Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

611یعنی سزا اور عذاب کا مستحق ہوگا مطلب ہے اہل ایمان، وعدہ الٰہی کے مطابق نعمتوں سے بہرہ ور اور نافرمان عذاب سے دو چار، کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٤] اس آیت میں دو آدمیوں کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ ایک وہ جو آخرت کے بہتر انجام پر نظر رکھتا ہو اور اس بہتر انجام کے لئے ہی اپنی کوششیں صرف کر رہا ہو۔ دوسرا وہ شخص جس کا مطمع نظر صرف دنیوی مفادات اور ساز و سامان تک محدود ہو اور آخرت میں اس سے سختی سے باز پرس کی جانے والی ہو۔ اور سوال یہ اٹھایا گیا کہ خود ہی فیصلہ کرلو۔ ان دونوں میں سے کون بہتر ہے ؟ اس آیت اور اس جیسی بعض دوسری آیات سے بعض لوگوں نے یہ غلط نتیجہ نکالا کہ شریعت کی نگاہ میں دنیا اور دنیا کے مفادات کا حصول مذموم چیز ہے اور اس سے حتی الوسع اجتناب کرنا چاہئے اور اپنی نظر صرف اخروی مفادات پر رکھنی چاہئے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دعا سکھلائی اور جسے رسول اللہ اکثر اوقات پڑھا کرتے تھے وہ یہ ہے : (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ ٢٠١۔ ) 2 ۔ البقرة :201) اس آیت میں دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کا اللہ سے مطالبہ کیا گیا ہے۔ بلکہ دنیا کی بھلائی کا مطالبہ آخرت سے پہلے ہے۔ ان سب آیات کو ملانے سے جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت کی نگاہ میں دنیا اور اس کا ساز و سامان صرف اس صورت میں مذموم ہوگا جب کہ اس سے اخروی مفادات کا نقصان ہو رہا ہو۔ مذموم چیز صرف یہ ہے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دی جائے۔ جب آخرت کا نقصان ہو رہا ہو تو اس وقت ایک مسلمان کا طرز عمل یہی ہوگا کہ دنیوی مفادات کو لات مار دے۔ پھر یہ بھی عین ممکن ہے کہ ایک شخص نے اخروی انجام سے آنکھیں بند رکھی ہوں تاکہ وہ دنیوی مفادات تو حسب خواہش حاصل کرلے مگر اسے زندگی بھر سوائے غربت اور مصائب و مشکلات کے کچھ حاصل نہ ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کا مطمع نظر تو صرف اخروی مفادات ہو لیکن اللہ تعالیٰ اسے اس دنیا میں بھی ہر طرح کی بےبہا نعمتوں اور ساز و سامان سے نواز دے۔ جیسا کہ بعض انبیاء بادشاہ وقت بھی تھے۔ اس لحاظ سے انسانوں کی چار قسمیں بن جاتی ہیں۔ ایک وہ جنہیں دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی نصیب ہو اور یہ سب سے بہتر ہیں۔ دوسرے وہ جنہیں آخرت کی بھلائی تو نصیب ہو لیکن دنیا میں مشکل سے گزر بسر کریں۔ ان کا شمار بھی بہتر لوگوں میں ہے۔ تیسرے وہ جن کی آخرت تو خراب ہو مگر دنیا میں عیش و آرام مسیر ہو۔ یہ حقیقت میں برے لوگ ہیں اور چوتھے وہ جن کی دنیا بھی خراب اور آخرت بھی خراب ہو۔ ایسے لوگ ہر لحاظ سے بدترین ہوئے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں دوسری اور تیسری قسم کے لوگوں کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۧ اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَـنًا ۔۔ : اس آیت میں مومن و کافر کی زندگیوں کا موازنہ کیا گیا ہے اور سوال کی صورت میں سوچنے کی دعوت دی گئی ہے کہ آیا یہ دونوں زندگیاں کسی صورت برابر ہوسکتی ہیں ؟ جب یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتیں تو تم دنیا کے فائدے کے لیے رسول کی پیروی کیوں چھوڑتے ہو ؟ دنیا کی نعمتیں مومن و کافر دونوں کو ملتی ہیں، مگر مومن اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند رہ کر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے، جس کی وجہ سے آخرت کی نعمتیں صرف اس کے لیے خاص ہوجاتی ہیں۔ (دیکھیے اعراف : ٣٢) اور ایمان اور عمل صالح والوں سے اللہ تعالیٰ کا یہی وعدۂ حسنہ ہے، جو ہر حال میں مومن کو مل کر رہے گا، کیونکہ اللہ کا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوتا، جیسا کہ فرمایا : (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) [ النحل : ٩٧ ] ” جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔ “ اس کے مقابلے میں کافر ہے، مومن کے متعلق جو فرمایا کہ وہ ہمارے اچھے وعدے کو ملنے والا ہے، تو یہ اشارہ ہے کہ کافر کو بھی شیطان اور اس کے بنائے ہوئے شریک وعدے دلاتے رہتے ہیں، مگر ان کے دلائے ہوئے وعدے اسے کبھی حاصل نہیں ہوں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة ابراہیم میں ذکر فرمایا ہے کہ قیامت کے دن شیطان کہے گا : ( اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ ) [ إبراہیم : ٢٢ ] ” بیشک اللہ نے تم سے وعدہ کیا، سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو میں نے تم سے خلاف ورزی کی۔ “ کافر کو دنیا کی زندگی کا کچھ سامان دیا گیا، ملنا اسے بھی اتنا ہی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے، مگر اس نے اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کے بجائے اپنی خواہش نفس کے مطابق اس سے فائدہ اٹھایا، جس کے نتیجے میں وہ ان لوگوں میں شامل ہونے والا ہے جو قیامت کے دن حاضر کیے جانے والے ہیں۔ قرآن کی اصطلاح میں ” الْمُحْضَرِيْنَ “ (حاضر کیے جانے والے) کا لفظ عذاب میں حاضر کیے جانے والوں کے متعلق ہی استعمال ہوا ہے۔ دیکھیے سورة صافات (٥٧ اور ١٢٧) اس لفظ میں بھی یہ مفہوم موجود ہے، کیونکہ حاضر اسی کو کیا جاتا ہے جو حاضر نہ ہونا چاہے، جنت میں تو ہر شخص شوق سے جائے گا۔ - ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” تو کیا وہ شخص جو مومن ہے، اس وعدے کو سچا جاننے والا ہے جو اللہ نے اس کے صالح اعمال پر اس سے ثواب کی صورت میں کیا ہے، جو لا محالہ اسے ملنے والا ہے، اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو کافر ہے، اللہ کی ملاقات اور اس کے وعدہ و وعید کو جھٹلانے والا ہے۔ سو اسے دنیا کی زندگی میں تھوڑے سے دن کچھ سامان ملنے والا ہے، پھر قیامت کے دن وہ حاضر کیے جانے والوں میں سے ہے۔ مجاہد نے فرمایا، یعنی عذاب دیے جانے والوں میں سے ہے۔ “ (ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بھلا وہ شخص جس سے ہم نے ایک پسندیدہ وعدہ کر رکھا ہے پھر وہ شخص اس (وعدہ کی چیز) کو پانے والا ہے کیا اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جس کو ہم نے دنیوی زندگی کا چند روزہ فائدہ دے رکھا ہے پھر وہ قیامت کے روز ان لوگوں میں ہوگا جو گرفتار کر کے لائیں جائیں گے (مراد پہلے شخص سے مومن ہے جس سے جنت کا وعدہ ہے اور دوسرے سے مراد کافر جو مجرم ہو کر آوے گا اور چونکہ متاع دنیا ہی ان لوگوں کی بھول کا سبب ہے اس لئے اس کی تصریح فرما دی، ورنہ ان دونوں کا برابر نہ ہونا تو دراصل اس وجہ سے ہے کہ وہ گرفتار کر کے حاضر کئے جاویں گے یہ جنت کی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے) اور (آگے اس تفاوت اور کیفیت احضار کی تفصیل ہے کہ وہ دن قابل یاد کرنے کے ہے) جس دن اللہ تعالیٰ ان کافروں کو (بطور سزا کے) پکار کر کہے گا کہ وہ میرے شریک کہاں ہیں جن کو تم (ہمارا شریک) سمجھ رہے تھے (مراد اس سے شیاطین ہیں کہ انہی کی اطاعت مطلقہ سے شرک کرتے تھے اس لئے ان کو شرکاء کہا اس کو سن کر شیاطین) جن پر (لوگوں کو گمراہ کرنے کی وجہ سے) خدا کا فرمودہ (یعنی استحقاق عذاب اس قول سے کہ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ) ثابت ہوچکا ہوگا وہ (بطور عذر کے) بول اٹھیں گے کہ اے ہمارے پروردگار بیشک یہ وہی لوگ ہیں جن کو ہم نے بہکایا ( یہ جواب کی تمہید ہے اس حکایت کی تصریح اس لئے فرمائی گئی کہ جن کی شفاعت کی ان کو امید ہے وہ برعکس ان کے خلاف شہادت دیں گے اور آگے جواب ہے کہ ہم نے بہکایا تو ضرور لیکن) ہم نے ان کو ویسا ہی (بلا جبر واکراہ) بہکایا جیسا ہم خود (بلا جبر واکراہ) بہکے تھے (یعنی جس طرح ہم خود اپنے اختیار سے گمراہ ہوئے کسی نے انہیں مجبور نہیں کیا اسی طرح ہم کو ان پر جابرانہ تسلط نہ تھا ہمارا کام صرف بہکانہ تھا پھر اس کو انہوں نے اپنی رائے اور اختیار سے قبول کرلیا جیسا سورة ابراہیم میں ہے وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِيْ الآیتہ، مطلب یہ ہے کہ ہم بھی مجرم ہیں مگر یہ بھی بری نہیں) اور ہم آپ کی پیشی میں ان کے (تعلقات) سے دست برداری کرتے ہیں (اور) یہ لوگ (درحقیقت صرف) ہم کو (ہی) نہ پوجتے تھے (یعنی جب یہ اپنے اختیار سے بہکے ہیں تو یہ خود خواہش پرست ہوئے نہ کہ صرف شیطان پرست، مقصود اس سب حکایت سے یہ ہے کہ جن کے بھروسے بیٹھے ہیں وہ قیامت کے روز ان سے دست بردار ہوجائیں گے) اور (جب وہ شرکاء اس طرح ان سے بیزاری و بےرخی کریں گے تو اس وقت ان مشرکین سے) کہا جائے گا کہ (اب) اپنے ان شرکاء کو بلاؤ چناچہ (وہ فرط حیرت سے بالاضطرار) ان کو پکاریں گے سو وہ جواب بھی نہ دیں گے (اور اس وقت) یہ لوگ (اپنی آنکھوں) سے عذاب کو دیکھ لیں گے، اے کاش یہ لوگ دنیا میں راہ راست پر ہوتے (تو یہ مصیبت نہ دیکھتے) اور جس دن ان کافروں سے پکار کر پوچھے گا کہ تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھا، سو اس روز ان (کے ذہن) سے سارے مضامین گم ہوجائیں گے تو وہ (خود بھی نہ سمجھ سکیں گے اور) آپس میں پوچھ پاچھ بھی نہ کرسکیں گے البتہ وہ شخص (کفر و شرک سے دنیا میں) توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کیا کرے تو ایسے لوگ امید ہے کہ (آخرت میں) فلاح پانے والوں سے ہوں گے (اور ان آفات سے محفوظ رہیں گے۔ )- معارف ومسائل - محشر میں کفار و مشرکین سے پہلا سوال شرک کے متعلق ہوگا کہ جن شیاطین وغیرہ کو تم ہمارا شریک کہا کرتے تھے اور ان کا کہا مانتے تھے آج وہ کہاں ہیں، کیا وہ تمہاری کچھ مدد کرسکتے ہیں ؟ اس کے جواب میں ظاہر یہ تھا کہ مشرکین یہ جواب دیں کہ ہمارا کوئی قصور نہیں، ہم نے از خود شرک نہیں کیا بلکہ ہمیں تو ان شیاطین نے بہکایا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ خود ان شیاطین کی زبانوں سے کہلوا دیں گے کہ ہم نے بہکایا ضرور تھا مگر مجبور تو ہم نے نہیں کیا۔ اس لئے مجرم ہم بھی ہیں مگر جرم سے بری یہ بھی نہیں کیونکہ جس طرح ہم نے ان کو بہکایا تھا اس کے بالمقابل انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے نائبوں نے ان کو ہدایت بھی تو کی تھی اور دلائل کے ساتھ ان پر حق واضح کردیا تھا، انہوں نے اپنے اختیار سے انبیاء کی بات نہ مانی ہماری مان لی تو یہ کیسے بری ہو سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کے سامنے حق کے دلائل واضحہ موجود ہوں اور وہ حق کی طرف دعوت دینے والوں کے بجائے گمراہ کرنے والوں کی بات مان کر گمراہی میں پڑجائے تو یہ کوئی عذر معتبر نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفَمَنْ وَّعَدْنٰہُ وَعْدًا حَسَـنًا فَہُوَ لَاقِيْہِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰہُ مَتَاعَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا ثُمَّ ہُوَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ۝ ٦١- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- قِيامَةُ- والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ- [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ،- القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔- حضر - الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ، أي :- يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور .- ( ح ض ر ) الحضر - یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦١) بھلا وہ شخص جس سے ہم نے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین یا یہ کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) اور پھر وہ اس کو آخرت میں پانے والا ہے اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جس کو ہم نے دنیا میں چند روزہ مال و دولت دے رکھا ہے پھر وہ دوزخ میں جلے گا یعنی ابوجہل۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ افمن وعدنہ “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے مجاہدرحمۃ اللہ علیہ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوجہل بن ہشام کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور دوسرے طریق سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت حمزہ (رض) اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ (اَفَمَنْ وَّعَدْنٰہُ وَعْدًا حَسَنًا فَہُوَ لَاقِیْہِ کَمَنْ مَّتَّعْنٰہُ مَتَاعَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) ” - یعنی ایک وہ بندہ جو اپنی دنیوی زندگی میں آخرت کے بارے میں اللہ کے اچھے وعدوں کا مصداق بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے وعدوں کے مطابق جنت اور اس کی نعمتیں عطا فرمانے والا ہے ‘ کیا کبھی اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جسے صرف حیات دنیا کا سروسامان دے دیا گیا ہو ؟- ( ثُمَّ ہُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ ) ” - ظاہر ہے دونوں طرح کے لوگ برابر تو نہیں ہوسکتے۔ قیامت کے دن نیک لوگ اللہ کے وعدوں کے مطابق اس کی رحمت کے سائے میں ہوں گے ‘ جبکہ دنیا میں عیش و عشرت کے مزے لینے والے اور اپنے من پسند انداز میں گل چھرے ّ اُڑانے والے باغی اس دن بیڑیاں پہنے ہوئے مجرموں کی حیثیت سے اللہ کے حضور پیش ہوں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 84 یہ ان کے عذر کا چوتھا جواب ہے ۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے پہلے دو باتیں اچھی طرح ذہن نشین ہوجانی چاہیں ۔ اول یہ کہ دنیا کی موجودہ زندگی جس کی مقدار کسی کے لیے بھی چند سالوں سے زیادہ نہیں ہوتی ، محض ایک سفر کا عارضی مرحلہ ہے ، اصل زندگی جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے ، آگے آنی ہے ، موجودہ عارضی زندگی میں انسان خواہ کتنا ہی سروسامان جمع کرلے اور چند سال کیسے ہی عیش کے ساتھ بسر کرلے ، بہرحال اسے ختم ہونا ہے اور یہاں کا سب سروسامان آدمی کو یونہی چھوڑ کر اٹھ جانا ہے ۔ اس مختصر سے عرصہ حیات کا عیش اگر آدمی کو اس قیمت پر حاصل ہوتا ہو کہ آئندہ کی ابدی زندگی میں وہ دائما خستہ حال اور مبتلائے مصیبت رہے ، تو کوئی صاحب عقل آدمی یہ خسارے کا سودا نہیں کرسکتا ، اس کے مقابلے میں ایک عقل مند آدمی اس کو ترجیح دے گا کہ یہاں چند سال مصیبتیں بھگت لے ، مگر یہاں سے وہ بھلائٰیاں کما کر لے جائے جو بعد کی دائمی زندگی میں اس کے لیے ہمیشگی کے عیش کی موجب بنیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کا دین انسان سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اس دنیا کی متاع حیات سے استفادہ نہ کرے اور اس کی زینت کو خواہ مخواہ لات ہی مار دے ۔ اس کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ وہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دے ، کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی ، اور دنیا کا عیش کم تر ہے اور آخرت کا عیش بہتر ، اس لیے دنیا کی وہ متاع اور زینت تو آدمی کو ضرور حاصل کرنی چاہیے جو آخرت کی باقی رہنے والی زندگی میں اسے سرخسرو کرے ، یا کم از کم یہ کہ اسے وہاں کے ابدی خسارے میں مبتلا نہ کرے ، لیکن جہاں معابلہ مقابلے کا آپڑے ، یعنی دنیا کی کامیابی اور آخرت کی کامیابی ایک دوسرے کی ضد ہوجائیں ، وہاں دین حق کا مطالبہ انسان سے یہ ہے ، اور یہی عقل سلیم کا مطالبہ بھی ہے کہ آدمی دنیا کو آخر پر قربان کردے اور اس دنیا کی عارضی متاع و زینت کی خاطر وہ راہ ہرگز اختیار نہ کرے جس سے ہمیشہ کے لیے اس کی عاقبت خراب ہوتی ہو ۔ ان دو باتوں کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ اللہ تعالی اوپر کے فقروں میں کفار مکہ سے کیا فرماتا ہے ۔ وہ یہ نہیں فرماتا کہ تم اپنی تجارت لپیٹ دو ، اپنے کاروبار ختم کردو ، اور ہمارے پیغمبر کو مان کر فقیر ہوجاؤ ، بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ یہ دنیا کی دولت جس پر تم ریجھے ہوئے ہو ، بہت تھوڑی دولت ہے اور بہت تھوڑے دنوں کے لیے تم اس کا فائدہ اس حیات دنیا میں اٹھا سکتے ہو ، اس کے برعکس اللہ کے ہاں جو کچھ ہے وہ اس کی بہ نسبت کم و کیف ( اور ) میں بھی بہتر ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والا بھی ہے ۔ اس لیے تم سخت حماقت کرو گے اگر اس عارضی زندگی کی محدود نعمتوں سے متمتع ہونے کی خاطر وہ روش اختیار کرو جس کا نتیجہ آخرت کے دائمی خسارے کی شکل میں تمہیں بھگتنا پڑے ، تم خود مقابلہ کر کے دیکھ لو کہ کامیاب آیا وہ شخص ہے جو محنت و جانفشانی کے ساتھ اپنے رب کی خدمت بجا لائے اور پھر ہمیشہ کے لیے اس کے انعام سے سرفراز ہو ، یا وہ شخص جو گرفتار ہوکر مجرم کی حیثیت سے خدا کی عدالت میں پیش کیا جانے والا ہو اور گرفتاری سے پہلے محض چند روز حرام کی دولت سے مزے لوٹ لینے کا اس کو موقع مل جائے؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani