7 5 1اس گواہ سے مراد پیغمبر ہے۔ یعنی ہر امت کے پیغمبر کو اس امت سے الگ کھڑا کردیں گے۔ 7 5 2یعنی دنیا میں میرے پیغمبروں کی دعوت توحید کے باوجود میرے شریک ٹھہراتے تھے اور میرے ساتھ ان کی بھی عبادت کرتے تھے، اس کی دلیل پیش کرو۔ 7 5 3یعنی وہ حیران اور ساکت کھڑے ہونگے، کوئی جواب اور دلیل انھیں نہیں سوجھے گی۔ 7 5 4یعنی ان کے کام نہیں آئے گا۔
[٩٩] یہ گواہ وہ شخص ہوگا جس کے ذریعہ اللہ کا پیغام اس قوم یا گروہ کو پہنچا ہو۔ خواہ وہ کوئی پیغمبر ہو یا کوئی دوسرا بزرگ ہو۔ اور وہ گواہ اس بات کی گواہی دے گا کہ میں نے اللہ کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔- [١٠٠] اس گواہی کے بعد مجرموں کو موقعہ دیا جائے گا کہ وہ اس گواہی کے خلاف کوئی عذر پیش کرسکتے ہیں تو کریں اور جب وہ کوئی عذر پیش نہ کرسکیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم اللہ کا پیغام پہنچنے کے بعد بھی جو شرک میں ہی مبتلا رہے تو اس بات کے لئے تمہارے پاس کوئی دلیل ہے ؟ اور اگر ہے تو اسے پیش کیوں نہیں کرتے ؟ دلیل سے یہاں مراد کسی الٰہامی کتاب یا کتاب و سنت سے کی دلیل ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ اللہ تعالیٰ نے واقعی فلاں فلاں قسم کے اختیارات اپنے فلاں بندوں یا فلاں قسم کے بندوں کو تفویض کر رکھے ہیں۔ اس وقت انھیں اپنے سب اجتہادات، استنبا طات اور کج بحثیوں بھول جائیں گی۔ اس لئے کہ شریعت کے واضح احکام کے مقابلہ میں بزرگوں کے اقوال اور مکاشفات کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی۔ نہ ہی ایسی باتیں شرعی دلیل کہلا سکتی ہیں۔
وَنَزَعْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا : اس گواہ سے مراد وہ نبی ہے جس نے کسی امت کو حق کا پیغام پہنچایا اور اس کی امت کے وہ لوگ بھی جنھوں نے پیغمبر کے بعد لوگوں کو دین کی تبلیغ کی۔ اسی طرح ہر وہ ذریعہ بھی جس سے کسی قوم یا شخص تک حق کا پیغام پہنچا۔ وہ گواہ گواہی دے گا کہ میں نے ان لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچایا تھا۔ دوسری جگہ فرمایا : ( وَجِايْۗءَ بالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ) [ الزمر : ٦٩ ] ” اور نبیوں اور گواہوں کو لایا جائے گا اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ “- فَقُلْنَا هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ ۔۔ : اس گواہی کے بعد مجرموں کو موقع دیا جائے گا کہ وہ اس کے خلاف کوئی عذر پیش کرسکتے ہیں تو کریں اور جب وہ کوئی عذر پیش نہیں کرسکیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم اللہ کا پیغام پہنچنے کے بعد جو شرک ہی پر قائم رہے، اس کی تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرو۔ تو اس وقت انھیں معلوم ہوجائے گا کہ سچی بات اللہ کی ہے، عبادت اسی کا حق ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اور انھوں نے جو شریک بنائے تھے اور دنیا میں جو حجت بازی کرتے تھے، سب کچھ ان سے گم ہوجائے گا، نہ کوئی شریک ہاتھ آئے گا نہ اسے شریک بنانے کی کوئی دلیل پیش کرسکیں گے۔
وَنَزَعْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍ شَہِيْدًا فَقُلْنَا ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ فَعَلِمُوْٓا اَنَّ الْحَقَّ لِلہِ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ٧٥ۧ- نزع - نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی:- وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] - ( ن زع ) نزع - الشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کام ن کو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ - الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے - بره - البُرْهَان : بيان للحجة، وهو فعلان مثل :- الرّجحان والثنیان، وقال بعضهم : هو مصدر بَرِهَ يَبْرَهُ : إذا ابیضّ ، ورجل أَبْرَهُ وامرأة بَرْهَاءُ ، وقوم بُرْهٌ ، وبَرَهْرَهَة «1» : شابة بيضاء .- والبُرْهَة : مدة من الزمان، فالبُرْهَان أوكد الأدلّة، وهو الذي يقتضي الصدق أبدا لا محالة، وذلک أنّ الأدلة خمسة أضرب :- دلالة تقتضي الصدق أبدا .- ودلالة تقتضي الکذب أبدا .- ودلالة إلى الصدق أقرب .- ودلالة إلى الکذب أقرب .- ودلالة هي إليهما سواء .