Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اس آیت میں ایک لطیف بات یہ ہے کہ فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد والی امتیں اس طرح عذاب آسمانی سے ہلاک نہیں ہوئیں بلکہ جس امت نے سرکشی کی اس کی سرکشی کا بدلہ اسی زمانے کے نیک لوگوں کے ہاتھوں اللہ نے اسے دلوایا ۔ مومنین مشرکین سے جہاد کرتے رہے جیسے فرمان باری ہے آیت ( وَجَاۗءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهٗ وَالْمُؤْتَفِكٰتُ بِالْخَاطِئَةِ Ḍ۝ۚ ) 69- الحاقة:9 ) یعنی فرعون اور جو امتیں اس سے پہلے ہوئیں اور الٹی ہوئی بستی کے رہنے والے یعنی قوم لوط یہ سب لوگ بڑے بڑے قصوروں کے مرتکب ہوئے اور اپنے زمانے کے رسولوں کی نافرمانیوں پر کمر کس لی تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو بھی بڑی سخت پکڑ سے پکڑ لیا ۔ اس گروہ کی ہلاکت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت کلیم علیہ من ربہ افضل الصلوۃ والتسلیم پر نازل ہوتے رہے جن میں سے ایک بہت بڑے انعام کا ذکر یہاں ہے کہ انہیں تورات ملی ۔ اس تورات کے نازل ہونے کے بعد کسی قوم کو آسمان کے یا زمین کے عام عذاب سے ہلاک نہیں کیا گیا سوائے اس بستی کے چند مجرموں کے جنہوں نے اللہ کی حرمت کے خلاف ہفتے کے دن شکار کھیلا تھا اور اللہ نے انہیں سور اور بندر بنادیا تھا ۔ یہ واقعہ بیشک حضرت موسیٰ کے بعد کا ہے ۔ جیسے کہ حضرت ابو سیعد خدری نے بیان فرمایا ہے اور اس کے بعد ہی آپ نے اپنے قول کی شہادت میں یہی آیت ( وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ 43؀ ) 28- القصص:43 ) کی تلاوت فرمائی ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کسی قوم کو عذاب آسمانی یا زمینی سے ہلاک نہیں کیا ۔ اسے عذاب جتنے آئے آپ سے پہلے آئے ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ پھر تورات کے اوصاف بیان ہور ہے ہیں کہ وہ کتاب کو اندھاپے سے گمراہی سے نکالنے والی تھی اور حق کی ہدات کرنے والی تھی ۔ اور آپ کی رحمت سے تھی نیک اعمال کی ہادی تھی ۔ تاکہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں اور نصیحت بھی ۔ اور راہ راست پر آجائیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

431یعنی فرعون اور اس کی قوم یا نوح و عاد وثمود وغیرہ قوم کی ہلاکت کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (تورات) دی۔ 432جس سے وہ حق کو پہچان لیں اور اسے اختیار کریں اور اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔ 433یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے پیغمبروں کی اطاعت کریں جو انھیں خیر و رشد اور فلاح حقیقی کی طرف بلاتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٦] پہلی نسلوں سے مراد اقوام سابقہ ہیں۔ مثلاً قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط، قوم شعیب اور قوم فرعون وغیرہ۔ یہ سب لوگ اللہ کے نافرمان اور سرکش لوگ تھے ان سب اقوام نے دنیا کی تکذیب کا نتیجہ بھگت لیا اور فرعون اور ان کے ساتھیوں کا جو انجام ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس کے بعد ہم نے موسیٰ کو تورات عطا کی جس میں انہی تباہ شدہ اقوام سے متعلق بصیرت افروز دلائل بھی تھے اور آئندہ کے لئے بھی انسانیت کی ہدایت کے واضح ہدایات دی گئیں۔ اور یہ لوگوں پر اللہ کی خاص مہربانی تھی اور ان سب باتوں کا مقصد یہ تھا کہ انسانیت آئندہ صحیح راہ پر گامزن ہوجائے اور اس کا نیا دور شروع ہو۔ اس صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اللہ نے تورات نازل کرنے کے بعد پھر کسی قوم کو آسمان کے عذاب سے تباہ نہیں کیا البتہ ایک بستی کے لوگ (اصحاب السبت) بندر بنائے گئے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا ۔۔ : یہاں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے دلائل اور اس پر اعتراضات کا جواب شروع ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ ہم نے یہ بات پہلے آبا و اجداد میں نہیں سنی، جیسا کہ فرمایا : ( مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْاٰخِرَةِ ښ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ) [ ص : ٧ ] ” ہم نے یہ بات آخری ملت میں نہیں سنی، یہ تو محض بنائی ہوئی بات ہے۔ “ زیر تفسیر آیت سے پہلے آیت (٣٦) میں گزرا ہے کہ یہی اعتراض فرعون اور اس کے سرداروں نے موسیٰ (علیہ السلام) پر کیا تھا : (وَّمَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِيْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ ) ” اور ہم نے یہ بات اپنے پہلے باپ دادا میں نہیں سنی۔ “ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے لے کر فرعون کی ہلاکت تک کا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ہم نے پہلی نسلوں قوم نوح، عاد، ثمود اور قوم لوط وغیرہ کو ہلاک کرنے کے بعد جب ہر طرف گمراہی اور ظلمت کا دور دورہ تھا، موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی جو اس وقت کے لوگوں کے لیے ایسے دلائل لیے ہوئے تھی جن سے دل کی آنکھ روشن ہوتی ہے اور جو گمراہی سے نکال کر ہدایت میں لانے والی اور عذاب سے بچا کر رحمت کا مستحق بنانے والی تھی۔ اور یہ اعتراض بےکار تھا کہ ہم نے اپنے پہلے باپ دادا میں یہ بات نہیں سنی، کیونکہ اسی لیے تو موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث کیا گیا تھا کہ مدت دراز تک رسول نہ آنے کی وجہ سے لوگوں کو ہدایت اور روشنی کی ضرورت تھی۔ اسی طرح بنی اسماعیل میں ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد ہزاروں سال کا وقفہ واقع ہوجانے کی وجہ سے ان کی طرف رسول بھیجنے کی ضرورت تھی۔ بنی اسرائیل کی طرف آنے والے آخری رسول عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی ایک عرصہ گزر چکا تھا۔ اس لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا گیا، تاکہ بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل میں سے کسی کے پاس یہ عذر نہ رہے کہ ہمارے پاس کوئی آگاہ کرنے والا نہیں آیا۔ یہی بات آگے آیت (٤٧) میں آرہی ہے اور اس سے پہلے سورة مائدہ میں بھی گزر چکی ہے، فرمایا : (يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰي فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَاۗءَنَا مِنْۢ بَشِيْرٍ وَّلَا نَذِيْرٍ ۡ فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّنَذِيْرٌ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) [ المائدۃ : ١٩ ]” اے اہل کتاب بیشک تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے، جو تمہارے لیے کھول کر بیان کرتا ہے، رسولوں کے ایک وقفے کے بعد، تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس نہ کوئی خوش خبری دینے والا آیا اور نہ ڈرانے والا، تو یقیناً تمہارے پاس ایک خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا آچکا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (رسالت کا سلسلہ خلق کے محتاج اصلاح ہونے کے سبب ہمیشہ سے چلا آیا ہے چنانچہ) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو (جن کا قصہ ابھی پڑھ چکے ہو) اگلی امتوں (یعنی قوم نوح و عاد وثمود) کے ہلاک ہونے کے پیچھے (جبکہ ان زبانوں کے انبیاء کی تعلیمات نایاب ہوگئی تھیں اور لوگ ہدایت کے سخت حاجتمند تھے) کتاب (یعنی تورات) دی تھی جو لوگوں کے (یعنی بنی اسرائیل کے) لئے دانشمندیوں کا سبب اور ہدایت اور رحمت تھی تاکہ وہ (اس سے) نصیحت حاصل کریں (طالب حق کی اول فہم درست ہوتی ہے یہ بصیرت ہے پھر احکام قبول کرتا ہے یہ ہدایت ہے، پھر ہدایت کا ثمرہ یعنی قرب و قبول عنایت ہوتا ہے۔ یہ رحمت ہے) اور (اسی طرح جب یہ دورہ بھی ختم ہوچکا اور لوگ پھر محتاج تجدید ہدایت ہوئے تو اپنی سنت مستمرہ کے موافق ہم نے آپ کو رسول بنایا جس کے دلائل میں سے ایک یہی واقعہ موسویہ کی یقینی خبر دینا ہے کیونکہ قطعی خبر دینے کے لئے کوئی طریق علم کا ضروری ہے اور وہ طریق منحصر ہے چار میں امور عقلیہ میں عقل، سو یہ واقعہ امور عقلیہ میں سے تو ہے نہیں، اور امور نقلیہ میں یا سماع اہل علم سے جو کہ دوسرا طریق ہے سو یہ بھی بوجہ عدم مخالفت و عدم مدارست اہل اخبار کے منتفی ہے اور یا اپنا مشاہدہ جو کہ تیسرا طریق ہے سو اس کی نفی نہایت ہی اظہر ہے چناچہ ظاہر ہے کہ) آپ (طور کے) مغربی جانب میں موجود نہ تھے جبکہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو احکام دیئے تھے (یعنی توراة دی تھی) اور (وہاں خاص تو کیا موجود ہوتے) آپ (تو) ان لوگوں میں سے (بھی) نہ تھے جو (اس زمانہ میں) موجود تھے (پس احتمال مشاہدہ کا بھی نہ رہا) و لیکن (بات یہ کہ) ہم نے ( موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد) بہت سی نسلیں پیدا کیں پھر ان پر زمانہ دراز گزر گیا (جس سے پھر علوم صحیحہ نایاب ہوگئے اور پھر لوگ محتاج ہدایت ہوئے اور گو درمیان درمیان انبیاء (علیہم السلام) آیا کئے مگر ان کے علوم بھی اس طرح نایاب ہوئے اس لئے ہماری رحمت مقتضی ہوئی کہ ہم نے آپ کو وحی و رسالت سے مشرف فرمایا جو کہ چوتھا طریق ہے خبر یقینی کا اور دوسرے طرق علم ظنی کے ہیں جو مبحث ہی سے خارج ہے کیونکہ آپ کی یہ خبریں بالکل یقینی اور قطعی ہیں حاصل یہ کہ علم یقینی کے چار طریقے ہیں اور تین منتفی پس چوتھا متعین اور یہی مطلوب ہے) اور (جیسے آپ نے عطاء توراة کا مشاہدہ نہیں کیا اور صحیح و یقینی خبر دے رہے ہیں اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کے قیام مدین کا مشاہدہ نہیں فرمایا چناچہ ظاہر ہے کہ) آپ اہل مدین میں بھی قیام پذیر نہ تھے کہ آپ (وہاں کے حالات دیکھ کر ان حالات کے متعلق) ہماری آیتیں (اپنے) ان (معاصر) لوگوں کو پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہوں و لیکن ہم ہی (آپ کو) رسول بنانے والے ہیں ( کہ رسول بنا کر یہ واقعات وحی سے بتلا دیئے) اور (اسی طرح) آپ طور کی جانب (غربی مذکور) میں اس وقت بھی موجود نہ تھے جب ہم نے ( موسیٰ (علیہ السلام) کو) پکارا تھا (کہ " ّٰمُـوْسٰٓي اِنِّىْٓ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ، وَاَنْ اَلْقِ عَصَاكَ " جو کہ ان کو نبوت عطا ہونے کا وقت تھا) و لیکن (اس کا علم بھی اسی طرح حاصل ہوا کہ) آپ اپنے رب کی رحمت سے نبی بنائے گئے تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا (نبی) نہیں آیا، کیا عجب ہے کہ نصیحت قبول کرلیں (کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاصرین بلکہ ان کے آباء اقربین نے بھی کسی نبی کو نہیں دیکھا تھا گو بعض شرائع بالخصوص توحید بواسطہ ان تک بھی پہنچی تھی پس وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا سے تعارض نہ رہا) اور (اگر یہ لوگ ذرا تامل کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ پیغمبر بھیجنے سے ہمارا کوئی فائدہ نہیں بلکہ ان ہی لوگوں کو فائدہ ہے کہ یہ لوگ حسن و قبح پر مطلع ہو کر عقوبت سے بچ سکتے ہیں ورنہ جن امور کا قبح عقل سے دریافت ہوسکتا ہے اس پر عذاب بلا ارسال رسول بھی ہونا ممکن تھا لیکن اس وقت ان کو ایک گونہ حسرت ہوتی کہ ہائے اگر رسول آجاتا تو ہم کو زیادہ تنبہ ہوجاتا اور اس مصیبت میں نہ پڑتے