ہدایت صرف اللہ کے ذمہ ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا ہدایت قبول کرنا تمہارے قبضے کی چیز نہیں ۔ آپ پر تو صرف پیغام اللہ کے پہنچادینے کا فریضہ ہے ۔ ہدایت کا مالک اللہ ہے وہ اپنی حکمت کے ساتھ جسے چاہے قبول ہدایت کی توفیق بخشتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لیس علیک ھدھم ) تیرے ذمہ ان کی ہدایت نہیں وہ چاہے تو ہدایت بخشے ۔ اور آیت میں ہے ( وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ١٠٣ ) 12- یوسف:103 ) گو تو ہر چند طمع کرے لیکن ان میں سے اکثر ایماندار نہیں ہوتے کہ یہ اللہ کے ہی علم میں ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے؟ اور مستحق ضلالت کون ہے؟ بخاری ومسلم میں ہے کہ یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے بارے میں اتری جو آپ کا بہت طرف دار تھا اور ہر موقعہ پر آپ کی مدد کرتا تھا اور آپ کا ساتھ دیتا تھا ۔ اور دل سے محبت کرتا تھا لیکن یہ محبت بوجہ رشتہ داری کے طبعی تھی شرعا نہ تھی ۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی اور ایمان لانے کی رغبت دلائی لیکن تقدیر کا لکھا اور اللہ کا چاہا غالب آگیا یہ ہاتھوں میں سے پھسل گیا اور اپنے کفر پر اڑارہا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے انتقال پر اس کے پاس آئے ۔ ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ بھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ کہو میں اس کی وجہ سے اللہ کے ہاں تیرا سفارشی بن جاؤنگا ۔ ابو جہل اور عبداللہ کہنے لگے ابو طالب کیا تو اپنے باپ عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جائے گا ۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمجھاتے اور وہ دونوں اسے رو کتے یہاں تک کہ آخر کلمہ اسکی زبان سے یہی نکلتا کہ میں یہ کلمہ نہیں پڑھتا اور میں عبدالمطلب کے مذہب پر ہوں ۔ آپ نے فرمایا بہتر میں تیرے لیے رب سے استغفار کرتا رہونگا یہ اور بات ہے کہ میں روک دیا جاؤں اللہ مجھے منع فرمادے ۔ لیکن اسی وقت آیت اتری کہ ( مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ١١٣ ) 9- التوبہ:113 ) یعنی نبی کو اور مومن کو ہرگز یہ بات سزاوار نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے استغفار کریں گو وہ ان کے نزدیکی قرابتدار ہی کیوں نہ ہوں اور اسی ابو طالب کے بارے میں آیت ( اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ 56 ) 28- القصص:56 ) بھی نازل ہوئی ( صحیح مسلم وغیرہ ) ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ابو طالب کے مرض الموت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ چجا لا الہ الا اللہ کہہ لو میں اس کی گواہی قیامت کے دن دے دونگا تو اس نے کہا اگر مجھے اپنے خاندان قریش کے اس طعنے کا خوف نہ ہو اس نے موت کی گھبراہٹ کی وجہ سے یہ کہہ لیا تو میں اسے کہہ کر تیری آنکھوں کو ٹھنڈی کردیتا مگر پھر بھی اسے تیری خوشی کے لئے کہتا ہوں ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کلمہ پڑھنے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ میرے بھتیجے میں تو اپنے بڑوں کی روش پر ہوں ۔ اور اسی بات پر اس کی موت ہوئی کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہے ۔ قیصر کا قاصد جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور قیصر کا خط خدمت نبوی میں پیش کیا تو آپ نے اسے اپنی گود میں رکھ کر فرمایا تو کس قبیلے سے ہے؟ اس نے کہا تیرج قبیلے کا آدمی ہوں آپ نے فرمایا کہ تیرا قصد ہے کہ تو اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر آجائے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں جس قوم کا قاصد ہوں جب تک ان کے پیغام کا جواب انہیں نہ پہنچا دوں ان کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتا ۔ تو آپ نے مسکرا کر اپنے صحابہ کی طرف دیکھ کر یہی آیت پڑھی ۔ مشرکین اپنے ایمان نہ لانے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے تھے کہ ہم آپ کی لائی ہوئی ہدایت کو مان لیں تو ہمیں ڈر لگتا ہے کہ اس دین کے مخالف جو ہمارے چاروں طرف ہیں اور تعداد میں مال میں ہم سے زیادہ ہیں ۔ وہ ہمارے دشمن بن جائیں گے اور ہمیں تکلیفیں پہنچائیں گی اور ہمیں برباد کردیں گے ۔ اللہ فرماتا ہے کہ یہ حیلہ بھی ان کا غلط ہے اللہ نے انہیں حرم محترم میں رکھا ہے جہاں شروع دنیا سے اب تک امن وامان رہا ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حالت کفر میں تو یہاں امن سے رہیں اور جب اللہ کے سچے دین کو قبول کریں تو امن اٹھ جائے؟ یہی تو وہ شہر ہے کہ طائف وغیرہ مختلف مقامات سے پھل فروٹ سامان اسباب مال تجارت وغیرہ کی آمد و رفت بکثرت رہتی ہے ۔ تمام چیزیں یہاں کھنچی چلی آتی ہیں اور ہم انہیں بیٹھے بیٹھائے روزیاں پہنچا رہے ہیں لیکن ان میں اکثر بےعلم ہیں ۔ اسی لیے ایسے رکیک حیلے اور بےجا عذر پیش کرتے ہیں مروی ہے کہ یہ کہنے والاحارث بن عامر بن نوفل تھا ۔
5 6 1یہ آیت اس وقت نازل ہوئی، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمدرد اور غمسار چچا ابو طالب کا انتقال ہونے لگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوشش فرمائی کہ چچا اپنی زبان سے ایک مرتبہ لاَ اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ کہہ دیں تاکہ قیامت والے دن میں اللہ سے ان کی مغفرت کی سفارش کرسکوں۔ لیکن وہاں پر دوسرے رؤسائے قریش کی موجودگی کی وجہ سے ابو طالب قبول ایمان کی سعادت سے محروم رہے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہوگیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کا بڑا صدمہ تھا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر واضح کیا کہ آپ کا کام صرف تبلیغ و دعوت اور راہنمائی ہے۔ لیکن ہدایت کے اوپر چلا دینا یہ ہمارا کام ہے۔ ہدایت اسے ہی ملے گی جسے ہم ہدایت سے نوازنا چاہیں نہ کہ اسے جسے آپ ہدایت پر دیکھنا پسند کریں (صحیح بخاری)
[٧٦] ہدایت کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک سورة یہ ہے کہ کسی کافر کے قلب و دماغ میں ایسی تبدیلی آجائے کہ وہ ہدایت یا اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہوجائے یہ کام خالصتہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں اس کی صراحت موجود ہے۔ نیز درج ذیل حدیث بھی اسی معنی کی تائید کرتی ہے۔- سعید بن مسیب کے والد مسیب بن حزن کہتے ہیں کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ وہاں دیکھا کہ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ پہلے ہی وہاں بیٹھے ہیں۔ آپ نے ابو طالب سے فرمایا : چچا جان اگر آپ لا الٰہ الا اللہ کہہ لیں تو میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں دلیل پیش کرسکوں گا اور ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے : ابو طالب کیا تم عبدالمطلب کا دین چھوڑ دو گے ؟ آخر ابو طالب نے آخری بات جو کہ وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر مرتا ہوں اور لا الٰہ الا اللہ کہنا قبول نہ کیا۔ آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم میں اس وقت تک تمہارے لئے دعا کرتا رہوں گا جب تک اس سے منع نہ کیا جاؤں تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : ( مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67) 8 ۔ الانفال :67) اور ابو طالب کے بارے میں یہ آیت إنَّکَ لاَ تَھْدِیْ ۔۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٢۔ اور ترمذی کی روایت کے مطابق ابو طالب نے آپ کو یہ جواب دیا اگر قریش مجھے یہ عار نہ دلائیں کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے یہ کلمہ کہلوا دیا ہے تو بھیتجے میں یہ کلمہ کہہ کر تیری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)- اب رہا ابو طالب کا اخروی انجام، جس نے مکی دور میں اپنے آخری دم تک آپ کی حمایت اور سرپرستی کی اور ہر مشکل سے مشکل وقت میں آپ کا ساتھ دیا، تو اس کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یارسول اللہ کیا آپ کی ذات سے ابو طالب کو کچھ فائدہ پہنچے گا۔ وہ آپ کی حفاظت کیا کرتے تھے اور آپ کی خاطر سب کی ناراضگی مول لے لی تھی ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوتے (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب شفاعۃ النبی لابی طالب۔۔ )- ٢۔ ابو سعیدخدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا : قیامت کے دن شائد ان کو میری سفارش سے فائدہ پہنچے اور وہ ہلکی آگ میں رکھے جائیں جو ان کے ٹخنوں تک ہو اور ان کا بھیجا پکتا رہے (مسلم۔ حوالہ ایضاً )- ٣۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ کو جہنم کا سب سے ہلکا عذاب ابو طالب کو ہوگا وہ (آگ کی) دو جوتیاں پہنے ہونگے جس سے ان کا بھیجا کھول رہا ہوگا (مسلم۔ حوالہ ایضاً )- اور ہدایت کا دوسرا معنی یا دوسری صورت یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لاچکے ہیں۔ ان کی منزل مقصود تک رہنمائی کی جائے۔ ان معنوں میں آپ اور دیگر انبیاء بلکہ علمائے کرام بھی ہدایت کی راہ نہ بتلا سکتے ہیں اور پیغمبروں کی تو ذمہ داری ہی یہی ہوتی ہے جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ 52ۙ ) 42 ۔ الشوری :52) یعنی آپ یقینا لوگوں کو سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔- [٧٧] یعنی اللہ صرف ان لوگوں کو ایمان لانے کی توفیق دیتا ہے جو خود بھی ہدایت کے طلبگار ہوں۔ ایسے لوگوں کو وہ خوب جانتا ہے اور ان کی ہدایت کے اسباب بھی انھیں مہیا فرما دیتا ہے۔
اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ ۔۔ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام لوگوں کے بیحد خیر خواہ تھے اور ان کے ایمان لانے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ خصوصاً آپ کے دل میں اپنے قرابت داروں کے متعلق صلہ رحمی کے جذبے کی وجہ سے یہ خواہش اور بھی زیادہ تھی۔ اس مقام پر اہل کتاب کے ان لوگوں کا ذکر آیا جو کتاب اللہ کی تلاوت سنتے ہی ایمان لے آئے، تو قدرتی طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت کا اس بات سے متاثر ہونا لازمی تھا کہ نسبتاً دور والے ایمان لانے میں بازی لے گئے اور میرے قرابت دار حتیٰ کہ عزیز چچا ابو طالب اس نعمت سے محروم رہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ اس معاملے میں آپ کی دعوت یا خیر خواہی میں کوئی کمی نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ ہدایت آپ کے اختیار میں نہیں، اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہی زیادہ جانتا ہے کہ ہدایت پانے والے کون ہیں، اہل کتاب ہیں یا عرب، اقارب ہیں یا دور کے رشتہ دار۔ (بقاعی) کسی اور کو علم ہی نہیں کہ ہدایت کسے دینی ہے، تو وہ ہدایت کیا دے گا ؟ تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب کے بارے میں اتری۔- 3 سعید بن مسیب کے والد بیان کرتے ہیں : ( لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاۃُ جَاءَ ہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَہُ أَبَا جَہْلٍ وَعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أَبِيْ أُمَیَّۃَ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ ، فَقَالَ أَيْ عَمِّ قُلْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، کَلِمَۃً أُحَاجُّ لَکَ بِہَا عِنْدَ اللّٰہِ ، فَقَالَ أَبُوْ جَہْلٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِيْ أُمَیَّۃَ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ؟ فَلَمْ یَزَلْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُہَا عَلَیْہِ ، وَیُعِیْدَانِہِ بِتِلْکَ الْمَقَالَۃِ حَتّٰی قَالَ أَبُوْ طَالِبٍ آخِرَ مَا کَلَّمَہُمْ عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وَأَبٰی أَنْ یَّقُوْلَ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، قَالَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاللّٰہِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ أُنْہَ عَنْکَ ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ : (مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى) وَ أَنْزَلَ اللّٰہُ فِيْ أَبِيْ طَالِبٍ ، فَقَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( إنک لا تھدی من أحببت۔۔ ) ٤٧٧٢ ] ” جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے اور اس کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو پایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے چچا تو ” لا الٰہ الا اللہ “ کہہ دے، یہ ایسا کلمہ ہے جس کے ذریعے سے میں تیرے لیے اللہ کے پاس جھگڑا کروں گا۔ “ تو ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : ” کیا تو عبدالمطلب کی ملت سے بےرغبتی کرتا ہے۔ “ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سامنے یہی بات پیش کرتے رہے اور وہ دونوں اپنی وہی بات دہراتے رہے، حتیٰ کہ ابوطالب نے ان سے آخری بات جو کی وہ یہ تھی : ” عبد المطلب کی ملت پر (مر رہا ہوں) ۔ “ اور اس نے ” لا الٰہ الا اللہ “ کہنے سے انکار کردیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ کی قسم میں ہر صورت تیرے لیے استغفار کروں گا، جب تک مجھے منع نہ کردیا گیا۔ “ تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی : (مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى) [ التوبۃ : ١١٣ ] ” اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں۔ “ اور اللہ عزوجل نے ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) ” بیشک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ “- ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا سے کہا : ” تو ” لا الٰہ الا اللہ “ کہہ دے، میں قیامت کے دن تیرے لیے اس کی شہادت دوں گا۔ “ اس نے کہا : ” اگر یہ نہ ہوتا کہ قریش کے لوگ مجھے عار دلائیں گے کہ اسے اس پر (موت کی) گھبراہٹ نے آمادہ کیا تو میں اس کے ساتھ تیری آنکھ ٹھنڈی کردیتا۔ “ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) [ مسلم، الإیمان، باب الدلیل علٰی صحۃ إسلام ۔۔ : ٤٢؍٢٥ ]- 3 بعض لوگوں کو اصرار ہے کہ ابوطالب اسلام پر فوت ہوا، ان کا کہنا یہ ہے کہ عبدالمطلب ملت ابراہیم پر تھے اور ” عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ “ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ” میں ملت ابراہیم پر فوت ہو رہا ہوں “ لہٰذا وہ مسلمان تھا۔ مگر حدیث کے الفاظ ” اور اس نے لا الٰہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا “ کے بعد اس تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔- 3 ابو طالب کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیحد محبت تھی، اس نے ہر طرح سے آپ کی حفاظت اور آپ کا دفاع کیا، مگر اس کی محبت طبعی یعنی قرابت اور نسب کی وجہ سے تھی، ایمانی محبت نہ تھی، اس لیے ہدایت نصیب نہ ہوسکی۔- 3 اگرچہ یہ آیت ابوطالب کے بارے میں اتری مگر اصولی طور پر اس کا حکم عام ہے اور اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش تھی کہ وہ ایمان لے آئے، مگر اس نے کفر پر مرنے کو ترجیح دی۔ مزید دیکھیے سورة توبہ (١١٣) ۔- 3 یہاں فرمایا : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) اور دوسری جگہ فرمایا : (وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ) [ الشورٰی : ٥٢ ]” اور بلاشبہ تو یقیناً سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ “ پہلی آیت میں ہدایت سے مراد منزل مقصود پر پہنچا دینا ہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے، یہ کسی اور کا کام نہیں۔ دوسری آیت میں ہدایت سے مراد راستہ دکھانا ہے، یہ کام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی سر انجام دیتے تھے۔
