بچوں کا قتل اور بنی اسرائیل مروی ہے کہ جب بنی اسرائیل کے ہزارہا بچے قتل ہوچکے تو قبطیوں کو اندیشہ ہوا کہ اگر بنو اسرائیل ختم ہوگئے توجتنے ذلیل کام اور بےہودہ خدمتیں حکومت ان سے لے رہیں ہیں کہیں ہم سے نہ لینے لگیں ۔ تو دربار میں میٹنگ ہوئی اور یہ رائے قرار پائی کہ ایک سال مار ڈالے جائیں اور دوسرے سال قتل نہ کئے جائیں ۔ حضرت ہارون اس سال تولد ہوئے جس سال بچوں کو قتل نہ کیا جاتا تھا لیکن حضرت موسیٰ اس سال پیدا ہوئے جس سال بنی اسرائیل کے لڑکے عام طور پر تہ تیغ ہو رہے تھے ۔ عورتیں گشت کرتی رہتی تھی اور حاملہ عورتوں کا خیال رکھتی تھی ۔ ان کے نام لکھ لیے جاتے تھے ۔ وضع حمل کے وقت یہ عورتیں پہنچ جاتی تھی اگر لڑکی ہوئی تو واپس چلی جاتی تھی اور اگر لڑکا ہوا تو فورا جلادوں کو خبر کردیتی تھی ۔ یہ لوگ تیز چھرے لئے اسی وقت آجاتے تھے اور ماں باپ کے سامنے اسی وقت ان کے بچوں کوٹکڑے ٹکڑے کرکے چلے جاتے تھے ۔ حضرت موسیٰ کی والدہ کا جب حمل ہوا تو عام حمل کی طرح اس کا پتا نہ چلا اور جو عورتیں اس کام پر مامور تھی اور جتنی دائیاں آتی تھی کسی کو حمل کا پتہ نہ چلا ۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ تولد بھی ہوگئے آپ کی والدہ سخت پریشان ہونے لگی اور ہر وقت خوفزدہ رہنے لگیں اور اپنے بچے سے محبت بھی اتنی تھی کہ کسی ماں کو اپنے بچے سے اتنی نہ ہوگی ۔ ایک ماں پر ہی کیا موقوف اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کا چہرہ ہی ایسا بنایا تھا ۔ کہ جس کی نظر پڑ جاتی تھی اس کے دل میں ان کی محبت بیٹھ جاتی تھی ۔ جیسے جناب باری تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت ( وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ڬ وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِيْ 39ۘ ) 20-طه:39 ) میں نے اپنی خصوصی محبت سے تمہیں نوازا ۔ پس جب کہ والدہ موسیٰ ہر وقت کبیدہ خاطر ، خوفزدہ اور رنجیدہ رہنے لگیں تو اللہ نے ان کے دل میں خیال ڈالا کہ اسے دودھ پلاتی رہے اور خوف کے موقعہ پر انہیں دریائے نیل میں بہادے جس کے کنارے پر ہی آپ کا مکان تھا ۔ چنانچہ یہی کیا کہ ایک پیٹی کی وضع کا صندوق بنالیا اس میں حضرت موسیٰ کو رکھ دیا دودھ پلادیا کرتیں اور اس میں سلادیا کرتیں ۔ جہاں کوئی ایسا ڈراؤنا موقعہ آیاتو اس صندوق کو دریا میں بہادیتیں اور ایک ڈوری سے اسے باندھ رکھا تھا خوف ٹل جانے کے بعد اسے کھینچ لیتیں ۔ ایک مرتبہ ایک ایسا شخص گھر میں آنے لگا جس سے آپ کی والدہ صاحبہ کو بہت دہشت ہوئی دوڑ کر بچے کو صندوق میں لٹاکر دریا میں بہادیا اور جلدی اور گبھراہٹ میں ڈوری باندھنی بھول گئیں صندوق پانی کی موجوں کے ساتھ زور سے بہنے لگا اور فرعون کے محل کے پاس گزرا تو لونڈیوں نے اسے اٹھالیا اور فرعون کی بیوی کے پاس لے گئیں راستے میں انہوں نے اسے ڈر کے مارے کھولا نہ تھا کہ کہیں تہمت ان پر نہ لگ جائے جب فرعون کی بیوی کے پاس اسے کھولا گیا تو دیکھا کہ اس میں تو ایک نہایت خوبصورت نورانی چہرے والا صحیح سالم بچہ لیٹا ہوا ہے جسے دیکھتے ہی ان کا دل مہر محبت سے بھر گیا اور اس بچہ کی پیاری شکل دل میں گھر کر گئی ۔ اس میں بھی رب کی مصلحت تھی کہ فرعون کی بیوی کو راہ راست دکھائے اور فرعون کے سامنے اس کا ڈر لائے اور اسے اور اس کے غرور کو ڈھائے تو فرماتا ہے کہ آل فرعون نے اس صندوق کو اٹھالیا اور انجام کار وہ ان کی دشمنی اور ان کے رنج وملال کا باعث ہوا ۔ محمد بن اسحاق وغیرہ فرماتے ہیں لیکون کا لام لام عاقبت ہے لام تعلیل نہیں ۔ اس لئے کہ ان کا ارادہ نہ تھا بظاہر یہ ٹھیک بھی معلوم ہوتا ہے لیکن معنی کو دیکھتے ہوئے لام کو لام تعلیل سمجھنے میں بھی کوئی حرج نہیں اتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس صندوقچے کا اٹھا نے والا اس لئے بنایا تھا کہ اللہ اسے ان کے لئے دشمن بنادے اور ان کے رنج وغم کا باعث بنائے بلکہ اس میں ایک لطف یہ بھی ہے کہ جس سے وہ بچنا چاہتے تھے وہ ان کے سر چڑھ گیا ۔ اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا گیا کہ فرعون ہامان اور ان کے ساتھی خطاکار تھے ۔ روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے قدریہ کو جو لوگ کہ تقدیر کے منکر ہیں ایک خط میں لکھا کہ موسیٰ کے سابق علم میں فرعون کے دشمن اور اس کے لئے باعث رنج وغم تھے جیسے قرآن کی اس آیت سے ثابت ہے لیکن تم کہتے ہو کہ فرعون چاہتا تو موسیٰ اس کے مددگار اور دوست ہوتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس بچے کو دیکھتے ہی فرعون بدکا کہ ایسا نہ ہو کسی اسرائیلی عورت نے اسے پھینک دیا ہو اور کہیں یہ وہی نہ ہو جس کے قتل کرنے کے لئے ہزاروں بچوں کو فنا کرچکا ہوں ۔ یہ سوچ کر اس نے انہیں بھی قتل کرنا چاہا لیکن اس کی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کی سفارش کی ۔ فرعون کو اس کے ارادے سے روکا اور کہا اسے قتل نہ کیجیئے بہت ممکن ہے کہ یہ آپ کی اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہو مگر فرعون نے جواب دیا کہ تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو لیکن مجھے تو آنکھوں کی ٹھنڈک کی ضروت نہیں ۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ یہی ہوا کہ حضرت آسیہ کو اللہ نے اپنا دین نصیب فرمایا اور حضرت موسیٰ کی وجہ سے انہوں نے ہدایت پائی اور اس متکبر کو اللہ نے اپنے نبی کے ہاتھوں ہلاک کیا ۔ نسائی وغیرہ کے حوالے سے سورۃ طہ کی تفسیر میں حدیث فتون میں یہ قصہ پورا بیان ہوچکا ہے ۔ حضرت آسیہ فرماتی ہے شاید ہمیں نفع پہنچائے ۔ ان کی امید اللہ نے پوری کی دنیا میں حضرت موسیٰ ان کی ہدایت کا ذریعہ بنے اور آخرت میں جنت میں جانے کا ۔ اور کہتی ہیں کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم اسے اپنا بچہ بنالیں ۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی تو چاہا کہ حضرت موسیٰ کو متبنی بنالیں ۔ ان میں سے کسی کو شعور نہ تھا کہ قدرت کس طرح پوشیدہ اپنا ارادہ پوراکر رہی ہے ۔
7 1وحی سے مراد یہاں دل میں بات ڈالنا ہے، وہ وحی نہیں ہے، جو انبیاء پر فرشتے کے ذریعے سے نازل کی جاتی تھی اور اگر فرشتے کے ذریعے سے بھی آئی ہو، تب بھی اس ایک وحی سے ام موسیٰ (علیہ السلام) کا نبی ہونا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ فرشتے بعض دفعہ عام انسانوں کے پاس بھی آجاتے ہیں۔ جیسے حدیث میں واقع، ابرص اور اعمی کے پاس فرشتوں کا آنا ثابت ہے (متفق علیہ، بخاری، کتاب احادیث الانبیاء) 7 2یعنی دریا میں ڈوب جانے یا ضائع ہوجانے سے ڈرنا اور اس کی جدائی کا غم نہ کرنا۔ 7 3یعنی ایسے طریقے سے کہ جس سے اس کی نجات یقینی ہو، کہتے ہیں کہ جب قتل اولاد کا یہ سلسلہ زیادہ ہوا تو فرعون کی قوم کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم نہ ہوجائے اور مشقت والے کام ہمیں نہ کرنے پڑجائیں۔ اس اندیشے کا ذکر انہوں نے فرعون سے کیا، جس پر نیا حکم جاری کردیا گیا کہ ایک سال بچے قتل کئے جائیں اور ایک سال چھوڑ دیئے جائیں ؛ حضرت ہارون (علیہ السلام) اس سال پیدا ہوئے جس میں بچے قتل نہ کئے جاتے تھے، جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) قتل والے سال پیدا ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا سروسامان پیدا فرما دیا۔ کہ ایک تو ان کی والدہ پر حمل کے آثار اس طرح ظاہر نہیں فرمائے جس سے وہ فرعون کی چھوڑی ہوئی دائیوں کی نگاہ میں آجائیں اس لئے ولادت کا مرحلہ تو خاموشی کے ساتھ ہوگیا اور یہ واقعہ حکومت کے منصوبہ بندوں کے علم میں نہیں آیا، لیکن ولادت کے بعد قتل کا اندیشہ موجود تھا۔ جس کا حل خود اللہ تعالیٰ نے وحی والقاء کے ذریعے سے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو سمجھا دیا چناچہ انہوں نے اسے تابوت میں لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ (ابن کثیر)
[١٠] یہاں لفظ اَوْحَیْنَا استعمال ہوا ہے اور وحی کا لغوی معنی صرف خفی اور تیز اشارہ ہے اور اَوْحٰی کے معنی کسی پوشیدہ اور نامعلوم بات کے متعلق سرعت سے اشارہ کرنا (مفردات، مقاییس اللغۃ) یعنی کسی تشویشناک معاملہ کے حل کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یکدم دل میں کوئی خیال آجانا اور ایسی وحی غیر نبی کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ ایسی ہی وحی امّ موسیٰ کو بھیجی گئی تھی۔ اور ممکن ہے یہ وحی فرشتوں کے خطاب کی صورت میں ہو۔ ایسی وحی بھی غیر نبی کو ہوسکتی ہے۔ جیسے حضرت مریم سے فرشتوں نے خطاب کیا تھا۔- [١١] یہ وحی موسیٰ کی پیدائش کے بعد ہوئی اور یہ وحی چار امور پر مشتمل تھی : (١) جب تک اس بچے کی سراغ رسانی نہیں ہوتی، اسے اپنے پاس ہی رکھو اور اسے دودھ پلاتی رہو۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ام موسیٰ نے آپ کو تین ماہ تک چھپائے رکھا تھا۔ (٢) جب یہ راز فاش ہونے لگے اور تمہیں یہ خطرہ محسوس ہو کہ اب عمال حکومت اس بچے کو پکڑ کرلے جائیں گے۔ تو اس کو کسی تابوت یا ٹوکرے میں رکھ کر دریا کی موجوں کے سپرد کردینا (٣) اور دریا میں ڈالتے وقت اس بات کا ہرگز اندیشہ نہ کرنا کہ یہ بچہ ضائع ہوجائے گا۔ بلکہ ہم بہت جلد یہ بچہ تیری ہی طرف لوٹا دیں گے۔ تو ہی اسے دودھ پلائے گی اور اس کی پرورش کرے گی۔ یہی وہ بچہ ہے جو بنی اسرائیل میں رسول بننے والا ہے۔
وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى : ” وحی “ کا لفظی معنی خفیہ اور تیز اشارہ ہے۔ وحی کرنے کا مطلب کوئی بات خفیہ طریقے سے دل میں ڈالنا ہے۔ یہاں کلام کا ایک حصہ محذوف ہے کہ مظلوم بنی اسرائیل پر احسان کی ابتدا یہاں سے ہوئی کہ ان کی نجات کا ذریعہ بننے والے لڑکے کی ماں اس کے ساتھ اس سال حاملہ ہوئی جس میں ان کے لڑکوں کو ذبح کیا جاتا تھا۔ ان کے والد کا نام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمران بیان فرمایا ہے۔ [ دیکھیے مسلم، الإیمان، باب الإسراء برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ٢٦٧؍١٦٥ ] اس سے پہلے ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کی ولادت اس سال ہوچکی تھی جس میں لڑکے قتل نہیں کیے جاتے تھے۔ دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٤٩) کی تفسیر۔ ان کی والدہ کا نام اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمایا، نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذکر فرمایا ہے۔ بعض مفسرین نے ان کا نام ” ایارفت “ اور بعض نے ” لوحا “ بتایا ہے، مگر یہ کسی صحیح حوالے سے ثابت نہیں۔ قرآن ان کا ذکر ” اُمّ موسیٰ “ کے نام سے کرتا ہے۔- 3 یہاں اللہ تعالیٰ نے ” اَوْحَيْنَآ “ میں اور آگے آنے والے الفاظ میں اپنی عظمت کے اظہار کے لیے اپنا ذکر جمع کے صیغے کے ساتھ فرمایا ہے، کیونکہ شاہی حکم عموماً جمع کے صیغے سے جاری ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تو ملک الملوک اور شہنشاہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہوا ہماری قدرت و حکمت کے نتیجے میں ہوا، ورنہ ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔- 3 وحی کا لفظی معنی خفیہ اور تیز اشارہ ہے۔ اُمّ موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے یہ وحی کس طرح کی، اس کی صراحت نہیں فرمائی۔ انھیں الہام کیا (ان کے دل میں ڈالا) یا انھیں خواب دکھایا، بہر حال یہ وحی انھیں چند باتیں بتانے کے لیے تھی، نبوت کی وحی نہیں تھی۔ کیونکہ اس بات پر تمام علماء کا اجماع ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نبیہ نہیں تھیں، کیونکہ تمام انبیاء مرد تھے۔ (دیکھیے انبیاء : ٧) بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ان کے پاس فرشتہ آیا، اس صورت میں بھی یہی کہا جائے گا کہ فرشتے تو بعض اوقات غیر انبیاء کے پاس بھی آجاتے ہیں، جیسا کہ مریم بنت عمران [ کے پاس بھی فرشتہ آیا اور انھیں مسیح (علیہ السلام) کی ولادت کی بشارت دی۔ (دیکھیے مریم : ١٦ تا ٢١) صحیح بخاری (٣٤٦٤) اور صحیح مسلم (٢٩٦٤) میں گنجے، کوڑھی اور نابینے شخص کا قصہ مذکور ہے کہ ان کے پاس فرشتہ آیا اور ان سے ہم کلام ہوا۔ سنن کبریٰ بیہقی کی صحیح حدیث (٩١١٠) میں ہے کہ فرشتوں نے عمران بن حصین (رض) کو سلام کیا، لیکن اس سے وہ نبی نہیں بن گئے۔- اَنْ اَرْضِعِيْهِ : اللہ تعالیٰ نے اُمّ موسیٰ کو وحی کی کہ اپنے بچے کو کچھ مدت تک دودھ پلا، تاکہ اس کی ابتدائی غذائی ضرورت پوری ہوجائے، کیونکہ ماں کے دودھ سے بڑھ کر کوئی چیز وہ ضرورت پوری نہیں کرسکتی، اور جسم کچھ مضبوط ہوجائے، جو آخری مرتبہ دودھ پلا کر دریا میں ڈالنے سے لے کر دایہ کا دودھ ملنے تک کا وقفہ برداشت کرسکے۔ ” اسے دودھ پلا “ کے ضمن میں یہ حکم بھی موجود ہے کہ اتنی مدت تک اسے ہر حال میں چھپا کر رکھ، کسی کو اس کی خبر نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ حمل کی پوری مدت، پھر ولادت کے وقت، حتیٰ کہ کچھ عرصہ دودھ پلانے تک فرعون کی مقرر کردہ دایوں اور اس کے جاسوسوں کو اس معاملے کی خبر نہ ہو سکنا اللہ تعالیٰ کا معجزانہ انتظام تھا، جس کا ذکر سورة طٰہٰ (٣٩) میں ” وَلِتُصْنَعَ عَلٰي عَيْنِيْ “ کے الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے۔ دودھ پلانے کا یہ عرصہ کتنا تھا ؟ تین ماہ یا چھ ماہ یا سال، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، کیونکہ صحیح ذریعے سے اس کی تعیین ثابت نہیں۔- فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَاَلْقِيْهِ فِي الْيَمِّ : اس کی تفصیل سورة طٰہٰ (٣٨ تا ٤٠) میں ہے۔