Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ٖصفات الٰہی ساری مخلوق کا خالق تمام اختیارات والا اللہ ہی ہے ۔ نہ اس میں کوئی اس سے جھگڑنے والا نہ اس کا شریک وساتھی ۔ جو چاہے پیدا کرے جسے چاہے اپنا خاص بندہ بنالے ۔ جو چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا ہو نہیں سکتا ۔ تمام امور سب خیرو شر اسی کے ہاتھ ہے ۔ سب کی باز گشت اسی کی جانب ہے کسی کو کوئی اختیار نہیں ۔ یہی لفظ اسی معنی میں آیت ( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ 36؀ۭ ) 33- الأحزاب:36 ) میں ہے دنوں جگہ ما نافیہ ہے ۔ گو ابن جریر نے یہ کہا کہ ما معنی میں الذی کے ہے یعنی اللہ پسند کرتا ہے اسے جس میں بھلائی ہو اور اس معنی کو لے کر معتزلیوں نے مراعات صالحین پر استدلال کیا ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہاں مانفی کے معنی میں ہے جیسے کہ حضرت ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے ۔ یہ آیت اسی بیان میں ہے کہ مخلوق کی پیدائش میں تقدیر کے مقرر کرنے میں اختیار رکھنے میں اللہ ہی اکیلا ہے اور نظیر سے پاک ہے ۔ اسی لیے آیت کے خاتمہ پر فرمایا کہ جب بتوں وغیرہ کو وہ شریک الٰہی ٹھہرا رہے ہیں جو نہ کسی چیز کو بناسکیں نہ کسی طرح اختیار رکھیں اللہ ان سب سے پاک اور بہت دور ہے ۔ پھر فرمایا سینوں اور دلوں میں چھپی ہوئی باتیں بھی اللہ جانتا ہے اور وہ سب بھی اس پر اسی طرح ظاہر ہیں جس طرح کھلم کھلا اور ظاہر باتیں ۔ پوشیدہ بات کہو یا اعلان سے کہو وہ سب کا عالم ہے رات میں اور دن میں جو ہو رہا ہے اس پر پوشیدہ نہیں ۔ الوہیت میں بھی وہ یکتا ہے مخلوق میں کوئی ایسا نہیں جو اپنی حاجتیں اس کی طرف لے جائے ۔ جس سے مخلوق عاجزی کرے ، جو مخلوق کاملجا وماوٰی ہو ، جو عبادت کے لائق ہو ۔ خالق مختار رب مالک وہی ہے ۔ وہ جو کچھ کر رہا ہے سب لائق تعریف ہے اسکا عدل وحکمت اسی کے ساتھ ہے ۔ اس کے احکام کو کوئی رد نہیں کرسکتا اس کے ارادوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا ۔ غلبہ حکمت رحمت اسی کی ذات پاک میں ہے ۔ تم سب قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے وہ سب کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا ۔ اس پر تمہارے کاموں میں سے کوئی کام چھپا ہوا نہیں ۔ نیکوں کو جزا بدوں کو سزا وہ اس روز دے گا اور اپنی مخلوق میں فیصلے فرمائیں گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

681یعنی اللہ تعالیٰ مختار کل ہے اس کے مقابلے میں کسی کو سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں، چہ جائکہ کوئی مختار کل ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٢] یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی سب لوگوں کا خالق ہے اس لئے وہی یہ بات جان سکتا ہے کہ اس نے کس شخص کو کس طرح کی خصوصیات اور استعداد عطا کی ہے۔ پھر وہ اپنے اسی علم کی بنا پر اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے اور جس کام کے لئے چن لیتا ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ نے یہ سب لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ لہذا اوامرو نواہی یا لوگوں کو کسی کام کا حکم دینے اور کسی کام سے باز رہنے کا حکم دینے کا اختیار بھی صرف اللہ ہی کو ہے نیز اگر اللہ کسی کو اپنا رسول بنادے تو دوسرے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس پر اعتراض کرے اور اگر اللہ تعالیٰ کہے کہ رسول کی اطاعت تم پر فرض ہے۔ جو کچھ وہ کہے تمہیں کرنا ہوگا اور جس کام سے روکے اسے رک جانا ہوگا۔ اور اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے کی بات قبول نہیں کی جاسکتی تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ رسول کے افعال و اقوال پر اعتراض کرے۔