Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

571یعنی ہم جہاں ہیں، وہاں ہمیں رہنے دیا جائے گا اور ہمیں اذیتوں سے یا مخالفین سے جنگ و پیکار سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یہ بعض کفار نے ایمان نہ لانے کا عذر پیش کیا۔ اللہ نے جواب دیا۔ 572یعنی ان کا یہ عذر غیر معقول ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو، جس میں یہ رہتے ہیں، امن والا بنایا ہے جب یہ شہر ان کے کفر و شرک کی حالت میں ان کے لئے امن کی جگہ ہے تو کیا اسلام قبول کرلینے کے بعد وہ ان کے لئے امن کی جگہ نہیں رہے گا ؟ 573یہ مکہ کی وہ خصوصیت ہے جس کا مشاہدہ لاکھوں حاجی اور عمرہ کرنے والے ہر سال کرتے ہیں کہ مکہ میں پیداوار نہ ہونے کے باوجود نہایت فروانی سے ہر قسم کا پھل بلکہ دنیا بھر کا سامان ملتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٨] یعنی عرب کے مشرک قبائل ہمارے دشمن بن جائیں گے اور ان میں جو سیاسی اقتدار ہمیں حاصل ہے وہ بھی چھن جائے گا۔ اور اسی سیاسی اقتدار کی وجہ سے جو ہمارے تجارتی قافلے پرامن سفر کرسکتے ہیں۔ وہ بھی نہ کرسکیں گے۔ گویا اگر ہم آپ کی بات مان کر آپ پر ایمان لے لائیں تو ہماری سیاسی ساکھ بھی تباہ ہوجائے گی اور معاشی آسودگی بھی ختم ہوجائے گی اور یہ قبائل ہم پر ہمارا جینا بھی حرام کردیں گے۔- [٧٩] کفار کی یہ تراشیدہ بات بھی خوئے بدرا بہانہ بسیار والی بات تھی، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سیاسی اور معاشی فوائد تمہیں صرف اس بنا پر حاصل ہو رہے ہیں کہ ہم نے اس سرزمین کو حرم بنادیا ہے۔ یہاں عرب بھر کے تمام قبائل حج کرنے آتے ہیں۔ کعبہ پر تمہاری تولیت کی وجہ سے تمہارا بھی عزت و احترام کرتے ہیں۔ عرب بھر میں یہی ایک پرامن خطہ ہے۔ اور اسے اللہ نے ہی پرامن بنایا ہے ورنہ عرب کے لٹیرے اور ڈاکو تمہیں کیسے جینے دیتے تھے۔ پھر تمہارے تجارتی قافلے بھی اسی حرم کی تولیت کی وجہ سے محفوظ سفر کرلیتے ہیں اور تم لوگ تجارت سے آسودہ حال بنے ہوئے ہو وہ بھی اسی حرم کی بدولت ہے۔ تو کیا جس اللہ نے تمہارے مشرک ہونے کے باوجود حرم کی وجہ سے تمہیں فائدے بخشے ہوئے ہیں۔ کیا تمہارے ایمان لانے کے بعد وہ تمہارے یہ فائدے روک دے گا یا ان میں مزید اضافہ کردے گا ؟ نیز یہ بھی حرم ہی برکت ہے کہ اس بےآب وگیاہ علاقہ میں دنیا جہاں کے میوے اور پھل اور غلے اور دوسری ضرورت کی اشیاء پہنچ جاتے ہیں۔ اور اس کثرت سے پہنچتے ہیں کہ جہاں یہ اشیاء پیدا ہوتی ہیں وہاں بھی اس وافر مقدار میں دستیاب نہیں ہوتیں۔ گویا مکہ اس لحاظ سے عالم تجارتی مرکز کی بھی حیثیت رکھتا ہے اگر تمہیں کفر کی حالت میں بھی یہ فوائد حاصل ہو رہے ہیں تو اللہ کے فرمانبردار بن جانے کے بعد آخر تمہیں کیوں نہ ہوں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا ۔۔ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لانے کا ایک بہانہ اور اس کا جواب اوپر گزر چکا ہے : (فَلَمَّا جَاۗءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا لَوْلَآ اُوْتِيَ مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي ۭ اَوَلَمْ يَكْفُرُوْا بِمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي مِنْ قَبْلُ ) [ القصص : ٤٨ ] ” پھر جب ان کے پاس ہمارے ہاں سے حق آگیا تو انھوں نے کہا اسے اس جیسی چیزیں کیوں نہ دی گئیں جو موسیٰ کو دی گئیں ؟ تو کیا انھوں نے اس سے پہلے ان چیزوں کا انکار نہیں کیا جو موسیٰ کو دی گئی تھیں۔ “ اب اس آیت میں ان کے ایمان نہ لانے کا ایک اور بہانہ ذکر فرمایا۔ ” وَقَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا ۔۔ “ کا عطف گزشتہ آیت (٤٨) ”ۭ اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا “ پر ہے، یعنی بعض مشرکین نے یہ کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ حق پر ہیں، لیکن ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کے ہمراہ ہدایت کی پیروی اختیار کرلی اور سارے عرب کی مخالفت مول لے لی تو وہ ہمیں ہماری سر زمین سے اچک لیں گے اور ایسی خاموشی سے یکلخت اٹھا لے جائیں گے کہ کسی کو خبر بھی نہ ہوگی۔- اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا ۔۔ : یہ ان کے عذر کا جواب ہے کہ جب پورے عرب میں ہر طرف بدامنی کا دور دورہ ہے، کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال، دن دہاڑے لوگوں کو اٹھا کر لونڈی و غلام بنا لیا جاتا ہے، قبائل غربت و فقر کی وجہ سے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں، تو کیا اس وقت ہم نے انھیں اس حرم میں جگہ نہیں دی جس کے امن و امان کی یہ حالت ہے کہ اس کے جانوروں تک کو کوئی نہیں ستاتا اور جسے وادی غیر ذی زرع ہونے کے باوجود اس قدر مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ دنیا بھر کے پھل اور اموال تجارت اس کی طرف کھچے چلے آرہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسے یہ حیثیت ہم نے بخشی ہے، تو جب ہم نے کفرو شرک کے باوجود انھیں اس قدر امن و امان دیا اور اپنی نعمتوں سے نوازا تو کیا جب وہ ہمارا دین اختیار کریں گے تو ہم انھیں پناہ نہیں دیں گے ؟ اور لوگوں کی دست درازی سے ان کی حفاظت نہیں کریں گے۔ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہوگا، لیکن اکثر لوگ نادان ہیں، جانتے نہیں۔ مزید دیکھیے سورة عنکبوت (٦٧) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اوپر دور سے کفار کے ایمان نہ لانے کا ذکر چلا آ رہا ہے ان آیات میں ان موانع کا ذکر ہے جو کفار کو ایمان لانے کی راہ میں حائل سمجھے جاتے تھے، مثلاً ایک مانع کا بیان یہ ہے کہ) اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ کے ساتھ ہو کر (اس دین کی) ہدایت پر چلنے لگیں تو فی الفور اپنے مقام سے مار کر نکال دیئے جاویں (کہ بےوطنی کی بھی مضرت ہو اور معاش کی پریشانی الگ ہو، لیکن اس عذر کا بطلان ہی بالکل ظاہر ہے) کیا ہم نے ان کو امن وامان والے حرم میں جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے پھل کھچے چلے آتے ہیں جو ہمارے پاس سے (یعنی ہماری قدرت اور رزاقی سے) کھانے کو ملتے ہیں (پس حرم ہونے کی وجہ سے جس کا سب احترام کرتے ہیں مضرت کا بھی اندیشہ نہیں اور اس مضرت کے منتفی ہونے کی وجہ سے احتمال فوت منفعت رزق کا بھی نہیں، پس ان کو چاہئے تھا کہ اس حالت کو غنیمت سمجھنے اور اس کو نعمت سمجھ کر قدر کرتے اور ایمان لے آتے) و لیکن ان میں اکثر لوگ (اس کو) نہیں جانتے (یعنی اس کا خیال نہیں کرتے اور (ایک سبب ان کے ایمان نہ لانے کا یہ ہے کہ یہ اپنی خوش عیشی پر نازاں ہیں لیکن یہ بھی حماقت ہے کیونکہ) ہم بہت سی ایسی بستیاں ہلاک کرچکے ہیں جو اپنے سامان عیش پر نازاں تھے، سو (دیکھ لو) یہ ان کے گھر ( تمہاری آنکھوں کے سامنے پڑے) ہیں کہ ان کے بعد آباد ہی نہ ہوئے مگر تھوڑی دیر کے لئے (کہ کسی مسافر وارد صادر کا ادھر کو اتفاقاً گزر ہوجاوے اور وہ تھوڑی دیر وہاں سستانے کو یا تماشا دیکھنے کو بیٹھ جاوے یا شب کو رہ جاوے) اور آخر کار (ان کے ان سب سامانوں کے) ہم ہی مالک رہے ( کوئی ظاہری وارث بھی ان کا نہ ہوا) اور (ایک شبہ ان کو یہ ہوتا ہے کہ اگر ان لوگوں کی ہلاکت بسبب کفر کے ہے تو ہم مدت سے کفر کرتے آ رہے ہیں ہم کو کیوں نہ ہلاک کیا جیسا کہ دوسری آیتوں میں ہے وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ الخ اور اس شبہ کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے سو اس کا حل یہ ہے کہ) آپ کا رب بستیوں کو (اول ہی بار میں) ہلاک نہیں کیا کرتا جب تک کہ (بستیوں) کے صدر مقام میں کسی پیغمبر کو نہ بھیج لے اور (پیغمبر کو بھیجنے کے بعد بھی فوراً ) ہم ان بستیوں کو ہلاک نہیں کرتے مگر اسی حالت میں کہ وہاں کے باشندے بہت ہی شرارت کرنے لگیں (یعنی ایک مدت معتدبہ تک بار بار کی تذکیر سے تذکر حاصل کریں تو اس وقت ہلاک کردیتے ہیں۔ چناچہ جن بستیوں کی ہلاکت کا اوپر ذکر تھا وہ بھی اسی قانون کے موافق ہلاک ہوئیں سو اسی قانون کے موافق تمہارے ساتھ عمل درآمد ہو رہا ہے اس لئے نہ رسول سے پہلے ہلاک کیا اور نہ بعد رسول کے ابھی تک ہلاک کیا مگر چند روز گزرنے دو ۔ اگر تمہارا یہ ہی عناد رہا تو سزا ہو ہی گی چناچہ بدر وغیرہ میں ہوئی) اور (ایک وجہ ایمان نہ لانے کی یہ ہے کہ دنیا نقد ہے اس لئے مرغوب ہے اور آخرت ادھار ہے اس لئے غیر مرغوب ہے، پس دنیا کی رغبت سے دل خالی نہیں ہوتا کہ اس میں آخرت کی رغبت سماوے پھر اس کی تحصیل کا طریقہ تلاش کیا جاوے جو کہ ایمان ہے سو اس کی نسبت یہ سن رکھو کہ) جو کچھ تم کو دیا دلایا گیا ہے وہ محض (چند روزہ) دنیوی زندگی کے برتنے کے لئے ہے اور یہیں کی (زیب و) زینت ہے (کہ خاتمہ عمر کے ساتھ اس کا بھی خاتمہ ہوجائے گا) اور جو (اجر وثواب) اللہ کے ہاں ہے وہ بدرجہا اس سے (کیفیۃً بھی) بہتر ہے اور (کمیۃً بھی) زیادہ (یعنی ہمیشہ) باقی رہنے والا ہے سو کیا تم لوگ (اس تفاوت کو یا اس تفاوت کے اقتضاء کو) نہیں سمجھتے (غرض تمہارے اعذار اور اسباب پر اصرار علی الکفر سب محض بےبنیاد اور لغو ہیں سمجھو اور مانو)- معارف و مسائل - وَقَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا، یعنی کفار مکہ حارث بن عثمان وغیرہ نے اپنے ایمان نہ لانے کی ایک وجہ یہ بیان کی کہ اگرچہ ہم آپ کی تعلیمات کو حق مانتے ہیں مگر ہمیں خطرہ یہ ہے کہ اگر ہم آپ کی ہدایت پر عمل کر کے آپ کے ساتھ ہوجاویں تو سارا عرب ہمارا دشمن ہوجائے گا اور ہمیں ہماری زمین مکہ سے اچک لے گا (اخرجہ النسائی وغیرہ) قرآن کریم نے ان کے اس عذر لنگ کے تین جواب دیئے اول یہ کہ اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْــبٰٓى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ یعنی ان کا یہ عذر اس لئے باطل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ اہل مکہ کی حفاظت کا ایک قدرتی سامان پہلے سے یہ کر رکھا ہے کہ ارض مکہ کو حرم بنادیا اور پورے عرب کے قبائل کفر و شرک اور باہمی عداوتوں کے باوجود اس پر متفق تھے کہ زمین حرم میں قتل و قتال سخت حرام ہے۔ حرم میں باپ کا قاتل بیٹے کو ملتا تو انتہائی جوش انتقام کے باوجود کسی کی یہ مجال نہ تھی کہ حرم کے اندر اپنے دشمن کو قتل کر دے یا اس سے کوئی انتقام لے لے، اس لئے ایمان لانے میں ان کو یہ خطرہ محسوس کرنا کس قدر جاہلیت ہے کہ جس مالک نے اپنے رحم و کرم سے ان کے کفر و شرک کے باوجود اس زمین میں امن دے رکھا ہے تو ایمان لانے کی صورت میں وہ ان کو کیسے ہلاک ہونے دے گا۔ یحی بن سلام نے فرمایا کہ معنے آیت کے یہ ہیں کہ تم حرم کی وجہ سے مامون و محفوظ تھے، میرا دیا ہوا رزق فراخی کے ساتھ کھا رہے تھے اور عبادت میرے سوا دوسروں کی کرتے تھے اپنی اس حالت سے تو تمہیں خوف نہ ہوا الٹا خوف اللہ پر ایمان لانے سے ہوا۔ (قرطبی) آیت مذکورہ میں حرم مکہ کے دو وصف بیان فرمائے ہیں ایک یہ کہ وہ جائے امن ہے۔ دوسرے یہ کہ وہاں اطراف دنیا سے ہر چیز کے ثمرات لائے جاتے ہیں تاکہ مکہ کے باشندے اپنی تمام ضروریات آسانی سے پوری کرسکیں۔- حرم مکہ میں ہر چیز کے ثمرات کا جمع ہونا خاص آیات قدرت میں سے ہے :- مکہ مکرمہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بیت کے لئے ساری دنیا میں سے منتخب فرمایا ایک ایسا مقام ہے کہ وہاں دنیا کی معیشت کی کوئی چیز آسانی سے نہ ملنا چاہئے کیونکہ گیہوں، چنا، چاول وغیرہ جو عام انسانی غذا ہے، ان چیزوں کی پیداوار بھی وہاں نہ ہونے کے حکم میں تھی۔ پھل اور ترکاریوں وغیرہ کا تو کہنا کیا ہے مگر یہ سب چیزیں جس افراط کے ساتھ مکہ مکرمہ میں ملتی ہیں عقل حیران رہ جاتی ہے کہ موسم حج کے موقع پر مکہ کی دو تین لاکھ کی آبادی پر بارہ پندرہ لاکھ مسلمانوں کا اضافہ ہر سال ہوجاتا ہے جو اوسطاً دو ڈھائی مہینے تک رہتا ہے۔ کبھی نہیں سنا گیا کہ ان میں سے کسی کو کسی زمانے میں غذائی ضروریات نہ ملی ہوں بلکہ رات دن کے تمام اوقات میں تیار شدہ غذا ہر وقت ملتے رہنے کا مشاہدہ ہر شخص کرتا ہے اور قرآن کریم کے لفظ (ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ ) میں غور کریں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عرف عام کے اعتبار سے ثمرات کا تعلق درختوں کے ساتھ ہے مقام اس کا تھا کہ ثمرات کل شجر فرمایا جاتا، اس کے بجائے ثمرات کل شئی فرماتے ہیں بعید نہیں کہ اشارہ اس طرف ہو کہ لفظ ثمرات یہاں صرف پھلوں کے معنے میں نہیں بلکہ مطلقاً حاصل اور پیداوار کے معنی میں ہے ملوں اور کارخانوں کی مصنوعات بھی ان کے ثمرات ہیں، اس طرح حاصل اس آیت کا یہ ہوگا کہ حرم مکہ میں صرف کھانے پینے ہی کی چیزیں جمع نہیں ہوگی بلکہ تمام ضروریات زندگی جمع کردی جائیں گی جس کا کھلی آنکھوں مشاہدہ ہو رہا ہے کہ شاید دنیا کے کسی بھی ملک میں یہ بات نہ ہو کہ ہر ملک اور ہر خطے کی غذائیں اور وہاں کی مصنوعات اس افراط کے ساتھ وہاں ملتی ہوں جیسی مکہ مکرمہ میں ملتی ہیں۔ یہ تو کافر مکہ کے عذر کا ایک جواب ہوا کہ جس مالک نے تمہاری حالت کفر و شرک میں تم پر یہ انعامات برسائے کہ تمہاری زمین کو ہر خطرہ سے مامون و محفوظ کردیا اور باوجودیکہ اس زمین میں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی، ساری دنیا کی پیداوار یہاں لا کر جمع کردی تو تمہارا یہ خطرہ کیسی بڑی جہالت ہے کہ خالق کائنات پر ایمان لانے کی صورت میں تم سے یہ نعمتیں سلب ہوجائیں گی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْہُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا۝ ٠ۭ اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّہُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْبٰٓى اِلَيْہِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٥٧- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- خطف - الخَطْفُ والاختطاف : الاختلاس بالسّرعة، يقال : خَطِفَ يَخْطَفُ ، وخَطَفَ يَخْطِفُ «3» وقرئ بهما جمیعا قال : إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ وذلک وصف للشّياطین المسترقة للسّمع، قال تعالی: فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ [ الحج 31] ، يَكادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصارَهُمْ [ البقرة 20] ، وقال : وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ [ العنکبوت 67] ، أي : يقتلون ويسلبون، والخُطَّاف : للطائر الذي كأنه يخطف شيئا في طيرانه، ولما يخرج به الدّلو، كأنه يختطفه . وجمعه خَطَاطِيف، وللحدیدة التي تدور عليها البکرة، وباز مُخْطِف : يختطف ما يصيده،- ( خ ط ف ) خطف یخطف خطفا واختطف اختطافا کے معنی کسی چیز کو سرعت سے اچک لینا کے ہیں ۔ یہ باب ( س ض ) دونوں سے آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ«4» ہاں جو کوئی ( فرشتوں کی ) بات کو ) چوری سے جھپث لینا چاہتا ہے ۔ طا پر فتحہ اور کسرہ دونوں منقول ہیں اور اس سے مراد وہ شیاطین ہیں جو چوری چھپے ملا اعلیٰ کی گفتگو سنا کرتے تھے ۔ نیز فرمایا :۔ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ [ الحج 31] پھر اس کو پرندے اچک لے جائیں یا ہوا کسی دور جگہ اڑا کر پھینک دے ۔ يَكادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصارَهُمْ [ البقرة 20] قریب ہے کہ بجلی ( کی چمک ) ان کی آنکھوں ( کی بصارت ) کو اچک لے جائے ۔ وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ [ العنکبوت 67] اور لوگ ان کے گرد نواح سے اچک لئے جاتے ہیں ۔ یعنی ان کے گرد ونواح میں قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے ۔ الخاف ۔ ( 1) ابابیل کی قسم کا ایک پرندہ جو پرواز کرنے میں کسی چیز کو جپٹ لیتا ہے ۔ ( 2) آہن کج جس کے ذریعے کنوئیں سے ڈول نکالا جاتا ہے گویا وہ ڈول کو اچک کر باہر لے آتا ہے ۔ ( 3) وہ لوہا جس پر کنوئیں کی چرغی گھومتی ہے ۔ ج خطاطیف باز مخطف ۔ باز جو اپنے شکار پر جھٹپتا ہے ۔ الخطیف ۔ تیز رفتاری ۔ الخطف الحشاو مختطفتہ ۔ مرد باریک شکم جس کے وبلاپن کی وجہ سے ایسا معلوم ہو کہ اس کی انتٹریاں اچک لی گئی ہیں ۔- حَرَمُ- والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع - وکذلک الشهر الحرام،- جبی - يقال : جَبَيْتُ الماء في الحوض : جمعته، والحوض الجامع له : جَابِيَة، وجمعها جَوَابٍ.- قال اللہ تعالی: وَجِفانٍ كَالْجَوابِ [ سبأ 13] ، ومنه استعیر : جبیت الخراج جِبَايَةً ، ومنه قوله تعالی: يُجْبى إِلَيْهِ ثَمَراتُ كُلِّ شَيْءٍ [ القصص 57] ،- ( ج ب ی ) حبی ( ج) حوض میں پانی جمع کیا اور بڑے حوض کو حاجیۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع جواب آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجِفانٍ كَالْجَوابِ [ سبأ 13] اور لگن جیسے بڑے بڑے حوض ۔ اور اسی سے بطور استعارہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ جس کے معنی مال خراج جمع کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يُجْبى إِلَيْهِ ثَمَراتُ كُلِّ شَيْءٍ [ القصص 57] جہاں ہر قسم کے میوے پہنچائے جاتے ہیں ۔- ثمر - الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22]- ( ث م ر ) الثمر - اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - لدن - لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل .- قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76]- ( ل دن ) لدن - ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٧) اور حرث بن عمرو نوفلی اور اس کے ساتھی کہتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر ہم آپ کے ساتھ توحید کا اقرار کرلیں گے تو ہم سر زمین مکہ سے نکال دیے جائیں گے۔- کیا ہم نے ان کو امن وامان والے حرم میں جگہ نہیں دی کہ وہاں کسی قسم کا خوف نہیں جہاں ہر قسم کے پھل کھچے چلے آتے ہیں جو ہماری طرف سے ان کو کھانے کو ملتے ہیں سو اگر یہ ایمان لے آئیں گے تو میں ان پر کفار کو کیوں کر مسلط کر دوں گا لیکن ان میں سے اکثر اس چیز کو نہیں جانتے اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ وقالوا ان نتبع الہدی معک “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے عوفی (رح) کے واسطہ سے ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ کچھ قریشیوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اگر ہم آپ کی اطاعت قبول کرلیں گے تو فورا لوگ ہمیں یہاں سے نکال دیں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور امام نسائی (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حرث بن عامر بن نوفل نے یہ بات کہی تھی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (وَقَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْہُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا ط) ” - ہم اچک لیے جائیں گے ‘ یعنی ہمیں ختم یا برباد کردیا جائے گا۔ یہ لفظ اسی مفہوم میں سورة الانفال کی آیت ٢٦ میں بھی آیا ہے ‘ جس کا مطالعہ ہم کرچکے ہیں : (وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ ) ” اور یاد کرو جب تم تعداد میں تھوڑے تھے اور زمین میں دبا لیے گئے تھے ‘ تمہیں اندیشہ تھا کہ لوگ تمہیں اچک لے جائیں گے “۔ مزید برآں یہ لفظ سورة العنکبوت کی آیت ٦٧ میں بھی آیا ہے۔