خلاصہ تفسیر - آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ جس کو چاہے ہدایت کردیتا ہے (اور ہدایت کرنے کی قدرت تو کسی کو کیا ہوتی اللہ کے سوا کسی کو اس کا علم تک بھی نہیں کہ کون کون ہدایت پانے والا ہے بلکہ) ہدایت پانے والوں کا علم اسی کو ہے۔- معارف ومسائل - لفظ ہدایت کئی معنوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، ایک معنے صرف راستہ دکھا دینے کے ہیں، جس کے لئے ضروری نہیں کہ جس کو راستہ دکھایا گیا وہ منزل مقصود پر پہنچے اور ایک معنی ہدایت کے یہ بھی آتے ہیں کہ کسی کو منزل مقصود پر پہنچا دیا جائے۔ پہلے معنے کے اعتبار سے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلکہ تمام انبیاء کا ہادی ہونا اور یہ ہدایت ان کے اختیار میں ہونا ظاہر ہے کیونکہ یہ ہدایت ہی ان کا فرض منصبی ہے اگر اس کی ان کو قدرت نہ ہو تو فریضہ رسالت و نبوت کیسے ادا کریں۔ اس آیت میں جو آپ کا ہدایت پر قادر نہ ہونا بیان فرمایا ہے اس سے مراد دوسرے معنے کی ہدایت ہے، یعنی مقصود پر پہنچا دینا اور مطلب یہ ہے کہ اپنی تبلیغ وتعلیم کے ذریعہ آپ کسی کے دل میں ایمان ڈال دیں اس کو مومن بنادیں یہ آپ کا کام نہیں یہ تو براہ راست حق تعالیٰ کے اختیار میں ہے ہدات کے معنی اور اس کی اقسام کی مکمل تحقیق سورة بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے۔- صحیح مسلم میں ہے کہ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ آپ کی بڑی تمنا یہ تھی کہ وہ کس طرح ایمان قبول کرلیں اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بتایا گیا کسی کو مومن بنادینا آپ کی قدرت میں نہیں۔ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ ابوطالب کے ایمان و کفر کے معاملے میں بےضرورت گفتگو اور بحث و مباحثہ سے اور ان کو برا کہنے سے اجتناب کرنا چاہئے کہ اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبعی ایذا کا احتمال ہے۔ واللہ اعلم
اِنَّكَ لَا تَہْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ٠ۚ وَہُوَاَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِيْنَ ٥٦- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - شاء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ- [ الرعد 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة- الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ- [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- اهْتِدَاءُ- يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله :- الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف 49] .- الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک
(٥٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ جس سے چاہیں ایمان کا اقرار نہیں کرا سکتے یعنی حضرت ابوطالب کو البتہ اللہ جس کو چاہے اپنے دین کی ہدایت دیتا ہے یعنی حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عمر (رض) اور ان کے ساتھی اور اپنے دین کی ہدایت پانے والوں کا علم بھی اسی کو ہے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ انک لا تہدی من احببت “۔ (الخ)- امام مسلم (رح) نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا محترم سے فرمایا کہ کلمہ لا الہ الا اللہ کہہ لو تاکہ قیامت کے دن میں تمہارے حق میں گواہی دوں انہوں نے فرمایا کہ اگر مجھے قریش کی عورتیں عار نہ دلاتیں اور یہ نہ کہتیں کہ گھبراہٹ اور ڈر سے یہ اس کے قائل ہوئے ہیں تو میں اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے۔ امام نسائی (رح) اور ابن عساکر (رح) نے تاریخ دمشق میں سند جید کے ساتھ ابی سعید بن رافع (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے اس آیت ” انک لاتھدی “۔ کے بارے میں دریافت کیا کہ آیا یہ ابوطالب اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا ہاں۔
