[٩٤] بات مشرکین مکہ کے ان حیلوں بہانوں کی ہو رہی تھی۔ جو وہ اسلام نہ لانے کے سلسلہ میں دلیل کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین مکہ خود بھی خوب سمجھتے ہیں کہ ان کے ایسے حیلوں اور اعتراضات کی کیا حقیقت ہے۔ اور اللہ ان کے دلوں کے خیالات تک سے خوب واقف ہے وہ جانتا ہے کہ ان کے ایسے لغو اعتراضات میں وہ کون سے محرکات ہیں۔ جو انھیں ایسی باتیں بنانے پر اکساتے ہیں اور ان کے ایمان نہ لانے کے اصل اسباب کیا ہیں ؟ پھر اسی کے مطابق ان سے معاملہ بھی کرے گا۔
وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ ۔۔ : ” أَکَنَّ یُکِنُّ إِکْنَانًا “ چھپانا۔ پچھلی آیت میں مذکور اختیار اور قدرت علم کے بغیر ممکن ہی نہیں، اس لیے فرمایا : ” تیرا رب جانتا ہے جو ان کے سینے چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔ “ یعنی قدرت و اختیار کا مالک بھی وہی ہے اور پوشیدہ اور ظاہر کا علم بھی اسی کے پاس ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ سینوں کی چھپی ہوئی بات جاننا تو واقعی اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے، مخلوق کو اس کی خبر نہیں ہوسکتی، مگر جو کچھ لوگ علانیہ کرتے یا کہتے ہیں اسے جاننا تو آدمی کے لیے بھی کچھ مشکل نہیں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ سینوں کی چھپی ہوئی بات تو پھر بھی بعض اوقات کسی اشارے کنائے سے کچھ نہ کچھ معلوم ہوجاتی ہے، مگر ایک ہی وقت میں سب لوگ جو کر رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں، اسے رب العالمین کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ اگر کوئی سنے گا تو اسے ایک شور کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ دوسری جگہ فرمایا : (سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ ) [ الرعد : ١٠ ] ” برابر ہے تم میں سے جو بات چھپا کر کرے اور جو اسے بلند آواز سے کرے اور وہ جو رات کو بالکل چھپا ہوا ہے اور (جو) دن کو ظاہر پھرنے والا ہے۔ “
وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُہُمْ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ٦٩- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - كن - الْكِنُّ : ما يحفظ فيه الشیء . يقال : كَنَنْتُ الشیء كَنّاً : جعلته في كِنٍّ «1» ، وخُصَّ كَنَنْتُ بما يستر ببیت أو ثوب، وغیر ذلک من الأجسام، قال تعالی: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ- [ الصافات 49] ، كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] .- وأَكْنَنْتُ : بما يُستَر في النّفس . قال تعالی: أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة 235] وجمع الکنّ أَكْنَانٌ. قال تعالی: وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل 81] . والکِنَانُ :- الغطاء الذي يكنّ فيه الشیء، والجمع أَكِنَّةٌ.- نحو : غطاء وأغطية، قال : وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] ، وقوله تعالی: وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت 5] . قيل : معناه في غطاء عن تفهّم ما تورده علینا، كما قالوا : يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود 91] ، وقوله : إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ- [ الواقعة 77- 78] قيل : عنی بالکتاب الْمَكْنُونِ اللّوح المحفوظ، وقیل : هو قلوب المؤمنین، وقیل : ذلك إشارة إلى كونه محفوظا عند اللہ تعالی، كما قال : وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر 9] وسمّيت المرأة المتزوجة كِنَّةً لکونها في كنّ من حفظ زوجها، كما سمّيت محصنة لکونها في حصن من حفظ زوجها، والْكِنَانَةُ : جُعْبة غير مشقوقة .- ( ک ن ن ) الکن - ۔ ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جائے ۔ کننت الشئ کنا ۔ کسی کو کن میں محفوظ کردیا ۔ اور کننت ( ثلاثی مجرد ) خصوصیت کے ساتھ کسی مادی شی کو گھر یا کپڑے وغیرہ میں چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات 49] گویا وہ محفوظ انڈے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور اکننت ( باب افعال سے ) دل میں کسی بات کو چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة 235] یا ( نکاح کی خواہش کو ) اپنے دلوں میں مخفی رکھو ۔ اور کن کی جمع اکنان آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل 81] اور پہاڑوں میں تمہارے لئے غاریں بنائیں ۔ - الکنان ۔- پردہ غلاف وغیرہ جس میں کوئی چیز چھپائی جائے اس کی جمع اکنتہ آتی ہے ۔ جیسے غطاء کی جمع غطبتہ ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] اور ہم نے انکے دلوں پر تو پردے ڈال رکھے ہیں کہ اس کو کچھ نہ سکیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت 5] اور کہنے لگے ہمارے دل پردوں میں ہیں ۔ کے بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہم تمہاری باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جیسا کہ ودسری جگہ فرمایا : ۔ يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود 91] انہوں نے کہا اے شیعب تمہاری بہت سے باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة 77- 78] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے جو کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کتا ب مکنون سے لوح محفوظ مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ قرآن میں کے عنداللہ محفوظ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر 9] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ اور شادی شدہ عورت پر بھی کنتہ کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کی حفاظت میں رہتی ہے اس بنا پر شادی شدہ عورت کو محصنتہ بھی کہتے ہیں ۔ گویا دو اپنے خاوند کی حفاظت کے قلعے میں محفوظ ہے ۔ الکنانتہ ۔ ترکش جو کہیں سے پھٹا ہوا نہ ہو ۔- صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ:- يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه .- ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے - :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔- علن - العَلَانِيَةُ : ضدّ السّرّ ، وأكثر ما يقال ذلک في المعاني دون الأعيان، يقال : عَلَنَ كذا، وأَعْلَنْتُهُ أنا . قال تعالی: أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] ، أي : سرّا وعلانية . وقال :- ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص 69] . وعِلْوَانُ الکتابِ يصحّ أن يكون من : عَلَنَ اعتبارا بظهور المعنی الذي فيه لا بظهور ذاته .- ( ع ل ن ) العلانیہ - ظاہر اور آشکار ایہ سر کی ضد ہے اور عام طور پر اس کا استعمال معانی یعنی کیس بات ظاہر ہونے پر ہوتا ہے اور اجسام کے متعلق بہت کم آتا ہے علن کذا کے معنی میں فلاں بات ظاہر اور آشکار ہوگئی اور اعلنتہ انا میں نے اسے آشکار کردیا قرآن میں ہے : ۔ أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] میں انہیں بر ملا اور پوشیدہ ہر طرح سمجھا تا رہا ۔ ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص 69] جو کچھ ان کے سینوں میں مخفی ہے اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں علوان الکتاب جس کے معنی کتاب کے عنوان اور سر نامہ کے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ علن سے مشتق ہو اور عنوان سے چونکہ کتاب کے مشمو لات ظاہر ہوتے ہیں اس لئے اسے علوان کہہ دیا گیا ہو ۔
(٦٩) اور آپ کا پروردگار سب چیزوں کی خبر رکھتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں بغض ودشمنی چھپی ہوئی ہے اور جو یہ ظاہری طور پر نافرمانیاں کرتے ہیں۔
آیت ٦٩ (وَرَبُّکَ یَعْلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُوْرُہُمْ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ) ” - مثلاً ان کے دل قرآن اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی حقانیتّ کی گواہی دیتے ہیں مگر وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس گواہی کو چھپائے ہوئے ہیں۔ اور دوسری طرف اپنے جن نام نہاد اعتراضات کو وہ ظاہر کر رہے ہیں ان پر انہیں خود بھی اعتماد نہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر یہ نبی ہیں تو انہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح معجزات کیوں نہیں دیے گئے ؟
سورة القصص حاشیہ نمبر : 91 اس سلسلہ کلام میں یہ بات جس مقصد کے لیے ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص یا گروہ دنیا میں لوگوں کے سامنے یہ دعوی کرسکتا ہے کہ جس گمراہی کو اس نے اختیار کیا ہے اس کی صحت پر وہ بڑے معقول وجوہ سے مطمئن ہے ، اور اس کے خلاف جو دلائل دیے گئے ہیں ان سے فی الحقیقت اس کا اطمینان نہیں ہوا ہے ، اور اس گمراہی کو اس نے کسی برے جذبے سے نہیں بلکہ خاص نیک نیتی کے ساتھ اختیار کیا ہے اور اس کے سامنے کبھی کوئی ایسی چیز نہیں آئی ہے جس سے اس کی غلطی اس پر واضح ہو ۔ لیکن اللہ کے سامنے اس کی یہ بات نہیں چل سکتی ۔ وہ صرف ظاہری کو نہیں دیکھتا ، اس کے سامنے تو آدمی کے دل و دماغ کا ایک ایک گوشہ کھلا ہوا ہے ، وہ اس کے علم اور احساسات اور جذبات اور خواہشات اور نیت اور ضمیر ، ہر چیز کو براہ راست جانتا ہے ، اس کو معلوم ہے کہ کس شخص کو کس کس وقت کن ذرائع سے تنبیہ ہوئی ، کن کن راستوں سے حق پہنچا ، کس کس طریقے سے باطل کا باطل ہونا اس پر کھلا ، اور پھر وہ اصل محرکات کیا تھے جن کی بنا پر اس نے اپنی گمراہی کو ترجیح دی اور حق سے منہ موڑا ۔