Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اہل مکہ کو تنبیہہ اہل مکہ کو ہوشیار کیا جاتا ہے کہ جو اللہ کے بہت سی نعمتیں حاصل کرکے اترا رہے تھے اور سرکشی اور بڑائی کرتے تھے اور اللہ سے کفر کرتے تھے نبی کا انکار کرتے تھے اور اللہ کی روزیاں کھاتے تھے اور اس کی نمک حرامی کرتے تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے اس طرح تباہ وبرباد کردیا کہ آج ان کا نام لینے والا نہیں رہا ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ١١٢؁ ) 16- النحل:112 ) یہاں فرماتا ہے کہ ان کی اجڑی ہوئی بستیاں اب تک اجڑی پڑی ہیں ۔ کچھ یونہی سی آبادی اگرچہ ہوگئی ہو لیکن دیکھو ان کے کھنڈرات سے آج تک وحشت برس رہی ہے ہم ہی انکے مالک رہ گئے ہیں حضرت کعب ( تابعی ) کا قول ہے کہ الو سے حضرت سلیمان نے دریافت فرمایا کہ تو کھیتی اناج کیوں نہیں کھاتا اس نے کہا کہ اس لئے کہ اسی کے باعث حضرت آدم جنت سے نکالے گئے پوچھاپانی کیوں نہیں پیتا ؟ کہا اس لئے کہ قوم نوح اسی میں ڈبودی گئی ۔ پوچھا ویرانے میں کیوں رہتا ہے؟ کہا اس لیے کہ وہ اللہ کی میراث ہے ۔ پھر حضرت کعب نے آیت ( وَكُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِيْنَ 58؀ ) 28- القصص:58 ) پڑھا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے عدل وانصاف کو بیان فرما رہا ہے کہ وہ کسی کے ظلم سے ہلاک نہیں کرتا پہلے ان پر اپنی حجت ختم کرتا ہے اور ان کا عذر دور کرتا ہے ۔ رسولوں کو بھیج کر اپناکلام ان تک پہنچاتا ہے ۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عام تھی آپ ام القریٰ میں مبعوث ہوئے تھے ۔ اور تمام عرب وعجم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے جیسے فرمان ہے آیت ( لتنذر ام القریٰ ومن حولھا ) تاکہ تو مکہ والوں کو اور دوسرے شہر والوں کو ڈرادے اور فرمایا آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۠ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ١٥٨؁ ) 7- الاعراف:158 ) کہہ دے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور آیت میں ہے ( لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ 19؀ۘ ) 6- الانعام:19 ) تاکہ اس قرآن سے میں تمہیں بھی ڈرادوں اور ہر اس شخص کو جس تک یہ قرآن پہنچے ۔ اور آیت میں ہے ( وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ 17؀ ) 11-ھود:17 ) اس قرآن کے ساتھ دنیا والوں میں سے جو بھی کفر کریں اس کے وعدے کی جگہ جہنم ہے ۔ اور جگہ اللہ کا فرمان ہے آیت ( وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا 58؀ ) 17- الإسراء:58 ) یعنی تمام بستیوں کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک کرنے والے ہیں یا سخت عذاب کرنے والے ہیں ۔ پس خبر دی کہ قیامت سے پہلے وہ سب بستیوں کو برباد کردے گا ۔ اور آیت میں ہے کہ ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے ۔ پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو عام کردیا اور تمام جہاں کے لئے کردیا اور مکہ میں جو کہ تمام دنیا کا مرکز ہے آپ کو مبعوث فرما کر ساری دنیا پر اپنی حجت ختم کردی ۔ بخاری ومسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ میں تمام سیاہ سفید کی طرف نبی بناکر بھیجا گیا ہوں ۔ اسی لئے نبوت ورسالت کو آپ پر ختم کردیا آپ کے بعد سے قیامت تک نہ کوئی نبی آئے گا نہ رسول ۔ کہا گیا کہ مراد ام القری سے اصل اور بڑا قریہ ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

