Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

231یعنی جب مدین پہنچے تو اس کے کنویں پر دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ہے جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہا ہے۔ مدین یہ قبیلے کا نام تھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے تھا، جب کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی نسل سے تھے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پوتے (حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے تھے۔ یوں اہل مدین اور موسیٰ کے درمیان نسبی تعلق بھی تھا (ایسرالتفاسیر) اور یہی حضرت شعیب (علیہ السلام) کا مسکن مبعث بھی تھا۔ 232دو عورتوں کو اپنے جانور روکے، کھڑے دیکھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں رحم آیا اور ان سے پوچھا، کیا بات ہے تم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاتیں ؟۔ رعاء راع (چرواہا) کی جمع ہے۔ 233تاکہ مردوں سے ہمارا اختلاط نہ ہو۔ 234والد صاحب بوڑھے ہیں اس لئے وہ گھاٹ پر پانی پلانے کے لئے نہیں آسکتے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٢] آٹھ دن کی مسافت طے کرنے کے بعد آپ مدین کے کنوئیں پر پہنچ گئے۔ وہاں دیکھا کہ جانوروں کو پانی پلانے کے لئے کافی لوگ وہاں جمع ہیں۔ ایک بھاری سے ڈول سے دو مضبوط طاقتور آدمی۔۔ پانی نکالتے ہیں اور اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے بعد وہ چلے جاتے تو دوسرے آدمی آکر کنوئیں سے پانی نکالنے لگتے ہیں اور ایک بھیڑ سی لگی ہوئی ہے اور ایک دو لڑکیاں کھڑی ہیں جو اپنی بکریوں کو روک رہی ہیں۔ حضرت موسیٰ ان کے پاس گئے اور پوچھا تم اس حال میں کیوں کھڑی ہو ؟ انہوں نے کہا : ہم اس انتظار میں ہیں کہ یہ چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جائیں تو بعد میں ہم پلا لیں گے۔ ہم ہی ان بکریوں کو چرانے کے لئے لے جاتی ہیں۔ کیونکہ ہمارا باپ بہت بوڑھا اور کمزور ہے۔ وہاں آنے کے قابل نہیں۔ نہ وہ پانی نکال سکتا ہے نہ ہم اتنا بھاری ڈول نکال سکتی ہیں۔ چرواہے چلے جائیں تو ان کا بچا کھچا پانی ہم پلا لیں گی۔ یا بعد میں ڈول میں تھوڑا تھوڑا پانی نکال کر انھیں پلا لیں گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا وَرَدَ مَاۗءَ مَدْيَنَ ۔۔ : یعنی جب مدین پہنچے تو اس کے کنویں پر دیکھا کہ لوگوں کا ایک ہجوم ہے، جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہا ہے۔ مدین ایک قبیلے کا نام بھی ہے، جو مدین بن ابراہیم کی اولاد سے تھا۔ اس لحاظ سے موسیٰ (علیہ السلام) کا ان سے نسبی تعلق بھی تھا، کیونکہ وہ بھی ابراہیم (علیہ السلام) کے پوتے یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد سے تھے۔ (ابن عاشور)- وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَيْنِ تَذُوْدٰنِ : ” ذَادَ یذُوْدُ ذَوْدًا “ ہٹانا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ دو عورتیں مردوں سے الگ ایک کنارے پر کھڑی ہیں اور اپنی بھیڑ بکریوں کو پانی کی طرف جانے سے ہٹا رہی ہیں، تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ پانی پینے کے لیے لوگوں کی بکریوں میں گھس جائیں اور پھر گم ہوجائیں۔ اتنی قوت نہ تھی کہ مجمع کو ہٹا دیں یا خود بھاری ڈول نکال لیں۔