اس لئے رسول بھی بھیج دیا تاکہ اس حسرت سے بچنا ان کو آسان ہو ورنہ احتمال تھا کہ) ہم رسول نہ بھی بھیجتے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ان پر ان کے کرداروں کے سبب (جو عقلاً قبیح ہیں) کوئی مصیبت (دنیا یا آخرت میں) نازل ہوتی (جس کی نسبت ان کو عقل کے یا فرشتے کے ذریعہ سے یقین ہوجاتا کہ یہ سزائے اعمال ہے) تو یہ کہنے لگتے کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے ہمارے پاس کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم آپ کے احکام کا اتباع کرتے اور (ان احکام اور رسول پر) ایمان لانے والوں میں سے ہوتے سو (اس امر کا مققضا تو یہ تھا کہ رسول کے آنے کو غنیمت سمجھتے اور اس کے دین حق کو قبول کرتے لیکن ان کی یہ حالت ہوئی کہ) شبہ نکالنے کے لئے یوں) کہنے لگے کہ ان کو ایسی کتاب کیوں نہ ملی جیسی موسیٰ (علیہ السلام) کو ملی تھی (یعنی قرآن واحدةً مثل توراة کے کیوں نہ نازل ہوا، آگے جواب ہے کہ) کیا جو کتاب موسیٰ (علیہ السلام) کو ملی تھی اس کے قبل یہ لوگ اس کے منکر نہیں ہوئے (چنانچہ ظاہر ہے کہ مشرکین موسیٰ (علیہ السلام) اور توراۃ کو بھی نہ مانتے تھے کیونکہ وہ سرے سے اصل نبوت ہی کے منکر تھے) یہ لوگ ( قرآن اور توراة دونوں کی نسبت) یوں کہتے ہیں کہ دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کے موافق ہیں (یہ اس لئے کہا کہ اصول شرائع میں دونوں متفق ہیں) اور یوں بھی کہتے ہیں کہ ہم تو دونوں میں کسی کو نہیں مانتے (خواہ یہی عبارت ان کا مقولہ ہوا اور خواہ ان کے اقوال سے لازم آتا ہو اور خواہ ایک ہی ساتھ دونوں کا انکار کیا ہو یا مختلف قول جمع کئے گئے ہوں تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس شبہ کا منشاء قصد ایمان بالقرآن بصورت تماثل توراة کے نہیں بلکہ یہ بھی ایک حیلہ اور شرارت ہے آگے اس کا جواب ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ اچھا تو (علاوہ توراة و قرآن کے) تم کوئی اور کتاب اللہ کے پاس سے لے آؤ جو ہدایت کرنے میں ان دونوں سے بہتر ہو میں اسی کی پیروی کرنے لگوں گا، اگر تم (اس دعوے میں) سچے ہو (کہ سِحْرٰنِ تَظٰهَرَا جس سے مقصود ان دونوں کتابوں کا نعوذ باللہ مفتری اور غلط ہونا ہے۔ یعنی مقصود تو اتباع حق کا ہے پس اگر کتب الہیہ کو حق مانتے ہو تو ان کی پیروی کرو، قرآن کی تو مطلقاً اور توراة کی توحید و بشارات محمدیہ میں اور اگر ان کو حق نہیں مانتے تو تم کوئی حق پیش کرو اور اس کا حق ہونا ثابت کردو جس کو اہدی ہونے سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ مقصود حق سے اس کا وسیلہ ہدایت ہونا ہے اگر فرضاً ثابت کردو گے تو میں اس کی پیروی کرلوں گا، غرض یہ کہ میں حق ثابت کر دوں تو تم اس کا اتباع کرو، اور اگر تم حق ثابت کردو تو میں اتباع کے لئے آمادہ ہوں اور چونکہ قضیہ شرطیہ میں محض حکم اتصال کا ہوتا ہے اس لئے اتباع غیر کتب الٰہیہ کا اشکال لازم نہیں آتا) پھر (اس احتجاج کے بعد) اگر یہ لوگ آپ کا (یہ) یہ کہنا (کہ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ الخ) نہ کرسکیں (اور ظاہر ہے کہ نہ کرسکیں گے کقولہ تعالیٰ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا اور پھر بھی آپ کا اتباع نہ کریں) تو آپ سمجھ لیجئے کہ (ان سوالات کا منشاء کوئی اشتباہ و تردد و حق جوئی نہیں ہے بلکہ) یہ لوگ محض اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہیں (ان کا نفس کہتا ہے کہ جس طرح بن پڑے انکار ہی کرنا چاہئے پس یہ ایسا ہی کر رہے ہیں گو حق بھی واضح ہوجاوے) اور ایسے شخص سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو اپنی نفسانی خواہش پر چلتا ہو بدون اس کے کہ منجانب اللہ کوئی دلیل (اس کے