581یہ اہل مکہ کو ڈرایا جا رہا ہے کہ تم دیکھتے نہیں کہ اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر اللہ کی ناشکری کرنے اور سرکشی کرنے والوں کا انجام کیا ہوا، آج ان کی بیشتر آبادیاں کھنڈر بنی ہوئی یا صرف صفحات تاریخ پر ان کا نام رہ گیا ہے۔ اور اب آتے جاتے مسافر ہی ان میں کچھ دیر کے لئے سستا لیں تو سستا لیں، ان کی نحوست کی وجہ سے کوئی بھی ان میں مستقل رہنا پسند نہیں کرتا۔ 582یعنی ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا جو ان مکانوں اور مال و دولت کا وارث ہوتا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٠] یہ کفار مکہ کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے یعنی تمہیں خطرہ یہ ہے کہ اگر تم مسلمان ہوگئے تو تمہاری سیاسی برتری اور تمہاری معیشت تباہ ہوجائے گی اور جس معیشت پر اس وقت تم اترا رہے ہو تو جن لوگوں نے تم سے پہلے اپنی معیشت پر گھمنڈ کیا تھا ان کا انجام بھی تمہارے ساتھ ہے۔ ان لوگوں نے اسی گھمنڈ میں آکر تکبر اور سرکشی کی راہ اختیار کی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اس طرح تباہ و برباد کر ڈالا کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہ گیا۔ ان کی بستیوں کے کھنڈرات تم دیکھتے رہتے ہو۔ پھر اگر تم نے بھی انہی لوگوں کی روش اختیار کی تو کیا وجہ ہے کہ تمہارا وہی انجام نہ ہو جو ان کا ہوا تھا۔- [٨١] یعنی اپنی معیشت پر اترانے اور اپنا معیار زندگی بلند رکھنے والے لوگ مرکھپ گئے اور ان کی جائیدادیں جن پر وہ گھمنڈ کیا کرتے تھے سب وہیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ان کا کوئی وارث بھی باقی نہ رہا۔ بالآخر ہم ہی ان کے وارث ہوئے کہ جنہیں ہم چاہیں وہاں آباد کرکے وہ جائیدادیں ان کے حوالے کردیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍۢ بَطِرَتْ مَعِيْشَتَهَا ۔۔ :” بَطَرٌ“ کا معنی ہے نعمت پر سرکشی اختیار کرنا، پھول جانا۔ اس کا معنی ناشکری اور انکار بھی آتا ہے۔ پہلا معنی ہو تو یہاں ” فِیْ “ محذوف ہوگا : ” أَيْ بَطِرَتْ فِيْ مَعِیْشَتِھَا۔ “ حرف جار حذف ہونے سے ” مَعِیْشَتَھَا “ پر نصب آگئی۔ جیسا کہ سورة اعراف (١٥٥) میں ہے : (وَاخْتَارَ مُوْسٰي قَوْمَهٗ سَبْعِيْنَ رَجُلًا) ” أَيْ مِنْ قَوْمِہِ “۔ یہ ان کے عذر کا دوسرا جواب ہے، یعنی تم نے گمان کر رکھا ہے کہ ایمان لانے کی صورت میں تم تباہ و برباد ہوجاؤ گے اور ایمان نہ لائے تو تمہاری شان و شوکت، سیادت و عزت، مال و دولت اور اعلیٰ درجے کی ترقی یافتہ معیشت محفوظ رہے گی۔ سو تمہارا یہ گمان غلط ہے، تم سے پہلے کتنی ہی اقوام، جو اپنی معیشت پر اترا گئی تھیں اور ان کے رہنے والے اپنی خوش حالی اور فارغ البالی کی بدولت بدمست ہوگئے تھے، مثلاً عاد، ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب وغیرہ، ہم نے انھیں ایسا ہلاک اور برباد کیا کہ ان کی بستیاں یہ تمہارے سامنے ہیں، ان میں ایسی نحوست ہے کہ ان کے بعد کوئی ان میں آباد ہی نہیں ہوا، مگر بہت کم کہ راہ چلتے ہوئے تھوڑی دیر کے لیے کوئی مسافر اترا اور پھر چل دیا۔ تمہیں ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔- وَكُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِيْنَ : یعنی ان میں سے کوئی باقی ہی نہیں رہا جو ان کے گھروں اور مال و دولت کا وارث بنے، فرمایا : ( فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِيَةٍ ) [ الحآقۃ : ٨ ] ” تو کیا تو ان کا کوئی بھی باقی رہنے والا دیکھتا ہے ؟ “ ان کے وارث ہم بنے اور ہر چیز کے وارث ہمیشہ ہم ہی ہوا کرتے ہیں۔ ” کُنَّا “ میں ” کَانَ “ استمرار اور ہمیشگی کے لیے ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد دوسرا جواب اس عذر کا یہ ہے وَكَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍۢ بَطِرَتْ مَعِيْشَتَهَا، جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ دنیا کی دوسری کافر قوموں کے حالات پر نظر ڈالو کہ ان کے کفر و شرک کے وبال سے کس طرح ان کی بستیاں تباہ ہوئیں اور مضبوط و مستحکم قلعے اور حفاظتی سامان سب خاک میں مل گئے تو اصل خوف کی چیز کفر و شرک ہے جو تباہی و بربادی کا سبب ہوتا ہے۔ تم کیسے بیخبر بیوقوف ہو کہ کفر و شرک سے خطرہ محسوس نہیں کرتے ایمان سے خطرہ محسوس کرتے ہو۔ - لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِيْلًا یعنی پچھلی قوموں کی جن بستیوں کو عذاب الٰہی سے برباد کیا گیا تھا اب تک بھی ان میں آبادی نہیں ہوئی بجز قدر قلیل کے۔ اس قدر قلیل سے مراد اگر مساکن اور مقامات قلیلہ لئے جاویں جیسا کہ زجاج کا قول ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ ان تباہ شدہ بستیوں میں کوئی مقام اور کوئی مکان پھر آباد نہیں ہوسکا بجز عدد قلیل کے کہ وہ آباد ہوئے مگر حضرت ابن عباس سے آیت کی یہ تفسیر منقول ہے کہ قدر قلیل سے مقامات اور مکانات قلیلہ کا استثناء نہیں بلکہ زمان سکونت کا استثناء مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر ان بستیوں میں کوئی رہتا بھی ہے تو بہت تھوڑی دیر کے لئے جیسے کوئی راہ گیر مسافر تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جائے جس کو بستیوں کی آبادی نہیں کہا جاسکتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَمْ اَہْلَكْنَا مِنْ قَرْيَۃٍؚبَطِرَتْ مَعِيْشَتَہَا۝ ٠ۚ فَتِلْكَ مَسٰكِنُہُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِہِمْ اِلَّا قَلِيْلًا۝ ٠ۭ وَكُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِيْنَ۝ ٥٨- كم - كَمْ : عبارة عن العدد، ويستعمل في باب الاستفهام، وينصب بعده الاسم الذي يميّز به نحو : كَمْ رجلا ضربت ؟ ويستعمل في باب الخبر، ويجرّ بعده الاسم الذي يميّز به . نحو :- كَمْ رجلٍ. ويقتضي معنی الکثرة، وقد يدخل «من» في الاسم الذي يميّز بعده . نحو : وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف 4] ، وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] ، والکُمُّ : ما يغطّي الید من القمیص، والْكِمُّ ما يغطّي الثّمرةَ ، وجمعه : أَكْمَامٌ. قال :- وَالنَّخْلُ ذاتُ الْأَكْمامِ [ الرحمن 11] . والْكُمَّةُ : ما يغطّي الرأس کالقلنسوة .- کم یہ عدد سے کنایہ کے لئے آتا ہے اور یہ دو قسم پر ہے ۔ استفہامیہ اور خبریہ ۔ استفہامیہ ہوتا اس کا مابعد اسم تمیزبن کر منصوب ہوتا ( اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے کم رجلا ضربت اور جب خبریہ ہو تو اپنی تمیز کی طرف مضاف ہوکر اسے مجرور کردیتا ہے اور کثرت کے معنی دیتا ہے یعنی کتنے ہی جیسے کم رجل ضربت میں نے کتنے ہی مردوں کو پیٹا اور اس صورت میں کبھی اس کی تمیز پر من جارہ داخل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف 4] اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کروالیں ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گار تھیں ہلاک کر ڈالا ۔- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - بطر - البَطَر : دهش يعتري الإنسان من سوء احتمال النعمة وقلّة القیام بحقّها، وصرفها إلى غير وجهها . قال عزّ وجلّ : بَطَراً وَرِئاءَ النَّاسِ [ الأنفال 47] ، وقال : بَطِرَتْ مَعِيشَتَها - [ القصص 58] أصله : بطرت معیشته، فصرف عنه الفعل ونصب، ويقارب البطر الطرب، وهو خطّة أكثر ما تعتري من الفرح، وقد يقال ذلک في التّرح، والبیطرة : معالجة الدابّة .- ( ب ط ر ) البطر ۔ وہ دہشت جو خوشحالی کے غلط استعمال حق نعمت میں کرتا ہی اور نعمت کے غلط طور پر صرف کرنے سے انسان کو لاحق ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ بَطَراً وَرِئاءَ النَّاسِ [ الأنفال 47] جو اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے ۔ بَطِرَتْ مَعِيشَتَها[ القصص 58] بطرت معش تھا ( اپنی معشیت میں اترا رہے تھے ۔ یہ اصل میں بطرت معشیعۃ ہے فعل کی نسبت اس سے قطع کرکے بطور تمیز اسے منصوب کردیا گیا ہے ۔ اور قریبا طوف بمعنی بطر آتا ہے مگر طوف اس خفت کو کہتے ہیں جو فرط مسرت کی وجہ سے انسان کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اور کبھی طرف بمعنی غم بھی آجاتا ہے ۔ البیطرۃ حیوانات کا علاج کرنا انکی چیر پھاڑ کرنا ۔