(وَہُوَ اَعْلَمُ بالْمُہْتَدِیْنَ ) ” - یہ آیت خاص طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب کے بارے میں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شدید خواہش تھی کہ وہ ایمان لے آئیں۔ ان کا انتقال ١٠ نبوی میں ہوا تھا۔ ان کے آخری وقت بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے بہت اصرار کیا کہ چچا جان آپ اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ کے کلمات میرے کان میں کہہ دیں تاکہ میں اللہ کے ہاں آپ کے ایمان کی گواہی دے سکوں ‘ لیکن وہ اس سے محروم رہے۔ بہر حال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کے بہت احسانات ہیں اور ان کے وہ احسانات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت سے ہم سب پر بھی ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ان کا نام ادب سے لیں اور ان کا ذکر احترام سے کریں۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 79 سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ حبشی عیسائیوں کے ایمان و اسلام کا ذکر کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود دراصل کفار مکہ کو شرم دلانا تھا ۔ کہنا یہ تھا کہ بدنصیبو ، ماتم کرو اپنی حالت پر کہ دوسرے کہاں کہاں سے آکر اس نعمت سے مستفید ہورہے ہیں اور تم اس چشمہ فیض سے جو تمہارے اپنے گھر میں بہہ رہا ہے محروم رہے جاتے ہو ، لیکن کہا گیا ہے اس انداز سے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تم چاہتے ہو کہ میری قوم کے لوگ ، میرے بھائی بند ، میرے عزیز و اقارب ، اس آب حیات سے بہرہ مند ہوں ، لیکن تمہارے چاہنے سے کیا ہوتا ہے ، ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے ، وہ اس نعمت سے انہی لوگوں کو فیض یاب کرتا ہے جن میں وہ قبول ہدایت کی آمادگی پاتاہے ، تمہارے رشتہ داروں میں اگر یہ جوہر موجود نہ ہو تو انہیں یہ فیض کیسے نصیب ہوسکتا ہے ۔ صحیحین کی روایت ہے کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے ، ان کا جب آخرت وقت آیا تو حضور نے اپنی حد تک انتہائی کوشش کی کہ وہ کلمہ لا الہ لا اللہ پر ایمان لے آئیں تاکہ ان کا خاتمہ بالخیر ہو ، مگر انہوں نے ملت عبدالمطلب پر ہی جان دینے کو ترجیح دی ۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا انک لا تھدی من احببت ۔ لیکن محدثین و مفسرین کا یہ طریقہ معلوم و معروف ہے کہ ایک آیت عہد نبوی کے جس معاملہ پر چسپاں ہوتی ہے اسے وہ آیت کی شان نزول کے طور پر بیان کرتے ہیں ۔ اس لیے اس روایت اور اسی مضمون کی ان دوسری روایات سے جو ترمذی اور مسند احمد وغیرہ میں حضرات ابو ہریرہ ، ابن عباس ، ابن عمر رضی اللہ عنہم ، وغیرہم سے مروی ہیں ۔ لازما یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ سورہ قصس کی یہ آیت ابو طالب کی وفات کے وقت نازل ہوئی تھی ، بلکہ ان سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے مضمون کی صداقت سب سےز یادہ اس موقع پر ظاہر ہوئی ، اگرچہ حضور کی دلی خواہش تو ہر بندہ خدا کو راہ راست پر لانے کی تھی ، لیکن سب سے بڑھ کر اگر کسی شخص کا کفر پر خاتمہ حضور کو شاق ہوسکتا تھا اور ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر سب سے زیادہ کسی شخص کی ہدایت کے آپ آرزو مند ہوسکتے تھے تو وہ ابو طالب تھے ، لیکن جب ان کو بھی ہدایت دینے پر آپ قادر نہ ہوئے تو یہ بات بالکل ظاہر ہوگئی کہ کسی کو ہدایت بخشنا اور کسی کو اس سے محروم رکھنا نبی کے بس کی بات نہیں ہے ، یہ معاملہ بالکل اللہ کے ہاتھ میں اور اللہ کے ہاں سے یہ دولت کسی رشتہ داری و برادری کی بنا پر نہیں بلکہ آدمی کی قبولیت و استعداد اور مخلصانہ صداقت پسندی کی بنا پر عطا ہوتی ہے ۔