- عام طور پر کسی معاشرے میں حق کو قبول کرنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو حق کو پہچانتے ہی فوراً قبول کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ تو اپنی کسی مصلحت کو اس رستے کی دیوار بننے دیتے ہیں اور نہ ہی دوسرے لوگوں کے اس طرف مائل ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف آگے بڑھ کر بےدھڑک انداز میں حق کو قبول کرتے ہیں بلکہ اس کے بعد وہ ” ہرچہ باداباد “ کے مصداق حق کی وفاداری میں کسی بھی قسم کی قربانی کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس راستے میں جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ان کے برعکس کچھ لوگ حق کو پہچان لینے کے باوجود منتظر رہتے ہیں کہ کچھ اور لوگ بھی آجائیں ‘ جب کچھ لوگ اس نظریے کو قبول کر کے اس نئے راستے پر چلیں گے اور ان کے چلنے سے اس راستے کے نشانات واضح ہو کر ایک پگڈنڈی بن جائے گی تو ہم بھی شامل ہوجائیں گے۔ ان دونوں قسم کے لوگوں کا ذکر سورة التوبہ کی آیت ١٠٠ میں اس طرح کیا گیا ہے : (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍلا) ” اور پہلے پہل سبقت کرنے والے ‘ مہاجرین اور انصار میں سے ‘ اور وہ جنہوں نے ان کی پیروی کی نیکی کے ساتھ “۔ یعنی کچھ خوش قسمت لوگ تو پہلے پہل سبقت لے گئے اور کچھ ان کے پیروکار بنے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ان دونوں طرح کے لوگوں کے اپنے اپنے درجات ہیں۔ ان دو اقسام کے علاوہ ہر معاشرے میں ایک گروہ ایسے کم ہمت لوگوں پر بھی مشتمل ہوتا ہے جو کسی نظریے کی خاطر کسی قسم کی آزمائش جھیلنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ وہ حق کو پہچان تو لیتے ہیں مگر اسے بڑھ کر قبول کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ آیت زیر مطالعہ میں ایسے کم ہمت لوگوں کا قول نقل ہوا ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی باتیں تو درست ہیں ‘ آپ کی دعوت دل کو بھی لگتی ہے ‘ لیکن ہم پورے عرب کے ساتھ دشمنی مول نہیں لے سکتے۔ اگر ہم آپ ( علیہ السلام) پر ایمان لے آئیں گے تو یہ لوگ ہم پر چڑھ دوڑیں گے اور ہمیں نیست و نابود کرکے رکھ دیں گے۔- (اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّہُمْ حَرَمًا اٰمِنًا) ” - ان کے اس بہانے کا یہاں یہ جواب دیا گیا ہے کہ جس حرم کی حدود میں وہ سکون اور چین کی زندگی بسر کر رہے ہیں ‘ اسے امن کی جگہ کس نے بنایا ہے ؟ تو جس اللہ نے حرم کو امن والی جگہ بنایا ہے ‘ کیا اب وہ اپنے نام لیواؤں کی مدد نہیں کرے گا اور کیا وہ ان کو ان کے دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا ؟- (یُّجْبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْءٍ ) ” - ان الفاظ کا عملی نقشہ دنیا نے مکہ کے اندر ہر دور میں دیکھا ہے۔ پرانے زمانوں میں بھی جب حج کے لیے دنیا کے مختلف علاقوں سے لوگ مکہ آتے تھے تو اپنے اپنے علاقوں کے پھل اور دوسری چیزیں اپنے ساتھ لاتے تھے۔ آج بھی دنیا کے مختلف علاقوں کے بہترین پھل مکہ میں ہر وقت دستیاب رہتے ہیں۔ بہر حال اس گھر کو امن والی جگہ بھی اللہ ہی نے بنایا ہے اور اسی نے اس کو پھلوں اور رزق کی فراوانی سے نوازا ہے۔- (رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا) ” - اس لیے کہ ہمارے محبوب بندے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو یہاں آباد کرتے وقت ہم سے اس بارے میں یہ دعا کی تھی : (رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِلا رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْءِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْٓ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوْنَ ) (ابراہیم) ” اے ہمارے رب میں نے اپنی اولاد (کی ایک شاخ) کو آباد کردیا ہے اس بےآب وگیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس ‘ اے ہمارے پروردگار تاکہ یہ نماز قائم کریں ‘ تو تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے اور ان کو رزق عطا کر پھلوں سے ‘ تاکہ وہ شکر ادا کریں “۔ ہم نے اپنے بندے کی یہ دعا قبول فرمائی اور یہ اسی دعا کی قبولیت کا نتیجہ ہے کہ ہم ہر طرح کا رزق وافر مقدار میں وہاں بسنے والے لوگوں تک مسلسل پہنچا رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 80 یہ وہ بات ہے جو کفار قریش اسلام قبول نہ کرنے کے لیے عذر کے طور پر پیش کرتے تھے ، اور اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کفر و انکار کا سب سے اہم بنیادی سبب یہی تھا ۔ اس بات کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ تاریخی طور پر اس زمانے میں قریش کی پوزیشن کیا تھی جس پر ضرب پڑنے کا انہیں اندیشہ تھا ۔ قریش کو ابتداً جس چیز نے عرب میں اہمیت دی وہ یہ تھی کہ ان کا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہونا انساب عرب کی رو سے بالکل ثابت تھا ، اور اس بنا پر ان کا خاندان عربوں کی نگاہ میں پیرزادوں کا خاندان تھا ، پھر جب قصی بن کلاب کے حسن تدبیر سے یہ لوگ کعبہ کے متولی ہوگئے اور مکہ ان کا مسکن بن گیا تو ان کی اہمیت پہلے سے بہت زیادہ ہوگئی ، اس لیے کہ اب وہ عرب کے سب سے بڑے تیرتھ کے مجاور تھے ، تمام قبائل عرب میں ان کو مذہبی پیشوائی کا مقام حاصل تھا ، اور حج کی وجہ سے عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جو ان سے تعلقات نہ رکھتا ہو ، اس مرکزی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر قریش نے بتدریج تجارتی ترقی شروع کی اور خوشی قسمی سے روم و ایران کی سیاسی کشمکش نے ان کو بین الاقوامی تجارت میں ایک اہم مقام عطا کردیا ، اس زمانہ میں روم و یونان اور مصر و شام کی جتنی تجارت بھی چین ، ، ہندوستان ، انڈونیشیا اور مشرقی افریقہ کے ساتھ تھی ، اس کے سارے ناکے ایران نے روک دیے تھے ، آخری رستہ بحر احمر کا رہ گیا تھا ، سو یمن پر ایران کے قبضہ نے اسے بھی روک دیا ، اس کے بعد کوئی صورت اس تجارت کو جاری رکھنے کے لیے اس کے سوا نہیں رہ گئی تھی کہ عرب کے تاجر ایک طرف رومی مقبوضات کا مال بحر عرب اور خلیج فارس کے بندرگاہوں پر پہنچائیں اور دوسری طرف انہی بندرگاہوں سے مشرقی اموال تجارت لے کر رومی مقبوضات میں پہنچیں ، اس صورت حال نے مکہ کو بین الاقوامی تجارت کا ایک اہم مرکز بنا دیا ۔ اس وقت قریش ہی تھے جنہیں اس کاروبار کا قریب قریب اجارہ حاصل تھا ، لیکن عرب کی طوائف الملوکی کے ماحول میں یہ تجارتی نقل و حرکت اس کے بغیر نہ ہوسکتی تھی کہ تجارتی شاہراہیں جن قبائل کے علاقوں سے گزرتی تھیں ان کے ساتھ قریش کے گہرے تعلقات ہوں ، سرداران قریش اس غرض کے لیے صرف اپنے مذہبی اثر پر اکتفا نہ کرسکتے تھے ، اس کے لیے انہوں نے تمام قبائل کے ساتھ معاہدات کر رکھے تھے ، تجارتی منافع میں سے بھی وہ ان کو حصہ دیتے تھے ، شیوخ قبائل اور بااثر سرداروں کو تحائف و ہدایا سے بھی خوش رکھتے تھے ۔ اور سودی کاروبار کا بھی ایک جال انہوں نے پھیلا رکھا تھا جس میں قریب قریب تمام ہمسایہ قبائل کے تجار اور سردار جکڑے ہوئے تھے ۔ ان حالات میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید اٹھی تو دین آبائی کے تعصب سے بھی بڑھ کر جو چیز قریش کے لیے اس کے خلاف وجہ اشتغال بنی وہ یہ تھی کہ اس دعوت کی بدولت انہیں اپنا مفاد خطرے میں نظر آرہا تھا ، وہ سمجھتے تھے کہ معقول دلائل اور حجتوں سے شرک و بت پرستی غلط اور توحید صحیح بھی ہو تو اس کو چھوڑنا اور اسے قبول کرلینا ہمارے لیے تباہ کن ہے ۔ ایسا کرتے ہی تمام عرب ہمارے خلاف بھڑک اٹھے گا ، ہمیں کعبہ کی تولیت سے بے دخل کردیا جائے گا ۔ بت پرست قبائل کے ساتھ ہمارے وہ تمام معاہدانہ تعلقات ختم ہوجائیں گے جن کی وجہ سے ہمارے تجارتی قافلے رات دن عرب کے مختلف حصوں سے گزرتے ہیں ، اس طرح یہ دین ہمارے مذہبی رسوخ و اثر کا بھی خاتمہ کردے گا اور ہماری معاشی خوشحالی کا بھی ، بلکہ بعید نہیں کہ تمام قبائل عرب ہمیں سرے سے مکہ ہی چھوڑ دینے پر مجبور کردیں ۔ یہاں پہنچ کر دنیا پرستوں کی بے بصیرتی کا عجیب نقشہ انسان کے سامنے آتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار انہیں یقین دلاتے تھے کہ یہ کلمہ جو میں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں اسے مان لو تو عرب و عجم تمہارے تابع ہوجائٰں گے ۔ ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، صفحہ 316 ۔ 