Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

591یعنی تمام حجت کے بغیر کسی کو ہلاک نہیں کرتا، ہر چھوٹے بڑے علاقے میں نبی نہیں آیا، بلکہ مرکزی مقامات پر نبی آتے رہے اور چھوٹے علاقے اس کے زیر اثر میں آ جماتے رہے ہیں۔ 592یعنی نبی بھیجنے کے بعد وہ بستی والے ایمان نہ لاتے اور کفر و شرک پر اپنا اصرار جاری رکھتے تو پھر انھیں ہلاک کردیا جاتا، یہی مضمون (وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِـيُهْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ ) 11 ۔ ہود :117) میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٢] یہ بھی دراصل کفار مکہ کے اعتراض کا تیسرا جواب ہے ان کا اعتراض یہ تھا کہ اگر ہم ایمان لے آئے تو ہم تو سیاسی اور معاشی طور پر تباہ ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کسی قوم کی تباہی کے متعلق اپنا ضابطہ بیان فرما دیا ہے کہ وہ کیوں آتی ہے اور کب آتی ہے۔ اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ پہلے ہم کسی مرکزی شہر یا صدر مقام میں اپنا رسول بھیجتے ہیں۔ مرکزی مقام کا انتخاب اس لئے کیا جاتا ہے کہ ایک تو ارد گرد کی آبادیوں کا اس سے رابطہ ہوتا ہے دوسرے مرکزی شہر کے لوگ نسبتاً پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ بات کو جلد سمجھ سکتے ہیں اور دیہاتیوں کی نسبت مہذب بھی ہوتے ہیں۔ پھر یہ رسول اس مرکزی بستی کے لوگوں کو اللہ کے پیغام پہنچاتا ہے اور اللہ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتا ہے۔ اب اگر لوگ اس رسول کی دعوت کو قبول نہ کریں اور نافرمانی، تکذیب اور سرکشی کی راہ اختیار کریں تو اس اتمام حجت کے بعد اس بستی کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ لہذا اہل مکہ تمہارا یہ خیال ہے کہ اسلام لانے سے تم تباہ ہوجاؤ گے، بالکل غلط ہے۔ بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اس رسول کی بعثت کے بعد اگر تم نے سرکشی اختیار کرلی تو اس صورت میں تمہاری تباہی واقع ہوگی اور اس تباہی کے ذمہ دار تم خود ہوگے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان بستیوں کو ہلاک کرنے کا اصول بیان فرمایا اور اس سوال کا جواب دیا کہ ان اقوام کی ہلاکت کے بعد کتنی مدت گزری، کفار کا کفرو شرک اور ان کی سرکشی اور ظلم و زیادتی انتہا کو پہنچ چکی، انھیں کیوں ہلاک نہیں کیا گیا ؟ فرمایا یہ تیرے رب کی ربوبیت اور اس کی رحمت ہے کہ وہ کبھی بستیوں کو ہلاک نہیں کرتا، جب تک ان کی مرکزی بستی میں کوئی پیغام پہنچانے والا (رسول) نہ بھیجے، جو ان کے سامنے ہماری آیات کی تلاوت کر کے ان کا یہ عذر ختم نہ کر دے کہ ہمیں عذاب سے پہلے آگاہ کیوں نہیں کیا گیا۔ ” ما کان “ میں نفی کا استمرار ہے، یعنی ایسا کبھی ہوا ہی نہیں، نہ ہونے والا ہے۔ جیسے دیکھیے سورة آل عمران (٧٩) اور یونس (٣٦) ۔- وَمَا كُنَّا مُهْلِــكِي الْقُرٰٓى ۔۔ : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کے بعد ایمان نہ لانے والوں پر عذاب کیوں نہیں آتا۔ فرمایا، ہماری یہ بھی عادت ہے کہ ہم بستیوں کو کبھی ہلاک نہیں کرتے، جب تک ان کے رہنے والے ظلم پر اس طرح نہ ڈٹ جائیں کہ ظالم کے لقب کے حق دار بن جائیں۔ اب اس نبی کی آمد پر تمہیں مہلت دی جا رہی ہے کہ تم کفرو شرک اور ظلم پر اصرار کر کے ظالم ٹھہرتے اور عذاب کے مستحق بنتے ہو یا ایمان لا کر رحمت کے حق دار بنتے ہو۔ - 3 ابن کثیر نے فرمایا : ” یہ آیت دلیل ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اُمّ القریٰ (مکہ) میں مبعوث ہوئے، وہ عرب و عجم کی تمام بستیوں کی طرف مبعوث تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَمَنْ حَوْلَهَا ) [ الشورٰی : ٧ ] ” اور اسی طرح ہم نے تیری طرف عربی قرآن وحی کیا، تاکہ تو بستیوں کے مرکز (مکہ) کو ڈرائے اور ان لوگوں کو بھی جو اس کے ارد گرد ہیں۔ “ اور فرمایا : ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا) [ الأعراف : ١٥٨ ] ” کہہ دے اے لوگو بیشک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ “ (ابن کثیر) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئیں۔ “ ان میں سے ایک یہ بیان فرمائی : ( وَکَان النَّبِيُّ یُبْعَثُ إِلٰی قَوْمِہِ خَاصَّۃً وَ بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ عَامَّۃً ) [ بخاري، التیمم، باب : ٣٣٥ ] ” اور ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

