قارون مروی ہے کہ قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چچا کالڑکا تھا ۔ اس کانسب یہ ہے قارون بن یصہر بن قاہیث اور موسیٰ علیہ السلام کانسب یہ ہے موسیٰ بن عمران بن قاہیث ۔ ابن اسحق کی تحقیق یہ کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا تھا ۔ لیکن اکثر علماء چچاکا لڑکا بتاتے ہیں ۔ یہ بہت خوش آواز تھا ، تورات بڑی خوش الحانی سے پڑھتا تھا اس لئے اسے لوگ منور کہتے تھے ۔ لیکن جس طرح سامری نے منافق پنا کیا تھا یہ اللہ کا دشمن بھی منافق ہوگیا تھا ۔ چونکہ بہت مال دار تھا اس لئے بھول گیا تھا اور اللہ کو بھول بیٹھا تھا ۔ قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا اس نے اس سے بالشت بھر نیچا لباس بنوایا تھا جس سے اس کا غرور اور اس کی دولت ظاہر ہو ۔ اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ اس خزانے کی کنجیاں اٹھانے پر قوی مردوں کی ایک جماعت مقرر تھی ۔ اس کے بہت خزانے تھے ۔ ہر خزانے کی کنجی الگ تھی جو بالشت بھر کی تھی ۔ جب یہ کنجیاں اس کی سواری کے ساتھ خچروں پر لادی جاتیں تو اس کے لئے ساٹھ پنج کلیاں خچر مقرر ہوتے ، واللہ اعلم ۔ قوم کے بزرگ اور نیک لوگوں اور عالموں نے جب اس کے سرکشی اور تکبر کو حد سے بڑھتے ہوتے دیکھا تو اسے نصیحت کی کہ اتنا اکڑ نہیں اس قدر غرور نہ کر اللہ کا ناشکرا نہ ہو ، ورنہ اللہ کی محبت سے دور ہوجاؤ گے ۔ قوم کے واعظوں نے کہا کہ یہ جو اللہ کی نعمتیں تیرے پاس ہیں انہیں اللہ کی رضامندی کے کاموں میں خرچ کر تاکہ آخرت میں بھی تیرا حصہ ہوجائے ۔ یہ ہم نہیں کہتے کہ دنیا میں کچھ عیش وعشرت کر ہی نہیں ۔ نہیں اچھا کھا ، پی ، پہن اوڑھ جائز نعمتوں سے فائدہ اٹھا نکاح سے راحت اٹھا حلال چیزیں برت لیکن جہاں اپنا خیال رکھ وہاں مسکینوں کا بھی خیال رکھ جہاں اپنے نفس کو نہ بھول وہاں اللہ کے حق بھی فراموش نہ کر ۔ تیرے نفس کا بھی حق ہے تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے بال بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے ۔ مسکین غریب کا بھی تیرے مال میں ساجھا ہے ۔ ہر حق دار کا حق ادا کر اور جیسے اللہ نے تیرے ساتھ سلوک کیا تو اوروں کے ساتھ سلوک واحسان کر اپنے اس مفسدانہ رویہ کو بدل ڈال اللہ کی مخلوق کی ایذ رسانی سے باز آجا ۔ اللہ فسادیوں سے محبت نہیں رکھتا ۔
7 6 1اپنی قوم بنی اسرائیل پر اس کا ظلم یہ تھا کہ اپنے مال و دولت کی فراوانی کی وجہ سے ان کا استخفاف کرتا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ فرعون کی طرف سے یہ اپنی قوم بنی اسرائیل پر عامل مقرر تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا۔ 7 6 2تنوء کے معنی تمیل (جھکنا) جس طرح کوئی شخص بھاری چیز اٹھاتا ہے تو بوجھ کی وجہ سے ادھر ادھر لڑکھڑاتا ہے اس کی چابیوں کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ ایک طاقتور جماعت بھی اسے اٹھاتے ہوئے گرانی محسوس کرتی تھی۔ 7 6 3یعنی تکبر اور غرور مت کرو، بعض نے بخل، معنی کئے ہیں، بخل مت کر۔ 7 6۔ 4یعنی تکبر اور غرور کرنے والوں کو یا بخل کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
[١٠١] قریش مکہ کا عذر یہ تھا کہ اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو عرب مشرک قبائل ان کے دشمن بن جائیں گے۔ نیز ان کا سیاسی اقتدار ہی ختم نہیں ہوگا بلکہ وہ معاشی طور پر تباہ ہوجائیں گے۔ اگرچہ یہ بات ان کے اسلام نہ لانے کا محض ایک بہانہ تھی۔ تاہم اس میں اتنی حقیقت ضرور تھی کہ قریش سرداروں میں سے اکثر بہت دولتمند اور رئیس تھے۔ ان میں کچھ سود خور بھی تھے اور بہت سے لوگ اپنا سرمایہ شراکت کی بنیاد پر تجارت کرنے والے قافلوں کے افراد کو بھی دیتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے لوٹ مار سے بھی محفوظ رہتے تھے۔ علاوہ ازیں مکہ تجارتی منڈی بھی بنا ہوا تھا۔ لہذا ان میں کئی کروڑ پتی سیٹھ موجود تھے۔ اور جہاں ماحول ہی سارا مادہ پرستانہ ہو اور کسی شخص کی بزرگی اور عزت کو محض دولت کے پیمانوں سے ماپا جاتا ہو۔ وہاں ایسے سیٹھ لوگوں کو جس قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ بالکل ایسی ہی صورت حال قارون کی تھی۔ جو ان سے بڑا سیٹھ تھی۔ اسی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہاں قارون کی مثال بیان فرمائی ہے۔- قارون صرف یہی نہیں کہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا تھا بلکہ حضرت موسیٰ کا چچازاد بھائی تھا۔ اللہ نے اسے بےپناہ دولت عطا کر رکھی تھی اور وہ پورے علاقے کا رئیس اعظم تھا۔ حضرت موسیٰ نے اس سے زکوٰ ۃ کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ اس کی زکوٰ ۃ بھی کروڑوں کے حساب سے بنتی تھی۔ لہذا اس نے زکوٰ ۃ کی ادائیگی سے انکار کردیا۔ انسان کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ جتنا زیادہ دولت مند بنتا جاتا ہے۔ اتنا ہی وہ ننانوے کے پھیر میں پڑجاتا ہے۔ اپنی تجوریوں سے کچھ نکالنے کے بجائے اس کا یہی جی چاہتا ہے کہ ان میں مزید کچھ ڈالا جائے۔ حضرت موسیٰ کے زکوٰ ۃ کی ادائیگی کے مطالبہ پر نہ صرف یہ کہ اس نے زکوٰ ۃ دینے سے انکار کیا بلکہ بنی اسرائیل سے نکل کر وہ مخالف پارٹی یعنی فرعون اور اس کے درباریوں سے مل گیا۔ آدمی مالدار بھی تھا اور ہوشیار بھی۔ لہذا فرعون کے دربار میں اس نے ممتاز مقام حاصل کرلیا اور فرعون اور ہامان کے بعد تیسرے نمبر پر اسی کا شمار ہونے لگا۔ جیسا کہ سورة مومن کی آیت نمبر ٢٣ اور ٢٤ میں مذکور ہے کہ : ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور کھلی دلیل کے ساتھ فرعون، ہامان اور قارون کی طرف بھیجا تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو ایک جادوگر ہے سخت جھوٹا (٤٠: ٢٣، ٢٤)- [١٠٢] یہ بھی انسان کی فطرت ہے کہ اگر اللہ اسے اپنے انعامات سے نوازے تو وہ اپنے آپ کو عام انسانوں سے کوئی بالاتر مخلوق سمجھنے لگتا ہے۔ اس کی گفتگو، اس کے لباس، اس کی چال ڈھال، اس کے رنگ ڈھنگ غرضیکہ اس کی ایک ایک ادا سے نخوت اور بڑائی ٹپکنے لگتی ہے۔ اور وہ دوسروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتا یہی صورت حال قارون کی تھی۔ بنی اسرائیل کے کچھ بزرگوں نے اسے از راہ نصیحت کہا کہ اگر اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اپنے آپ کو ضبط اور کنٹرول میں رکھو، بات بات پر اترانا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔
اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰي ۔۔ : کفار مکہ کے ایمان قبول نہ کرنے کا بہت بڑا باعث ان کے مالی اور دنیوی مفادات تھے، جس کا اظہار انھوں نے یہ کہہ کر کیا : (اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا) [ القصص : ٥٧ ] ” اگر ہم تیرے ہمراہ اس ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے۔ “ یہ لوگ بہت بڑے سیٹھ، ساہو کار اور سرمایہ دار تھے، جنھیں بین الاقوامی تجارت نے قارون وقت بنادیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس بہانے کو کئی طرح سے دور فرمایا، جس میں انھیں حرم کی بدولت حاصل نعمتوں کا تذکرہ بھی ہے، اپنی معیشت پر متکبر قوموں کی ہلاکت کا بھی اور اس بات کا بھی کہ دنیا میں تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے وہ صرف دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے۔ اس کی وجہ سے آخرت کا نقصان نہ کرو، جو اس سے کہیں بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ درمیان میں قیامت کے دن مشرکوں کا حال اور توحید کے کچھ دلائل ذکر فرمائے۔ آخر میں قارون، اس کے مال و دولت، اس کے کفر و تکبر اور اس کے انجام بد کا ذکر فرمایا کہ دنیا کی دولت ایسی چیز نہیں کہ اس کی خاطر آدمی ایمان کی دولت اور ہمیشہ کی سعادت سے محروم رہے۔- اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰي : قرآن مجید نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے تھا اور اپنی قوم کے خلاف فرعون کا ساتھی بنا ہوا تھا، جیسے تمام ظالم بادشاہ کسی قوم پر ظلم و ستم کے لیے اسی قوم کے کسی آدمی کو مال و دولت اور عہدہ و مرتبہ دے کر اپنا آلۂ کار بناتے ہیں۔ بعض تفسیروں میں لکھا ہے کہ یہ تورات کا حافظ تھا اور بہت خوب صورت آواز سے تورات پڑھتا تھا، مگر اندر سے منافق تھا۔ لیکن قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کفر میں اتنا پکا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں میں فرعون کے ساتھ جن دو آدمیوں کا نام لیا ہے ان میں سے ایک قارون تھا، جیسا کہ فرمایا : (وَلَـقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ) [ المؤمن : ٢٣، ٢٤ ] ” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا۔ فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف تو انھوں نے کہا، جادوگر ہے، بہت جھوٹا ہے۔ “ (مزید دیکھیے عنکبوت : ٣٩) اس کے مطابق اس کے تورات کا عالم یا منافق ہونے کی بات درست نہیں۔- فَبَغٰى عَلَيْهِمْ ۠ : اس سے بڑی سرکشی کیا ہوگی کہ وہ اپنی ہی قوم کے خلاف ایسے شخص کا دست و بازو بن گیا جو ان کے لڑکے ذبح کرتا تھا، ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا اور انھیں بدترین سزائیں دیتا تھا۔- وَاٰتَيْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ ظالموں کو جو مال ملتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے، جس میں ان کی آزمائش اور ان پر حجت پوری کرنے کی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ” اَلْعُصْبَۃُ “ غیر معین آدمیوں کی جماعت۔ اسے ” عُصْبَۃٌ“ اس لیے کہتے ہیں کہ ان کا ہر فرد دوسرے کے لیے قوت کا باعث ہوتا ہے۔ عرف میں دس سے لے کر چالیس آدمیوں کی جماعت کو کہتے ہیں۔ ” مَفَاتِحُ “ ” مِفْتَحٌ“ کی جمع ہے، چابیاں۔ یعنی ہم نے قارون کو اتنے خزانے دیے تھے جن سے بھرے ہوئے کمروں کے تالوں کی چابیاں ایک قوت والی جماعت پر اٹھانے میں بھاری تھیں۔ تفاسیر میں ان خزانوں کی عجیب و غریب تفصیل مذکور ہے، جس کی تصدیق کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔ صاحب کشّاف نے فرمایا : ” اس کے اموال کی کثرت کے بیان میں مبالغے کے کئی الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی ” اَلْکُنُوْزُ ، اَلْمَفَاتِحُ ، اَلنَّوْءُ (بھاری ہونا) اَلْعُصْبَۃُ ، أُوْلِی الْقُوَّۃِ “ اس سے ان اموال کا بہت زیادہ ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ “- اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ ۔۔ : انسان کو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں سے نوازے تو وہ ان پر پھول جاتا ہے، اس کی گفتگو، اس کا لباس، اس کی چال ڈھال، اس کے رنگ ڈھنگ، غرض اس کی ایک ایک ادا سے کبر و غرور ٹپکنے لگتا ہے۔ یہی حال قارون کا ہوا، بنی اسرائیل کے نیک بزرگ اور عالم لوگوں نے اسے سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے دولت دی ہے تو اپنے آپ میں رہ، اسے اللہ کی نافرمانی میں خرچ مت کر اور پھول مت جا، اللہ تعالیٰ پھول جانے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
خلاصہ تفسیر - قارون (کا حال دیکھ لو کہ کفر و خلاف کرنے سے اس کو کیا ضرر پہنچا اور اس کا مال و متاع کچھ کام نہ آیا بلکہ اس کے ساتھ اس کا مال و متاع بھی برباد ہوگیا، مختصر اس کا قصہ یہ ہے کہ وہ) موسیٰ (علیہ السلام) کی برادری میں سے (یعنی بنی اسرائیل میں سے، بلکہ ان کا چچا زاد بھائی) تھا (کذا فی الدر) سو وہ کثرت مال کی وجہ سے) ان لوگوں کے مقابل ہمیں تکبر کرنے لگا اور (مال کی اس کے پاس یہ کثرت تھی کہ) ہم نے ان اس کو اس قدر خزانے دیئے تھے کہ ان کی کنجیاں کئی کئی زور آور شخصوں کو گرانبار کردیتی تھیں (یعنی ان سے بتکلف اٹھتی تھیں تو جب کنجیاں اس کثرت سے تھیں تو ظاہر ہے کہ خزانے بہت ہی ہوں گے اور یہ تکبر اس وقت کیا تھا) جبکہ اس کو اس کی برادری نے (سمجھانے کے طور پر کہا) کہ تو (اس مال و حشمت) پر اترا مت واقعی اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا اور (یہ بھی کہا کہ) تجھ کو خدا نے جتنا دے رکھا ہے اس میں عالم آخرت کی بھی جستجو کیا کر اور دنیا سے اپنا حصہ (آخرت میں لے جانا) فراموش مت کر اور (مطلب ابتغ ولا تنس کا یہ ہے کہ) جس طرح اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی (بندوں کے ساتھ) احسان کیا کر اور (خدا کی نافرمانی اور حقوق واجبہ ضائع کر کے) دنیا میں فساد کا خواہاں مت ہو (یعنی گناہ کرنے سے دنیا میں فساد ہوتا ہے کقولہ تعالیٰ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاس بالخصوص متعدی گناہ) بیشک اللہ تعالیٰ اہل فساد کو پسند نہیں کرتا (یہ سب نصیحت مسلمانوں کی طرف سے ہوئی۔ غالباً یہ مضامین موسیٰ (علیہ السلام) نے اول فرمائے ہوں گے پھر مکرر دوسرے مسلمانوں نے ان کا اعادہ کیا ہوگا) قارون (یہ سن کر) کہنے لگا کہ مجھ کو یہ سب کچھ میری ذاتی ہنر مندی سے ملا ہے (یعنی میں وجوہ و تدابیر معاش کی خوب جانتا ہوں اس سے میں نے یہ سب جمع کیا ہے پھر میرا تفاخر بیجا نہیں اور نہ اس کو غیبی احسان کہا جاسکتا ہے اور نہ کسی کا اس میں کچھ استحقاق ہوسکتا ہے آگے اللہ تعالیٰ اس کے اس قول کو رد فرماتے ہیں کہ) کیا اس (قارون) نے (اخبار متواتر سے) یہ نہ جانا کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے امتوں میں ایسے ایسوں کو ہلاک کرچکا ہے جو قوت (مالی) میں (بھی) اس سے کہیں بڑھے ہوئے تھے اور مجمع (بھی اس سے) ان کا زیادہ تھا اور (صرف یہی نہیں کہ بس ہلاک ہو کر چھوٹ گئے ہوں بلکہ بوجہ ان کے ارتکاب جرم کفر اور اللہ تعالیٰ کو یہ جرم معلوم ہونے کے قیامت میں بھی معذب ہوں گے جیسا وہاں کا قاعدہ ہے کہ) اہل جرم سے ان کے گناہوں کا (تحقیق کرنے کی غرض سے) سوال نہ کرنا پڑے گا (کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ سب معلوم ہے گو زجر و تنبیہ کے لئے سوال ہو لقولہ تعالیٰ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ مطلب یہ کہ اگر قارون اس مضمون پر نظر کرتا تو ایسی جہالت کی بات نہ کہتا کیونکہ پچھلی قوموں کے حالات عذاب سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور مواخذہ اخرویہ سے اسی کا احکم الحاکمین ہونا ظاہر ہے، پھر کسی کو کیا حق ہے کہ اللہ کی نعمت کو اپنی ہنرمندی کا نتیجہ بتلائے اور حقوق واجبہ سے انکار کرے) پھر (ایک بار ایسا اتفاق ہوا کہ) وہ اپنی آرائش (اور شان) سے اپنی برادری کے سامنے نکلا جو لوگ اس کی برادری میں) دنیا کے طالب تھے (گو مومن ہوں جیسا ان کے اگلے قول وَيْكَاَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الخ سے ظاہراً معلوم ہوتا ہے وہ لوگ) کہنے لگے کیا خوب ہوتا کہ ہم کو بھی وہ ساز و سامان ملا ہوتا جیسا قارون کو ملا ہے واقعی وہ بڑا صاحب نصیب ہے (یہ تمنا حرص کی تھی، اس سے کافر ہونا لازم نہیں آتا، جیسا اب بھی بعضے آدمی باوجود مسلمان ہونے کے شب و روز دوسری قوموں کی ترقیاں دیکھ کر للچاتے ہیں اور اس کی فکر میں لگے رہتے ہیں) اور جن لوگوں کو (دین کی) فہم عطا ہوئی تھی وہ (ان حریصوں سے) کہنے لگے ارے تمہارا ناس ہو تم اس دنیا پر کیا جاتے ہو) اللہ تعالیٰ کے گھر کا ثواب ( اس دنیوی کرّ و فر سے) ہزار درجہ بہتر ہے جو ایسے شخص کو ملتا ہے کہ ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور (پھر ایمان و عمل صالح والوں میں سے بھی) وہ (ثواب کامل طور پر) ان ہی لوگوں کو دیا جاتا ہے جو (دنیا کی حرص و طمع سے) صبر کرنے والے ہیں (پس تم لوگ ایمان کی تکمیل اور عمل صالح کی تحصیل میں لگو اور حد شرعی کے اندر دنیا حاصل کر کے زائد کی حرص و طمع سے صبر کرو) پھر ہم نے اس قارون کو اور اس کے محل سرائے کو (اس کی شرارت بڑھ جانے سے) زمین میں دھنسا دیا سو کوئی ایسی جماعت نہ ہوئی جو اس کو اللہ (کے عذاب) سے بچا لیتی (گو وہ بڑی جماعت والا تھا) اور نہ وہ خود ہی اپنے کو بچا سکا اور کل (یعنی پچھلے قریب زمانہ میں) جو لوگ اس جیسے ہونے کی تمنا کر رہے تھے وہ (آج اس کے خسف کو دیکھ کر) کہنے لگے بس جی یوں معلوم ہوتا ہے کہ (رزق کی فراخی اور تنگی کا مدار خوش نصیبی یا بدنصیبی پر نہیں ہے بلکہ یہ تو محض حکمت تکوینیہ سے اللہ ہی کے قبضہ میں ہے بس) اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے زیادہ روزی دے دیتا ہے اور (جس کو چاہے) تنگی سے دینے لگتا ہے (یہ ہماری غلطی تھی کہ اس کو خوش نصیبی سمجھتے تھے ہماری توبہ ہے اور واقعی) اگر ہم بھی مرتکب ہوئے تھے) بس جی معلوم ہوا کہ کافروں کو فلاح نہیں ہوتی (گو چند روز مزے لوٹ لیں مگر انجام پھر خسران ہے بس فلاح معتدبہ اہل ایمان ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ )- معارف ومسائل - سورة قصص کے شروع سے یہاں تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ قصہ مذکور تھا جو ان کو فرعون اور آل فرعون کے ساتھ پیش آیا، یہاں ان کا دوسرا قصہ بیان ہوتا ہے جو اپنی برادری کے آدمی قارون کے ساتھ پیش آیا اور مناسبت اس کی سابقہ آیتوں سے یہ ہے کہ پچھلی آیت میں یہ ارشاد ہوا تھا کہ دنیا کی دولت و مال جو تمہیں دیا جاتا ہے وہ چند روزہ متاع ہے اس کی محبت میں لگ جانا دانشمندی نہیں۔ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا الآیتہ، قارون کے قصہ میں یہ بتلایا گیا کہ اس نے مال و دولت حاصل ہونے کے بعد اس نصیحت کو بھلا دیا اس کے نشہ میں مست ہو کر اللہ تعالیٰ کی ناشکری بھی کی اور مال پر جو حقوق واجبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہیں ان کی ادائیگی سے منکر بھی ہوگیا جس کے نتیجہ میں وہ اپنے خزانوں سمیت زمین کے اندر دھنسا دیا گیا۔- قارون ایک عجمی لفظ غالباً عبرانی زبان کا ہے اس کے متعلق اتنی بات تو خود الفاظ قرآن سے ثابت ہے کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی برادری بنی اسرائیل ہی میں سے تھا۔ باقی یہ کہ اس کا رشتہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا تھا اس میں مختلف اقوال ہیں۔ حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں اس کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی قرار دیا ہے اور بھی کچھ اقوال ہیں۔ (قرطبی و روح) - روح المعانی میں محمد بن اسحاق کی روایت سے نقل کیا ہے کہ قارون تورات کا حافظ تھا اور دوسرے بنی اسرائیل سے زیادہ اس کو تورات یاد تھی مگر سامری کی طرح منافق ثابت ہوا اور اس کی منافقت کا سبب دنیا کے جاہ و عزت کی بیجا حرص تھی۔ پورے بنی اسرائیل کی سیادت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حاصل تھی اور ان کے بھائی ہارون ان کے وزیر اور شریک نبوت تھے اس کو یہ حسد ہوا کہ میں بھی تو ان کی برادری کا بھائی اور قریبی رشتہ دار ہوں میرا اس سیادت و قیادت میں کوئی حصہ کیوں نہیں۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) سے اس کی شکایت کی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے مجھے اس میں کچھ دخل نہیں مگر وہ اس پر مطمئن نہ ہوا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے حسد رکھنے لگا۔