- [٩٣] یعنی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات کو دوسروں میں تقسیم کرنا شروع کردیں۔ کسی کو بارش کا دیوتا سمجھنے لگیں کسی کو داتا اور گنج بخش بنادیں۔ کسی کو بیماری و صحت کا مالک سمجھنے لگیں اور کسی کو فریاد رس اور دستگیر قرار دے لیں۔ غرضیکہ میرے اختیارات میں ان میں سے جو اختیار جسے چاہے سونپ دے۔ کوئی فرشتہ ہو یا جن ہو یا نبی ہو یا ولی ہو سب ہمارے ہی پیدا کئے ہوئے ہیں اور انھیں اگر کچھ کمالات حاصل ہیں تو وہ بھی ہمارے ہی عطا کردہ ہیں پھر اس برگزیدگی کے آخر یہ معنی کیسے بن گئے کہ کسی مخلوق کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر اسے اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک بنادیا جائے۔ یہ انہوں نے کیسے سمجھ لیا کہ ان کو بھی اللہ کے اختیارات تقسیم کرنے کا کچھ حق ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ وَيَخْتَارُ : قیامت کے دن مشرکین کی رسوائی اور ان کے شرکاء کی بےبسی کے اظہار کے بعد اللہ تعالیٰ کی توحید کا اور اس کے چند دلائل کا ذکر فرمایا۔ چناچہ فرمایا : ” تیرا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جس چیز کو یا جس شخص کو چاہتا ہے چن لیتا ہے۔ “ ظاہر ہے جس نے پیدا کیا وہی چنے گا۔ جس کا پیدا کرنے میں کوئی حصہ ہی نہیں، کسی چیز یا شخص کے انتخاب میں اس کا کیا دخل ہوسکتا ہے۔ پھر کسی چیز یا شخص کو چننا صرف اسی کی مشیت پر موقوف ہے، نہ اس میں کسی کا مشورہ چلتا ہے، نہ کسی چیز یا شخص کی خوبی کی وجہ سے اسے چننا اس پر لازم ہے، کیونکہ : (لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْنَ ) [ الأنبیاء : ٢٣ ] ” اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھا جاتا ہے۔ “ اس نے چاہا تو عرش کو برتری بخشی، کعبہ کو قبلہ بنایا، انبیاء کو نبوت بخشی، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سید ولد آدم بنایا، مہاجرین و انصار کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کے لیے چنا، خلفائے اربعہ کو تمام صحابہ پر برتری بخشی، کوئی کہہ نہیں سکتا کہ نبوت فلاں کو کیوں نہیں ملی، جیسے کفار نے کہا تھا : (وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ) [ الزخرف : ٣١ ] ” یہ قرآن ان دو بستیوں (مکہ اور طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا ؟ “ جواب میں فرمایا : (اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ) [ الزخرف : ٣٢ ] ” کیا تیرے رب کی رحمت وہ تقسیم کرتے ہیں۔ “- مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ : بندوں کے پاس یہ اختیار کبھی بھی نہ تھا، نہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہیں چن لیں، (کَان میں نفی کا استمرار ہے) پھر ان مشرکین کو یہ اختیار کہاں سے مل گیا کہ رب تعالیٰ کے بندوں کو رب تعالیٰ کے اختیارات کا مالک بنادیں، جو اس نے کسی کو دیے ہی نہیں، نہ ان اختیارات کا مالک اس کے سوا کوئی ہوسکتا ہے۔ آخر انھیں کس نے یہ اختیار دیا کہ اس کے بندوں میں سے جسے چاہیں مشکل کشا بنالیں، جسے چاہیں داتا (رزاق) ، گنج بخش، فریاد رس یا دستگیر قرار دے دیں۔ اولاد، رزق، فتح و شکست، عزت و ذلت، شفا و مرض، زندگی اور موت کے محکمے، جو اس نے کسی کو دیے ہی نہیں، اپنے بنائے ہوئے شریکوں میں تقسیم کرتے پھریں۔- 3 اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض لوگ جو کہتے ہیں کہ انبیاء یا اولیاء کو یہاں تک اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ کمان سے نکلا ہوا تیر بھی واپس لے آتے ہیں اور تقدیر کا لکھا تک مٹا دیتے ہیں، یا بدل دیتے ہیں، جسے چاہتے ہیں نواز دیتے ہیں، جسے چاہتے ہیں راندۂ درگاہ بنا دیتے ہیں، یہ سب کفریہ باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی کے پاس یہ اختیار ذاتی طور پر ہے، نہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو یہ اختیار دیا ہے، فرمایا : (مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ) ” ان کے لیے کبھی بھی اختیار نہیں۔ “- سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ : یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کے پاس اختیار ہونا اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے عیب ہے کہ وہ اکیلا سب کچھ کرنے پر قادر نہیں اور اس کی شان کو گرا دینے والی بات ہے، اس لیے فرمایا : ” اللہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔ “ ” عَلَا یَعْلُوْ عُلْوًا “ (بلند ہونا) اور ” تَعَالٰی یَتَعَالٰی تَعَالِیًا “ (بہت بلند ہونا) ۔ معلوم ہوا کہ اس کارخانۂ قدرت میں کسی بندے کو، چاہے وہ ولی یا پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، کوئی اختیار نہیں ہے۔ تمام اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ ” سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ “ کے الفاظ اکٹھے قرآن میں صرف اسی ایک مقام پر آئے ہیں۔- 3 دنیا میں بندے کو عمل کرنے یا نہ کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے، جس پر اسے ثواب یا عذاب ہوگا، اس کے اوپر بھی اللہ تعالیٰ ہی کا اختیار ہے۔ اس لیے یہ کہنا حق ہے کہ مخلوق کو کوئی اختیار نہیں۔ قرآن و حدیث کے مطابق یہ دو باتیں ماننا ضروری ہیں، ایک یہ کہ بندے کو اسباب کے تحت بعض اشیاء میں اختیار دیا گیا ہے، چاہے تو کفر کا راستہ اختیار کرے اور چاہے تو شکر کا۔ وہ مجبور محض نہیں کہ کسی عمل میں اسے کسی طرح کا اختیار بھی نہ ہو، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا) [ الدھر : ٣ ] ” بلاشبہ ہم نے اسے راستہ دکھایا، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے اور خواہ ناشکرا۔ “ دوسری بات یہ کہ بندے کو یہ اختیار بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار کے تحت ہے، وہ نہ چاہے تو بندہ نہ کوئی ارادہ کرسکتا ہے نہ عمل۔ جیسا کہ سورة دہر میں فرمایا : (وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا) [ الدھر : ٣٠ ] ” اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے، یقیناً اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ “ یہ اللہ کی تقدیر ہے، جس پر ایمان رکھنا لازم ہے، جو اس پر ایمان نہ رکھے مومن نہیں۔ رہی یہ بات کہ ایسا کیوں ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مالک ہے جو چاہے کرے، نہ کسی کو اس سے پوچھنے کا حق ہے نہ اختیار، جیسا کہ فرمایا : (لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْنَ ) [ الأنبیاء : ٢٣ ] ” اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھا جاتا ہے۔ “ مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس کا ہر کام علم و حکمت پر مبنی ہے۔ مخلوق کو اس کے علم اور حکمت تک رسائی نہ ہے نہ ہوسکتی ہے، اس لیے اسے اپنی اوقات میں رہنا لازم ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور آپ کا رب (بالانفراد صفات کمال کے ساتھ موصوف ہے چناچہ وہ) جس چیز کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے (تو تکوینی اختیارات بھی اسی کو حاصل ہیں) اور جس حکم کو چاہتا ہے پسند کرتا ہے (اور انبیاء کے ذریعہ سے نازل فرماتا ہے پس تشریعی اختیارات بھی اسی کو حاصل ہیں) ان لوگوں کو تجویز (احکام) کا کوئی حق (حاصل) نہیں (کہ جو حکم چاہے تجویز کرلیں جیسے یہ مشرک اپنی طرف سے شرک کو جائز تجویز کر رہے ہیں اور اس خصوصی اختیار سے ثابت ہو کہ) اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے (کیونکہ جب تکوینًا و تشریعاً خالق اور مختار ہونے میں وہ منفرد ہے تو عبادت کا بھی تنہا وہی مستحق ہے کیونکہ معبود ہونا صرف اس کا حق ہے جو تکوینی اور تشریعی دونوں اختیار رکھتا ہو) اور آپ کا