- وَلَا تَخَافِيْ وَلَا تَحْـزَنِيْ : خوف آنے والے خطرے کا ہوتا ہے اور غم گزشتہ نقصان کا۔ فرمایا جب تمہیں فرعون کے جاسوسوں کا خطرہ محسوس ہو تو اسے دریا میں پھینک دو اور نہ ڈرو کہ ضائع ہوجائے گا، یا اسے کوئی نقصان پہنچے گا اور نہ غم کرو کہ میں نے اپنے بچے کو دریا میں کیوں پھینک دیا۔- اِنَّا رَاۗدُّوْهُ اِلَيْكِ وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ : مفسرین نے اس آیت میں اللہ کے کلام کا اعجاز بیان کیا ہے کہ اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُمّ موسیٰ کو دو چیزوں کا حکم دیا ہے، یعنی ” اَنْ اَرْضِعِيْهِ “ اور ” فَاَلْقِيْهِ فِي الْيَمِّ “ اور دو چیزوں سے منع فرمایا ہے، یعنی ” ولا تخافی “ اور ” ولا تحزنی “ اور دو چیزوں کا وعدہ فرمایا اور خوش خبری دی ہے، یعنی ” اِنَّا رَاۗدُّوْهُ اِلَيْكِ “ اور ” وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ “۔
وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى، وحی کا لفظ اس جگہ لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے، وحی نبوت مراد نہیں اس کی تحقیق سورة طہ میں گزر چکی ہے۔
وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِيْہِ فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْہِ فَاَلْقِيْہِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِيْ وَلَا تَحْـزَنِيْ ٠ ۚ اِنَّا رَاۗدُّوْہُ اِلَيْكِ وَجَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ٧- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - أمّ- الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته .- ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا «1» ، قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف 4] «2» أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) «3» ، وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة «4» . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک - «5» وقیل : أم الأضياف وأم المساکين «6» ، کقولهم : أبو الأضياف «7» ، ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم - «8» وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ- [ القارعة 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه «1» ، وکذا : هوت أمّه «2» والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة «3» . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان .- ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ يَا ابْنَ أُمَّ ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔- رضع - يقال : رَضَعَ المولود يَرْضِعُ «1» ، ورَضِعَ يَرْضَعُ رَضَاعاً ورَضَاعَةً ، وعنه استعیر : لئيم رَاضِعٌ: لمن تناهى لؤمه، وإن کان في الأصل لمن يرضع غنمه ليلا، لئلّا يسمع صوت شخبه «2» ، فلمّا تعورف في ذلک قيل : رَضُعَ فلان، نحو : لؤم، وسمّي الثّنيّتان من الأسنان الرَّاضِعَتَيْنِ ، لاستعانة الصّبيّ بهما في الرّضع، قال تعالی:- وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ [ البقرة 233] ، فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَ [ الطلاق 6] ، ويقال : فلان أخو فلان من الرّضاعة، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «يحرم من الرَّضَاعِ ما يحرم من النّسب» «3» ، وقال تعالی: وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ [ البقرة 233] ، أي : تسومونهنّ إرضاع أولادکم .