- فَبَغٰى عَلَيْهِمْ ، لفظ بغی چند معانی کے لئے آتا ہے۔ مشہور معنے ظلم کے ہیں، یہاں یہ معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں کہ اس نے اپنے مال و دولت کے نشہ میں دوسروں پر ظلم کرنا شروع کیا، یحی بن سلام اور سعید بن مسیب نے فرمایا کہ قارون سرمایہ دار آدمی تھا، فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل کی نگرانی پر مامور تھا، اس امارات کے عہدے میں اس نے بنی اسرائیل کو ستایا۔ (قرطبی)- اور دوسرے معنے تکبر کے بھی آتے ہیں۔ بہت سے مفسرین نے اس جگہ یہی معنی قرار دیئے ہیں کہ اس نے مال و دولت کے نشہ میں بنی اسرائیل پر تکبر شروع کیا اور ان کو حقیر و ذلیل قرار دیا۔- وَاٰتَيْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ ، کنوز، کنز کی جمع ہے۔ مدفون خزانہ کو کہا جاتا ہے اور اصطلاح شرع میں کنز وہ خزانہ ہے جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی ہو۔ حضرت عطاء سے روایت ہے کہ اس کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ایک عظیم الشان مدفون خزانہ مل گیا تھا۔ (روح)- لَتَنُوْۗاُ بالْعُصْبَةِ نَاءَ کا لفظ بوجھ سے جھکا دینے کے معنی میں آتا ہے اور عصبہ کے معنی جماعت کے ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ اس کے خزانے اتنے زیادہ تھے کہ ان کی کنجیاں اتنی تعداد میں تھیں کہ ایک قوی جماعت بھی ان کو اٹھائے تو بوجھ سے جھک جائے اور ظاہر ہے کہ قفل کی کنجی بہت ہلکے وزن کی رکھی جاتی ہے جس کا اٹھانا اور پاس رکھنا مشکل نہ ہو مگر کثرت عدد کے سبب یہ اتنی ہوگی تھیں کہ ان کا وزن ایک قوی جماعت بھی آسانی سے نہ اٹھا سکے۔ (روح)- لَا تَفْرَحْ فرح کے لفظی معنے اس خوشی کے ہیں جو انسان کو کسی لذت عاجلہ کے سبب حاصل ہو۔ قرآن کریم نے بہت سی آیات میں فرح کو مذموم قرار دیا جیسا کہ ایک اسی آیت میں ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ اور ایک آیت میں لَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىكُمْ اور ایک آیت میں ہے فَرِحُوْا بالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا اور بعض آیات میں فرح کی اجازت بلکہ ایک طرح کا امر بھی وارد ہوا ہے جیسے وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ میں اور آیت فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا میں ارشاد ہوا ہے۔ ان سب آیات کے مجموعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذموم اور ممنوع وہ فرح ہے جو اترانے اور تکبر کرنے کی حد تک پہنچ جائے اور وہ جبھی ہوسکتا ہے کہ اس لذت و خوشی کو وہ اپنا ذاتی کمال اور ذاتی حق سمجھے اللہ تعالیٰ کا انعام و احسان نہ سمجھے اور جو خوشی اس حد تک نہ پہنچے وہ ممنوع نہیں بلکہ ایک حیثیت سے مطلوب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی شکر گزاری ہے۔
اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰي فَبَغٰى عَلَيْہِمْ ٠۠ وَاٰتَيْنٰہُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوْۗاُ بِالْعُصْبَۃِ اُولِي الْقُوَّۃِ ٠ۤ اِذْ قَالَ لَہٗ قَوْمُہٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ ٧٦- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شبہات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - كنز - الْكَنْزُ : جعل المال بعضه علی بعض وحفظه . وأصله من : كَنَزْتُ التّمرَ في الوعاء، وزمن الْكِنَازُ «2» : وقت ما يُكْنَزُ فيه التّمر، وناقة كِنَازٌ مُكْتَنِزَةُ اللّحم . وقوله تعالی: وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة 34] أي : يدّخرونها، وقوله : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ- [ التوبة 35] ، وقوله : لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود 12] أي : مال عظیم . - ( ک ن ز ) الکنز - ( ض ) کے معنی دولت جمع کر کے اس محفوظ رکھ دینے کے ہیں یہ اصل میں کنزت التمر فی الواعاء سے مشتق ہے ۔ - جس کے معنی کھجور کا بار دان میں بھر کر محفوظ کرلینے کے ہیں ۔ اور کھجوا اندوختہ کرنے کے موسم مو زمن الکناز کہا جاتا ہے ۔ اور ناقتہ کناز کے معنی گوشت سے گتھی ہوئی اونٹنی کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ - : وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة 34] اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں ۔ میں یکنزون سے مراد وہ لوگ ہیں جو سونا اور چاندی جمع کرنے مصروف رہتے ہیں ۔ اور اسے راہ خدا میں صرف نہیں کرتے ایسے لوگوں کو قیامت کے دن کہاجائے گا : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ [ التوبة 35] کہ جو کچھ جمع کرتے تھے اس کا مزہ چکھو ۔ اور آیت لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود 12] میں کنز کے معنی خزانہ اور بڑی دولت کے ہیں - مِفْتَاحُ- والمِفْتَحُ وَالمِفْتَاحُ : ما يفتح به، وجمعه : مَفَاتِيحُ ومَفَاتِحُ. وقوله : وَعِنْدَهُ مَفاتِحُ الْغَيْبِ [ الأنعام 59] ، يعني : ما يتوصّل به إلى غيبه المذکور في قوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى مِنْ رَسُولٍ [ الجن 26- 27] . وقوله : ما إِنَّ مَفاتِحَهُ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ [ القصص 76] ، قيل : عنی مفاتح خزائنه . وقیل : بل عني بالمفاتح الخزائن أنفسها . وباب فَتْحٌ: مَفْتُوحٌ في عامّة الأحوال، وغلق خلافه . وروي : ( من وجد بابا غلقا وجد إلى جنبه بابا فتحا) «2» وقیل : فَتْحٌ: واسع .- المفتح والمفتاح ( کنجی ) وہ چیزیں جس کے ساتھ کسی چیز کو کھولا جائے اس کی جمع مفاتح ومفاتیح آتی ہے اور آیت وَعِنْدَهُ مَفاتِحُ الْغَيْبِ [ الأنعام 59] اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ۔ میں مفاتح سے وہ سائل مراد ہیں جن کے ذریعہ اس غیب تک رسائی ہوتی ہے جس کا ذکر آیت فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى مِنْ رَسُولٍ [ الجن 26- 27] اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے ۔ میں ہے اور آیت کریمہ : ما إِنَّ مَفاتِحَهُ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ [ القصص 76] اتنے خزانے دیئے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں ۔ میں مفاتح سے بعض کے نزیدیک خزانوں کی چابیاں مراد ہیں اور بعض نے خزانے ہی مراد لئے ہیں ۔ عام طور پر باب فتح کے معنی مفتوح کے آتے ہیں اور یہ غلق کی ضد ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ جس سے ایک دروازہ بند ہوجائے تو اس کے لئے دوسرا دروازہ کھلا ہے اور بعض کے نزدیک فتح بمعنی واسع ہے ۔- نوء - يقال : ناء بجانبه ينوء ويناء . قال أبو عبیدة : ناء مثل ناع . أي : نهض، وأَنَأْتُهُ : أنهضته . قال تعالی: ما إِنَّ مَفاتِحَهُ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص 76] .- ( ن و ء ) ناء بجانبہ ینوء ویناء کے معنی پہلو پھیر لینے کے ہیں ۔ ابوعبیدہ کے نزدیک ناء مثل ناع کے ہے جس کے معنی اٹھنے کے ہیں اور آنائہ کے معنی اٹھانے کے قرآن پاک میں ہے : ما إِنَّ مَفاتِحَهُ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص 76] کہ ان کی کنجیاں ایک طاقت ور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں ۔- عُصْبَةُ- والعُصْبَةُ : جماعةٌ مُتَعَصِّبَةٌ متعاضدة . قال تعالی: لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص 76] ، وَنَحْنُ عُصْبَةٌ [يوسف 14] ، أي : مجتمعة الکلام متعاضدة، - ( ع ص ب ) العصب - العصبۃ وہ جماعت جس کے افراد ایک دوسرے کے حامی اور مدد گار ہوں ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص 76] ایک طاقتور جماعت وٹھانی مشکل ہوتیں ۔ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ [يوسف 14] حالانکہ ہم جماعت کی جماعت ) ہیں ۔ یعنی ہم باہم متفق ہیں اور ایک دوسرے یکے یاروں مددگار - قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - فرح - الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] ،- ( ف ر ح ) ا لفرح - کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔
(٧٦) قارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچازاد بھائی تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے مقابلہ میں تکبر کرنے لگا اور کہنے لگا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو رسالت اور ہارون کو دانش مندی مل گئی اور مجھے کچھ بھی نہیں ملا میں تو اس چیز پر راضی نہیں ہوں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت انکار کردیا اور ہم نے اس کو دولت کے اس قدر خزانے دیے تھے کہ اس کے خزانوں کی چابیاں کئی کئی طاقت آور آدمیوں کو گرانبار کردیتی تھیں یعنی چالیس آدمیوں سے بھی اس کے خزانوں کی چابیاں نہیں اٹھتی تھیں جب کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے اس سے کہا کہ تو دولت کی وجہ سے تکبر مت کر اور شرک مت کر اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
