[٩٦] رات اور دن کے نظام کو اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بہت بڑے بڑے قدرت کے کارناموں اور عجائبات میں شمار کیا ہے۔ ایک ظاہر بین انسان ان نشانیوں کو روزمرہ کے معمولات سمجھ کر ان کی طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔ لیکن جن لوگوں نے اس نظام کا تحقیقی مطالعہ کیا ہے وہ اس نظام کی پیچیدگیوں کو خوب جانتے ہیں۔ یہ تو واضح سی بات کہ دن اور رات کا تعلق سورج سے ہے۔ اختلاف اگر ہے تو اس بات میں رہا ہے کہ آیا ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گردش کرتا ہے یا سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے یا یہ دونوں سیارے ہی محو گردش ہیں۔ اس سلسلہ میں آج تک چار نظریات بدل چکے ہیں۔ دور نبوی میں فلکیات کے ماہرین اور بیت دانوں کا نظریہ یہ تھا کہ ہماری زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے جبکہ آج کا نظریہ (جو چوتھا اور آخری نظریہ) یہ ہے کہ ہماری زمین ایک تو اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔ دوسرے یہ اپنے محور پر ٦٦ ڈگری درجے کا زاویہ بنائے ہوئے گھوم رہی ہے تیسرے یہ سورج کے گرد بھی گھوم رہی ہے۔ پھر ہمارا یہ پورا نظام شمسی اپنے سیاروں سمیت اپنے سے کسی بڑے سورج کے گرد چکر لگارہا ہے اور اپنے محور کے گرد بھی چکر لگاتا ہے۔ اور یہ سب سیارے فضائے سبط میں اس طرح محو گردش ہیں کہ کوئی دوسرے سے ٹکراتا نہیں۔ اپنے فاصلے برقرار رکھتے ہیں اور ان کی رفتار میں نہ کمی آتی ہے یا زیادتی ہوتی ہے۔ اور وہ اپنے اپنے مقام پر پوری طرح جکرے ہوئے محو گردش ہیں۔ یہ ہے وہ انتہائی پیچیدہ نظام جس سے ہمارا نظام لیل و نہار پیدا ہوتا ہے۔ موسموں میں تبدیلی آتی ہے۔ کبھی دن بڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور کبھی راتیں پھر ان تغیرات کے تمام زمینی مخلوق ہر طرح طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔- اب موجودہ نظریہ کی رو سے یہ سوال یوں بنتا ہے کہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ زمین کی اس محوری گردش کو روک دے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ زمین کے آدھے حصہ میں ہمیشہ رات ہی طاری رہے اور آدھا حصہ جو سورج کے سامنے ہو اس میں ہمیشہ سورج ہی چڑھا رہے تو بتلاؤ کہ اللہ کے بغیر تمہارا کوئی الٰہ ایسا ہے جو اس سمین کی گردش کو پھر سے چالو کردے اور تمہیں ان تمام مصائب سے بچاسکے جو اس صورت میں تمہیں پہنچ سکتی ہیں ؟ رات کو اللہ نے تاریک اور ٹھنڈا بنایا ہے۔ تو جس حصہ میں ہمیشہ رات رہے گی۔ وہاں کے لوگ تو سردی سے ہی مرجائیں گے کام کرنا تو دور کی بات ہے۔ اور جس حصہ میں سورج چمکے گا وہاں کے لوگ سورج کی تپش سے مرجائیں گے۔ آرام کرنا تو دور کی بات ہے اللہ نے ایسا حکیمانہ نظام بنادیا ہے جو تمام مخلوق کے مصالح پر مبنی ہے۔- [٩٧] اللہ نے رات کے ہمیشہ رہنے کا ذکر کیا تو فرمایا : ( أفَلاَ تَسْمَعُوْنَ ) اور ہمیشہ دن کے رہنے کا ذکر فرمایا تو فرمایا : (أفَلاَ تُبْصِرُوْنَ ) یہ اس لئے دیکھنے کا کام روشنی سے تعلق رکھتا ہے۔ اور تاریکی میں انسان دیکھ تو نہیں سکتا البتہ سن ضرور سکتا ہے۔
قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَيْكُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَيْرُ اللہِ يَاْتِيْكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِيْہِ ٠ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ٧٢- نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- سرمد - السَّرْمَدُ : الدّائم، قال تعالی: قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَداً [ القصص 71] ، وبعده : النَّهارَ سَرْمَداً [ القصص 72]- ( س ر م د ) السرمد کے معنی دائم ( ہمیشہ ) کے ہیں قرآن میں ہے : قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَداً [ القصص 71] کہو بھلا دیکھوں تو اگر خدا تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک رات ( کی تاریکی ) کئے رہے ۔ اسی طرح اس کے بعد کی آیت میں النھار سرمدا فرمایا ہے ۔- سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔- بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔
(٧٢) اور آپ ان سے یہ بھی کہیے کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کے لیے قیامت تک دن ہی رہنے دے رات نہ لائے تو اللہ کے علاوہ وہ کون سا معبود ہے جو تمہارے لیے رات کو لے آئے جس میں تم آرام پاؤ کیا پھر بھی تم اس ذات کی تصدیق نہیں کرتے جس نے تمہارے لیے رات دن بنائے۔