پاس) ہو (اور) اللہ تعالیٰ ایسے ظالم لوگوں کو (جو کہ وضوح حق کے بعد بدون کسی متمسک صحیح کے بھی اپنی گمراہی سے باز نہ آوے) ہدایت نہیں کیا کرتا (جس کا سبب اس شخص کا خود قصد کرنا ہے اپنے گمراہ رہنے کا اور قصد کے بعد خلق فعل عادت ہے اللہ تعالیٰ کی، اس لئے ایسا شخص ہمیشہ گمراہ رہتا ہے، یہاں تک تو جواب الزامی تھا ان کے اس قول کا لَوْلَآ اُوْتِيَ مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي) اور (آگے تحقیقی جواب ہے جس میں قرآن کے دفعۃً واحدةً نازل نہ ہونے کی حکمت بیان فرماتے ہیں کہ) ہم نے اس کلام (یعنی قرآن) کو ان لوگوں کے لئے وقتاً فوقتاً یکے بعد دیگرے بھیجا تاکہ یہ لوگ (بار بار تازہ بتازہ سننے سے) نصیحت مانیں (یعنی ہم تو دفعۃً واحدةً بھیجنے پر بھی قادر ہیں مگر ان ہی کی مصلحت سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں پھر اندھیر ہے کہ اپنی ہی مصلحت کی مخالفت کرتے ہیں۔ )- معارف و مسائل - وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ للنَّاسِ ، قرون اولی سے اقوام نوح و ہود و صالح و لوط (علیہم السلام) مراد ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے اپنی سرکشی کی وجہ سے ہلاک کی گئی تھیں، اور بصائر، بصیرت کی جمع ہے جس کے لفظی معنے تو دانش و بینش کے ہیں۔ مراد اس سے وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ انسانوں کے قلوب میں پیدا فرماتے ہیں جن سے وہ حقائق اشیاء کو دیکھ سکیں اور حق و باطل کا امتیاز کرسکیں۔ (مظہری)- بَصَاۗىِٕرَ للنَّاس میں اگر لفظ ناس سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت ہے تو بات صاف ہے اس امت کے لئے کتاب توراة ہی مجموعہ بصائر تھی اور اگر لفظ ناس سے تمام انسان مراد ہیں جن میں امت محمدیہ بھی داخل ہے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوگا کہ امت محمدیہ کے زمانے میں جو تورات موجود ہے وہ تحریفات کے ذریعہ مسخ ہوچکی ہے تو ان کے لئے اس کا بصائر کہنا کیسے درست ہوگا اور یہ کہ اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ مسلمانوں کو بھی تورات سے فائدہ اٹھانا چاہئے حالانکہ حدیث میں یہ واقعہ معروف ہے کے حضرت فاروق اعظم نے ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی اجازت طلب کی کہ وہ تورات میں جو نصائح وغیرہ ہیں ان کو پڑھیں تاکہ ان کے علم میں ترقی ہو، اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غضبناک ہو کر فرمایا کہ اگر اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میرا ہی اتباع لازم ہوتا (جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ آپ کو صرف میری تعلیمات کو دیکھنا چاہئے تورات و انجیل کا دیکھنا آپ کے لئے درست نہیں۔ ) مگر اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تورات کا جو اس وقت اہل کتاب کے پاس نسخہ تھا وہ تحریف شدہ تھا اور زمانہ ابتداء اسلام کا تھا جس میں نزول قرآن کا سلسلہ جاری تھا، اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی مکمل حفاظت کے پیش نظر اپنی احادیث لکھنے سے بھی بعض حضرات کو روک دیا تھا کہ ایسا نہ ہو لوگ قرآن کے ساتھ احادیث کو جوڑ دیں، ان حالات میں کسی دوسری منسوخ شدہ آسمانی کتاب کا پڑھنا پڑھانا ظاہر ہے کہ احتیاط کے خلاف تھا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مطلقاً تورات و انجیل کے مطالعے اور پڑھنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ ان کتابوں کے وہ حصے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق پیشین گوئیوں پر مشتمل ہیں ان کا مطالعہ کرنا اور نقل کرنا صحابہ کرام سے ثابت اور معروف و مشہور ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام اور کعب احبار اس معاملہ میں سب سے زیادہ معروف ہیں، دوسرے صحابہ کرام نے بھی ان پر نکیر نہیں کیا۔ اس لئے حاصل آیت کا یہ ہوجائے گا کہ تورات و انجیل میں جو غیر محرف مضامین اب بھی موجود ہیں اور بلاشبہ بصائر ہیں، ان سے استفادہ درست ہے مگر ظاہر ہے کہ ان سے استفادہ صرف ایسے ہی لوگ کرسکتے ہیں جو محرف اور غیر محرف میں فرق کرسکیں اور صحیح و غلط کو پہچان سکیں وہ علماء ماہرین ہی ہو سکتے ہیں، عوام کو بیشک اس سے اجتناب اس لئے ضروری ہے کہ وہ کسی مغالطے میں نہ پڑجائیں، یہی حکم ان تمام کتابوں کا ہے جس میں حق کے ساتھ باطل کی آمیزش ہے کہ عوام کو ان کے مطالعہ سے پرہیز کرنا چاہئے علماء ماہرین دیکھیں تو مضائقہ نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَہْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ لِلنَّاسِ وَہُدًى وَّرَحْمَۃً لَّعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۝ ٤٣- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- قرن - والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] ،- ( ق ر ن ) قرن - ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں - ( بصر) مبصرۃ - بَاصِرَة عبارة عن الجارحة الناظرة، يقال : رأيته لمحا باصرا، أي : نظرا بتحدیق، قال عزّ وجل : فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل 13] ، وَجَعَلْنا آيَةَ النَّهارِ مُبْصِرَةً [ الإسراء 12] أي : مضيئة للأبصار وکذلک قوله عزّ وجلّ : وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء 59] ، وقیل : معناه صار أهله بصراء نحو قولهم : رجل مخبث ومضعف، أي : أهله خبثاء وضعفاء، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص 43] أي : جعلناها عبرة لهم،- الباصرۃ - کے معنی ظاہری آنکھ کے ہیں ۔ محاورہ ہے رائتہ لمحا باصرا میں نے اسے عیال طور پر دیکھا ۔ المبصرۃ روشن اور واضح دلیل ۔ قرآن میں ہے :۔ فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل 13] جن ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں پہنچیں یعنی ہم نے دن کی نشانیاں کو قطروں کی روشنی دینے والی بنایا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء 59] اور ہم نے ثمود کی اونٹنی ( نبوت صالح) کی کھل نشانی دی میں مبصرۃ اسی معنی پر محمول ہے بعض نے کہا ہے کہ یہاں مبصرۃ کے معنی ہیں کہ ایسی نشانی جس سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ جیسا کہ رجل مخبث و مصعف اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے اہل اور قریبی شت دار خبیث اور ضعیب ہوں اور آیت کریمہ ؛۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص 43] میں بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جس کے معنی عبرت کے ہیں یعنی ہم نے پہلی قوموں کی ہلاکت کو ان کے لئے تازہ یا عبرت بنادیا - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٣) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان سے پہلے اور امتوں کی ہلاکت کے بعد توریت دی تھی جو بنی اسرائیل کے دانش مندیوں کا سبب اور گمراہی سے ہدایت اور ایمان لانے والوں کے لیے رحمت کا باعث تھی تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان لائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 59 یعنی پچھلی نسلیں جب انبیائے سابقین کی تعلیمات سے روگردانی کا برا نتیجہ بھگت چکیں اور ان کا آخری انجام وہ کچھ ہوچکا جو فرعون اور اس کے لشکروں نے دیکھا ، تو اس کے بعد موسی علیہ السلام کو کتاب عطا کی گئی تاکہ انسانیت کا ایک نیا دور شروع ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

25: اس سے مراد تورات ہے