آیت ٧٦ (اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی) ” - تورات میں اس شخص کا نام لکھا گیا ہے۔ ممکن ہے تلفظ کے اختلاف کی وجہ سے یہ فرق پیدا ہوا ہو۔ بہر حال اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ یہاں قارون نامی شخص کے حوالے سے جس کردار اور رویے ّ کا ذکر کیا گیا ہے وہ محض ایک فرد کا نام نہیں بلکہ یہ کردار ایک پورے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک ایسا طبقہ جو کسی محکوم قوم کے اندر حکمرانوں کے ہاتھوں جنم لیتا ہے اور ان کے سائے میں نشوونما پاتا ہے۔ دراصل کسی بھی ملک میں فاتح اور غاصب حکمرانوں کا طرز حکمرانی ظلم و ناانصافی سے عبارت ہوتا ہے۔ ایسے نظام میں عزت و شرافت کے نئے معیار جنم لیتے ہیں۔ سورة النمل کی آیت ٣٤ میں ملکہ سبا کی زبانی غاصب بادشاہوں کے کردار پر اس طرح تبصرہ کیا گیا ہے : (اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً ج) ” بلاشبہ جب بادشاہ کسی آبادی میں داخل ہوتے ہیں تو اس میں فساد برپا کردیتے ہیں ‘ اور اس کے معزز لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ “ - غاصب حکمران ہمیشہ خوف اور لالچ کے ذریعے عوام کے اندر سے اپنے حمایتی پیدا کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میں محکوم قوم کے گھٹیا اور بےغیرت قسم کے لوگ اپنی قوم سے غداری کر کے اپنے آقاؤں سے مراعات حاصل کرتے ہیں۔ اس حوالے سے سورة النمل کی مذکورہ آیت کے ضمن میں برصغیر پاک و ہند کے غیر ملکی حکمرانوں کی مثال دی جا چکی ہے۔ برصغیر میں انگریزوں نے بھی اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے مقامی لوگوں میں سے ایک ایسا ہی طبقہ پیدا کیا تھا۔ ان لوگوں کو جاگیریں دی گئیں ‘ بڑے بڑے ٹھیکے الاٹ کیے گئے ‘ خطابات سے نوازا گیا ‘ اعلیٰ مناصب پر بٹھایا گیا اور یوں ان کی غیرتوں اور وفاداریوں کو خرید کر ان کو خود ان ہی کی قوم کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اسی طرح فرعون کی عملداری میں بنی اسرائیل کے اندر بھی ایک ایسا ضمیر فروش طبقہ پیدا ہوچکا تھا اور قارون اسی طبقے کا ایک ” معزز فرد “ تھا۔ یہ شخص نہ صرف بنی اسرائیل میں سے تھا بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا حقیقی چچا زاد تھا۔ فرعون کے دربار میں اس کو خاص امتیازی مقام حاصل تھا۔ اپنی اس حیثیت سے فائدہ اٹھا کر اس نے اس قدر دولت اکٹھی کر رکھی تھی کہ اس اعتبار سے اس کا نام ضرب المثل کا درجہ رکھتا تھا ‘ جیسے آج ہمارے ہاں کے بعض سیاسی کردار بھی دولت سمیٹنے میں علامتی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔- (فَبَغٰی عَلَیْہِمْص) ” - اس نے اپنی قوم سے غداری کی اور فرعون کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی ہی قوم کے خلاف ظلم و زیادتی پر مبنی سرگرمیوں میں مصروف رہا۔- (وَاٰتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوْٓ ءُ ا بالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِق) ” - اس سے اگر آج کل کی چابیوں کا تصور ذہن میں رکھیں تو بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔ اس کو یوں سمجھیں کہ پرانے زمانے میں آج کل کی طرز کے تالے تو نہیں ہوتے تھے۔ لہٰذا پھاٹک نما دروازوں کو بند کرنے کے لیے بڑی بڑی لکڑیوں یا دھات کے ” اڑنگوں “ کو مخصوص طریقے سے ان کے اندر پھنسانے کا انتظام کیا جاتا ہوگا اور ان ہی کو ان دروازوں کی چابیاں کہا جاتا ہوگا۔ بہر حال اس جملے کا عمومی مفہوم یہی ہے کہ اس شخص کے پاس بےانتہا دولت تھی۔- (اِذْ قَالَ لَہٗ قَوْمُہٗ لَا تَفْرَحْ ) ” - ظاہر ہے ہر معاشرے میں کچھ بھلے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ جیسے ہم سورة الکہف کے پانچویں رکوع میں دو اشخاص کا واقعہ پڑھ آئے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص درویش صفت اور عارف باللہ تھا جبکہ دوسرا مال مست تھا جو اپنی دولت کے گھمنڈ میں اللہ کو بھی بھلا بیٹھا تھا۔ بہر حال کچھ بھلے لوگوں نے قارون کو نصیحت کی کہ تم اپنی دولت پر اترایا نہ کرو۔ یہاں پر ایک بہت اہم نکتہ نوٹ کر لیجیے کہ ان آیات میں دولت مند لوگوں کے لیے پانچ انتہائی مفید نصیحتیں بیان کی گئی ہیں۔ جن لوگوں کے پاس بہت سی دولت جمع ہوگئی ہو انہیں ان نصیحتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ان میں سے پہلی نصیحت تو یہی ہے کہ اپنی دولت پر اتراؤ نہیں۔- (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ ) ” - اس کے بعد دوسری نصیحت نوٹ کریں :
