Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

241حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اتنا لمبا سفر کر کے مصر سے مدین پہنچے تھے، کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا، جب کہ سفر کی تھکان اور بھوک سے نڈھال تھے۔ چناچہ جانوروں کو پانی پلا کر ایک درخت کے سائے تلے آ کر مصروف دعا ہوگئے۔ خیر کئی چیزوں پر بولا جاتا ہے، کھانے پر، امور خیر اور عبادت پر، قوت پر اور مال پر (ایسر التفاسیر) یہاں اس کا اطلاق کھانے پر ہوا ہے۔ یعنی میں اس وقت کھانے کا ضرورت مند ہوں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣] موسیٰ ان لڑکیوں کی بات سن کر آگے بڑھے۔ طاقتور نوجوان تھے۔ اکیلے ہی پانی کا بھاری بھر کم ڈول نکالا اور ان کی بکریوں کو پانی پلا دیا۔ لڑکیاں اپنے جانور لے کر چلی گئیں تو آپ ایک درخت کے سایہ تلے جاکر بیٹھ گئے۔ آٹھ دن کے تھکے ماندے اور بھوک سے بےتاب ہو رہے تھے۔ اللہ سے کھانا مانگا تو ایسا ادب و احترام کا اندازہ اختیار کیا۔ جس سے پیغمبرانہ شان خوب نمایاں ہوجاتی ہے۔ فرمایا اس وقت تیری طرف سے جو بھی مجھے بھلائی پہنچے میں اس کا محتاج ہوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَسَقٰى لَهُمَا : پیغمبروں میں فطری طور پر ہمدردی کا بےپناہ جذبہ ہوتا ہے، جیسا کہ اُمّ المومنین خدیجہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا : (کَلَّا، وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ أَبَدًا، إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وَ تَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَ تَقْرِی الضَّیْفَ وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَاءِبِ الْحَقِّ ) [ بخاري، بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي ۔۔ : ٣ ] ” ہرگز (ایسا) نہیں (ہو گا) ، اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، کیونکہ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں اور بےکسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور بےروز گار کے لیے کام ڈھونڈھتے ہیں اور مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی طرف سے آنے والی مصیبتوں پر مدد کرتے ہیں۔ “ موسیٰ (علیہ السلام) تھکے ماندے اور بھوکے پیاسے تھے، اس کے باوجود انھوں نے ان کی بکریوں کو پلانی پلا دیا۔ ابن کثیر (رض) نے یہاں ابن ابی شیبہ کی ایک روایت نقل کی ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا : ” موسیٰ (علیہ السلام) جب مدین کے پانی پر پہنچے تو وہاں لوگوں کی ایک جماعت کو پایا جو پانی پلا رہے تھے۔ جب وہ فارغ ہوگئے تو انھوں نے کنویں پر دوبارہ پتھر رکھ دیا، جسے دس آدمی ہی اٹھا سکتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ دو عورتیں ہیں جو اپنے جانوروں کو ہٹا رہی ہیں، ان سے پوچھا : ” تمہارا معاملہ کیا ہے ؟ “ انھوں نے اپنا ماجرا بیان کیا، تو آپ نے جا کر وہ پتھر اٹھایا اور ایک ہی ڈول نکالا تھا کہ بکریاں سیراب ہوگئیں۔ “ [ ابن کثیر : ٦؍٢٢٧ ] ابن کثیر نے فرمایا : ” اس کی سند صحیح ہے، حاکم نے بھی اسے صحیح کہا اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ “- ثُمَّ تَوَلّيٰٓ اِلَى الظِّلِّ : بقاعی لکھتے ہیں : ” پھر جس طرف ان کا رخ تھا اس طرف پیٹھ کر کے سائے کی طرف چلے گئے، تاکہ وہاں آرام کرسکیں اور مخلوق کی خیر خواہی اور مدد کے بعد خالق کی طرف متوجہ ہوئے۔ ” الظِّلِّ “ کو معرفہ اس لیے ذکر فرمایا کہ جہاں لوگ کثرت سے آتے جاتے ہوں وہاں سائے کی موجودگی انوکھی نہیں، بلکہ جانی پہچانی بات ہے، خصوصاً جہاں پانی بھی ہو۔ “- فَقَالَ رَبِّ اِنِّىْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ : اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کی صفات میں سے صفت ” رب “ کے واسطے سے دعا کی، کیونکہ اس وقت ان کا حال صفت ربوبیت سے فریاد کا تقاضا کرتا تھا۔ بھوک اتنی کہ پیٹ پیٹھ سے لگا ہوا تھا۔ بےوطنی ایسی کہ کوئی واقفیت نہ کوئی مونس و غم خوار، کوئی گھر نہ ٹھکانا، دشمن کے تعاقب کا مسلسل خوف، غرض ہر لحاظ سے فقر ہی فقر۔ ایسی حالت میں انھوں نے کسی مخلوق کے ساتھ شکوہ نہیں کیا، بلکہ اپنے رب ہی کی جناب میں درخواست پیش کی کہ اے میرے پالنے والے میں تو جو خیر بھی تو میری طرف نازل فرمائے اس کا محتاج ہوں۔ ” نازل فرمائے “ کا لفظ اس لیے بولا کہ آدمی کو جو کچھ ملتا ہے آسمان سے آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ) [ الذاریات : ٢٢ ]” اور آسمان ہی میں تمہارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تم وعدہ دیے جاتے ہو۔ “ حقیقت یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ دعا نہایت جامع دعا ہے، دنیا اور آخرت کی کوئی بھلائی ایسی نہیں جو اس میں نہ آگئی ہو۔ طویل سفر کے بعد غربت اور فقر و فاقہ کی حالت میں عجزو انکسار سے بھری ہوئی یہ جامع دعا موسیٰ (علیہ السلام) کے لبوں سے نکلی تو ساتھ ہی قبولیت کے آثار بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَسَقٰى لَهُمَا، یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے ان عورتوں پر رحم کھا کر کنوئیں سے پانی نکال کر ان کی بکریوں کو سیراب کردیا۔ بعض روایات میں ہے کہ چرواہوں کی عادت یہ تھی کہ اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے بعد کنوئیں کو ایک بھاری پتھر سے بند کردیتے تھے اور یہ عورتیں اپنی بکریوں کے لئے بچے کچے پانی پر اکتفا کرتی تھیں۔ یہ بھاری پتھر ایسا تھا جس کو دس آدمی مل کر اٹھاتے تھے مگر موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو تنہا اٹھا کر الگ کردیا اور کنوئیں سے پانی نکالا۔ شاید اسی وجہ سے ان عورتوں میں سے ایک نے موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق اپنے والد سے یہ کہا کہ یہ قوی ہیں۔ (قرطبی)- ثُمَّ تَوَلّيٰٓ اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّىْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سات روز سے کوئی غذا نہیں چکھی تھی، اس وقت ایک درخت کے سائے میں آ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حالت اور حاجت پیش کی جو دعا کرنے کا ایک لطیف طریقہ ہے۔ لفظ خیر کبھی مال کے معنے میں آتا ہے جیسا اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا الْوَصِيَّةُ میں ہے، کبھی قوت کے معنے میں آتا ہے جیسے اَهُمْ خَيْرٌ اَمْ قَوْمُ تُبَّــعٍ میں کبھی کھانے کے معنے میں بھی آتا ہے جو اس جگہ مراد ہے (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَسَقٰى لَہُمَا ثُمَّ تَوَلّٰٓي اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّىْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ۝ ٢٤- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - ظلل - الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] ، أي :- في عزّة ومناع،- ( ظ ل ل ) الظل - ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- فقر - الفَقْرُ يستعمل علی أربعة أوجه :- الأوّل : وجود الحاجة الضّرورية، وذلک عامّ للإنسان ما دام في دار الدّنيا بل عامّ للموجودات کلّها، وعلی هذا قوله تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ- [ فاطر 15] ، وإلى هذا الفَقْرِ أشار بقوله في وصف الإنسان : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] .