Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91یہ اس وقت کہا جب تابوت میں ایک حسین و جمیل بچہ انہوں نے دیکھا۔ بعض کے نزدیک یہ اس وقت کا قول ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی داڑھی کے بال نوچ لئے تھے تو فرعوں نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ جمع کا صیغہ یا تو اکیلے فرعون کے لئے بطور تعظیم کے کہا یا ممکن ہے وہاں اس کے کچھ درباری موجود رہے ہوں۔ 92کیونکہ فرعون اولاد سے محروم تھا۔ 93کہ یہ بچہ جسے وہ اپنا بچہ بنا رہے ہیں، یہ تو وہی بچہ ہے جس کو مارنے کے لئے سینکڑوں بچوں کو موت کی نید سلا دیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] اب ظاہری قیاس سے تو یہی معلوم ہو رہا تھا کہ یہ بچہ کسی بنی اسرائیل کے فرد کا ہی ہوسکتا ہے جس نے بچہ کے قتل کے خطرہ کی وجہ سے اس کے قتل ہونے سے بہتر یہی سمجھا کہ اسے دریا کے سپرد کردیا جائے۔ اس لحاظ سے فرعون کو یہ بچہ فوراً مار ڈالنا چاہئے تھا۔ مگر بچے کی صورت ایسی پیاری اور پرکشش تھی کہ فرعون کی بیوی آسیہ جس کے متعلق قرآن نے ایک دوسرے مقام پر تصریح کردی ہے کہ وہ فرعون کے ایسے ظالمانہ کاموں سے سخت بیزار تھی، نے جب یہ بچہ دیکھا تو فوراً اس کا دل محبت سے بھر آیا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے ہاں اولاد نہ تھی۔ چناچہ وہ فوراً کہنے لگی کہ یہ بچہ تو بہت پیارا ہے کہ جسے دیکھ کر ہی دل خوش ہوجاتا ہے اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ لہذا ہم خود اس کی تربیت کریں گے۔ اسے قتل کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ پھر یہ بچہ ہمارے لئے مفید بھی ہوسکتا ہے۔ جب اس کی پرورش کریں گے تو یہ ہمارا ہی بچہ ہے۔ اسے کیا خبر ہوسکتی ہے کہ اس کا بنی اسرائیل کے کسی فرد سے بھی کچھ تعلق ہے۔ اگر ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں گے تو اس کی ساری اہلیتیں بنی اسرائیل کے بجائے ہمارے کام آسکتی ہیں۔ لہذا اسے متبنّیٰ بنا لینے میں ہمیں بہت سے فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔- [١٥] یعنی ان دونوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ جو باتیں وہ کر رہے ہیں وہ خود نہیں کر رہے بلکہ مشیت الٰہی ان کے منہ سے یہ الفاظ نکلوا رہی ہے۔ یا انھیں کیا خبر تھی کہ جس بچہ کو مارنے کی خاطر انہوں نے ہزارہا بچے قتل کردیئے ہیں یا کر رہے ہیں وہ بچہ ان کے اپنے ہاتھ میں جسے یہ اپنا متبنّیٰ بنانے کے مشورے کر رہے ہیں یا یہ کہ جس بچہ پر اس وقت ان کا اتنا دل بھر آیا ہے۔ وہی ان کا دشمن بن جائے گا۔ اور اسی کے ہاتھوں ان کی اور ان کی حکومت کی تباہی واقع ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّةُ عَيْنٍ لِّيْ وَلَكَ ۔۔ : فرعون اور اس کی بیوی نے صندوق کھلوایا تو اس میں سے نہایت خوب صورت اور پیارا بچہ نکلا، جس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی کشش رکھ دی تھی کہ جو دیکھے اس سے محبت کرنے لگے، جیسا کہ فرمایا : ( وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ) [ طٰہٰ : ٣٩ ]” اور میں نے تجھ پر اپنی طرف سے ایک محبت ڈال دی۔ “ مگر جس طریقے سے یہ بچہ آیا تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ یہ بنی اسرائیل کے کسی آدمی کا بچہ ہے، جس نے ذبح ہونے سے بچانے کے لیے اسے دریا کے حوالے کردیا ہے، اس لیے فرعون اور اس کے خونخوار ساتھیوں نے اصرار کیا کہ اسے ہر حال میں ذبح کیا جائے، مگر فرعون کی بیوی کہنے لگی کہ یہ میری اور تیری آنکھ کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل مت کرو۔ فرعون کی بیوی کا یہ کہنا کہ ” اسے قتل مت کرو “ اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ لوگ اسے قتل کرنے کے درپے ہوچکے تھے۔- 3 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرعون کی بیوی کا نام آسیہ بتایا ہے۔ یہ خاتون دنیا کی سب سے بلند مرتبہ خواتین میں سے ایک تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (کَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ کَثِیْرٌ وَلَمْ یَکْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِیَۃُ امْرَأَۃُ فِرْعَوْنَ وَمَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ إِنَّ فَضْلَ عَاءِشَۃَ عَلَی النِّسَاءِ کَفَضْلِ الثَّرِیْدِ عَلٰی سَاءِرِ الطَّعَامِ ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و ضرب اللہ مثلا۔۔ ) : ٣٤١١، عن أبي موسیٰ (رض) ] ” مردوں میں سے بہت سے کامل ہوئے ہیں، مگر عورتوں میں فرعون کی بیوی آسیہ اور عمران کی بیٹی مریم کے سوا کوئی کامل نہیں ہوئی اور عائشہ کی عورتوں پر برتری ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی برتری تمام کھانوں پر۔ “ آسیہ[ کے متعلق مزید دیکھیے سورة تحریم (١١) ۔- عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا : اس سے معلوم ہوا کہ فرعون اولاد سے محروم تھا۔ اللہ کی شان دیکھیے کہ ” انا ربکم الاعلی “ کا دعویٰ کرنے والا اولاد کی خواہش رکھنے کے باوجود اولاد حاصل نہیں کرسکا۔ لوگوں کے بنائے ہوئے بہت سے مشکل کشا اور حاجت روا، جن سے لوگ اولاد مانگتے ہیں، دنیا سے بےاولاد ہی رخصت ہوگئے۔ لاہور میں مدفون مشہور بزرگ علی ہجویری کی خود اولاد نہیں تھی، مگر لوگ ہیں کہ انھیں داتا (رازق) اور گنج بخش (خزانے عطا کرنے والا) کہہ کر ان سے مال و اولاد مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔- 3 آسیہ[ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق جو کچھ کہا اللہ تعالیٰ نے اسے سچ کر دکھایا، آپ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بھی بنے اور اسے وہ نفع پہنچایا جو کم ہی کسی بچے نے اپنی پالنے والی کو پہنچایا ہوگا۔ اگر فرعون بھی یہ الفاظ کہتا تو شاید اسے بھی یہ سعادت مل جاتی، مگر ظالموں کو ایسی ہدایت نہیں ملتی، جیسا کہ فرمایا : وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ) [ البقرۃ : ٢٥٨] ” اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “- وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ : یعنی انھیں یہ خیال تک نہ تھا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر ہمارے زوال اور ہماری ہلاکت کا باعث بنے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّيْ وَلَكَ ۭ لَا تَقْتُلُوْہُ۝ ٠ ۤ ۖ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۝ ٩- قرر ( آنکھ ٹهنڈي کرنا)- صببت فيها ماء قَارّاً ، أي : باردا، واسم ذلک الماء الْقَرَارَةُ والْقَرِرَةُ. واقْتَرَّ فلان اقْتِرَاراً نحو : تبرّد، وقَرَّتْ عينه تَقَرُّ : سُرّت، قال : كَيْ تَقَرَّ عَيْنُها [ طه 40] ، وقیل لمن يسرّ به : قُرَّةُ عين، قال : قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ [ القصص 9] ، وقوله : هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] ، قيل : أصله من القُرِّ ، أي : البرد، فَقَرَّتْ عينه، قيل : معناه بردت فصحّت، وقیل : بل لأنّ للسّرور دمعة باردة قَارَّةً ، وللحزن دمعة حارّة، ولذلک يقال فيمن يدعی عليه : أسخن اللہ عينه، وقیل : هو من الْقَرَارِ. والمعنی: أعطاه اللہ ما تسکن به عينه فلا يطمح إلى غيره، وأَقَرَّ بالحقّ : اعترف به وأثبته علی نفسه . وتَقَرَّرَ الأمرُ علی كذا أي :- حصل، والقارُورَةُ معروفة، وجمعها : قَوَارِيرُ قال : قَوارِيرَا مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 16] ، وقال : رْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل 44] ، أي : من زجاج .- قرت لیلتنا تقر رات کا ٹھنڈا ہونا ۔ یوم قر ٹھنڈا دن ) لیلۃ فرۃ ( ٹھنڈی رات ) قر فلان فلاں کو سردی لگ گئی اور مقرور کے معنی ٹھنڈا زدہ آدمی کے ہیں ۔ مثل مشہور ہے ۔ حرۃ تحت قرۃ یہ اس شخص کے حق میں بولتے ہیں جو اپنے ضمیر کے خلاف بات کرے ۔ قررت القدر اقرھا میں نے ہانڈی میں ٹھنڈا پانی ڈالا ۔ اور اس پانی کو قرارۃ قررہ کہا جاتا ہے ۔ اقتر فلان اقترار یہ تبرد کی طرح ہے جس کے معنی ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کے ہیں ۔ قرت عینہ ت قرآن کھ کا ٹھنڈا ہونا ۔ مراد خوشی حاصل ہونا ہے قرآن پاک میں ہے : كَيْ تَقَرَّ عَيْنُها [ طه 40] تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ اور جسے دیکھ کر انسان کو خوشی حاصل ہو اسے قرۃ عین کہاجاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ [ القصص 9] یہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہمیں بیویوں کی طرف سے دل کا چین اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں قر بمعنی سردی سے ہے لہذا قرت عینہ کے معنی آنکھ کے ٹھنڈا ہو کر خوش ہوجانے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ قرت عینہ کے معنی خوش ہونا اس لئے آتے ہیں کہ خوشی کے آنسو ٹھنڈے ہوتے ہیں اور غم کے آنسو چونکہ گرم ہونے ہیں اس لئے بددعا کے وقت اسخن اللہ عینہ کہاجاتا ہاے ۔ بعض نے کہا ہے کہ قرار س مشتق ہے مراد معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے وہ چیزبخشے جس سے اس کی آنکھ کی سکون حاصل ہو یعنی اسے دوسری چیز کی حرص نہ رہے ۔ اقر بالحق حق کا اعتراف کرنا ۔ تقر الامر علی ٰ کذا کسی امر کا حاصل ہوجانا ۔ القارودۃ شیشہ جمع قواریر قرآن میں ہے : قَوارِيرَا مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 16] اور شیشے بھی چاندی کے ۔ صبح ممرد من قواریر یہ ایسا محل ہے جس میں ( نیچے ) شیشے جڑے ہوئے ہیں یعنی شیشے کا بنا ہوا ہے ۔- عين - ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا - [ القمر 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ- [ الفرقان 74] .- ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة،- واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ- [ الصافات 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] .