- عيش - العَيْشُ : الحیاة المختصّة بالحیوان، وهو أخصّ من الحیاة، لأنّ الحیاة تقال في الحیوان، وفي الباري تعالی، وفي الملک، ويشتقّ منه المَعِيشَةُ لما يُتَعَيَّشُ منه . قال تعالی: نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف 32] ، مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] ، لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف 10] ، وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر 20] . وقال في أهل الجنّة : فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 7] ، وقال عليه السلام : «لا عَيْشَ إلّا عَيْشُ الآخرة- ( ع ی ش )- العیش خاص کر اس زندگی کو کہتے ہیں جو حیوان میں پائی جاتی ہے اور یہ لفظ الحیاۃ سے اض ہے کیونکہ الحیاۃ کا لفظ حیوان باری تعالیٰ اور ملائکہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور العیش سے لفظ المعیشۃ ہے جس کے معنی ہیں سامان زیست کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں جن زندگی بسر کی جاتی ہے قرآن میں ہے : ۔ نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا[ الزخرف 32] ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا ۔ مَعِيشَةً ضَنْكاً [ طه 124] اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی ۔ وَجَعَلْنا لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الحجر 20] اور ہم ہی نے تمہارے لئے اس میں زیست کے سامان پیدا کردیئے ۔ لَكُمْ فِيها مَعايِشَ [ الأعراف 10] تمہارے لئے اس میں سامان زیست ۔ اور اہل جنت کے متعلق فرمایا : ۔ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 7] وہ دل پسند عیش میں ہوگا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا ( 55 ) - الا عیش الا عیش الاخرۃ کہ حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہی ہے ۔- سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي :- أصله وبقيّته، قال الشاعر :- 461-- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ- «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً :- قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً- [ النساء 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ- الآية [ الأعراف 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً- [ النساء 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ- [ مریم 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة- ( ور ث ) الوارثۃ - ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔- وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے - يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔- وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ (وَکَمْ اَہْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍم بَطِرَتْ مَعِیْشَتَہَا ج) ” - انہیں اپنے معاشی نظام کے استحکام پر بہت گھمنڈ تھا ‘ لیکن ان کی خوشحالی اور ان کی مستحکم معیشت انہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 82 یہ ان کے عذر کا دوسرا جواب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مال و دولت اور خوشحالی پر تم اترائے ہوئے ہو ، اور جس کے کھوئے جانے کے خطرے سے باطل پر جمنا اور حق سے منہ موڑنا چاہتے ہو ، یہی چیز کبھی عاد اور ثمود اور سبا اور مدین اور قوم لوط کے لوگوں کو بھی حاصل تھی ۔ پھر کیا یہ چیز ان کو تباہی سے بچا سکی؟ آخر معیار زندگی کی بلندی ہی تو ایک مقصود نہیں ہے کہ آدمی حق و باطل سے بے نیاز ہوکر بس اسی کے پیچھے پڑا رہے اور راہ راست کو صرف اس لیے قبول کرنے سے انکار کردے کہ ایسا کرنے سے یہ گوہر مقصود ہاتھ سے جانے کا خطرہ ہے ، کیا تمہارے پاس اس کی کوئی ضمانت ہے کہ جن گمراہیوں اور بدکاریوں نے بچھلی خوشحال قوموں کو تباہ کیا انہی پر اصرار کر کے تم بچے رہ جاؤ گے اور ان کی طرح تمہاری شامت کبھی نہ آئے گی؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani