۔ 6 3 1یعنی جو عذاب الٰہی کے مستحق قرار پاچکے ہوں گے، مثلاً سرکش شیاطین اور دعویٰ کفر و شرک وغیرہ وہ کہیں گے۔ 6 3 2یہ جاہل عوام کی طرف اشارہ ہے جن کو دعویٰ کفر نے اور شیاطین نے گمراہ کیا تھا۔ 6 3 3یعنی ہم تو تھے ہی گمراہ لیکن ان کو بھی اپنے ساتھ گمراہ کئے رکھا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان پر کوئی جبر نہیں کیا تھا، بس ہمارے ادنی سے اشارے پر ہماری طرح ہی انہوں نے بھی گمراہی احتیار کرلی۔ 6 3 4یعنی ہم ان سے بیزار اور الگ ہیں، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ وہاں یہ تابع اور متبوع، چیلے اور گرو ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ 6 3 5بلکہ درحقیقت اپنی خواہشات کی پیروی کرتے تھے۔ یعنی وہ معبودین، جن کی لوگ دنیا میں عبادت کرتے تھے، اس بات سے ہی انکار کردیں گے کہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔
[٨٦] اس سے مراد وہ شیاطین جن و انس ہیں جن کی کسی نہ کسی رنگ میں دنیا میں عبادت کی جاتی رہی ہے۔ یہاں عبادت سے مراد محض پوجا پاٹ نہیں بلکہ بندگی اور غلامی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو چاہتے تھے کہ اللہ کے احکام کے مقابلہ میں ان کے احکام کی اطاعت کی جائے۔ خواہ یہ دنیوی حکام ہوں یا پیرو مشائخ کی قسم کے لوگ ہوں۔- [٨٧] یعنی سوال تو اللہ مشرکوں سے کرے گا کہ تم نے جو میرے مقابل شریک بنا رکھے تھے وہ کہاں ہیں۔ لیکن وہ مشرک تو ابھی کچھ جواب نہ دینے پائیں گے کہ اس سے بیشتر یہ معبود حضرات خود ہی بول اٹھیں گے اور کہینگے کہ پروردگار واقعی ہم ان لوگوں کی گمراہی کا سبب ضرور بنے تھے۔ مگر ہم نے انھیں زبردستی اس بات پر مجبور نہیں کیا تھا۔ بلکہ یہ لوگ بھی ایسے ہی گمراہ ہوئے جیسے ہم خود ہوئے تھے۔ ہمیں بھی ہماری خواہشات نفس کی پیروی نے گمراہ کیا تھا۔ اور انھیں بھی اسی بات میں اپنے مفاد نظر ائے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں۔ اگر یہ ہدایت کی راہ اختیار کرنے والے ہو تو ہماری ان پر کچھ زبردستی نہیں تھی۔ لہذا یہ لوگ ہرگز ہماری بندی نہیں کر رہے تھے بلکہ اپنے نفس کی خواہشات کی بندگی کر رہے تھے ہم بھی یہی کچھ کرتے رہے اور یہ بھی وہی کچھ کرتے رہے۔ اس میں ہمارا کیا قصور تھا ؟
قَالَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ :” بات ثابت ہوچکی “ سے مراد ہے ” عذاب کی بات ثابت ہوچکی “ جیسا کہ فرمایا : (وَلٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ) [ السجدۃ : ١٣ ] ” اور لیکن میری طرف سے بات پکی ہوچکی کہ یقیناً میں جہنم کو جنوں اور انسانوں، سب سے ضرور بھروں گا۔ “ اور ” جن پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی “ سے مراد شیاطین یا وہ بڑے بڑے پیشوا، سردار، لیڈر اور پیرفقیر قسم کے لوگ ہیں جن کو لوگوں نے دنیا میں ” اربابا من دون اللہ “ بنا لیا تھا اور جن کی بات کے مقابلے میں وہ اللہ اور اس کے رسولوں کی بات کو رد کردیا کرتے تھے۔ وہ کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو حلال سمجھتے، حرام کہہ دیتے تو حرام سمجھتے، یہ ان کو اللہ کے سوا رب اور اللہ کے شریک بنانا تھا۔ جن پیشواؤں نے لوگوں کو اپنی بندگی پر لگایا تھا اور جن پر عذاب کا فیصلہ ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے اے ہمارے رب ۔۔- رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَغْوَيْنَا ۔۔ : یعنی جنھیں اللہ کے شریک بنایا گیا تھا، وہ کہیں گے، اے ہمارے رب یہ ہیں وہ لوگ جنھیں ہم نے گمراہ کیا۔ ہم نے انھیں ویسے ہی گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ ہوئے، یعنی گمراہی کی دعوت دینے والوں کی دعوت پر جس طرح ہم اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے اسی طرح ہم نے ان کے سامنے گمراہی پیش کی تو یہ اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے، نہ ہم پر کسی نے جبر کیا تھا اور نہ ہم نے ان پر کوئی زبردستی کی۔- مَا كَانُوْٓا اِيَّانَا يَعْبُدُوْنَ : ہم ان کی گمراہی کی ذمہ داری سے بری ہیں۔ اللہ کے سوا جن کی بھی عبادت کی گئی، وہ نیک تھے یا بد، قیامت کے دن اپنی عبادت کرنے والوں سے بری ہوجائیں گے، بلکہ ان کے دشمن ہوں گے۔ دیکھیے سورة مریم (٨١، ٨٢) ، احقاف (٥، ٦) ، عنکبوت (٢٥) اور سورة بقرہ (١٦٦، ١٦٧) ۔- : کیونکہ اللہ کے سوا کسی بھی شریک کی پیروی کرنے والے یا اسے پکارنے والے درحقیقت نہ کسی موجود چیز کو پکار رہے ہیں، نہ اس کی پیروی کر رہے ہیں، کیونکہ اللہ کے کسی شریک کا وجود ہے ہی نہیں، وہ محض اپنے خیال اور گمان کی پیروی کر رہے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (ااَلَآ اِنَّ لِلّٰهِ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ ۭ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُرَكَاۗءَ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ ) [ یونس : ٦٦ ] ” سن لو بیشک اللہ ہی کے لیے ہے جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے اور جو لوگ اللہ کے غیر کو پکارتے ہیں وہ کسی بھی قسم کے شریکوں کی پیروی نہیں کر رہے۔ وہ پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔ “ اس لیے جنھیں شریک بنایا گیا تھا وہ صاف کہہ دیں گے کہ یہ ہماری پرستش نہیں کرتے تھے، بلکہ محض اپنے گمان کی پرستش کیا کرتے تھے اور ہمارے بندے نہیں بلکہ اپنے نفس کے بندے بنے ہوئے تھے۔ - 3 اس آیت میں یہ بات قابل غور ہے کہ سوال تو ان لوگوں سے ہوگا جنھوں نے شریک بنائے تھے، مگر بول وہ اٹھیں گے جنھیں شریک بنایا گیا تھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جب عام مشرکین سے سوال ہوگا تو پیشوا اور سردار سمجھ لیں گے کہ اب ہماری شامت آنے والی ہے، ہمارے یہ مرید اور پیروکار ضرور اپنی گمراہی کا ذمہ دار ہمیں ٹھہرائیں گے، اس لیے وہ پہلے ہی اپنی صفائی پیش کرنے لگیں گے۔
قَالَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْہِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا ہٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَغْوَيْنَا ٠ۚ اَغْوَيْنٰہُمْ كَـمَا غَوَيْنَا ٠ۚ تَبَرَّاْنَآ اِلَيْكَ ٠ۡمَا كَانُوْٓا اِيَّانَا يَعْبُدُوْنَ ٦٣- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- غوی - الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی .- وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال :- وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى- [ طه 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر :- ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما - «2» وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم :- غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ- [هود 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی: قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر 39] .- ( غ و ی ) الغی - ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلطاعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا - عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ غاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا ہلوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے - برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون .- قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] ،- ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔
(٦٣) یہ سن کر وہ شرکاء اور شیاطین جن پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اور اس کی ناراضگی ثابت ہوچکی ہوگی کہہ اٹھیں گے اے ہمارے پروردگار یہ ہمارے پیروکار وہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا ہے ہم نے حق و ہدایت سے ان کو ایسا ہی گمراہ کیا جیسا کہ ہم خود گمراہ تھے اور ہم ان سے دست بردار ہوتے ہیں یہ لوگ ہمارے حکم سے ہمیں نہیں پوجتے تھے۔
آیت ٦٣ (قَالَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا ہٰٓؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَغْوَیْنَا ج) ” - وہ مشرکین جن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا فیصلہ صادر ہوجائے گا ‘ آخری عذر کے طور پر اپنے لیڈروں کی طرف اشارہ کریں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا۔ اگر یہ ہمیں گمراہ نہ کرتے تو ہم گمراہ نہ ہوتے ان لیڈروں میں ان کے معبودان باطل ‘ شیاطینِ جنّ و انس ‘ طاغوت اور گمراہ مذہبی و سیاسی راہنما شامل ہوں گے۔ یہ لیڈر جھٹ جواب دیں گے کہ جو کچھ ہم خود تھے وہی ہم نے ان کو بنایا۔- (اَغْوَیْنٰہُمْ کَمَا غَوَیْنَا ج) ” - یعنی ہم خود ہدایت پر ہوتے تو انہیں ہدایت کا رستہ دکھاتے۔ ہم چونکہ خود گمراہ تھے اس لیے ہمارے زیر اثر یہ تمام لوگ گمراہ ہوتے چلے گئے۔- (تَبَرَّاْنَآ اِلَیْکَز مَا کَانُوْٓا اِیَّانَا یَعْبُدُوْنَ ) ” - یعنی یہ ہمارے نہیں بلکہ اپنے ہی نفس کے بندے بنے ہوئے تھے۔ ہم پر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ یہ اپنی آزاد مرضی سے ہماری باتیں مانتے رہے ہیں۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 86 اس سے مراد وہ شیاطین جن و انس ہں جن کو دنیا میں خدا کا شریک بنایا گیا تھا ، جن کی بات کے مقابلے میں خدا اور اس کے رسولوں کی بات کو رد کیا تھا تھا ، اور جن کے اعتماد پر صراط مستقیم کو چھوڑ کر زندگی کے غلط راستے اختیار کیے گئے تھے ۔ ایسے لوگوں کو خواہ کسی نے الہ اور رب کہا ہو یا نہ کہا ہو ، بہرحال جب ان کی اطاعت و پیروی اس طرح کی گئی جیسی خدا کی ہونی چاہیے تو لازما انہیں خدائی میں شریک کیا گیا ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الکہف ، حاشیہ 50 ) سورة القصص حاشیہ نمبر : 87 یعنی ہم نے زبردستی ان کو گمراہ نہیں کیا تھا ، ہم نے نہ ان سے بینائی اور سماعت سلب کی تھہ ، نہ ان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لی تھیں ، اور نہ ایسی ہی کوئی صورت پیش آئی تھی کہ یہ تو راہ راست کی طرف جانا چاہتے ہوں مگر ہم ان کا ہاتھ پکڑ کر جبرا انہیں غلط راستے پر کھینچ لے گئے ہوں ۔ بلکہ جس طرح ہم خود اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے تھے اسی طرح ان کے سامنے بھی ہم نے گمراہی پیش کی اور انہوں نے اپنی مرض سے اس کو قبول کیا ۔ لہذا ہم ان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے ، ہم اپنے فعل کے ذمہ دار ہیں اور یہ اپنے فعل کے ذمہ دار ہیں ۔ یہاں یہ لطیف نکتہ قابل توجہ ہے کہ اللہ تعالی سوال تو کرے گا شریک ٹھہرانے والوں سے ، مگر قبل اس کے کہ یہ کچھ بولیں ، جواب دینے لگیں وہ جن کو شریک ٹھہرایا گیا تھا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عام مشرکین سے یہ سوال کیا جائے گا تو ان کے لیڈر اور پیشوا محسوس کریں گے کہ اب آگئی ہماری شامت ، یہ ہمارے سابق پیرو ضرور کہیں گے کہ یہ لوگ ہماری گمراہی کے اصل ذمہ دار ہیں ۔ اس لیے پیرووں کے بولنے سے پہلے وہ خود سبقت کر کے اپنی صفائی پیش کرنی شروع کردیں گے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 88 یعنی یہ ہمارے نہیں بلکہ اپنے ہی نفس کے بندے بنے ہوئے تھے ۔
36: ان سے مراد بھی وہی شیاطین ہیں جن کو نفع نقصان کا مالک سمجھ کر کافر لوگ ان کی عبادت کرتے تھے۔ اور بات پوری ہونے سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ جو شیاطین دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں، انہیں آخر کار دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے فرمان کے مطابق ان شیاطین کے دوزخ میں جانے کا وقت آ چکا ہوگا۔ اس وقت وہ یہ بات کہیں گے 37: یعنی جس طرح ہم نے اپنے اختیار سے گمراہی اختیار کی، ان لوگوں نے بھی اپنے اختیار سے گمراہی اپنائی، ورنہ ہم نے ان پر کوئی زبردستی نہیں کی تھی کہ یہ ضور ہماری بات مانیں۔ 38: یعنی در حقیقت یہ لوگ ہماری عبادت کرنے کے بجائے اپنی نفسانی خواہشات کی عبادت کرتے تھے ْ