حَتّٰى يَبْعَثَ فِيْٓ اُمِّهَا رَسُوْلًا لفظ ام کے مشہور معنے والدہ اور ماں کے ہیں اور ماں چونکہ تخلیق انسانی کی بنیاد ہے اس لئے لفظ ام اصل اور اساس کے معنے میں بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ امھا کی ضمیر قُرٰی کی طرف راجع ہے امھا سے مراد ام القری ہے یعنی بستیوں کی اصل اور مدارکار مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا جب تک اس قوم کو بڑے شہروں میں اپنے کسی رسول کے ذریعہ پیغام حق نہ پہنچا دے، جب دعوت حق پہنچ جائے اور لوگ اس کو قبول نہ کریں اس وقت ان بستیوں پر عذاب آتا ہے۔- اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کے انبیاء اور رسل عموماً بڑے شہروں میں مبعوث ہوتے ہیں وہ چھوٹے قصبات و دیہات میں نہیں آتے کیونکہ ایسے قصبات و دیہات عادةً شہر کے تابع ہوتے ہیں اپنی معاشی ضررویات میں بھی اور تعلیمی ضروریات میں بھی اور شہر میں جو بات پھیل جائے اس کا تذکرہ ملحقہ قصبات و دیہات میں خود بخود پھیل جاتا ہے اسی لئے جب کسی بڑے شہر میں رسول مبعوث ہوا اور اس نے دعوت حق پیش کردی تو یہ دعوت ان قصبات و دیہات میں بھی عادةً پہنچ جاتی ہے اس طرح ان سب پر اللہ تعالیٰ کی حجت تمام ہوجاتی ہے اور انکار و تکذیب کیا جائے تو سب پر عذاب آتا ہے۔- احکام و قوانین میں قصبات و دیہات شہروں کے تابع ہوتے ہیں :- اس سے معلوم ہوا کہ جیسے معاشی ضروریات میں چھوٹی بستیاں بڑے شہر کے تابع ہوتی ہیں وہیں سے ان کی ضروریات پوری ہوتی ہیں اسی طرح جب کسی حکم کا اعلان شہر میں کردیا جائے تو اس حکم کی تعمیل اس کی ملحقہ بستیوں پر بھی لازم ہوجاتی ہے، نہ جاننے یا نہ سننے کا عذر مسموع نہیں ہوتا۔- ہلال رمضان وعید کے مسئلے میں بھی فقہاء نے یہی فرمایا ہے کہ ایک شہر میں اگر شہادت شرعیہ کے ساتھ قاضی شہر کے حکم سے چاند کی رویت ثابت ہوجائے تو ملحقہ بستیوں کو بھی اس پر عمل کرنا لازم ہے۔ لیکن دوسرے شہر والوں پر اس وقت تک لازم نہیں ہوگا جب تک خود اس شہر کا قاضی شہادت کو تسلیم کر کے اس کا حکم نہ دے۔ (کذا فی انصتاوی الغیاثیہ)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُہْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى يَبْعَثَ فِيْٓ اُمِّہَا رَسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِنَا۝ ٠ۚ وَمَا كُنَّا مُہْلِــكِي الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَہْلُہَا ظٰلِمُوْنَ۝ ٥٩- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] ،- فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] ، أي : توجههم ومضيّهم .- ( ب ع ث ) البعث - ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا رکی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے - پس بعث دو قسم پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا - دوم بعث الہی - یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔- أمّ- الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته .- ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا «1» ، قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف 4] «2» أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) «3» ، وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة «4» . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک - «5» وقیل : أم الأضياف وأم المساکين «6» ، کقولهم : أبو الأضياف «7» ، ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم - «8» وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ- [ القارعة 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه «1» ، وکذا : هوت أمّه «2» والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة «3» . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان .- ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ يَا ابْنَ أُمَّ ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- أهل - أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل :- أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب 33] - ( ا ھ ل ) اھل الرجل - ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّہَا رَسُوْلًا) ” - یعنی اللہ تعالیٰ کسی بستی تک دعوت حق پہنچائے بغیر اس پر عذاب نہیں بھیجتا۔ اس سلسلے میں اللہ کا اصول اور طریقہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ پہلے متعلقہ قوم کی طرف باقاعدہ ایک رسول مبعوث کیا جاتا جو حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح کر کے اس قوم پر حجت قائم کردیتا۔ پھر اس کے بعد بھی جو لوگ اپنے کفر پر اڑے رہتے انہیں عذاب کے ذریعے نیست و نابود کردیا جاتا۔ یہی اصول سورة بنی اسرائیل میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : (وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً ) ” اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ کوئی رسول ( علیہ السلام) نہ بھیج دیں “۔ آیت زیر مطالعہ میں اس اصول کی مزید وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ کسی قوم کی طرف رسول بھیجنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس علاقے کے ہر ہر گاؤں اور ہر ہر بستی میں رسول مبعوث کیے جاتے تھے بلکہ اس کا طریقہ اور معیار یہ رہا ہے کہ متعلقہ قوم کے مرکزی شہر میں رسول بھیج دیا جاتا تھا۔- (وَمَا کُنَّا مُہْلِکِی الْقُآٰی اِلَّا وَاَہْلُہَا ظٰلِمُوْنَ ) ” - ” ظالم “ کا لفظ مشرک ‘ کافر ‘ گنہگار اور ظلم و ناانصافی کرنے والے ‘ سب کو محیط ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 83 یہ ان کے عذر کا تیسرا جواب ہے ۔ پہلے جو قومیں تباہ ہوئیں ان کے لوگ ظالم ہوچکے تھے ، مگر خدا نے ان کو تباہ کرنے سے پہلے اپنے رسول بھیج کر انہیں متنبہ کیا ، اور جب ان کی تنبیہ پر بھی وہ اپنی کچ روی سے باز نہ آئے تو انہیں ہلاک کردیا ۔ یہی معاملہ اب تمہیں درپیش ہے ، تم بھی ظالم ہوچکے ہو ، اور ایک رسول تمہیں بھی متنبہ کرنے کے لیے آگیا ہے ۔ اب تم کفر و انکار کی روش اختیار کر کے اپنے عیش اور اپنی خوشحالی کو بچاؤ گے نہیں بلکہ الٹا خطرے میں ڈالو گے ، جس تباہی کا تمہیں اندیشہ ہے وہ ایمان لانے سے نہیں بلکہ انکار کرنے سے تم پر آئے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

34: یہ بیچ میں کفار عرب کے ایک اور اعتراض کا جواب دیا گیا ہے، وہ لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمارے مذہب اور طریق کار سے ناراض ہے تو جس طرح اس نے پچھلی قوموں کو ہلاک کیا ہے جن کا حوالہ پچھلی آیت میں بھی دیا گیا ہے اسی طرح ہم کو اب تک کیوں ہلاک نہیں کیا؟ جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معاذ اللہ لوگوں کو ہلاک کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے، وہ سب سے پہلے اپنا کوئی پیغبر ان کے مرکزی علاقے میں بھیجتا ہے جو انہیں سیدھے راستے کی دعوت دے اور بار بار دیتا رہے، تاکہ وہ راہ راست پر آئیں اور انہیں سزا دینے کی ضرورت ہی نہ پڑے، اگر وہ اپنی گمراہی سے باز آجاتے ہیں تو انہیں ہلاک نہیں کیا جاتا، البتہ اگر وہ اپنی ظالمانہ روش پر اڑے رہتے ہیں تب انہیں سزا دی جاتی ہے، یہی معاملہ پچھلی قوموں کے ساتھ ہوا، اور وہی سلوک تمہارے ساتھ ہورہا ہے کہ ہمارے پیغبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں بار بار حق قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہیں اور تمہیں مہلت دی جارہی ہے، اس کا یہ مطلب لینا پرلے درجے کی نادانی ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہیں اور تمہیں کبھی سزا نہیں ملے گی۔