317 ) مگر انہیں اس میں اپنی موت نظر آتی تھی ۔ وہ سمجھتے تھے کہ جو دولت ، اثر ، رسوخ ہمیں آج حاصل ہے یہ بھی ختم ہوجائے گا ۔ ان کو اندیشہ تھا کہ یہ کلمہ قبول کرتے ہی ہم اس سرزمین میں ایسے بے یارومددگار ہوجائیں گے کہ چیل کوے ہماری بوٹیاں نوچ کھائیں گے ، ان کی کوتاہ نظری وہ وقت نہ دیکھ سکتی تھی جب چند ہی سال بعد تمام عرب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت ایک مرکزی سلطنت کا تابع فرمان ہونے والا تھا ، پھر اسی نسل کی زندگی میں ایران ، عراق ، شام ، مصر سب ایک ایک کر کے اس سلطنت کے زیر نگیں ہوجانے والے تھے ، اور اس قول پر ایک صدی گزرنے سے بھی پہلے قریش ہی کے خلفاء سندھ سے لے کر اسپین تک اور قفقاز سے لے کر یمن کے سواحل تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ پر حکمرانی کرنے والے تھے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 81 یہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کے عذر کا پہلا جواب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حرم جس کے امن و امان اور جس کی مرکزیت کی بدولت آج تم اس قابل ہوئے ہو کہ دنیا بھر کا مال تجارت اس وادی غیر ذی زرع میں کھچا چلا آرہا ہے ، کیا اس کو یہ امن اور یہ مرکزیت کا مقام تمہاری کسی تدبیر نے دیا ہے؟ ڈھائی ہزار برس پہلے چٹیل پہاڑوں کے درمیان اس بے آب و گیاہ وادی میں ایک اللہ کا بندہ اپنی بیوی اور ایک شیر خوار بچے کو لے کر آیا تھا ۔ اس نے یہاں پتھر اور گارے کا ایک حجرہ تعمیر کردیا اور پکار دیا کہ اللہ نے اسے حرم بنایا ہے ، آؤ اس گھر کی طرف اور اس کا طواف کرو ، اب یہ اللہ کی دی ہوئی برکت نہیں تو اور کیا ہے کہ 25 صدیوں سے یہ جگہ عرب کا مرکز بنی ہوئی ہے ، سخت بدامنی کے ماحول میں ملک کا صرف یہی گوشہ ایسا ہے جہاں امن میسر ہے ، اس کو عرب کا بچہ بچہ احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہر سال ہزارہا انسان اس کے طواف کے لیے چلے آتے ہیں ، اسی نعمت کا ثمرہ تو ہے کہ تم عرب کے سردار بنے ہوئے ہو اور دنیا کی تجارت کا ایک بڑا حصہ تمہارے قبضے میں ہے ، اب کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جس خدا نے یہ نعمت تمہیں بخشی ہے ، اس سے منحرف اور باغی ہوکر تو تم پھلو پھولو گے مگر اس کے دین کی پیروی اختیار کرتے ہی برباد ہوجاؤ گے؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

33: بعض کافروں نے اسلام لانے میں یہ رکاوٹ ظاہر کی تھی کہ اسلام لانے کے بعد عرب کے لوگ ہماری عزت کرنا چھوڑ دیں گے اور ہمارے خلاف قتل وغارت گری کا بازار گرم کرکے ہمیں یہاں سے نکال باہر کریں گے، قرآن کریم نے اس کے تین جواب دئے ہیں، پہلا جواب تو اسی آیت میں یہ دیا ہے کہ ہم نے ان کے کفر کے باوجود ان کو حدود حرم میں اتنا محفوظ بنایا ہوا ہے کہ سارے عرب میں قتل وغارت گری ہورہی ہے لیکن حرم والوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا، بلکہ چاروں طرف سے ہر قسم کے پھل کھنچ کھنچ کر وہاں آتے ہیں اور حرم آنے والے کسی سامان پر کوئی ڈاکا نہیں ڈالتے، جب تمہارے کفر کے باوجود اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ حفاظت بخشی ہوئی ہے تو جب تم ایمان لے آؤگے تو کیا اس وقت اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت نہیں کرے گا، پھر آیت ٥٨ میں دوسراجواب یہ دیا گیا ہے کہ بربادی تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے آتی ہے، چنانچہ تم سے پہلی جن قوموں نے کفر کی راہ اختیار کی، آخر کار وہی تباہ ہوئیں، نہ کہ وہ لوگ جو ایمان لے آئے تھے، پھر آیت نمبر ٦٠ میں تیسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر بالفرض اسلام لانے کے نتیجے میں تمہیں دنیا کے اندر کچھ تکلیفیں پہنچ بھی جائیں تو وہ آخرت کی تکلیفوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ (توضیح القرآن)