رب (علم ایسا کامل رکھتا ہے کہ وہ) سب چیزوں کی خبر رکھتا ہے جو ان کے دلوں میں پوشیدہ رہتا ہے اور جس کو یہ ظاہر کرتے ہیں (اور کسی کا ایسا علم بھی نہیں اس سے بھی انفراد ثابت ہوا) اور (آگے اس کی تصریح ہے کہ) اللہ وہی (ذات کامل الصفات) ہے اس کے سوا کوئی معبود (ہونے کے قابل) نہیں حمد (وثناء) کے لائق دنیا و آخرت میں وہی ہے (کیونکہ اس کے تصرفات دونوں عالم میں ایسے ہیں جو اس کے جامع کمالات اور مستحق حمد ہونے پر شاہد ہیں) اور (اختیارات سلطنت اس کے ایسے ہیں کہ) حکومت بھی (قیامت میں) اسی کی ہوگی اور (قوت و وسعت سلطنت اس کی ایسی ہے) کہ تم سب اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے (یہ نہیں کہ بچ جاؤ یا اور کہیں جا کر پناہ لے لو اور اس کے اظہار قدرت کے لئے) آپ (ان لوگوں سے) کہئے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کے لئے قیامت تک رات ہی رہنے دے تو خدا کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہارے لئے روشنی کو لے آوے (پس قدرت میں بھی وہی منفرد ہے) تو کیا تم (توحید کے ایسے صاف دلائل کو) سنتے نہیں (اور اسی اظہار قدرت کے لئے) آپ (ان سے اس کے عکس کی نسبت بھی) کہئے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کے لئے قیامت تک دن ہی رہنے دے تو خدا کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہارے لئے رات کو لے آوے جس میں تم آرام پاؤ کیا تم (اس شاہد قدرت کو) دیکھتے نہیں (قدرت میں اس کا منفرد ہونا بھی اس کو مقتضی ہے کہ معبودیت میں بھی وہی منفرد ہو) اور (وہ منعم ایسا ہے کہ) اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اور تاکہ دن میں اس کی روزی تلاش کرو اور تاکہ (ان دونوں نعمتوں پر) تم (اللہ کا) شکر کرو (تو انعام و احسان میں بھی وہی منفرد ہے یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ معبودیت میں بھی وہی منفرد ہو۔ )- معارف و مسائل - وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ وَيَخْتَارُ ، اس آیت کا ایک مفہوم تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں لیا گیا ہے کہ یختار سے مراد اختیار احکام ہے کہ حق تعالیٰ جبکہ تخلیق کائنات میں مفنرد ہے کوئی اس کا شریک نہیں تو اجرائے احکام میں بھی منفرد ہے جو چاہے اپنی مخلوق میں حکم نافذ فرمائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح اختیار تکوینی میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اسی طرح اختیار تشریعی میں بھی کوئی شریک نہیں اور اس کا ایک دوسرا مفہوم وہ ہے جو امام بغوی نے اپنی تفسیر میں اور علامہ ابن قیم نے زاد المعاد کے مقدمہ میں بیان کیا ہے کہ اس اختیار سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہیں اپنے اکرام و اعزاز کے لئے انتخاب فرما لیتے ہیں اور بقول بغوی یہ جواب ہے مشرکین مکہ کے اس قول کا کہ لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ، یعنی یہ قرآن اللہ کو نازل ہی کرنا تھا تو عرب کے دو بڑے شہروں مکہ اور طائف میں سے کسی بڑے آدمی پر نازل فرماتا کہ اس کی قدر و منزلت پہچانی جاتی، ایک یتیم مسکین پر نازل فرمانے میں کیا حکمت تھی ؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ جس مالک نے تمام مخلوقات کو بغیر کسی شریک کی امداد کے پیدا فرمایا ہے یہ اختیار بھی اسی کو حاصل ہے کہ اپنے کسی خاص اعزاز کے لئے اپنی مخلوق میں سے کسی کو منتخب کرے اس میں وہ تمہاری تجویزوں کا کیوں پابند ہو کہ فلاں اس کا مستحق ہے فلاں نہیں۔