- قَالَ مَا خَطْبُكُمَا : موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کا حال دیکھ کر رحم آیا اور ان سے پوچھا کہ تم یہاں کیوں کھڑی ہو، پانی کیوں نہیں پلاتی ؟- قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰى يُصْدِرَ الرِّعَاۗءُ :” الرِّعَاۗءُ “ ” رَاعِيٌّ“ کی جمع ہے، چرواہے۔ ” أَصْدَرَ یُصْدِرُ “ پانی پلا کر واپس لے جانا۔ انھوں نے کہا، جب تک یہ چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر واپس نہ لے جائیں، ہم پانی نہیں پلاتیں، کیونکہ ہمارا باپ بہت بوڑھا اور کمزور ہے، یہاں آنے کے قابل نہیں، نہ وہ پانی نکال سکتا ہے نہ ہم بھاری ڈول نکال سکتی ہیں، چرواہے چلے جائیں تو ان کا بچا کھچا پانی ہم پلا لیں گی، یا بعد میں ڈول میں تھوڑا تھوڑا پانی نکال کر انھیں پانی پلا لیں گی۔ ان عورتوں کا نام مفسرین نے ” صفورا “ اور ” لیا “ بیان کیا ہے، مگر یہ بات کسی معتبر ذریعے سے ثابت نہیں۔- وَاَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْرٌ : ان خواتین کے والد کے متعلق مشہور یہ ہے کہ وہ شعیب (علیہ السلام) تھے۔ اس کی بنیاد اس کے سوا کچھ نہیں کہ مدین کی طرف شعیب (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے، مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ مدین کے وہ بزرگ جنھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی میزبانی کی وہ بھی شعیب (علیہ السلام) ہی تھے۔ علماء فرماتے ہیں کہ شعیب (علیہ السلام) کا زمانہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بہت پہلے کا ہے، کیونکہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا تھا : (وَمَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِيْدٍ ) [ ھود : ٨٩ ] ” اور لوط کی قوم (بھی) ہرگز تم سے کچھ دور نہیں ہے۔ “ اور سب جانتے ہیں کہ لوط اور ابراہیم (علیہ السلام) ایک زمانے میں ہوئے ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) سے صدیوں پہلے گزرے ہیں۔ ابن کثیر فرماتے ہیں : ” اس کی تائید کہ وہ بزرگ شعیب (علیہ السلام) نہیں تھے، اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اگر وہ شعیب (علیہ السلام) ہوتے تو غالب گمان یہی ہے کہ قرآن میں ان کا نام مذکور ہوتا۔ بعض احادیث میں موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں ان کے نام کی تصریح ملتی ہے، مگر ان میں سے کسی کی سند صحیح نہیں، جیسا کہ ہم آگے ذکر کریں گے۔ “ (ابن کثیر) بنی اسرائیل کی کتابوں میں ان کا نام ” ثیرون “ آیا ہے، ایک جگہ ان کا نام ” رعوائیل “ آیا، دوسری جگہ ” یترو “ آیا ہے اور ایک جگہ ” حوباب “ آیا ہے۔ علمائے اسلام میں سے بعض نے ان کا نام ” یثریٰ “ بیان کیا ہے، مگر ظاہر یہ ہے کہ یہ بات ثابت شدہ خبر کے بغیر معلوم نہیں ہوسکتی، جو یہاں موجود نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَلَمَّا وَرَدَ مَاۗءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ ، مآء مدین سے مراد وہ کنواں ہے جس سے اس بستی کے لوگ اپنے مواشی کو پانی پلاتے تھے وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَيْنِ تَذُوْدٰنِ ، یعنی دو عروتوں کو دیکھا کہ وہ اپنی بکریوں کو پانی کی طرف جانے سے روک رہی تھیں تاکہ ان کی بکریاں دوسرے لوگوں کی بکریوں میں رل نہ جائیں۔- قَالَ مَا خَطْبُكُمَا ۭ قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰى يُصْدِرَ الرِّعَاۗءُ وَاَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْرٌ، لفظ خطب شان اور حال کے معنے میں جبکہ وہ کوئی مہم کام ہو۔ معنے یہ ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان دونوں عورتوں سے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے کہ تم اپنی بکریوں کو روکے کھڑی ہو دوسرے لوگوں کی طرح کنوئیں کے پاس لا کر پانی نہیں پلاتیں ؟ ان دونوں نے یہ جواب دیا کہ ہماری عادت یہی ہے کہ ہم مردوں کے ساتھ اختلاط سے بچنے کے لئے اس وقت تک اپنی بکریوں کو پانی نہیں پلاتیں جب تک یہ لوگ کنوئیں پر ہوتے ہیں، جب یہ چلے جاتے ہیں تو ہم اپنی بکریوں کو پلاتے ہیں اور اس میں جو یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ کیا تمہارا کوئی مرد نہیں جو عورتوں کو اس کام کے لئے نکالا ؟ اس کا جواب بھی ان عورتوں نے ساتھ ہی دے دیا کہ ہمارے والد بوڑھے ضعیف العمر ہیں وہ یہ کام نہیں کرسکتے اس لئے ہم مجبور ہوئے۔- اس واقعہ سے چند اہم فوائد حاصل ہوئے۔ اول یہ کہ ضعیفوں کی امداد انبیاء کی سنت ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دو عورتوں کو دیکھا کہ بکریوں کو پانی پلانے کے لئے لائی ہیں مگر ان کو لوگوں کے ہجوم کے سبب موقع نہیں مل رہا تو ان سے حال دریافت کیا۔ دوسرا یہ کہ اجنبی عورت سے بوقت ضرورت بات کرنے میں مضائقہ نہیں جب تک کہ کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ تیسرا یہ کہ اگرچہ یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جبکہ عورتوں پر پردہ لازم نہیں تھا جس کا سلسلہ اسلام کے بھی ابتدائی زمانہ تک جاری رہا۔ ہجرت مدینہ کے بعد عورتوں کے لئے پردہ کے احکام نازل ہوئے، لیکن اس وقت بھی پردہ کا جو اصل مقصد ہے وہ طبعی شرافت اور حیاء کے سبب عورتوں میں موجود تھا کہ ضرورت کے باوجود مردوں کے ساتھ اختلاط گوارا نہ کیا اور تکلیف اٹھانا قبول کیا۔ چوتھا یہ کہ عورتوں کا اس طرح کے کاموں کے لئے باہر نکلنا اس وقت بھی پسندیدہ نہیں تھا اسی لئے انہوں نے اپنے والد کے معذور ہونے کا عذر بیان کیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا وَرَدَ مَاۗءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ۝ ٠ۥۡ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِہِمُ امْرَاَتَيْنِ تَذُوْدٰنِ۝ ٠ۚ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا۝ ٠ۭ قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰى يُصْدِرَ الرِّعَاۗءُ ۝ ٠۫ وَاَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْرٌ۝ ٢٣ - ورد - الوُرُودُ أصله : قصد الماء، ثمّ يستعمل في غيره . يقال : وَرَدْتُ الماءَ أَرِدُ وُرُوداً ، فأنا وَارِدٌ ، والماءُ مَوْرُودٌ ، وقد أَوْرَدْتُ الإبلَ الماءَ. قال تعالی: وَلَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ [ القصص 23] والوِرْدُ : الماءُ المرشّحُ للوُرُودِ ، والوِرْدُ : خلافُ الصّدر،- ( ور د ) الورود - ۔ یہ اصلی میں وردت الماء ( ض ) کا مصدر ہے جس کے معنی پانی کا قصد کرنے کے ہے ۔ پھر ہر جگہ کا قصد کرنے پر بولا جاتا ہے اور پانی پر پہنچنے والے کو ورود اور پانی کو مردود کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ [ القصص 23] قرآن میں ہے : ۔ اور جب مدین کے پانی کے مقام پر پہنچے الوادر اس پانی کو کہتے ہیں جو وادر ہونے کے لئے تیار کیا گیا ہو - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - سقی - السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ :- أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً- [ الإنسان 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] - ( س ق ی ) السقی - والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ذود - ذُدْتُهُ عن کذا أَذُودُهُ. قال تعالی: وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودانِ [ القصص 23] ، أي :- تطردان، ذودا، والذَّوْدُ من الإبل : العشرة .- ( ذ و د ) ذوتہ ( ن ) عن کذا کے منعی کیس چیز سے دفع کرنے کے ہیں : قرآن میں ہے : ۔ وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودانِ [ القصص 23] اور دیکھا ان کے ایک طرف دو عورتیں ( اپنے مال کو اردو کے کھڑی ہیں ۔ یعنی اپنے ذوذ کو رد کے کھڑی ہیں ۔ اور ذوذ دس اونٹوں کی جماعت کو کہا جاتا ہے - خطب ( حال)- الخَطْبُ «2» والمُخَاطَبَة والتَّخَاطُب : المراجعة في الکلام، والخَطْبُ : الأمر العظیم الذي يكثر فيه التخاطب، قال تعالی: فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه 95] ، فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات 31] - ( خ ط ب ) الخطب - والمخاطبۃ والتخاطب ۔ باہم گفتگو کرنا ۔ ایک دوسرے کی طرف بات لوٹانا ۔ الخطب ۔ اہم معاملہ جس کے بارے میں کثرت سے تخاطب ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ فَما خَطْبُكَ يا سامِرِيُّ [ طه 95] پھر سامری سے کہنے لگے ) سامری تیرا کیا حال ہے ۔ فَما خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ [ الذاریات 31] کہ فرشتوں تمہارا مدعا کیا ہے ۔- مصْدَر - والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . والصِّدَارُ : ثوب يغطّى به الصَّدْرُ ، علی بناء دثار و لباس، ويقال له : الصُّدْرَةُ ، ويقال ذلک لسمة علی صَدْرِ البعیر .- اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔ اور صداد بروزن دثار و لباس اس کپڑے کو کہتے ہیں جس سے سینہ ڈھانپاجائے اور اسے صدرۃ بھی کہاجاتا ہے اور صدار اس داغ کو کہتے ہیں جو اونٹ کے سینہ پر نمایاں ہوتا ہے ۔ - رعی - الرَّعْيُ في الأصل : حفظ الحیوان، إمّا بغذائه الحافظ لحیاته، وإمّا بذبّ العدوّ عنه . يقال :- رَعَيْتُهُ ، أي : حفظته، وأَرْعَيْتُهُ : جعلت له ما يرْعَى. والرِّعْيُ : ما يرعاه، والْمَرْعَى: موضع الرّعي، قال تعالی: كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعامَكُمْ [ طه 54] ، أَخْرَجَ مِنْها ماءَها وَمَرْعاه[ النازعات 31] ، وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعى [ الأعلی 4] ، وجعل الرَّعْيُ والرِّعَاءُ للحفظ والسّياسة . قال تعالی: فَما رَعَوْها حَقَّ رِعايَتِها[ الحدید 27] ، أي : ما حافظوا عليها حقّ المحافظة . ويسمّى كلّ سائس لنفسه أو لغیره رَاعِياً ، وروي : «كلّكم رَاعٍ ، وكلّكم مسئول عن رَعِيَّتِهِ» «5» قال الشاعر :- ولا المرعيّ في الأقوام کالرّاعي - «6» وجمع الرّاعي رِعَاءٌ ورُعَاةٌ. ومُرَاعَاةُ الإنسان للأمر : مراقبته إلى ماذا يصير، وماذا منه يكون، ومنه : رَاعَيْتُ النجوم، قال تعالی: لا تَقُولُوا : راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا - [ البقرة 104] ، وأَرْعَيْتُهُ سمعي : جعلته راعیا لکلامه، وقیل : أَرْعِنِي سمعَك، ويقال : أَرْعِ علی كذا، فيعدّى بعلی أي : أبق عليه، وحقیقته : أَرْعِهِ مطّلعا عليه .- ( ر ع ی ) الرعی - ۔ اصل میں حیوان یعنی جاندار چیز کی حفاظت کو کہتے ہیں ۔ خواہ غذا کے ذریعہ ہو جو اسکی زندگی کی حافظ ہے یا اس سے دشمن کو دفع کرنے کے ذریعہ ہو اور رعیتہ کے معنی کسی کی نگرانی کرنے کے ہیں اور ارعیتہ کے معنی ہیں میں نے اسکے سامنے چارا ڈالا اور رعی چارہ یا گھاس کو کہتے ہیں مرعی ( ظرف ) چراگاہ ۔ قرآن میں ہے ۔ كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعامَكُمْ [ طه 54] تم بھی کھاؤ اور اپنے چارپاؤں کو بھی چراؤ ۔ أَخْرَجَ مِنْها ماءَها وَمَرْعاها[ النازعات 31] اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا ۔ وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعى [ الأعلی 4] اور جس نے ( خوش نما ) چارہ ( زمین سے ) نکالا ۔ رعی اور رعاء کا لفظ عام طور پر حفاظت اور حسن انتظام کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَما رَعَوْها حَقَّ رِعايَتِها[ الحدید 27] لیکن جیسے اس کی نگہداشت کرنا چاہئے تھی انہوں نے نہ کی ۔ اور ہر وہ آدمی جو دوسروں کا محافظ اور منتظم ہوا اسے راعی کہا جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے ( 157) کلھم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق سوال ہوگا شاعر نے کہا ہے ( السریع ) ولا المرعيّ في الأقوام کالرّاعی اور محکوم قومیں حاکم قوموں کے برابر نہیں ہوسکتیں ۔ اور راعی کی جمع رعاء ورعاۃ آتی ہے ۔ المراعاۃ کسی کام کے انجام پر غور کرنا اور نہ دیکھنا کہ اس سے کیا صادر ہوتا ہے کہا جاتا ہے ۔ راعیت النجوم میں نے ستاروں کے غروب ہونے پر نگاہ رکھی ۔ قرآن میں ہے : لا تَقُولُوا : راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا[ البقرة 104]( مسلمانو پیغمبر سے ) راعنا کہہ کر مت خطاب کیا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو ۔ کہا جاتا ہے : ارعیتہ سمعی ۔ میں نے اس کی بات پر کان لگایا یعنی غور سے اس کی بات کو سنا اسی طرح محاورہ ہے ۔ ارعنی سمعک میری بات سنیے ۔ اور ارع علٰی کذا ۔ کے معنی کسی پر رحم کھانے اور اسکی حفاظت کرنے کے ہیں ۔- شيخ - يقال لمن طعن في السّنّ : الشَّيْخُ ، وقد يعبّر به فيما بيننا عمّن يكثر علمه، لما کان من شأن الشَّيْخِ أن يكثر تجاربه ومعارفه، ويقال : شَيْخٌ بيّن الشَّيْخُوخَةُ ، والشَّيْخُ ، والتَّشْيِيخُ. قال اللہ تعالی: هذا بَعْلِي شَيْخاً [هود 72] ، وَأَبُونا شَيْخٌ كَبِيرٌ [ القصص 23] .- ( ش ی خ ) الشیخ - کے معنی معمر آدمی کے ہیں عمر رسید ہ آدمی کے چونکہ تجربات اور معارف زیادہ ہوتے ہیں اس مناسب سے کثیر العلم شخص کو بھی شیخ کہہ دیا جاتا ہے ۔ محاورہ شیخ بین الشیوخۃ والشیخ ولتیشخ یعنی وہ بہت بڑا عالم ہے قرآن میں ہے : ۔ هذا بَعْلِي شَيْخاً [هود 72] یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں وَأَبُونا شَيْخٌ كَبِيرٌ [ القصص 23] . ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٣) چناچہ جب مدین کے کنوئیں پر پہنچے تو اس پر تقریبا چالیس آدمیوں کا مجمع تھا جو اس کنویں سے پانی کھینچ کر اپنی بکریوں کو پلا رہے تھے۔