Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سنی ان سنی نہ کرو اللہ کا احسان دیکھو کہ بغیر تمہاری کوشش اور تدبیر کے دن اور رات برابر آگے پیچھے آرہے ہیں اگر رات ہی رات رہے تو تم عاجز آجاؤ تمہارے کام رک جائیں تم پر زندگی وبال ہوجائے تم تھک جاؤ اکتاجاؤ کسی کو نہ پاؤ جو تمہارے لئے دن نکال سکے کہ تم اس کی روشنی میں چلو پھرو ، دیکھو بھالو اپنے کام کاج کرلو ۔ افسوس تم سنا کر بھی بےسناکر دیتے ہو ۔ اسی طرح اگر وہ تم پر دن ہی دن کو روک دے رات آئے ہی نہیں تو بھی تمہاری زندگی تلخ ہوجائے ۔ بدن کا نظام الٹ پلٹ ہوجائے تھک جاؤ تنگ ہوجاؤ کوئی نہیں جسے قدرت ہو کہ وہ رات لاسکے جس میں تم راحت وآرام حاصل کر سکو لیکن تم آنکھیں رکھتے ہوئے اللہ کی ان نشانیوں اور مہربانیوں کو دیکھتے ہی نہیں ہو ۔ یہ بھی اس کا احسان ہے کہ اس نے دن رات دونوں پیدا کردئیے ہیں کہ رات کو تمہیں سکون وآرام حاصل ہو اور دن کو تم کام کاج تجارت ذراعت سفر شغل کر سکو ۔ تمہیں چاہئے کہ تم اس مالک حقیقی اس قادر مطلق کا شکر ادا کرو رات کو اس کی عبادتیں کرو رات کے قصور کی تلافی دن میں اور دن کے قصور کی تلافی رات میں کرلیا کرو ۔ یہ مختلف چیزیں قدرت کے نمونے ہیں اور اس لئے ہیں کہ تم نصیحت وعبرت سیکھو اور رب کا شکر کرو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ ۔۔ :” اَرَءَيْتُمْ “ کا لفظی معنی ہے ” کیا تم نے دیکھا۔ “ عرب اسے ” أَخْبِرُوْنِيْ “ (مجھے بتاؤ) کے معنی میں استعمال کرتے ہیں، یعنی تم نے دیکھا ہے تو بتاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کی ایک اور دلیل اور اس کی نعمتوں میں سے ایک اور نعمت، جس پر وہ حمد کا مستحق ہے، رات دن کا بدلنا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ) [ آل عمران : ١٩٠ ] ” بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں عقلوں والوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں۔ “ فرمایا : ” یہ بتاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر قیامت کے دن تک ہمیشہ رات کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہارے پاس کوئی روشنی لے آئے، خواہ کسی قسم کی ہو یا کتنی معمولی ہو۔ “ (بِضِيَاۗءٍ کی تنوین تنکیر و تقلیل کے لیے ہے) یہاں اللہ تعالیٰ نے ” اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ “ (تو کیا تم سنتے نہیں) ذکر فرمایا، جب کہ اگلی آیت میں ”ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ “ (تو کیا تم نہیں دیکھتے) فرمایا۔ ابن ہبیرہ نے فرمایا : ” اس کی حکمت یہ ہے کہ سمع کی سلطنت رات کو ہوتی ہے اور بصر کی دن کو (رات کی تاریکی میں کان سنتے ہیں، آنکھ نہیں دیکھتی اور دن کی روشنی کے ذریعے سے آنکھ دیکھتی ہے، کان نہیں سنتے) ۔ “ (بقاعی) یعنی رات کی اس تاریکی میں، جو ہمیشہ کے لیے قیامت تک مسلط ہو، یہ بات تمہارے کان سن سکتے ہیں کہ اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہارے پاس کسی بھی طرح کی تھوڑی سے تھوڑی روشنی ہی لے آئے ؟ تو کیا تم سنتے نہیں کہ سن کر سمجھو اور سمجھ کر اللہ کی توحید پر ایمان لے آؤ۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ تم پر قیامت کے دن تک ہمیشہ کے لیے دن کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہارے پاس کوئی رات لے آئے جس میں تم راحت اور سکون پاسکو۔- 3 ان آیات میں رات کا ذکر دن سے پہلے فرمایا، کیونکہ رات کے بعد دن آنے کی نعمت بہت بڑی نعمت ہے۔ انسان کی معیشت کا سارا سلسلہ اسی پر موقوف ہے۔ علاوہ ازیں رات ایک طرح کا عدم ہے اور ضیاء وجود اور ظاہر ہے کہ عدم وجود سے پہلے ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِضِيَاۗءٍ ۭ اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ الی قولہ بِلَيْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِيْهِ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ۔ آیت میں حق تعالیٰ نے رات کے ساتھ تو اس کا ایک فائدہ ذکر فرمایا، بِلَيْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِيْهِ یعنی رات میں انسان کو سکون ملتا ہے اس کے بالمقابل دن کے ذکر میں بضیاء کے ساتھ کوئی فائدہ ذکر نہیں فرمایا سبب ظاہر ہے کہ دن کی روشنی اپنی ذات میں افضل ہے اور ظلم سے روشنی کا بہتر ہونا معلوم و معروف ہے۔ روشنی کے بیشمار فوائد اتنے معروف ہیں کہ ان کے بیان کی ضرورت نہیں، بخلاف رات کے کہ وہ ظلمت اور اندھیری ہی جو اپنی ذات میں کوئی فضیلت نہیں رکھتی بلکہ اس کی فضیلت لوگوں کے سکون و آرام کے سبب سے ہے اس لئے اس کو بیان فرما دیا اور اسی لئے دن کے معاملہ کا ذکر کر کے آخر میں فرمایا اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ اور رات کا معاملہ ذکر کرکے فرمایا اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ اس میں یہ اشارہ ہوسکتا ہے کہ دن کے فضائل و برکات اور اس کے فوائد وثمرات بیشمار ہیں جو احاطہ بصر میں نہیں آسکتے البتہ سنے جاسکتے ہیں اس لئے اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ فرمایا کیونکہ انسانی علم و ادراک کا بڑا ذخیرہ کانوں ہی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے، آنکھوں سے دیکھی ہوئی اشیاء ہمیشہ کانوں سے سنی ہوئی اشیاء سے بہت کم ہوئی ہیں اور رات کے فوائد بہ نسبت دن کے فوائد کے کم ہیں وہ دیکھے بھی جاسکتے ہیں اس لئے یہاں اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ کا کلمہ اختیار فرمایا۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَيْرُ اللہِ يَاْتِيْكُمْ بِضِيَاۗءٍ۝ ٠ۭ اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ۝ ٧١- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - سرمد - السَّرْمَدُ : الدّائم، قال تعالی: قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَداً [ القصص 71] ، وبعده : النَّهارَ سَرْمَداً [ القصص 72]- ( س ر م د ) السرمد کے معنی دائم ( ہمیشہ ) کے ہیں قرآن میں ہے : قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَداً [ القصص 71] کہو بھلا دیکھوں تو اگر خدا تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک رات ( کی تاریکی ) کئے رہے ۔ اسی طرح اس کے بعد کی آیت میں النھار سرمدا فرمایا ہے ۔- قِيامَةُ- والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ- [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ،- القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - ضوأ - الضَّوْءُ : ما انتشر من الأجسام النّيّرة، ويقال : ضَاءَتِ النارُ ، وأَضَاءَتْ ، وأَضَاءَهَا غيرُها . قال تعالی: فَلَمَّا أَضاءَتْ ما حَوْلَهُ [ البقرة 17] ، كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور 35] ، يَأْتِيكُمْ بِضِياءٍ [ القصص 71] ، وسَمَّى كُتُبَهُ المُهْتَدَى بها ضِيَاءً في نحو قوله : وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ وَضِياءً وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ- [ الأنبیاء 48] .- ( ض و ء ) الضوء ۔ کے معنی نور اور روشنی کے ہیں ضائت النار واضائت : آگ روشن ہوگئی اور اضائت ( افعال ) کے معنی روشن کرنا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلَمَّا أَضاءَتْ ما حَوْلَهُ [ البقرة 17] جب آگ نے اس کے ارد گرد کی چیزیں روشن کردیں ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ يَأْتِيكُمْ بِضِياءٍ [ القصص 71] جو تم کو روشنی لادے ۔ اور سماوی کتابوں کو جو انسان کی رہنمائی کے لئے نازل کی گئی ہیں ضیاء سے تعبیر فرمایا ہے ۔ چناچہ ( تورات کے متعلق ) فرمایا :۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ وَضِياءً وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء 48] وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسٰی اور ہارون کو ( ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی اور ( سرتاپا ) روشنی اور نصیحت ( کی کتاب ) عطاکی ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧١) آپ ان کفار مکہ سے کہیے کہ اے گروہ کفار یہ تو بتاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کے لیے قیامت تک تاریک رات رہنے دے تو اللہ کے علاوہ وہ کون سا معبود ہے جو تمہارے لیے دن کی روشنی لے آئے کیا پھر بھی تم اس ذات کی اطاعت نہیں کرتے جس سے تمہارے لیے رات اور دن کو بنایا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani