دنیا اور اخرت کا تقابلی جائزہ اللہ تعالیٰ دنیا کی حقارت اس کی رونق کی قلت وذلت اس کی ناپائیداری بےثباتی اور برائی بیان فرما رہا ہے اور اس کے مقابلہ میں آخرت کی نعمتوں کی پائیداری دوام عظمت اور قیام کا ذکر فرما رہے ہیں ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ ۭ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 96 ) 16- النحل:96 ) تمہارے پاس جو کچھ ہے فنا ہونے والا ہے ۔ اور اللہ کے پاس تمام چیزیں بقا والی ہیں ۔ اللہ کے پاس جو ہے وہ نیک لوگوں کے لئے بہت ہی بہتر اور عمدہ ہے ۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا تو کچھ بھی نہیں ۔ لیکن افسوس کہ لوگ دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور آخرت سے غافل ہو رہے ہیں جو بہت بہتر اور بہت باقی رہنے والی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی سمندر میں انگلی ڈبو کر نکال لے پھر دیکھ لے کہ اس کی انگلی پر جو پانی چڑھا ہوا ہے وہ سمندر کے مقابلہ میں کتنا کچھ ہے افسوس کہ اس پر بھی اکثر لوگ اپنی کم علمی اور بےعلمی کے باعث دنیا کے متوالے ہو رہے ہیں ۔ خیال کرلو ایک تو وہ جو اللہ پر اللہ کے نبی پر ایمان ویقین رکھتا ہو اور ایک وہ جو ایمان نہ لایا ہو نتیجے کے اعتبار سے برابر ہوسکتے ہیں؟ ایمان والوں کے ساتھ تو اللہ کا جنت کا اور اپنی بیشمار ان مٹ غیر فانی نعمتوں کا وعدہ ہے اور کافر کے ساتھ وہاں کے عذابوں کا ڈراوا ہے گو دنیا میں کچھ روز عیش ہی منالے ۔ مروی ہے کہ یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی ایک قول یہ بھی ہے کہ حمزہ علی اور ابو جہل کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ ظاہریہ ہے کہ یہ آیت عام ہے جیسے فرمان اللہ ہے کہ جنتی مومن اپنے جنت کے درجوں سے جھانک کر جہنمی کافر کو جہنم کے جیل خانہ میں دیکھ کر کہے گا ۔ آیت ( وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ 57 ) 37- الصافات:57 ) اگر مجھ پر میرے رب کا انعام نہ ہوتا تو میں بھی ان عذابوں میں پھنس جاتا ۔ اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ ١٥٨ۙ ) 37- الصافات:158 ) جنات کو یقین ہے کہ وہ حاضر کیے جانے والوں میں سے ہیں ۔
6 0 1کیا اس حقیقت سے بھی تم بیخبر ہو کہ یہ دنیا اور اس کی رونقیں عارضی بھی ہیں اور حقیر بھی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے اپنے پاس جو نعمتیں، آسائشیں اور سہولتیں تیار کر رکھی ہیں وہ دائمی بھی ہیں اور عظیم بھی، حدیث میں ہے اللہ کی قسم دنیا، آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے تم سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبو کر نکال لے، دیکھے کہ سمندر کے مقابلے میں انگلی میں کتنا پانی ہوگا۔ (صحیح بخاری)
[٨٣] یہ بھی دراصل ان کے اعتراض کا جواب ہے۔ یعنی سامان معیشت پر تم اس وقت اترا رہے ہو اور اس کے ضائع ہوجانے کے خوف کی بنا پر اسلام لانا گوارا نہیں کرتے اس کی زیادہ سے زیادہ مدت تمہاری موت ہے۔ جبکہ یہ تمہاری موت سے پہلے بھی تم سے چھینا جاسکتا ہے۔ موت کے تمہیں اپنی سرکشی کے نتیجہ میں تمہیں دائمی عذاب بھگتنا ہوگا۔ اس کے برعکس اگر تم ایمان لے آتے ہو۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ تم سے یہ نعمتیں چھن جائیں البتہ کچھ مشکلات اور مصائب ضرور پیش آسکتے ہیں۔ لیکن ان کے عوض تمہیں اجر ملے گا۔ وہ دائمی اور لازوال ہوگا اب یہ دونوں پہلو سامنے رکھ کر اور خوب سوچ سمجھ کر اپنے متعلق خود ہی فیصلہ کرلو۔
وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۔۔ : یہ کفار مکہ کے شبہ کا تیسرا جواب ہے، کیونکہ ان کے شبہ کا اصل یہ تھا کہ ہم یہ دین اس لیے قبول نہیں کر رہے کہ ہمیں اپنی دنیا کے نقصان کا خطرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ یہ تمہاری بہت بڑی غلطی ہے، کیونکہ دنیا میں تمہیں جو کچھ بھی دے دیا جائے سب دنیا کی زندگی کا تھوڑے سے وقت کے لیے فائدہ اٹھانے کا سامان ہے، جس نے آخر ختم ہونا ہے اور آخرت میں جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والا بھی ہے اور کوئی بھی عقل مند بہتر اور باقی کو چھوڑ کر کمتر اور فانی کو ترجیح نہیں دیتا، تو کیا تمہیں عقل نہیں کہ فانی کو ترجیح دے کر ہمیشہ کی زندگی برباد کر رہے ہو۔- 3 جو کچھ اللہ کے ہاں ہے اسے بہت بہتر اس لیے فرمایا کہ دنیا کا ساز و سامان اس کے مقابلے میں نہ مقدار میں کچھ حیثیت رکھتا ہے نہ خوبی میں۔ مقدار میں اتنا ہوگا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ آخِرَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ دُخُوْلاً الْجَنَّۃَ ، وَآخِرَ أَہْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِنَ النَّارِ رَجُلٌ یَخْرُجُ حَبْوًا فَیَقُوْلُ لَہُ رَبُّہُ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ فَیَقُوْلُ رَبِّ الْجَنَّۃُ مَلْأَی فَیَقُوْلُ لَہُ ذٰلِکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَکُلُّ ذٰلِکَ یُعِیْدُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃُ مَلأَی فَیَقُوْلُ إِنَّ لَکَ مِثْلَ الدُّنْیَا عَشْرَ مِرَارٍ ) [ بخاري، التوحید، باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ۔۔ : ٧٥١١ ] ” جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والا، جو جہنم سے نکلنے والوں میں سب سے آخری ہوگا، گھسٹتا ہوا آگ سے نکلے گا تو اسے اس کا رب فرمائے گا : ” جنت میں داخل ہوجا۔ “ وہ کہے گا : ” اے میرے رب جنت بھری ہوئی ہے۔ “ اللہ تعالیٰ اسے تین دفعہ فرمائے گا، ہر بار وہ یہی جواب دے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” تمہیں دنیا سے دس گنا زیادہ (جنت) عطا کی جاتی ہے۔ “ مستورد بن شداد (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَاللّٰہِ مَا الدُّنْیَا فِي الْآخِرَۃِ إِلَّا مِثْلُ مَا یَجْعَلُ أَحَدُکُمْ إِصْبَعَہُ ( وَ أَشَارَ یَحْیٰی بالسَّبَّابَۃِ ) ہٰذِہِ فِي الْیَمِّ فَلْیَنْظُرْ بِمَ تَرْجِعُ ؟ ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب فناء الدنیا و بیان الحشر یوم القیامۃ : ٢٨٥٨ ] ” اللہ کی قسم آخرت کے مقابلے میں دنیا اس کے سوا کچھ نہیں، جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی یہ (شہادت کی) انگلی سمندر میں ڈالے، پھر دیکھے وہ کتنا پانی لے کر لوٹتی ہے ؟ “ اور خوبی میں آخرت اس لیے کہیں بہتر ہے کہ اس کی ہر نعمت کسی بھی قسم کے غم یا فکر سے پاک ہے، جب کہ دنیا کی کوئی نعمت ایسی نہیں اور وہ اتنی بہتر ہے کہ کوئی شخص نہ اس کی خوبی بیان کرسکتا ہے، نہ وہ کسی کے تصور میں آسکتی ہے۔ ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ( أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ فَاقْرَؤُوْا إِنْ شِءْتُمْ : (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ) [ السجدۃ : ١٧] [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ و أنھا مخلوقۃ : ٣٢٤٤ ] ” میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کا خیال تک آیا ہے۔ “ اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ” کوئی جان نہیں جانتی کہ اس کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان چھپا کر رکھا گیا ہے۔ “