- اور ان لوگوں سے ایک طرف الگ ہو کر دو عورتیں دیکھیں جو اپنی کمزوری کی وجہ سے پانی سے اپنی بکریاں روکے ہوئے کھڑی تھیں اور لوگوں کے فارغ ہوجانے کی منتظر تھیں۔- حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا تمہارا کیا مطلب ہے اپنی بکریوں کو پانی کیوں نہیں پلاتیں وہ بولیں ہم اس وقت تک اپنی بکریوں کو پانی نہیں پلاتیں جب تک کہ یہ چرواہے پلا کر فارغ نہ ہوجائیں پھر اس کے بعد پلاتی ہیں اور ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں ہمارے علاوہ ان کا اور کوئی مددگار نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (وَلَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ ) ” - یہ کٹھن اور طویل سفر طے کرنے میں کتنا عرصہ لگا ہوگا اور اس دوران آپ ( علیہ السلام) کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا ‘ اس سب کچھ کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے اور اب بات وہاں سے شروع ہو رہی ہے جب آپ ( علیہ السلام) مدین کے کنویں پر پہنچ گئے :- (وَجَدَ عَلَیْہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَز) ” - آپ ( علیہ السلام) نے دیکھا کہ کنویں پر لوگوں کا ہجوم تھا اور وہ کنویں سے پانی نکال نکال کر اپنے جانوروں کو پلا رہے تھے۔- (وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِہِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِ ج) ” - ان عورتوں کی بکریاں پیاس کی وجہ سے پانی کی طرف جانے کے لیے بےتاب تھیں لیکن وہ ہجوم چھٹ جانے کے انتظار میں انہیں روکے کھڑی تھیں۔- (قَالَ مَا خَطْبُکُمَا ط) ” - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا کہ آپ اپنی بکریوں کو ایک طرف کیوں روکے کھڑی ہیں اور انہیں پانی کی طرف کیوں نہیں جانے دیتیں ؟- (قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰی یُصْدِرَ الرِّعَآءُسکۃ) ” - جب یہ تمام چرواہے اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جاتے ہیں تو اس کے بعد ہی ہم اپنے جانوروں کو پانی پلا سکتے ہیں۔- (وَاَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ ) ” - یعنی اصل میں تو یہ مردوں کے کرنے کا کام ہے مگر ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں ‘ گھر میں کوئی اور مرد ہے نہیں ‘ چناچہ مجبوراً ہم لڑکیوں کو ہی بکریاں چرانا پڑتی ہیں۔ باقی سب چرواہے مرد ہیں ‘ ہم ان کے ساتھ لڑ جھگڑ کر پانی پلانے کی باری نہیں لے سکتے۔ چناچہ ہم ان کے جانے کا انتظار کرتے ہیں اور ان سب کے چلے جانے کے بعد اپنی بکریوں کو پانی پلاتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 33 یہ مقام جہاں حضرت موسی پہنچے تھے ، عربی روایات کے مطابق خلیج عقبہ کے غربی ساحل پر مقنا سے چند میل بجانب شمال واقع تھا ۔ آج کل اسے البدع کہتے ہیں اور وہاں ایک چھوٹا سا قصبہ آباد ہے ، میں نے دسمبر 1959 میں تبوک سے عقبہ جاتے ہوئے اس جگہ کو دیکھا ہے ، مقامی باشندوں نے مجھے بتایا کہ ہم باپ دادا سے یہی سنتے چلے آئے ہیں کہ مدین اسی جگہ واقع تھا ۔ یوسیفوس سے لیکر برٹن تک قدیم و جدید سیاحوں اور جغرافیہ نویسوں نے بھی بالعموم مدین کی جائے وقوع یہی بتائی ہے ۔ اس کے قریب تھوڑے فاصلے پر وہ جگہ ہے جسے اب مغائر شعیب یا مغارات شعیب کہا جاتا ہے ، اسی جگہ ثمودی طرز کی کچھ عمارات موجود ہیں ، اور اس سے تقریبا میل ڈیڑھ میل کے فاصلے پر کچھ قدیم کھنڈر ہیں جن میں دو اندھے کنویں ہم نے دیکھے ۔ مقامی باشندوں نے ہمیں بتایا کہ یقین کے ساتھ تو ہم نہیں کہہ سکتے ، لیکن ہمارے ہاں روایات یہی ہیں کہ ان دونوں میں سے ایک کنواں وہ تھا جس پر حضرت موسی نے بکریوں کو پانی پلایا ہے ، یہی بات ابوالفداء ( متوفی 732 ھ ) نے تقویم البلدان میں اور یاقوت نے معجم البلدان میں ابو زید انصاری ( متوفی 216ھ ) کے حوالہ سے لکھی ہے کہ اس علاقے کے باشندے اسی مقام پر حضرت موسی کے اس کنویں کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت صدیوں سے وہاں کے لوگوں میں متوارث چلی آرہی ہے اور اس بنا پر اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں جس مقام کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہی ہے ۔ مقابل کے صفحہ پر اس مقام کی کچھ تصاویر ملاحظہ ہوں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 34 یعنی ہم عورتیں ہیں ، ان چرواہوں سے مزاحمت اور کشمکش کر کے اپنے جانوروں کو پانی پلانا ہمارے بس میں نہیں ہے ، والد ہمارے اس قدر سن رسیدہ ہیں کہ وہ خود یہ مشقت اٹھا نہیں سکتے ، گھر میں کوئی دوسرا مرد بھی نہیں ہے ، اس لیے ہم عورتیں ہی یہ کام کرنے نکلتی ہیں اور جب تک سب چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلاکر چلے نہیں جانتے ، ہم کو مجبورا انتظار کرنا پڑتا ہے ، اس سارے مضمون کو ان خواتین نے صرف ایک مختصر سے فقرے میں ادا کردیا ، جس سے ان کی حیاداری کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک غیر مرد سے زیادہ بات بھی نہ کرنا چاہتی تھی ، مگر یہ بھی پسند نہ کرتی تھیں کہ یہ اجنبی ہمارے خاندان کے متعلق کوئی غلط رائے قائم کرلے اور اپنے ذہن میں یہ خیال کرے کہ کیسے لوگ ہیں جن کے مرد گھر بیٹھے رہے اور اپنی عورتوں کو اس کام کے لیے باہر بھیج دیا ۔ ان خواتین کے والد کے متعلق ہمارے ہاں کی روایات میں یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ وہ حضرت شعیب علیہ السلام تھے ۔ لیکن قرآن مجید میں اشارۃ و کنایۃ بھی کوئی بات ایسی نہیں کہی گئی ہے جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ وہ حضرت شعیب ہی تھے ، حالانکہ شعیب علیہ السلام کی شخصیت قرآن میں ایک معروف شخصیت ہے ، اگر ان خواتین کے والد وہی ہوتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ یہاں اس کی تصریح نہ کردی جاتی ۔ بلا شبہ بعض احادیث میں ان کے نام کی تصریح ملتی ہے ، لیکن علامہ ابن جریر اور ابن کثیر دونوں اس پر متفق ہیں کہ ان میں سے کسی کی سند بھی صحیح نہیں ہے ، اس لیے ابن عباس ، حسن بصری ، ابو عبیدہ اور سعید بن جبیر جیسے اکابر مفسرین نے بنی اسرائیل کی روایات پر اعتماد کر کے ان بزرگ کے وہی نام بتائے ہیں جو تلمود وغیرہ میں آئے ہیں ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسم شعیب کی تصریح منقول ہوتی تو یہ حضرات کوئی نام نہ لے سکتے ۔ بائیبل میں ایک جگہ ان بزرگ کا نام رعوایل اور دوسری جگہ ینترو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ مدین کے کاہن تھے ( خروج باب2 ۔ 16 ۔ 18 ۔ باب 3 ۔ 1 ۔ باب 18 ۔ 5 ) تلمودی لٹریچر میں رعوایل ، یتھرو اور حوباب تین مختلف نام بتائے گئے ہیں ، موجودہ زمانے کے علمائے یہود کا خیال ہے کہ یتھروہزا کسی لنسی کا ہم معنی لقب تھا اور اصل نام رعوایل یا حوباب تا ، اسی طرح لفظ کاہن ( ) کی تشریح میں بھی علماء یہود کے درمیان اختلاف ہے ، یعنی اس کو پروہت ( ) کا ہم معنی بتاتے ہیں اور یعنی رئیس یا امیر ( ) کا ۔ تلمود میں ان کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں کہ حضرت موسی کی پیدائش سے پہلے فرعون کے ہاں ان کی آمد و رفت تھی اور وہ ان کے علم اور اصابت رائے پر اعتماد رکھتا تھا ، مگر جب بنی اسرائیل کا استیصال کرنے کے لیے مصر کی شاہی کونسل میں مشورے ہونے لگے اور ان کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کردینے کا فیصلہ کیا گیا تو انہوں نے فرعون کو اس غلط کام سے روکنے کی کوشش کی ، اسے اس ظلم کے برے نتائج سے ڈرایا اور رائے دی کہ اگر ان لوگوں کا وجود آپ کے لیے ناقابل برداشت ہے تو انہیں ان کے باپ دادا کے ملک کنعان کی طرف نکال دیجیے ، اس پر فرعون ان سے ناراض ہوگیا اور اس نے انہیں ذلت کے ساتھ اپنے دربار سے نکلوا دیا ، اس وقت سے وہ اپنے ملک مدین میں اقامت گزریں ہوگئے تھے ۔ ان کے مذہب کے متعلق قیاس یہی ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی طرح وہ بھی دین ابراہیمی کے پیرو تھے ، کیونکہ جس طرح حضرت موسی اسحاق بن ابراہیم علیہما السلام کی اولاد تھے اسی طرح وہ مدیان بن ابراہیم کی اولاد میں سے تھے ، یہی تعلق غالبا اس کا موجب ہوا ہوگا کہ انہوں نے فروعن کو بنی اسرائیل پر ظلم کرنے سے روکا اور اس کی ناراضی مول لی ۔ مفسر نیسابوری نے حضرت حسن بصری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ انہ کان رجلا مسلمان قبد الدین من شعیب ( وہ ایک مسلمان آدمی تھے ، حضرت شعیب کا دین انہوں نے قبول کرلیا تھا ) تلمود میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ مدیانیوں کی بت پرستی کو علانیہ حماقت قرار دیتے تھے اس وجہ سے اہل مدین کے مخالف ہوگئے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: مطلب یہ تھا کہ ہمارے والد بوڑھے ہونے کی وجہ سے جانوروں کو پانی پلانے کے لئے نہیں آسکتے، اور ہم چونکہ عورت ذات ہیں، اس لئے مردوں میں گھس کر پانی نہیں پلاسکتیں، اس لئے اِس انتظار میں ہیں کہ مرد چلے جائیں اور کنواں خالی ہوجائے تو ہم اپنے جانوروں کو لے جاکر پانی پلائیں۔ واضح رہے کہ ان عورتوں کے والد حضرت شعیب علیہ السلام تھے جنہیں مدین کے لوگوں کی اصلاح کے لئے پیغمبر بناکر بھیجا گیا تھا، اور جن کا واقعہ سورہ اعراف، سورہ ہود وغیرہ میں تفصیل سے آچکا ہے۔ اِس واقعہ سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت خواتین کا کسی کام کے لئے باہر نکلنا جائز ہے، البتہ اگر مرد وہ کام انجام دے سکتے ہوں تو مردوں ہی کو انجام دینا چاہئے، اِسی لئے اُنہوں نے اپنے آنے کی وجہ یہ بیان کی کہ ہمارے والد ضعیف ہیں، اور گھر میں کوئی اور مرد نہیں ہے، نیز اِس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خواتین سے بات کرنا جائز ہے، خاص طور پر اگر اُنہیں کسی مشکل میں مبتلا دیکھیں تو ان کی مدد کے لئے ان کا حال پوچھ کر حتی الامکان اُن کی مدد کرنی چاہئے، بشرطیکہ کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