- والثاني : عدم المقتنیات، وهو المذکور في قوله : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة 273] ، إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ- [ النور 32] . وقوله : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة 60] .- الثالث : فَقْرُ النّفس، وهو الشّره المعنيّ بقوله عليه الصلاة والسلام : «كاد الفَقْرُ أن يكون کفرا» «1» وهو المقابل بقوله : «الغنی غنی النّفس» «1» والمعنيّ بقولهم : من عدم القناعة لم يفده المال غنی.- الرابع : الفَقْرُ إلى اللہ المشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : ( اللهمّ أغنني بِالافْتِقَارِ إليك، ولا تُفْقِرْنِي بالاستغناء عنك) «2» ، وإيّاه عني بقوله تعالی: رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ- [ القصص 24] ، وبهذا ألمّ الشاعر فقال :- 354-- ويعجبني فقري إليك ولم يكن ... ليعجبني لولا محبّتک الفقر ويقال : افْتَقَرَ فهو مُفْتَقِرٌ وفَقِيرٌ ، ولا يكاد يقال : فَقَرَ ، وإن کان القیاس يقتضيه . وأصل الفَقِيرِ : هو المکسورُ الْفِقَارِ ، يقال : فَقَرَتْهُ فَاقِرَةٌ ، أي داهية تکسر الفِقَارَ ، وأَفْقَرَكَ الصّيدُ فارمه، أي : أمكنک من فِقَارِهِ ، وقیل : هو من الْفُقْرَةِ أي : الحفرة، ومنه قيل لكلّ حفیرة يجتمع فيها الماء : فَقِيرٌ ، وفَقَّرْتُ للفسیل : حفرت له حفیرة غرسته فيها، قال الشاعر : ما ليلة الفقیر إلّا شيطان فقیل : هو اسم بئر، وفَقَرْتُ الخَرَزَ : ثقبته، وأَفْقَرْتُ البعیر : ثقبت خطمه .- ( ف ق ر ) الفقر کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا اس اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر و محتاج ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر 15] لوگو تم سب خدا کے محتاج ہو ۔ اور الانسان میں اسی قسم کے احتیاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء 8] اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں ۔ ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا چناچہ اس معنی میں فرمایا : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة 273] تو ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کے راہ میں رے بیٹھے ہیں ۔إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور 32] اگر وہ مفلس ہونگے تو خدا ان گو اپنے فضل سے خوشحال کردے گا ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں اور محتاجوں ۔۔۔ کا حق ہے ۔ فقرالنفس : یعنی مال کی ہوس۔ چناچہ فقر کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : کا دالفقر ان یکون کفرا ۔ کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر کی حد تک پہنچادے اس کے بلمقابل غنی کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنیٰ عنی النفس کو غنا تو نفس کی بےنیازی کا نام ہے ۔ اور اسی معنی میں حکماء نے کہا ہے ۔ من عدم القناعۃ لم یفدہ المال غنی جو شخص قیامت کی دولت سے محروم ہوا سے مالداری کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف احتیاج جس کی طرف آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (73) اللھم اغننی بالافتقار الیک ولا تفتونی بالاستغناء عنک ( اے اللہ مجھے اپنا محتاج بناکر غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کرکے فقیر نہ بنا ) اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (342) ویعجبنی فقری الیک ولم یکن لیعجبنی لولا محبتک الفقر مجھے تمہارا محتاج رہنا اچھا لگتا ہے اگر تمہاری محبت نہ ہوتی تو یہ بھلا معلوم نہ ہوتا ) اور اس معنی میں افتقر فھو منتقر و فقیر استعمال ہوتا ہے اور فقر کا لفظ ) اگر چہ قیاس کے مطابق ہے لیکن لغت میں مستعمل نہیں ہوتا ۔- الفقیر - دراصل اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ریڑھ ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو چناچہ محاورہ ہے ۔ فقرتہ فاقرہ : یعنی مصیبت نے اس کی کمر توڑدی افقرک الصید فارمہ : یعنی شکار نے تجھے اپنی کمر پر قدرت دی ہے لہذا تیر ماریئے بعض نے کہا ہے کہ یہ افقر سے ہے جس کے معنی حفرۃ یعنی گڑھے کے ہیں اور اسی سے فقیر ہر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے ۔ فقرت اللفسیل : میں نے پودا لگانے کے لئے گڑھا کھودا شاعر نے کہا ہے ( الرجز) (343) مالیلۃ الفقیر الاالشیطان کہ فقیر میں رات بھی شیطان کی مثل ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں الفقیر ایک کنویں کا نام ہے۔ فقرت الخرز : میں نے منکوں میں سوراخ کیا ۔ افقرت البیعر اونٹ کی ناک چھید کر اس میں مہار ڈالنا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٤) یہ سن کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی بکریوں کو پانی پلا دیا انہوں نے جا کر اپنے والد سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کیا پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے ہٹ کر ایک سایہ دار درخت کے نیچے یا یہ کہ دیوار کے سایہ میں بیٹھ گئے اور عرض کرنے لگے کہ اے میرین رب اس وقت جو کھانے کی چیز بھی آپ مجھے بھیج دیں میں اس کا محتاج ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (فَسَقٰی لَہُمَا ثُمَّ تَوَلّٰٓی اِلَی الظِّلِّ ) ” - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بہت توانا اور قوی تھے۔ ان کی مردانہ غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہ لڑکیاں یوں بےبسی کی تصویر بنی کھڑی رہیں۔ چناچہ وہ کنویں کی طرف بڑھے اور سب چرواہوں کو پیچھے ہٹا کر ان کی بکریوں کو پانی پلانے کا انتظام کردیا۔ اس کے بعد وہ لڑکیاں اپنی بکریوں کو لے کر چلی گئیں اور آپ ( علیہ السلام) ایک درخت کے سائے میں جا کر بیٹھ گئے۔ تب آپ ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی :- (فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ ) ” - یہ انتہائی عاجزی کی دعا ہے۔ ہم سب کو یہ دعا یاد کر لینی چاہیے۔ یہاں ” فَقِیْر “ کے لفظ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی انتہائی احتیاج کی جو تصویر سامنے آتی ہے ‘ اس کو تھوڑی دیر کے لیے ذرا اپنے تصور میں لائیے ناز و نعم میں پلا بڑھا ایک شخص جس کی پرورش شاہی محل میں ہوئی ‘ اچانک اپنا سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ تن تنہا ‘ جان بچا کر مصر سے نکلتا ہے ‘ نہ معلوم کیسی کیسی مشکلات اور تکالیف اٹھا کر صحرائے سینا عبور کرتا ہے ‘ پھر وہ ایک ایسے علاقے میں پہنچتا ہے جہاں اس کا نہ کوئی شناسا ہے نہ پرسان حال ‘ نہ سر چھپانے کی جگہ اور نہ روٹی روزی کا کوئی وسیلہ۔ گویا غربت اور محتاجی کی انتہا ہے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن عورتوں سے پوچھا کہ کیا یہاں کوئی اور کنواں بھی ہے؟ اُنہوں نے بتایا کہ ایک کنواں اور ہے، مگر اُس کے منہ پر ایک بہت بھاری پتھر رکھا ہوا ہے جسے اُٹھانا آسان نہیں۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں گئے اور پتھر کو اُٹھا کر ان کی بکریوں کو پانی پلا دیا۔ (روح المعانی بحوالہ عبد بن حمید ص:۳۶۷ ج۲۰) 14: اِس مختصر دعا میں عبدیت کا عجیب مظاہرہ ہے، ایک طرف اﷲ تعالیٰ کے سامنے اپنے محتاج ہونے کا ذکر فرما رہے ہیں کہ اس غریب الوطنی میں جہاں کوئی شخص آشنا نظر نہیں آتا، زندگی کی ہر ضرورت کی احتیاج ہے، اور دوسری طرف خود سے کوئی نعمت تجویز کرنے کے بجائے معاملہ اﷲ تعالیٰ پر چھوڑ رہے ہیں کہ آپ بھلائی کی صورت بھی تجویز کر کے مجھ پر اُوپر سے نازل فرما دیں گے، تو سمجھوں کہ اُسی کی احتیاج ظاہر کر کے وہی میں نے مانگی ہے، میں اپنی طرف سے کوئی متعین حاجت مانگنے کی حالت میں نہیں ہوں۔