Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81یہ تابوت بہتا بہتا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا، جو لب دریا تھا اور وہاں فرعون کے نوکروں چاکروں نے پکڑ کر باہر نکال لیا۔ 82یہ عاقبت کے لئے ہے۔ یعنی انہوں نے تو اسے اپنا بچہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنا کرلیا تھا نہ کہ دشمن سمجھ کر۔ لیکن انجام ان کے اس فعل کا یہ ہوا کہ وہ ان کا دشمن اور رنج و غم کا باعث، ثابت ہوا۔ 83یہ اس سے پہلے کی تعلیل ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان کے لئے دشمن کیوں ثابت ہوئے ؟ اس لئے کہ وہ سب اللہ کے نافرمان اور خطا کار تھے، اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے پروردہ کو ہی ان کی ہلاکت کا ذریعہ بنادیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] چناچہ ام موسیٰ نے وحی کے مطابق اس بچہ کو کسی تابوت یا ٹوکرے میں رکھ کر دریائے نیل کی موجوں کے سپرد کردیا۔ یہ تابوت موجوں پر سفر کرتے کرتے جب اس مقام پر پہنچا جہاں فرعون کے محلات تھے تو فرعون کے اہل کاروں نے اسے دیکھ لیا اور اسے پکڑ کر فرعون اور اس کی بیوی کے پیش کردیا۔ یا ممکن ہے کہ فرعون اور اس کی بیوی سیر و تفریح کی غرض سے محل سے نکل کردیا کے کنارے آئے ہوئے ہوں اور انہوں نے خود یہ تابوت دیکھ کر اسے نکال لانے کا حکم دیا ہو۔ چناچہ فرعون اور اس کی بیوی اس بچہ کو اپنے ہاں لے آئے۔ جو ان کا دشمن اور ان کی تباہی کا باعث بننے والا تھا۔- [١٣] اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں : ایک یہ کہ ایک بچہ کے خطرہ کے بنا پر ہزار ہا بچوں کا قتل کردینا ان کی بہت بڑی غلطی اور حماقت تھی۔ اور ان کی یہ حماقت اس لحاظ سے اور بھی زیادہ واضح ہوگئی تھی کہ جس بچہ سے خطرہ کے سد باب کے لئے وہ یہ سفاکی کر رہے تھے وہ تو ان کے پاس پہنچ چکا تھا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ خطاکار اس لحاظ سے تھے کہ وہ اپنی اس ظالمانہ تدبیر سے اللہ کی تقدیر کو روکنا چاہتے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَالْتَقَطَهٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ : ” اِلْتَقَطَ “ کا معنی ہے کسی کی گری ہوئی چیز اٹھا لینا۔ اُمّ موسیٰ کا گھر دریائے نیل کے کنارے پر فرعون کے محل کے بالائی جانب تھا۔ انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک صندوق میں بند کر کے اسے پانی سے محفوظ بنا کر دریا میں ڈال دیا، جو بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس سے گزرا، اس کے لوگوں نے اسے دیکھا تو دریا سے نکال کر فرعون کے پاس لے آئے۔- لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا : اس ” لام “ کو اکثر مفسرین ” لام عاقبت “ کہتے ہیں، یعنی آل فرعون کے اسے اٹھانے کا نتیجہ یہ ہونا تھا کہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لیے غم کا باعث بنے۔ مگر اسے لام تعلیل بھی بنا سکتے ہیں، یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر تھی کہ آل فرعون نے اسے اٹھا لیا، تاکہ وہ ان کے لیے دشمن اور باعث غم بنے۔- اِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ ۔۔ :” خٰطِـــــِٕيْنَ “ ” أَخْطَأَ یُخْطِئُ “ (افعال) کا معنی ہے بھول کر خطا کرنا اور ” خَطِئَ یَخْطَأُ “ (ع) کا معنی ہے جان بوجھ کر گناہ کرنا، جیسا کہ فرمایا : (نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ ) [ العلق : ١٦ ] ” پیشانی کے ان بالوں کے ساتھ جو جھوٹے ہیں، خطا کار ہیں۔ “ اس کا مصدر ” خِطْأٌ“ (خاء کے کسرے کے ساتھ) ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا ) [ بني إسرائیل : ٣١ ] ” بیشک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔ “ اور سورة یوسف میں ہے : (اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِــِٕيْنَ ) [ یوسف : ٢٩ ] ” یقیناً تو ہی خطا کاروں سے تھی۔ “ ” اِنَّ “ کے ساتھ عموماً پہلی بات کی علت بیان کی جاتی ہے، یعنی موسیٰ (علیہ السلام) ان کے لیے دشمن اور باعث غم کیوں بننے والے تھے ؟ اس لیے کہ وہ سب اللہ کے نافرمان اور خطاکار تھے، جنھوں نے ہزاروں بچوں کو ذبح کردیا اور بنی اسرائیل پر بےپناہ ظلم کیے۔ اللہ تعالیٰ نے انھی کے پروردہ کو ان کی ہلاکت کا ذریعہ بنادیا۔ بعض مفسرین نے اس کا ترجمہ ” چوکنے والے “ کیا ہے، مگر ” خَاطِئٌ“ کا لغوی معنی اس ترجمے کا ساتھ نہیں دیتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَالْتَقَطَہٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُوْنَ لَہُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا۝ ٠ۭ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا كَانُوْا خٰطِـــــِٕيْنَ۝ ٨- التقط التقاط ( افتعال) سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے جس کے معنی بلا قصد و طلب کسی چیز کو پانے اور اس کو اٹھا لینے کے ہیں۔- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - خطأ - الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب :- أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله،- وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] .- والثاني : أن يريد ما يحسن فعله،- ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء 92] .- والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله - ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، - والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان،- لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا - لتولّد ذلک الفعل منه - ( خ ط ء ) الخطاء - والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں - اس کی مختلف صورتیں ہیں - ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔- یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے - ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔- کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے - ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔- اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔- الخطیتۃ - یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨) غرض کہ ایسا ہی ہوا فرعون کی باندیوں نے پانی اور پتوں میں سے اس صندوق کو نکال لیا اور فرعون کی بیوی حضرت آسیہ (علیہ السلام) کے پاس لے گئیں تاکہ رسالت مل جانے کے بعد وہ فرعونیوں کے دشمن اور فرعون کی سلطنت ختم ہوجانے کے بعد اس کے لیے باعث غم بنیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (فَالْتَقَطَہٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ ) ” - ” لُقطہ “ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کہیں گری پڑی ہو اور کوئی اسے اٹھا لے۔ فقہ کی کتابوں میں ” لُقطہ “ کے بارے میں تفصیلی احکام و مسائل ملتے ہیں۔- (لِیَکُوْنَ لَہُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا ط) ” - اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچے کو دریا سے نکالتے ہوئے ان کا یہ مقصد تھا یا انہیں معلوم تھا کہ ایسے ہوگا ‘ بلکہ مراد یہ ہے کہ بالآخر اس کا جو نتیجہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ بچہ ان کے لیے تکلیف اور پریشانی کا باعث بن گیا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 11 یہ ان کا مقصد نہ تھا بلکہ یہ ان کے اس فعل کا انجام مقدر تھا ، وہ اس بچے کو اٹھا رہے تھے جس کے ہاتھوں آخر کار انہیں تباہ ہونا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: خطا کار ہونے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کافر اور گناہگار لوگ تھے، اور یہ بھی کہ انہوں نے اس بچے کو اٹھا کر اپنے حق میں غلطی کی، کیونکہ وہی بچہ آخر ان کے زوال کا سبب بنا