- ایک چیز کو دوسری چیز پر یا ایک شخص کو دوسرے پر فضیلت کا معیار صحیح اختیار خداوندی ہے :- حافظ ابن قیم نے اس آیت سے ایک عظیم الشان ضابطہ اخذ کیا ہے کہ دنیا میں جو ایک جگہ کو دوسری جگہ پر یا ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دی جاتی ہے یہ اس چیز کے کسب و عمل کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ وہ بلاواسطہ خالق کائنات کے انتخاب و اختیار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس نے سات آسمان پیدا کئے ان میں سے سماء علیا کو دوسروں پر فضیلت دے دی حالانکہ مادہ ساتوں آسمانوں کا ایک ہی تھا پھر اس نے جنت الفردوس کو دوسری سب جنتوں پر اور جبرئیل و میکائیل و اسرافیل وغیرہ خاص فرشتوں کو دوسرے فرشتوں پر، اور انبیاء (علیہم السلام) کو دوسرے سارے بنی آدم پر اور ان میں سے اولوالعزم رسولوں کو دوسرے انبیاء پر اور اپنے خلیل ابراہیم اور حبیب محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب بنی ہاشم پر پھر اسی طرح صحابہ کرام اور دوسرے اسلاف امت کو دوسروں پر فضیلت دینا یہ سب حق تعالیٰ جل شانہ کے انتخاب و اختیار کا نتیجہ ہے۔- اسی طرح زمین کے بہت سے مقامات کو دوسرے مقامات پر اور بہت دنوں اور راتوں کو دوسرے دنوں اور راتوں پر فضیلت دینا یہ سب اسی اختیار اور انتخاب حق جل شانہ کا اثر ہے غرض افضیلت و مفضولیت کا اصل معیار تمام کائنات میں یہی انتخاب و اختیار ہے البتہ افضلیت کا ایک دوسرا سبب انسانی اعمال و افعال بھی ہوتے ہیں اور جن مقامات میں نیک اعمال کئے جاویں وہ مقامات بھی ان اعمال صالحہ یا صالحین عباد کی سکونت سے متبرک ہوجاتے ہیں۔ یہ فضیلت کسب و اختیار اور عمل صالح سے حاصل ہو سکتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں مدار فضیلت دو چیزیں ہیں ایک غیر اختیاری ہے جو صرف حق تعالیٰ کا انتخاب ہے دوسرا اختیاری جو اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ سے حاصل ہوتا ہے۔ علامہ ابن قیم نے اس موضوع پر بڑا تفصیلی کلام کیا ہے اور آخر میں صحابہ کرام میں سے خلفاء راشدین کو تمام دوسرے صحابہ پر اور خلفاء راشدین میں صدیق اکبر ان کے بعد عمر بن خطاب ان کے بعد عثمان غنی ان کے بعد علی مرتضی (رض) کی ترتیب کو ان دونوں معیاروں سے ثابت کیا ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی (رح) کا بھی ایک مستقل رسالہ فارسی زبان میں اس موضوع پر ہے جس کا اردو ترجمہ احقر نے بنام بعض التفصیل لمسئلتہ التفضیل شائع کردیا ہے اور احکام القرآن سورة قصص میں بھی اس کو بزبان عربی مفصل لکھ دیا ہے۔ اہل علم کے ذوق کی چیز ہے وہاں مطالعہ فرمائیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ وَيَخْتَارُ۝ ٠ۭ مَا كَانَ لَہُمُ الْخِيَرَۃُ۝ ٠ۭ سُبْحٰنَ اللہِ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝ ٦٨- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - اختیارُ :- طلب ما هو خير وفعله، وقد يقال لما يراه الإنسان خيرا، وإن لم يكن خيرا، وقوله : وَلَقَدِ اخْتَرْناهُمْ عَلى عِلْمٍ عَلَى الْعالَمِينَ [ الدخان 32] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى إيجاده تعالیٰ إياهم خيرا، وأن يكون إشارة إلى تقدیمهم علی غيرهم . والمختار في عرف المتکلّمين يقال لكلّ فعل يفعله الإنسان لا علی سبیل الإكراه، فقولهم : هو مختار في كذا، فلیس يريدون به ما يراد بقولهم فلان له اختیار، فإنّ الاختیار أخذ ما يراه خيرا، والمختار قد يقال للفاعل والمفعول .- الاختیار ( افتعال ) بہتر چیز کو طلب کرکے اسے کر گزرنا ۔ اور کبھی اختیار کا لفظ کسی چیز کو بہتر سمجھنے پر بھی بولا جاتا ہے گو نفس الامر میں وہ چیز بہتر نہ ہو اور آیت کریمہ :۔ وَلَقَدِ اخْتَرْناهُمْ عَلى عِلْمٍ عَلَى الْعالَمِينَ [ الدخان 32] ہم نے بنی اسرائیل کو اہل عالم سے دانستہ منتخب کیا تھا ۔ میں ان کے بلحاظ خلقت کے بہتر ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں دوسروں پر فوقیت بخشتا مراد ہو ۔ متکلمین کی اصطلاح میں مختار ( لفظ ہر اس فعل کے متعلق بولا جاتا ہے جس کے کرنے میں انسان پر کسی قسم کا جبروا کراہ نہ ہو لہذا ھو مختار فی کذا کا محاورہ فلان لہ اختیار کے ہم معنی نہیں ہے کیونکہ اختیار کے معنی اس کام کے کرنے کے ہوتے ہیں جسے انسان بہتر خیال کرتا ہو ۔ مگر مختار کا لفظ فاعل اور مفعول دونوں پر بولا جاتا ہے ۔- سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٨) اور آپ کا پروردگار جیسا چاہتا ہے پیدا کرتا اور اپنی مخلوقات میں سے جس کو چاہتا ہے نبوت کے لیے پسند فرماتا ہے یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس نے منتخب فرمایا ان کفار مکہ کو کسی قسم کا کوئی بھی حق حاصل نہیں اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨ (وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَیَخْتَارُ ط) ” - تمام مخلوق اسی کی ہے ‘ اپنی مخلوق میں سے اس نے جس کو چاہا منتخب کرلیا اور رسول بنا لیا : (اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلآءِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ط) ( الحج : ٧٥) ” اللہ چن لیتا ہے اپنے پیغامبر فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے ”۔ سورة آل عمران میں یہی مضمون اس طرح آیا ہے : (اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) ” یقیناً اللہ نے چن لیا آدم ( علیہ السلام) کو اور نوح ( علیہ السلام) کو اور آل ابراہیم (علیہ السلام) کو اور آل عمران کو تمام جہان والوں پر۔ “- (مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُط سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) ” (- اللہ تعالیٰ کی ذات ان لوگوں کے اوہام اور من گھڑت عقائد سے وراء الوراء ‘ منزہّ اور ارفع ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 90 یہ ارشاد دراصل شرک کی تردید میں ہے ، مشرکین نے اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے جو بے شمار معبود اپنے لیے بنا لیے ہیں ، اور ان کو اپنی طرف سے جو اوصاف ، مراتب اور مناصب سونپ رکھے ہیں ، اس پر اعتراض کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اپنے پیدا کیے ہوئے انسانوں ، فرشتوں ، جنوں اور دوسرے بندوں میں سے ہم خود جس کو جیسے چاہتے ہیں اوصاف ، صلاحیتیں اور طاقتیں بخشتے ہیں اور جو کام جس سے لینا چاہتے ہیں لیتے ہیں ، یہ اختیارات آخر ان مشرکین کو کیسے اور کہاں سے مل گئے کہ میرے بندوں میں سے جس کو چاہیں مشکل کشا ، جسے چاہیں گنج بخش اور جسے چاہیں فریاد فرس قرار دے لیں؟ جسے چاہیں بارش برسانے کا مختار ، جسے چاہیں روزگار یا اولاد بخشنے والا ، جسے چاہیں بیماری و صحت کا مالک بنا دیں؟ جسے چاہیں میری خدائی کے کسی حصے کا رماں روا ٹھہرا لیں؟ اور میرے اختیارات میں سے جو کچھ جس کو چاہیں سونپ دیں؟ کوئی فرشتہ ہو یا جن یا نبی یا ولی ، بہرحال جو بھی ہے ہمارا پیدا کیا ہوا ہے ، جو کمالات بھی کسی کو ملے ہیں ہماری عطا و بخشش سے ملے ہیں ، اور جو خدمت بھی ہم نے جس سے لینی چاہی ہے لی ہے ۔ اس برگزیدگی کے یہ معنی آخر کیسے ہوگئے کہ یہ بندے بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی کے مرتبے پر پہنچا دیے جائیں اور خدا کو چھوڑ کر ان کے آگے سر نیاز جھکا دیا جائے ، ان کو مدد کے لیے پکارا جانے لگے ، ان سے حاجتیں طلب کی جانے لگیں ، انہیں قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ لیا جائے ، اور انہیں خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دیا جائے؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

39: یہ کفار کے اِس اعتراض کا جواب ہے کہ پیغمبر ہمارے سرداروں اور دولت مند لوگوں میں سے کسی کو کیوں نہیں بنایا گیا؟ مختصر جواب یہ دیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہی نے یہ ساری کائنات پیدا کی ہے، اور اُسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کس کو اپنا پیغمبر بنائے۔ اِن لوگوں کو کوئی اختیار نہیں ہے۔