سورة القصص حاشیہ نمبر : 94 یہ واقعہ بھی کفار مکہ کے اسی عذر کے جواب میں بیان کیا جارہا ہے جس پر آیت نمبر 57 سے مسلسل تقریر ہو رہی ہے ۔ اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جن لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے قومی مفاد پر ضرب لگنے کا خطرہ ظاہر کیا تھا وہ دراصل مکہ کے بڑے بڑے سیٹھ ، ساہبوکار اور سرمایہ دار تھے ، جنہیں بین الاقوامی تجارت اور سود خواری نے قارون وقت بنا رکھا تھا ، یہی لوگ اپنی جگہ یہ سمجھنے بیٹھے تھے کہ اصل حق بس یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹو ، اس مقصد پر جس چیز سے بھی آنچ آنے کا اندیشہ ہو وہ سراسر باطل ہے جسے کسی حال میں قبول نہیں کیا جاسکتا ، دوسری طرف عوام الناس دولت کے ان میناروں کو آرزو بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے اور ان کی غایت تمنا بس یہ تھی کہ جس بلندی پر یہ لوگ پہنچے ہوئے ہیں ، کاش ہمیں بھی اس تک پہنچنا نصیب ہوجائے ، اس زر پرستی کے ماحول میں یہ دلیل بڑی وزنی سمجھی جارہی تھی کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جس توحید و آخرت کی اور جس ضابطہ اخلاق کی دعوت دے رہے ہیں اسے مان لیا جائے تو قریش کی عظمت کا یہ فلک بوس قصر زمین پر آرہے گا اور تجارتی کاروبار تو درکنار جینے تک کے لالے پڑ جائیں گے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 95 قارون ، جس کا نام بائیبل اور تلمود میں قورح ( ) بیان کیا گیا ہے ، حضرت موسی علیہ السلام کا چچازاد بھائی تھا ، بائیبل کی کتاب خروج ( باب 6 ۔ آیت 18 ۔ 21 ) میں جو نسب نامہ درج ہے اس کی رو سے حضرت موسی اور قارون کے والد باہم سگے بھائی تھے ، قرآن مجید میں دوسری جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ شخص بنی اسرائیل میں سے ہونے کے باوجود فرعون کے ساتھ جا ملا تھا اور اس کا مقرب بن کر اس حد کو پہنچ گیا تھا کہ موسی علیہ السلام کی دعوت کے مقابلے میں فرعون کے بعد مخالفت کے جود و سب سے بڑے سرغنے تھے ان میں سے ایک یہی قارون تھا: وَلَـقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ، اِلٰى فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ ( المومن ۔ آیت 23 ۔ 24 ) ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں اور کھلی دلیل کے ساتھ فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف بھیجا ، مگر انہوں نے کہا کہ یہ ایک جادوگر ہے سخت جھوٹا اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قارون اپنی قوم سے باغی ہوکر اس دشمن طاقت کا پٹھو بن گیا تھا جو بنی اسرائیل کو جڑ بنیاد سے ختم کردینے پر تلی ہوئی تھی ۔ اور اس قوم کی غداری کی بدولت اس نے فرعونی سلطنت میں یہ مرتبہ حاصل کرلیا تھا کہ حضرت موسی فرعون کے علاوہ مصر کی جن دو بڑی ہستیوں کی طرف بھیجے گئے تھے وہ دو ہی تھیں ، ایک فرعون کا وزیر ہامان ، اور دوسرا یہ اسرائیلی سیٹھ ۔ باقی سب اعیان سلطنت اور درباری ان سے کم تر درجے میں تھے جن کا خاص طور پر نام لینے کی ضرورت نہ تھی ۔ قارون کی یہی پوزیشن سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 39 میں بھی بیان کی گئی ہے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 96 بائیبل ( گنتی ، باب 16 ) اس کا جو قصہ بیان کیا گیا ہے اس میں اس شخص کی دولت کا کوئی ذکر نہیں ہے ، مگر یہودی روایات یہ بتاتی ہیں کہ یہ شخص غیر معمولی دولت کا مالک تھا حتی کہ اس کے خزانوں کی کنجیاں اٹھانے کے لیے تین سو خچر درکار ہوتے تھے ( جیوش انسائیکلوپیڈیا ، ج 7 ۔ ص 556 ) یہ بیان اگرچہ انتہائی مبالغہ آمیز ہے ، لیکن اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اسرائیلی روایات کی رو سے بھی قارون اپنے وقت کا بہت بڑا دولت مند آدمی تھا ۔
41: اتنی بات تو خود قرآن کریم سے واضح ہے کہ قارون بنو اسرائیل ہی کا ایک شخص تھا، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت سے پہلے فرعون نے اس کو بنو اسرائیل کی نگرانی پر متعین کیا ہوا تھا، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بنایا اور حضرت ہارون (علیہ السلام) آپ کے نائب قرار پائے تو اسے حسد ہوا اور بعض روایات میں ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ بھی کیا کے اسے کوئی منصب دیا جائے، لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں تھا کہ اسے کوئی منصب ملے، اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے معذرت کرلی، اس پر حسد کی آگ اور زیادہ بھڑک اٹھی، اور اس نے منافقت شروع کردی۔ 42: قرآن کریم نے یہاں جو لفظ استعمال فرمایا ہے اس کے معنی ظلم وزیادتی کرنے کے بھی ہوسکتے ہیں، اور تکبر رکنے کے بھی، کہتے ہیں کہ جب ا سکو فرعون کی طرف سے بنو اسرائیل کی نگرانی سونپی گئی تھی تو اس نے اپنے ہی قوم کے لوگوں پر زیادتیاں کی تھیں۔