- ( ع ی ن ) العین - اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩) فرعون کی بیوی حضرت آسیہ بن مزاحم جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پھوپھی تھیں انہوں نے فرعون سے کہا کہ ی بچہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس کو قتل مت کرو بعید نہیں کہ ہمیں کچھ فائدہ پہنچائے یا ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنا لیں اور بنی اسرائیل کو پتا بھی نہ چلے کہ یہ ہمارا لڑکا ہے یا یہ کہ ان لوگوں کو انجام کی خبر ہی نہیں تھی کہ یہ وہی لڑکا ہے جس کے ہاتھوں ان کی ہلاکت ہوگی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(لَا تَقْتُلُوْہُق عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا) ” - یہ بالکل وہی الفاظ ہیں جو حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے بارے میں عزیز مصر کی بیوی نے کہے تھے (یوسف : ٢١) ۔- (وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ) ” - انہیں اس وقت کوئی اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہے تھے اور ان کے اس فیصلے کا کیا نتیجہ نکلنے والا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 12 اس بیان سے جو صورت معاملہ صاف سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ تابوت یا ٹوکرا دریا میں بہتا ہوا جب اس مقام پر پہنچا جہاں فرعون کے محلات تھے ، تو فرعون کے خدام نے اسے پکڑ لیا اور لے جاکر بادشاہ اور ملکہ کے سامنے پیش کردیا ۔ ممکن ہے کہ بادشاہ اور ملکہ خود اس وقت دریا کے کنارے سیر میں مشغول ہوں اور ان کی نگاہ اس ٹوکرے پر پڑی ہو اور انہی کے حکم سے وہ نکالا گیا ہو ۔ اس میں ایک بچہ پڑا ہوا دیکھ کر بآسانی یہ قیاس کیا جاسکتا تھا کہ یہ ضرور کسی اسرائیلی کا بچہ ہے ، کیونکہ وہ ان محلوں کی طرف سے آرہا تھا جن میں بنی اسرائٰل رہتے تھے ، اور انہی کے بیٹے اس زمانے میں قتل کیے جارہے تھے ، اور انہی کے متعلق یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ کسی نے بچے کو چھپا کر کچھ مدت تک پالا ہے اور پھر جب وہ زیادہ دیر چھپ نہ سکا تو اب اسے اس امید پر دریا میں ڈال دیا ہے کہ شاید اسی طرح اس کی جان بچ جائے اور کوئی اسے نکال کر پال لے ۔ اسی بنا پر کچھ ضرورت سے زیادہ وفادار غلاموں نے عرض کیا کہ حضور اسے فورا قتل کرادیں ، یہ بھی کوئی بچہ افعی ہی ہے ، لیکن فرعون کی بیوی آخر عورت تھی اور بعید نہیں کہ بے اولاد ہو ، پھر بچہ بھی بہت پیاری صورت کا تھا ، جیسا کہ سورہ طہ میں اللہ تعالی خود حضرت موسی کو بتاتا ہے کہ وَاَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّيْ ( میں نے اپنی طرف سے تیرے اوپر محبت ڈال دی تھی ) یعنی تجھے ایسی موہنی صورت دی تھی کہ دیکھنے والوں کو بے اختیار تجھ پر پیار آجاتا تھا اس لیے اس عورت سے نہ رہا گیا اور اس نے کہا کہ اسے قتل نہ کرو بلکہ لے کر پال لو ۔ یہ جب ہمارے ہاں پرورش پائے گا اور ہم اسے اپنا بیٹھا بنا لیں گے تو اسے کیا خبر ہوگی کہ میں اسرائیلی ہوں ۔ یہ اپنے آپ کو آل فرعون ہی کا ایک فرد سمجھے گا اور اس کی قابلیتیں بنی اسرائیل کے بجائے ہمارے کام آئیں گی ۔ بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ عورت جس نے حضرت موسی کو پالنے اور بیٹا بنانے کے لیے کہا تھا فرعون کی بیٹی تھی ۔ لیکن قرآن صاف الفاظ میں اسے امرأۃ فرعون ( فرعون کی بیوی ) کہتا ہے اور ظاہر ہے کہ صدیوں بعد مرتب کی ہوئی زبانی روایات کے مقابلے میں براہ راست اللہ تعالی کا بیان ہی قابل اعتماد ہے ۔ کوئی وجہ نہیں کہ خواہ مخواہ اسرائیلی روایات سے مطابقت پیدا کرنے کی خاطر عربی محاورہ و استعمال کے خلاف امرأۃ فرعون کے معنی فرعون کے خاندان کی عورت کیے جائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani