موسی علیہ السلام کافرار فرعون اور فرعونیوں کے ارادے جب اس شخص کی زبانی آپ کو معلوم ہوگئے تو آپ وہاں سے تن تنہاچپ چاپ نکل کھڑے ہوئے ۔ چونکہ اس سے پہلے کی زندگی کے ایام آپ کے شہزادوں کی طرح گزرے تھے سفر بہت کڑا معلوم ہوا لیکن خوف وہراس کے ساتھ ادھر ادھر دیکھتے سیدھے چلے جارہے تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے جارہے تھے کہ اے اللہ ان ظالموں سے یعنی فرعون اور فرعونیوں سے نجات دے ۔ مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی رہبری کے واسطے ایک فرشتہ بھیجا تھا جو گھوڑے پر آپ کے پاس آیا اور آپ کو راستہ دکھا گیا واللہ اعلم ۔ تھوڑی دیر میں آپ جنگلوں اور بیابانوں سے نکل کر مدین کے راستے پر پہنچ گئے تو خوش ہوئے اور فرمانے لگے مجھے ذات باری سے امید ہے کہ وہ راہ راست پر ہی لے جائے گا ۔ اللہ نے آپ کی امید بھی پوری کی ۔ اور آخرت کی سیدھی راہ نہ صرف بتائی بلکہ اوروں کو بھی سیدھی راہ بتانے والا بنایا ۔ مدین کے پاس کے کنویں پر آئے تو دیکھا کہ چرواہے پانی کھینچ کھینچ کر اپنے اپنے جانوروں کو پلا رہے ہیں ۔ وہیں آپ نے یہ بھی ملاحظہ فرمایا کہ دو عورتیں اپنی بکریوں کو ان جانوروں کے ساتھ پانی پینے سے روک رہی ہیں تو آپ کو ان بکریوں پر اور ان عورتوں کی اس حالت پر کہ بےچاریاں پانی نکال کر پلا نہیں سکتیں اور ان چرواہوں میں سے کوئی اس کاروادار نہیں کہ اپنے کھینچے ہوئے پانی میں سے ان کی بکریوں کو بھی پلادے تو آپ کو رحم آیا ان سے دریافت فرمایا کہ تم اپنے جانوروں کو اس پانی سے کیوں روک رہی ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو پانی نکال نہیں سکتیں جب یہ اپنے جانوروں کو پانی پلاکرچلے جائیں تو بچا کھچا پانی ہم اپنی بکریوں کو پلادیں گی ۔ ہمارے والد صاحب ہیں لیکن وہ بہت ہی بوڑھے ہیں ۔ بکریوں کو پانی پلایا آپ نے خود ہی ان جانوروں کو پانی کھینچ کر پلادیا ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کنویں کے منہ کو ان چرواہوں نے ایک بڑے پتھر سے بند کردیا تھا ۔ جس چٹان کو دو آدمی مل کر سرکا سکتے تھے آپ نے تن تنہا اس پتھر کو ہٹادیا اور ایک ڈول نکالا تھا جس میں اللہ نے برکت دی اور ان دونوں لڑکیوں کی بکریاں شکم سیر ہوگئیں ۔ اب آپ تھکے ہارے بھوکے پیاسے ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ گئے ۔ مصر سے مدین تک پیدل بھاگے دوڑے آئے تھے ۔ پیروں میں چھالے پڑگئے تھے کھانے کو کچھ پاس نہیں تھا درختوں کے پتے اور گھاس پھونس کھاتے رہے تھے ۔ پیٹ پیٹھ سے لگ رہا تھا اور گھاس کا سبز رنگ باہر سے نظر آرہا تھا ۔ آدھی کھجور سے بھی اس وقت آپ ترسے ہوئے تھے حالانکہ اس وقت کی ساری مخلوق سے زیادہ برگزیدہ اللہ کے نزدیک آپ تھے صلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ دو رات کا سفر کرکے میں مدین گیا اور وہاں کے لوگوں سے اس درخت کا پتہ پوچھا جس کے نیچے اللہ کے کلیم نے سہارا لیا تھا ۔ لوگوں ایک درخت کی طرف اشارہ کیا میں نے دیکھا کہ وہ ایک سرسبز درخت ہے ۔ میرا جانور بھوکا تھا اس نے اس میں منہ ڈالا پتے منہ میں لے کر بڑی دیر تک بدقت چباتارہا لیکن آخر اس نے نکال ڈالے ۔ میں نے کلیم اللہ کے لئے دعا کی اور وہاں سے واپس لوٹ آیا ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ اس درخت کو دیکھنے کے لئے گئے تھے جس سے اللہ نے آپ سے باتیں کی تھیں جیسے کہ آگے آئے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ سدی فرماتے ہیں یہ ببول کا درخت تھا ۔ الغرض اس درخت تلے بیٹھ کر آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے رب میں تیرے احسانوں کا محتاج ہوں ۔ عطاء کا قول ہے کہ اس عورت نے بھی آپ کی دعا سنی ۔
2 1 1جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علم میں یہ بات آئی تو وہاں سے نکل کھڑے ہوئے تاکہ فرعون کی گرفت میں نہ آسکیں۔ 2 1 2یعنی فرعون اور اس کے درباریوں سے، جنہوں نے باہم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا مشورہ کیا تھا، کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی علم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے ؟ کیونکہ مصر چھوڑنے کا یہ حادثہ بالکل اچانک پیش آیا، پہلے سے کوئی خیال یا منصوبہ نہیں تھا، چناچہ اللہ نے گھوڑے پر ایک فرشتہ بھیج دیا، جس نے انھیں راستے کی نشان دہی کی واللہ اعلم (ابن کثیر)
فَخَـــرَجَ مِنْهَا خَاۗىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ ۡ ۔۔ :” يَّتَرَقَّبُ ۡ“ ” رَقَبَۃٌ“ سے ہے، گردن پھیرکر ادھر ادھر دیکھنا، انتظار کرنا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے علم میں یہ بات آئی تو فوراً اکیلے ہی اس شہر سے نکل کھڑے ہوئے۔ اس سے پہلے انھیں ایسا کوئی سابقہ پیش نہیں آیا تھا، بلکہ وہ شہزادے کی حیثیت سے نہایت خوش حالی کے ساتھ راحت و آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اب شہر سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے دشمن کی گرفت سے بچتے ہوئے نکلے، اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے میرے رب جس طرح تو نے میری معجزانہ طریقے سے پرورش فرمائی مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات عطا فرما۔ ظالم اس لیے فرمایا کہ پہلے بیشمار مظالم کے علاوہ ان کا تازہ ترین ظلم یہ تھا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے در پے ہوگئے تھے، جو صریح ظلم تھا، کیونکہ قتل خطا کی سزا کسی قانون میں بھی قتل نہیں ہے۔
فَخَـــرَجَ مِنْہَا خَاۗىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ ٠ۡقَالَ رَبِّ نَجِّــنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِيْنَ ٢١ۧ- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
(٢١) یہ سن کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خوف اور وحشت کی حالت میں اس شہر سے نکل پڑے کہ معلوم نہیں فرعونی کب مجھ کو پکڑ لیں اور کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھ کو ان مصریوں سے بچائیے۔
آیت ٢١ (فَخَرَجَ مِنْہَا خَآءِفًا یَّتَرَقَّبُز) ” - لفظ یَتَرَقَّبُ قبل ازیں آیت ١٨ میں بھی آچکا ہے۔ اس سے مراد کسی شخص کی ایسی کیفیت ہے جس میں وہ کسی بھی طرف سے ممکنہ خطرے کی وجہ سے فکر مند بھی ہو اور انتہائی محتاط اور چوکنا بھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بھی اس وقت ایسی ہی کیفیت تھی۔