- ( ر ض ع ) بچے کا دودھ پینا ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر انتہائی کمینے کو لئیم راضع کہا جاتا ہے ۔ درا صل یہ لفظ اس کنجوس شخص پر بولا جاتا ہے جو انتہائی بخل کی وجہ سے رات کے وقت اپنی بکریوں کے پستانوں سے دودھ چوس لے تاکہ کوئی ضرورت مند دودھ دوہنے کی آواز سنکر سوال نہ کرے ۔ پھر اس سے رضع فلان بمعنی لئم استعمال ہونے لگا ہے راضعتان بچے کے اگلے دو دانت جن کے ذریعے وپ مال کی چھاتی سے دودھ چوستا ہے ۔ اور ارضاع ( افعال ) کے معنی دودھ پلانا کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ [ البقرة 233] اور جو شخص پوری مدت تک دودھ پلانا چاہے تو اس کی خاطر مائیں اپنی اولاد کو پورے دو برس دودھ پلائیں ۔ نیز فرمایا : ۔ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَ [ الطلاق 6] اگر وہ ( بچے کو ) تمہارے لئے دودھ پلانا چاہیں تو انہیں ان کی دودھ پلائی دو ۔ عام محاورہ ہے : ۔ فلان اخوہ من الرضاعۃ : ( بضم الراء ) وہ فلاں کا رضاعی بھائی ہے ۔ حدیث میں ہے : یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب ۔ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ بوجہ رضاعت کے بھی حرام ہوجاتے ہیں ۔ الاسترضاع کسی سے دودھ پلوانا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ [ البقرة 233] اگر تم اپنی اولاد کو ( کسی دایہ سے ) دودھ پلوانا چاہو ۔ یعنی انہیں مزدوری دے کر دودھ پلوانے کا ارادہ ہو ۔- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - يم - اليَمُّ : البحر . قال تعالی: فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ [ القصص 7] ويَمَّمْتُ كذا، وتَيَمَّمْتُهُ :- قصدته، قال تعالی: فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء 43] وتَيَمَّمْتُهُ برمحي : قصدته دون غيره . واليَمَامُ : طيرٌ أصغرُ من الورشان، ويَمَامَةُ : اسمُ امرأةٍ ، وبها سمّيت مدینةُ اليَمَامَةِ.- ( ی م م ) الیم کے معنی در یا اور سمندر کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ [ القصص 7] تو اسے در یا میں ڈال دینا یممت کذا وتیممت قصد کرنا قرآن پاک میں ہے ۔ فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء 43] تو پاک مٹی لو ۔ یممتہ بر محی میں نے اسے نیزے نشان نہ بنایا ۔ الیامم جنگلی کبوتر کو کہتے ہیں اور یمامۃ ایک عورت کا نام تھا جس کے نام پر ( صوبہ یمن کے ایک شہر کا نام الیمامہ رکھا گیا تھا ۔- حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔
(٧) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ یوحانزبنت لادی بن یعقوب (علیہ السلام) کو الہام کیا کہ تم اس بچے کو دودھ پلاتی رہو۔ پھر جب ان کی تفتیش کا خدشہ ہو تو بےخوف وخطر صندوق میں رکھ میں کر دریا میں ڈال دیں اور نہ تو انکے ڈوبنے کا اندیشہ کرنا اور نہ جدائی پر غم کرنا ہم ضرور پھر اس کو تمہارے ہی پاس پہنچا دیں گے اور فرعون اور اس کی قوم کی طرف ان کو رسول بنا کر بھیجیں گے۔
(فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَاَلْقِیْہِ فِی الْْیَمِّ وَلَا تَخَافِیْ وَلَا تَحْزَنِیْ ج) ” - کہ جب تمہیں معلوم ہو کہ حکومتی کارندے تلاشی کے لیے آ رہے ہیں اور پکڑے جانے کا امکان ہے تو بلاخوف و خطر بچے کو دریائے نیل میں ڈال دینا۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 9 بیچ میں یہ ذکر چھوڑ دیا گیا ہے کہ انہی حالات میں ایک اسرائیلی والدین کے ہاں وہ بچہ پیدا ہوگیا جس کو دنیا نے موسی علیہ السلام کے نام سے جانا ۔ بائیبل اور تلمود کے بیان کے مطابق یہ خاندان حضرت یعقوب کے بیٹھے لاوی کی اولاد میں سے تھا ۔ حضرت موسی کے والد کا نام ان دونوں کتابوں میں عمرام بتایا گیا ہے ، قرآن اسی کا تلفظ عمران کرتا ہے ، موسی علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ان کے ہاں دو بچے ہوچکے تھے ، سب سے بڑی لڑکی مریم ( ) نامی تھیں جن کا ذکر آگے آرہا ہے ۔ ان سے چھوٹے حضرت ہارون تھے ، غالبا یہ فیصلہ کہ بنی اسرائیل کے ہاں جو بیٹھا پیدا ہو اسے قتل کردیا جائے ، حضرت ہارون کی پیدائش کے زمانے میں نہیں ہوا تھا ، اس لیے وہ بچ گئے ، پھر یہ قانون جاری ہوا اور اس خوفناک زمانے میں تیسرے بچے کی پیدائش ہوئی ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 10 یعنی پیدا ہوتے ہی دریا میں ڈال دینے کا حکم نہ تھا ، بلکہ ارشاد یہ ہوا کہ جب تک خطرہ نہ ہو بچے کو دودھ پلاتی رہو ۔ جب راز فاش ہوتا نظر آئے اور اندیشہ ہو کہ بچے کی آواز سن کر یا اور کسی طرح دشمنوں کو اس کی پیدائش کا علم ہوجائے گا ۔ یا خود بنی اسرائیل ہی میں سے کوئی کمینہ آدمی مخبری کر بیٹھے گا تو بے خوف و خطر اسے ایک تابوت میں رکھ کر دریا میں ڈال دینا ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ پیدائش کے بعد تین مہینے تک حضرت موسی کی والدہ ان کو چپھائے رہیں ، تلمود اس پر اضافہ کرتی ہے کہ فرعون کی حکومت نے اس زمانے میں جاسوس عورتیں چھوڑ رکھی تھیں جو اسرائیلی گھروں میں اپنے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے لے جاتی تھیں اور وہاں کسی نہ کسی طرح ان بچوں کو رلا دیتی تھیں تاکہا گر کسی اسرائیلی نے اپنے ہاں کوئی بچہ چھپا رکھا ہو تو وہ بھی دوسرے بچے کی آواز سن کر رونے لگے ۔ اس نئے طرز جاسوسی سے حضرت موسی کی والدہ پریشان ہوگئیں اور انہوں نے اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے پیدائش کے تین مہینے بعد اسے دریا میں ڈال دیا ۔ اس حد تک ان دونوں کتابوں کا بیان قرآن کے مطابق ہے ، اور دریا میں ڈالنے کی کیفیت بھی انہوں نے وہی بتائی ہے جو قرآن میں بتائی گئی ہے ، سورہ طہ میں ارشاد ہوا ہے اقْذِفِيْهِ فِي التَّابُوْتِ فَاقْذِفِيْهِ فِي الْيَمِّ ، بچے کو ایک تابوب میں رکھ کر دریا میں ڈال دے ۔ اسی کی تائید بائیبل اور تلمود بھی کرتی ہیں ۔ ان کا بیان ہے کہ حضرت موسی کی والدہ نے سرکنڈوں کا ایک ٹوکرا بنایا اور اسے چکنی مٹی اور رال سے لیپ کر پانی سے محفوظ کردیا ، پھر اس میں حضرت موسی کو لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا ۔ لیکن سب سے بڑی بات جو قرآن میں بیان کی گئی ہے اس کا کوئی ذکر اسرائیلی روایات میں نہیں ہے ، یعنی یہ کہ حضرت موسی کی والدہ نے یہ کام اللہ تعالی کے اشارے پر کیا تھا اور اللہ تعالی نے پہلے ہی ان کو یہ اطمینان دلا دیا تھا کہ اس طریقے پر عمل کرنے میں نہ صرف یہ کہ تمہارے بچے کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے ، بلکہ ہم بچے تمہارے پاس ہی پلٹا لائیں گے ، اور یہ کہ تمہارا یہ بچہ آگے چل کر ہمارا رسول ہونے والا ہے ۔