تیسرا جواب اس آیت میں دیا گیا وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا الآیتہ جس میں یہ بتلایا کہ اگر بالفرض ایمان لانے کے نتیجہ میں تمہیں کوئی تکلیف پہنچ ہی جائے تو وہ چند روزہ ہے اور جس طرح دنیا کی عیش و عشرت مال و دولت سب چند روزہ متاع ہے کسی کے پاس ہمیشہ نہیں رہتی، اسی طرح یہاں کی تکلیف و راحت کی کرے جو پائیدار اور ہمیشہ رہنے والی ہے ہمیشہ رہنے والی دولت و نعمت کی خاطر چند روزہ تکلیف و مشقت برداشت کرلینا ہی عقلمندی کی دلیل ہے۔- وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى، یعنی دنیا کا مال و متاع اور عیش و عشرت سب فانی ہے اور یہاں کے اعمال کا جو بدلہ آخرت میں ملنے والا ہے وہ یہاں کے مال و اسباب اور عیش و عشرت سے اپنی کیفیت کے اعتبار سے بھی بہت بہتر ہے کہ دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی راحت و لذت بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور پھر وہ ہمیشہ باقی رہنے والی بھی ہے بخلاف متاع دنیا کے کہ وہ کتنا ہی بہتر ہو مگر بالاخر فانی اور زائل ہونے والا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ کوئی عقلمند آدمی ایسے عیش کو جو کم درجہ بھی ہو اور چند روزہ بھی اس عیش و آرام پر ترجیح نہیں دے سکتا جو راحت و لذت میں اس سے زیادہ بھی ہو اور ہمیشہ رہنے والا بھی ہو۔ - عقلمند کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ دنیا کے دھندوں میں زیادہ منہمک نہ ہو بلکہ آخرت کی فکر میں لگے :- امام شافعی (رح) نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنے مال و جائیداد کے متعلق یہ وصیت کر کے مر جائے کہ میرا مال اس شخص کو دے دیا جائے جو سب سے زیادہ عقلمند ہو تو اس مال کے مصرف شرعی وہ لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت میں مشغول ہوں، کیونکہ عقل کا تقاضا یہی ہے اور دنیا داروں میں سب سے زیادہ عقل والا وہی ہے۔ یہی مسئلہ فقہ حنفیہ کی مشہور کتاب در مختار باب الوصیت میں بھی مذکور ہے۔
وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَزِيْنَتُہَا ٠ۚ وَمَا عِنْدَ اللہِ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى ٠ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ٦٠ۧ- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - متع ( سامان)- وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء .- ( م ت ع ) المتوع - ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔- زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- بقي - البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء،- وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] - ( ب ق ی ) البقاء - کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔ - عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
(٦٠) اور اے گروہ قریش جو کچھ تمہیں مال و خرم دیا گیا ہے وہ چند روزہ دنیوی زندگی کا سازو سامان ہے جو باقی نہیں رہے گا اور یہیں کی زیب وزینت ہے اور جنت میں جو اجر وثواب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کیلیے ہے وہ اس سے کئی گنا بہتر ہے اور تمہارے اس دنیاوی ساز و سامان کے مقابلہ میں ہمیشہ رہنے والا ہے۔- کیا تم لوگوں میں انسانوں والے دماغ نہیں کہ اتنی سی بات سمجھ لو کہ دنیاوی چیزیں فانی ہیں اور آخرت باقی رہنے والی ہے۔
آیت ٦٠ (وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَزِیْنَتُہَا ج) ” - اس سے یہ نکتہ انسان کو خود بخود سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح دنیا کی یہ زندگی عارضی ہے اسی طرح اس سے متعلقہ ہر قسم کا سازوسامان بھی عارضی ہے۔