2 2 1چناچہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور ایسے سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی جس سے ان کی دنیا بھی سنور گئی اور آخرت بھی یعنی وہ ہادی بھی بن گئے اور مہدی بھی، خود بھی ہدایت یافتہ اور دوسروں کو بھی ہدایت کا راستہ بتلانے والے۔
[٣١] مدین یہاں سے آٹھ دن کی مسافت پر تھا اور فرعون کی حدود سلطنت سے باہر تھا۔ آپ نے اس مخلص ساتھی سے یہ اطلاع پاتے ہی مدین کا رخ کیا اور بچتے بچاتے خوب چوکنے ہو کر وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے ان ظالموں کی دستبردار سے بچا لے اور ایسی راہ پر ڈال دے جو سیدھا مدین کو جاتا ہو اور میں ان ظالموں سے بچ کر وہاں پہنچ سکوں۔
وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاۗءَ مَدْيَنَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی اور انھیں اس راستے پر ڈال دیا جو مدین کی طرف جاتا تھا۔ مدین خلیج عقبہ کے مغربی ساحل پر ” مقنا “ سے چند میل بجانب شمال واقع تھا، آج کل اسے ” اَلْبِدَعْ “ کہتے ہیں۔ اس زمانے میں مدین فرعون کی سلطنت سے باہر تھا۔ مصر کی حکومت پورے جزیرہ نمائے سینا پر نہیں تھی، بلکہ صرف اس کے مغربی اور جنوبی علاقے تک محدود تھی۔ خلیج عقبہ کے مشرقی اور مغربی ساحل، جن پر بنی مدیان آباد تھے، وہ مصری اقتدار سے آزاد تھے، اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر سے نکلتے ہی مدین کا رخ کیا، کیونکہ قریب ترین آزاد اور آباد علاقہ وہی تھا، لیکن وہاں جانے کے لیے انھیں گزرنا بہرحال مصر کے مقبوضہ علاقوں ہی سے تھا اور مصر کی فوج سے بچ کر نکلنا تھا، اس لیے انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے سیدھے راستے پر ڈال دے، جس سے میں صحیح سلامت مدین پہنچ جاؤں۔ (تفہیم القرآن)- 3 ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ سعید بن جبیر کے واسطے سے ابن عباس (رض) کا قول ذکر کیا ہے کہ ” موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے مدین کی طرف چلے تو ان کے پاس راستے میں سبزی اور درختوں کے پتوں کے سوا کھانے کی کوئی چیز نہ تھی، حتیٰ کہ پاؤں سے ننگے ہوگئے۔ مدین پہنچنے سے پہلے ہی ان کے پاؤں کے جوتے ٹوٹ کر گرگئے۔ جب سائے میں جا کر بیٹھے تو اس وقت وہ ساری مخلوق میں اللہ کے چنے ہوئے بندے تھے اور حال یہ تھا کہ بھوک سے پیٹ پیٹھ سے لگا ہوا تھا۔ “
خلاصہ تفسیر - اور جب موسیٰ (علیہ السلام یہ دعا کر کے ایک سمت کو توکلا علی اللہ چلے اور بتائید غیبی) مدین کی طرف ہو لئے (چونکہ راستہ معلوم نہ تھا اس لئے تقویت و توکل اور نفس کو تسکین دینے کے لئے آپ ہی آپ) کہنے لگے کہ امید ہے کہ میرا رب مجھ کو (کسی مقام امن کا) سیدھا راستہ چلاوے گا (چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مدین جا پہنچے) اور جب مدین کے پانی (یعنی کنوئیں) پر پہنچے تو اس پر (مختلف) آدمیوں کا ایک مجمع دیکھا جو (اس کنوئیں سے کھینچ کھینچ کر اپنے مواشی کو) پانی پلا رہے تھے اور ان لوگوں سے ایک طرف (الگ) دو عورتیں دیکھیں کہ وہ (اپنی بکریاں) روکے کھڑی ہیں، موسیٰ (علیہ السلام) نے (ان سے) پوچھا تمہارا کیا مطلب ہے وہ دونوں بولیں کہ (ہمارا معمول یہ ہے کہ) ہم (اپنے جانوروں کو) اس وقت تک پانی نہیں پلاتے جب تک کہ یہ چرواہے (جو کنوئیں پر پانی پلا رہے ہیں) پانی پلا کر (جانوروں کو) ہٹا کر نہ لے جاویں (ایک تو حیا کے سبب، دوسرے مردوں سے مزاحمت ناتوانوں سے کب ہو سکتی ہے) اور (اس حالت میں ہم آتے بھی نہیں مگر) ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں (اور گھر پر اور کوئی کام کرنے والا ہی نہیں اور کام ضروری ہے اس مجبوری کو ہم کو آنا پڑتا ہے) پس (یہ سن کر) موسیٰ (علیہ السلام کو رحم آیا اور انہوں نے) ان کے لئے پانی (کھینچ کر ان کے جانوروں کو) پلایا (ور ان کو انتظار اور پانی کھینچنے کی تکلیف سے بچایا) پھر (وہاں سے) ہٹ کر (ایک) سایہ (کی جگہ) میں جا بیٹھے (خواہ کسی پہاڑ کا سایہ ہو یا کسی درخت کا) پھر (جناب باری میں) دعا کی کہ اے میرے پروردگار (اس وقت) جو نعمت بھی (قلیل یا کثیر) آپ مجھ کو بھیج دیں میں اس کا (سخت) حاجتمند ہوں (کیونکہ اس سفر میں کچھ کھانے پینے کو نہ ملا تھا۔ حق تعالیٰ نے اس کا یہ سامان کیا کہ وہ دونوں بیبیاں اپنے گھر لوٹ کر گئیں تو باپ نے معمول سے جلدی آجانے کی وجہ دریافت کی، انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کا پورا قصہ بیان کیا انہوں نے ایک لڑکی کو بھیجا کہ ان کو بلا لاؤ) موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس ایک لڑکی آئی کہ شرماتی ہوئی چلتی تھی (جو کہ اہل شرف کی طبعی حالت ہے اور آ کر) کہنے لگی کہ میرے والد تم کو بلاتے ہیں تاکہ تم کو اس کا صلہ دیں جو تم نے ہماری خاطر (ہمارے جانوروں کو) پانی پلا دیا تھا (یہ ان صاحبزادی کو اپنے والد کی عادت سے معلوم ہوا ہوگا کہ احسان کی مکافات کیا کرتے ہوں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) ساتھ ہو لئے گو مقصود موسیٰ (علیہ السلام) کا بالیقین اپنی خدمت کا معاوضہ لینا نہ تھا لیکن مقام امن اور کسی رفیق شفیق کے ضرور باقتضائے وقت جویاں تھے اور اگر بھوک کی شدت بھی اس جانے کا ایک جزو علت ہو تو مضائقہ نہیں اور اس کو اجرت سے کچھ تعلق نہیں اور ضیافت کی تو استدعا بھی بالخصوص حاجت کے وقت اور خصوصاً کریم و شریف آدمی سے کچھ ذلت نہیں چہ جائیکہ دوسرے کی استدعا پر ضیافت کا قبول کرلینا، راہ میں موسیٰ (علیہ السلام) نے ان بی بی سے فرمایا کہ تم میرے پیچھے ہوجاؤ میں اولاد ابراہیم سے ہوں، اجنبیہ کو بےوجہ بےقصد دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا، غرض اسی طرح ان بزرگ کے پاس پہنچے) سو جب ان کے پاس پہنچے اور ان سے تمام حال بیان کیا تو انہوں نے (تسلی دی اور) کہا کہ (اب) اندیشہ نہ کرو تم ظالم لوگوں سے بچ آئے (کیونکہ اس مقام پر فرعون کی عملداری نہ تھی کذا فی الروح، پھر) ایک لڑکی نے کہا کہ ابا جان (آپ کو آدمی کی ضرورت ہے اور ہم سیانی ہوگئیں اب گھر میں رہنا مناسب ہے تو) آپ ان کو نوکر رکھ لیجئے، کیونکہ اچھا نوکر وہ شخص ہی جو مضبوط (ہو اور) امانت دار (بھی) ہو (اور ان میں دونوں صفتیں ہیں، چناچہ قوت ان کے پانی کھینچنے سے اور امانت ان کے برتاؤ سے، خصوصاً راہ میں عورت کو پیچھے کردینے سے ظاہر ہوتی تھی اور اپنے باپ سے بھی بیان کیا تھا اس پر) وہ (بزرگ موسیٰ (علیہ السلام) سے) کہنے لگے میں چاہتا ہوں کہ ان دو لڑکیوں میں سے ایک کو تمہارے ساتھ بیاہ دوں اس شرط پر کہ تم آٹھ سال میری نوکری کرو (اور اس نوکری کا بدلہ وہی نکاح ہے، حاصل یہ کہ آٹھ سال کی خدمت اس نکاح کا مہر ہے) پھر اگر تم دس سال پورے کردو تو یہ تمہاری طرف سے (احسان) ہے (یعنی میری طرف سے جبر نہیں) اور میں (اس معاملہ میں) تم پر کوئی مشقت ڈالنا نہیں چاہتا (یعنی کام لینے اور وقت کی پابندی وغیرہ معاملہ کی فروعات میں آسانی برتوں گا اور) تم مجھ کو انشاء اللہ تعالیٰ خوش معاملہ پاؤ گے موسیٰ (علیہ السلام رضا مند ہوگئے اور) کہنے لگے کہ (بس تو) یہ بات میرے اور آپ کے (درمیان (پکی) ہوچکی، میں ان دونوں مدتوں میں سے جس (مدت) کو بھی پورا کر دوں مجھ پر کوئی جبر نہ ہوگا اور ہم جو (معاملہ) کی بات چیت کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کا گواہ (کافی) ہے (اس کو حاضر ناظر سمجھ کر عہد پورا کرنا چاہئے۔ )- معارف و مسائل - وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاۗءَ مَدْيَنَ ، مدین ملک شام کے ایک شہر کا نام ہے جو مدین بن ابراہیم کے نام سے موسوم ہے۔ یہ علاقہ فرعونی حکومت سے خارج تھا۔ مصر سے مدین کی مسافت آٹھ منزل کی تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب فرعونی سپاہیوں کے تعاقب کا طبعی خوف پیش آیا، جو نہ نبوت و معرفت کے منافی ہے نہ توکل کے، تو مصر سے ہجرت کا ارادہ کیا اور مدین کی سمت شاید اس لئے متعین کی کہ مدین بھی اولاد ابراہیم (علیہ السلام) کی بستی تھی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی ان کی اولاد میں تھے۔- اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بالکل بےسروسامانی کے ساتھ اس طرح مصر سے نکلے کہ نہ کوئی توشہ ساتھ تھا نہ کوئی سامان اور نہ راستہ معلوم، اسی اضطرار کی حالت میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا عَسٰى رَبِّيْٓ اَنْ يَّهْدِيَنِيْ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ ، یعنی امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھا راستہ دکھائے گا، اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی۔ مفسرین کا بیان ہے کہ اس سفر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی غذا صرف درختوں کے پتے تھے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ سب سے پہلا ابتلاء اور امتحان تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے ابتلاءات اور امتحانات کی تفصیلات طورہ طہ میں ایک طویل حدیث کے حوالہ سے بیان ہوچکی ہے۔
وَلَمَّا تَوَجَّہَ تِلْقَاۗءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّيْٓ اَنْ يَّہْدِيَنِيْ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ ٢٢- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- مدن - المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] .- ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔- عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔
(٢٢) اور موسیٰ (علیہ السلام) مدین کی طرف چل پڑے تو خیال ہوا کہ راستہ تو معلوم نہیں تو خود ہی کہنے لگے امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے مدین کی طرف سیدھا پہنچا دے گا۔
آیت ٢٢ (وَلَمَّا تَوَجَّہَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ ) ” - نقشے پر دیکھیں تو مصر جزیرہ نمائے سینا کے ایک طرف ہے جبکہ مدین کا علاقہ اس کے دوسری طرف واقع ہے۔ گویا مصر سے مدین جانے کے لیے آپ ( علیہ السلام) کو پورا صحرائے سینا عبور کرنا تھا۔ آپ ( علیہ السلام) نے مدین جانے کا عزم اس لیے کیا کہ یہ علاقہ فرعون کی سلطنت سے باہر تھا۔- (قَالَ عَسٰی رَبِّیْٓ اَنْ یَّہْدِیَنِیْ سَوَآء السَّبِیْلِ ) ” - یعنی اس لق و دق صحرا میں سفر کرتے ہوئے میرا رب مسلسل میری راہنمائی کرتا رہے گا اور اس طرح میں راستہ بھٹکنے سے بچا رہوں گا۔ ظاہر ہے کہ ایک وسیع و عریض صحرا میں راستہ بھٹک جانے والے مسافر کا انجام تو ہلاکت ہی ہوسکتا ہے۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 31 بائیبل کا بیان اس امر میں قرآن سے متفق ہے کہ حضرت موسی نے مصر سے نکل کر مدین کا رخ کیا تھا ۔ لیکن تلمود یہ بے سرو پا قصہ بیان کرتی ہے کہ حضرت موسی سے بھاگ کر حبش چلے گئے اور وہاں بادشاہ کے مقرب ہوگئے ۔ پھر اس کے مرنے پر لوگوں نے ان کو اپنا بادشاہ بنا لیا اور اس کی بیوہ سے ان کی شادی کردی ۔ 40 سال انہوں نے وہاں حکومت کی ، مگر اس پوری مدت میں اپنی حبشی بیوی سے کبھی مقاربت نہ کی ۔ 40 سال گزر جانے کے بعد اس عورت نے حبش کے باشندوں سے شکایت کی کہ اس شخص نے آج تک نہ تو مجھ سے زن و شو کا تعلق رکھا ہے اور نہ کبھی حبش کے دیوتاؤں کی پرستش کی ہے ، اس پر امرائے سلطنت نے انہیں معزول کر کے اور بہت سا مال دے کر ملک سے باحترام رخصت کردیا ، تب وہ حبش سے مدین پہنچے اور وہ واقعات پیش آئے جو آگے بیان ہورہے ہیں ، اس وقت ان کی 67 سال تھی ۔ اس قصے کے بے سروپا ہونے کی ایک کھلی دلیل یہ ہے کہ اسی قصے میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس زمانے میں اسیریا ( شمالی عراق ) پر حبش کی حکومت تھی ، اور اسیر یا والوں کی بغاوتیں کچلنے کے لیے حضرت موسی نے بھی اور ان کے پیش رو بادشاہ نے بھی فوجی چڑھائیاں کی تھیں ۔ اب جو شخص بھی تاریخ و جغرافیہ سے کوئی واقفیت رکھتا ہو وہ نقشے پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھ سکتا ہے کہ اسیریا پر حبشہ کا تسلط اور حبشی فوج کا حملہ یا تو اس صورت میں ہوسکتا تھا کہ مصر اور فلسطین و شام پر اس کا قبضہ ہوتا ، یا پورا ملک عرب اس کے زیر نگیں ہوتا ، یا پھر حبش کا بیڑا ایسا زبردست ہوتا کہ وہ بحر ہند اور خلیج فارس کو عبور کر کے عراق فرح کرلیتا ۔ تاریخ اس ذکر سے خالی ہے کہ کبھی حبشیوں کو ان ممالک پر تسلط حاصل ہوا ہو یا ان کی بحری طاقت اتنی زبردست رہی ہو ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا علم خود اپنی تاریخ کے بارے میں کتنا ناقص تھا اور قرآن ان کی غلطیوں کی تصحیح کر کے صحیح واقعات کیسی منقح صورت میں پیش کرتا ہے ۔ لیکن عیسائی اور یہودی مستشرقین کو یہ کہتے ذرا شرم نہیں آتی کہ قرآن نے یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 32 یعنی ایسے راستہ پر جس سے میں بخیریت مدین پہنچ جاؤں ۔ واضح رہے کہ اس زمانہ میں مدین فرعون کی سلطنت سے باہر تھا ، مصر کی حکومت پورے جزیرہ نمائے سینا پر نہ تھی بلکہ صرف اس کے مغربی اور جنوبی علاقے تک محدود تھی ۔ خلیج عقبہ کے مشرقی اور مغربی سواحل جن پر بنی مدیان آباد تھے ، مصری اثر و اقتدار سے بالکل آزاد تھے ۔ اسی بنا پر حضرت موسی نے مصر سے نکلتے ہی مدین کا رخ کیا تھا کیونکہ قریب ترین آزاد اور آباد علاقہ وہی تھا ، لیکن وہاں جانے کے لیے انہیں گزرنا بہرحال مصر کے مقبوضہ علاقوں ہی سے تھا ، اور مصر کی پولیس اور فوجی چوکیوں سے بچ کر نکلنا تھا ، اسی لیے انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے ایسے راستے پر ڈال دے جس سے میں صحیح و سلامت مدین پہنچ جاؤں ۔
11: مدین حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بستی تھی اور وہ علاقہ فرعون کی حکومت سے باہر تھا اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے وہاں جانے کا ارادہ کیا لیکن شاید راستہ پوری طرح معلوم نہیں تھا، محض اندازے سے چل رہے تھے اس لئے یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحیح راستے پر ڈالدے گا۔