- قال تعالی: قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة 111] ، قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء 24] ، قَدْ جاءَكُمْ بُرْهانٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ النساء 174] .- ( ب ر ہ ) البرھان - کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں اور یہ ( رحجان وثنیان کی طرح فعلان کے وزن پر ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ برہ یبرہ کا مصدر ہے جس کے معنی سفید اور چمکنے کے ہیں صفت ابرہ مونث برھاء ج برۃ اور نوجوان سپید رنگ حسینہ کو برھۃ کہا جاتا ہے البرھۃ وقت کا کچھ حصہ لیکن برھان دلیل قاطع کو کہتے ہیں جو تمام دلائل سے زدر دار ہو اور ہر حال میں ہمیشہ سچی ہو اس لئے کہ دلیل کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ( 1 ) وہ جو شخص صدق کی مقتضی ہو ( 2 ) وہ جو ہمیشہ کذب کی مقتضی ہو ۔ ( 3) وہ جو اقرب الی الصدق ہو ( 4 ) جو کذب کے زیادہ قریب ہو ( 5 ) وہ جو اقتضاء صدق وکذب میں مساوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة 111] اے پیغمبر ان سے ) کہدو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء 24] کہو کہ اس بات پر ) اپنی دلیل پیش کرویہ ( میری اور ) میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔
(٧٥) اور ہم ہر امت میں سے ایک ایک نبی بھی نکال کر لائیں گے جو دنیا میں ان امتوں کے اندر بھیجا گیا تھا اور وہ احکام خداوندی پہنچانے کی گواہی دے گا پھر ہم ان مشرکین سے کہیں گے کہ اپنی کوئی دلیل پیش کرو کہ تم نے انبیاء کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو کیوں جھٹلایا تو ہر ایک امت جان جائے گی کہ سچی بات دین خداوندی اور عبادت خداوندی تھی اور ان کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق اللہ ہی کو ہے اور دنیا میں جو جھوٹے معبودوں کی پوجا کرتے تھے آج کسی کا پتا نہیں رہے گا
آیت ٧٥ (وَنَزَعْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیْدًا) ” - یہ مضمون دو مرتبہ سورة النحل (آیت ٨٤ اور ٨٩) میں بھی آیا ہے ‘ لیکن سورة النساء کی یہ آیت تو گویا اس مضمون کا ذروۂ سنام ہے : (فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا ۔ ) ” تو اس دن کیا صورت حال ہوگی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کو لائیں گے ہم ان پر گواہ بنا کر “۔ جو پیغمبر جس قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ہوگا وہ قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں استغاثہ کا گواہ ( ) بن کر گواہی دے گا کہ اے اللہ تیری طرف سے جو ہدایت مجھ تک پہنچی تھی میں نے وہ اپنی قوم تک پہنچا دی تھی۔ - (فَقُلْنَا ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ ) ” - پھر متعلقہ امت سے پوچھا جائے گا کہ اب تم لوگ بتاؤ تمہارا کیا معاملہ تھا ؟ ہمارے رسول نے تو گواہی دے دی ہے کہ اس نے میرا پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ اب اس سلسلے میں تمہارا کوئی عذر ہے تو پیش کرو۔- (فَعَلِمُوْٓا اَنَّ الْحَقَّ لِلّٰہِ ) ” - کہ فیصلہ تو اب اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہی حق ہوگا۔ چناچہ انہیں یقین ہوجائے گا کہ وہ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔- (وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) ” - گویا ع ” جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا “ جب دوسری دنیا میں ان کی آنکھ کھلے گی تو ان کے خود ساختہ عقائد ‘ من گھڑت معبودوں کے بارے میں ان کے خوش کن خیالات وغیرہ سب ان سے گم ہوچکے ہوں گے اور اس کیفیت میں عذاب کو دیکھ کر ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 92 یعنی وہ نبی جس نے اس امت کو خبردار کیا تھا ، یا انبیاء کے پیرووں میں سے کوئی ایسا ہدایت یافتہ انسان جس نے اس امت میں تبلیغ حق کا فریضہ انجام دیا تھا ، یا کوئی ایسا ذریعہ جس سے اس امت تک پیغام حق پہنچ چکا تھا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 93 یعنی اپنی صفائی میں کوئی ایسی حجت پیش کرو جس کی بنا پر تمہیں معاف کیا جاسکے ، یا تو یہ ثابت کرو کہ تم جس شرک ، جس انکار آخرت اور جس انکار نبوت پر قائم تھے وہ برحق تھا اور تم نے معقول وجوہ کی بنا پر یہ مسلک اختیار کیا تھا ، یا یہ نہیں تو پھر کم از کم یہی ثابت کردو کہ خدا کی طرف سے تم کو اس غلطی پر متنبہ کرنے اور ٹھیک بات تم تک پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا ۔