نے یہ بیان کی ہے کہ اپنے چہرہ کو آستین سے چھپا کر گفتگو کی۔ روایات تفسیر میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اس کے ساتھ چلنے لگے تو لڑکی سے کہا کہ تم میرے پیچھے ہوجاؤ اور زبان سے مجھے راستہ بتاتی رہو۔ مقصد یہ تھا کہ ان کی نظر لڑکی پر نہ پڑے شاید اسی سبب سے لڑکی نے اپنے والد سے ان کے متعلق ان کے امین ہونے کا ذکر کیا۔ ان لڑکیوں کے والد کون تھے اس میں مفسرین نے اختلاف نقل کیا ہے مگر آیات قرآن سے ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ شعیب (علیہ السلام) تھے جیسا کہ قرآن میں ہے وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا (قرطبی)- اِنَّ اَبِيْ يَدْعُوْكَ یہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ لڑکی خود ہی اپنی طرف سے ان کو دعوت دیتی مگر ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے والد کا پیغام سنایا کیونکہ کسی اجنبی مرد کو خود دعوت دینا حیاء کے خلاف تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَجَاۗءَتْہُ اِحْدٰىہُمَا تَمْشِيْ عَلَي اسْـتِحْيَاۗءٍ۝ ٠ۡقَالَتْ اِنَّ اَبِيْ يَدْعُوْكَ لِيَجْزِيَكَ اَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا۝ ٠ۭ فَلَمَّا جَاۗءَہٗ وَقَصَّ عَلَيْہِ الْقَصَصَ ۝ ٠ۙ قَالَ لَا تَخَفْ۝ ٠۪ۣ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِــمِيْنَ۝ ٢٥- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- مشی - المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ- [ البقرة 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها .- ( م ش ی ) المشی - ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔- حَياءُ :- انقباض النّفس عن القبائح وترکه، لذلک يقال : حيي فهو حيّ واستحیا فهو مستحي، وقیل :- استحی فهو مستح، قال اللہ تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقال عزّ وجلّ : وَاللَّهُ لا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ [ الأحزاب 53] ، وروي : «إنّ اللہ تعالیٰ يستحي من ذي الشّيبة المسلم أن يعذّبه» فلیس يراد به انقباض النّفس، إذ هو تعالیٰ منزّه عن الوصف بذلک وإنّما المراد به ترک تعذیبه، وعلی هذا ما روي : «إنّ اللہ حَيِيٌّ» أي : تارک للقبائح فاعل للمحاسن .- الحیاۃ کے معنی قبائح سے نفس کے منقبض ہوکر انہیں چھوڑ دینے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے اور بعض نے استحی فھو مستح ( نحیف یاء ) کے ساتھ بھی نقل کیا ہے ۔ قرآن میں ہے إِنَّ اللَّهَ لا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] خدا اس بات سے عار نہیں کرتا کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی مکڑی وغیرہ کی مثال بیان فرمائے وَاللَّهُ لا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ [ الأحزاب 53] لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا ۔ ایک روایت میں ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ بوڑھے مسلمان کو عذاب دینے سے شرماتا ہے ۔ پس اللہ کی طرف جب حیا کی نسبت ہو تو اس کے معنی انقباض نفس کے نہیں ہوتے ۔ کیونکہ اس قسم کے اوصاف سے ذات باری تعالیٰ منزہ ہے بلکہ اس سے مراد اسے عذاب نہ کرنا ہے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ حی کہ اللہ حی ہے تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ اللہ قبائح کو چھوڑ نے والا اور محاسن یعنی افعال حسنہ کو سرا انجام دینے والا ہے ۔ - أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] - ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ - کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ - قصص - الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِقُصِّيهِ [ القصص 11] - ( ق ص ص ) القص - کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٥) اتنے میں ان دونوں لڑکیوں میں سے چھوٹی لڑکی صفورا نامی آئی جو کہ بالکل کنواری لڑکی کی طرح شرماتی ہوئی چلتی تھی اور آکر کہنے لگی کی میرے والد تمہیں بلاتے ہیں تاکہ تمہیں اس کا صلہ دیں جو تم نے ہماری خاطر ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے، چناچہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے باپ برؤن یعنی شعیب (علیہ السلام) کے بھتیجے کے پاس آئے اور شعیب (علیہ السلام) پہلے انتقال فرما چکے تھے اور برؤن سے فرعون کے پاس سے آنے کا واقعہ بیان یا تو برؤن نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا اب فکر مت کرو تم مصر والوں کی زد سے نکل آئے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْکَ لِیَجْزِیَکَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا ط) ” - یعنی آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے جو مشقت اٹھائی ‘ ہمارے والد آپ کو اس کا کچھ اجر دینا چاہتے ہیں۔- (فَلَمَّا جَآءَ ہٗ وَقَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَلا) ” - اس آیت میں لفظ ” القَصَص “ آیا ہے اور اسی مناسبت سے اس سورة کا نام القَصَصہے۔- (قَالَ لَا تَخَفْقف نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) ” - یعنی آپ ( علیہ السلام) کے ان دشمنوں کی اس علاقے تک رسائی نہیں۔ یہاں آپ کو کسی قسم کی پریشانی یا تکلیف نہیں ہوگی۔ آپ یہاں آرام سے رہ سکتے ہیں۔ - بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں جس شخصیت کا ذکر ہے وہ حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے ‘ اس لیے کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے مدین میں مبعوث ہونے کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ چناچہ علامہ اقبال نے بھی اس شعر میں اسی طرف اشارہ کیا ہے : - اگر کوئی شعیب ( علیہ السلام) آئے میسر - شبانی سے کلیمی دو قدم ہے - یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آٹھ یا دس سال تک چرواہے کی حیثیت سے حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی خدمت میں رہے اور یہ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ ( علیہ السلام) چرواہے سے کلیم اللہ بن گئے۔ - اس مفروضہ کو اگر حقائق و واقعات کی روشنی میں پرکھا جائے تو یہ درست ثابت نہیں ہوتا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بارے میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ آپ ( علیہ السلام) اللہ کے رسول ( علیہ السلام) تھے۔ اور کوئی بھی رسول ( علیہ السلام) جب کسی قوم کی طرف مبعوث ہوتا ہے تو اس کی بعثت یا رسالت دو ادوار پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک دعوت کا دور اور دوسرا نزول عذاب کے بعد کا دور۔ اب اگر یہ فرض کیا جائے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حضرت شعیب ( علیہ السلام) سے ملاقات آپ ( علیہ السلام) کے زمانۂ دعوت میں ہوئی تھی (یعنی اس وقت تک ابھی اہل مدین آپ ( علیہ السلام) کی تکذیب کر کے عذاب کے مستحق نہیں ہوئے تھے) تو اس واقعہ کا رنگ بالکل ہی مختلف ہونا چاہیے تھا اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس زمانے میں مدین پہنچے تھے جب اہل مدین پر عذاب آچکا تھا اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) اس وقت عذاب سے محفوظ رہ جانے والے مؤمنین کے ساتھ رہ رہے تھے تو ایسی صورت میں یہ ہرگز ممکن نہ تھا کہ اللہ کے رسول کی بیٹیاں یوں پریشان حال جنگل میں بکریاں چراتی پھرتیں اور امت میں سے کوئی ان کا پرسان حال نہ ہوتا۔ بہر حال واقعہ کا انداز خود بتارہا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ملاقات جس شخصیت سے ہوئی تھی وہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) نہیں تھے ‘ بلکہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ساتھ بچ جانے والے مؤمنین کی نسل میں سے کوئی نیک سیرت بزرگ تھے۔ اب یہ معلوم کرنا تو مشکل ہے کہ یہ واقعہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے کتنے عرصے بعد کا ہے ‘ بہرحال اس وقت تک حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی تعلیمات کے کچھ نہ کچھ اثرات معاشرے کے اندر موجود تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 35 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس فقرے کی یہ تشریح کی ہے: جاءت تمشی علی استحیاء قائلۃ بثوبھا علی وجھھا لیست بسلفع من النساء دلاجۃ ولاجۃ خراجۃ ۔ وہ شرم و حیا کے ساتھ لچتی ہوئی اپنا منہ گھونٹ سے چھپائے ہوئے آئی ۔ ان بے باک عورتوں کی طرح درانہ نہیں چلی آئی جو ہر طرف نکل جاتی اور ہر جگہ جا گھستی ہیں ۔ اس مضمون کی متعدد روایات سعید بن منصور ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم اور ابن المنذر نے معتبر سندوں کے ساتھ حضرت عمر سے نقل کی ہیں ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے عہد میں حیا داری کا اسلامی تصور جو قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت سے ان بزرگوں نے سمجھا تھا ، چہرے کو اجنبیوں کے سامنے کھولے پھرنے اور گھر سے باہر بے باکانہ چلت پھرت دکھانے کے قطعا خلاف تھا ۔ حضرت عمر صاف الفاظ میں یہاں چہرہ ڈھانکنے کو حیا کی علامت اور اسے اجانب کے سامنے کھولنے کو بے حیائی قرار دے رہے ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 36 یہ بات بھی شرم و حیا ہی کی وجہ سے انہوں نے کہی ، کیونکہ ایک غیر مرد کے پاس اکیلی جگہ آنے کی کوئی معقول وجہ بتانی ضرور تھی ، ورنہ ظاہر ہے کہ ایک شریف آدمی نے اگر عورت ذات کو پریشانی میں مبتلا دیکھ کر اس کی کوئی مدد کی ہو تو اس کا بدلا دینے کے لیے کہنا کوئی اچھی بات نہ تھی ۔ اور پھر اس بدلے کا نام سن لینے کے باوجود حضرت موسی علیہ السلام جیسے عالی ظرف انسان کا چل پڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت انتہائی اضطرار کی حالت میں تھے ، بے سروسامانی کے عالم میں یکایک مصر سے نکل کھڑے ہوئے تھے ۔ مدین تک کم از کم آٹھ دن میں پہنچے ہوں گے ۔ بھوک پیاس اور سفر کی تکان سے برا حال ہوگا ، اور سب سے بڑھ کر یہ فکر ہوگی کہ اس دیار غیر میں کوئی ٹھکانا میسر آئے اور کوئی ایسا ہمدرد ملے جس کی پناہ میں رہ سکیں ، اسی مجبوری کی وجہ سے یہ لفظ سن لینے باوجود کہ اس ذرا سی خدمت کا اجر دینے کے لیے بلایا جارہا ہے ، حضرت موسی نے جانے میں تامل نہ کیا ۔ انہوں نے خٰال فرمایا ہوگا کہ خدا سے ابھی ابھی جو دعا میں نے مانگی ہے ، اسے پورا کرنے کا یہ سامان خدا ہی کی طرف سے ہوا ہے اس لیے اب خواہ مخواہ خودداری کا مظاہرہ کر کے اپنے رب کے فراہم کردہ سامان میزبانی کو ٹھکرانا مناسب نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

15: معلوم ہوا کہ اگرچہ اس وقت پردے کے باقاعدہ احکام نہیں تھے جو قرآن کریم نے عطا فرمائے، لیکن خواتین شرم و حیا کے لباس میں رہتی تھیں، اور مردوں سے معاملات کرتے وقت شرم و حیاء کو پوری طرح ملحوظ رکھتی تھیں، چنانچہ ابن جریر، ابن ابی حاتم اور سعید بن منصور نے حضرت عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ خاتون جب آئیں تو انہوں نے اپنی قمیص کی آستیں اپنے چہرے پر رکھی ہوئی تھی۔ 16: اگرچہ کسی نیکی کا انعام وصول کرنے کے لیے جانا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی غیرت اور شرافت کے خلاف تھا، لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ آپ کی طرف سے جو بھلائی بھی آئے گی، میں اس کا محتاج ہوں، اور اس خاتون کی دعوت سے ایک راستہ ایسا پیدا ہوا تھا کہ اس بستی میں کسی برزرگ سے جان پہچان ہوجائے اور دوسری طرف ان کے اپنی بیٹی کو بھیجنے سے ان کی شرافت اور بزرگی ظاہر ہو رہی تھی، اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس وقت یہ خیال فرمایا کہ اس دعوت کو رد کرنا نا شکری اور اس عبدیت کے خلاف ہوگا جس کے ساتھ دعا مانگی گئی تھی، اور ہوسکتا ہے کہ ان بزرگ سے کوئی مفید مشورہ مل جائے۔ چنانچہ دعوت کو قبول کر کے ان کے پاس چلے گئے، لیکن ابن عساکر کی ایک روایت میں حضرت ابو حازم سے یہ تفصیل منزول ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلامل وہاں پہنچے تو حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کھانا پیش کیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے پوچھا : کیوں؟ کیا آپ کو بھوک نہیں ہے؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا بھوک تو ہے لیکن مجھے انیدشہ ہے کہ یہ کھانا میرے اس عمل کا معاوضہ نہ بن جائے کہ میں نے بکریوں کو پانی پلا دیا تھا، اور ہم ایسے لوگ ہیں کہ جو کام آخرت کی خاطر کریں، اس کے معاوضے میں کوئی پوری زمین سونے سے بھر کر بھی دیدے تو اسے قبول نہیں کرتے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ : اللہ کی قسم، ایسا نہیں ہے، لیکن میری اور میرے آباء و اجداد کی یہ عادت رہی ہے کہ ہم مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ (روح المعانی، حوالہ بالا)۔ اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاتون نے جو کہا تھا کہ میرے والد آپ کو اس لیے بلا رہے ہیں کہ آپ کو آپ کی نیکی کا انعام دیں گے، یہ انہوں نے اپنے خیال کے مطابق کہہ دیا تھا، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے یہ الفاظ استعمال فرمائے ہوں گے۔ واللہ سبحانہ اعلم۔