Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ایک بالشت کا آدمی؟ اوپر قارون کی سرکشی بے ایمانی کا ذکر ہوچکا یہاں اس کے انجام کا بیان ہو رہا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص اپنا تہبند لٹکائے فخر سے جارہا تھا کہ اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ اسے نگل جا ۔ کتاب العجائب میں نوفل بن ماحق کہتے ہیں کہ نجران کی مسجد میں میں نے ایک نوجوان کو دیکھا بڑا لمبا چوڑا بھرپور جوانی کے نشہ میں چور گٹھے ہوئے بدن والا بانکا ترچھا اچھے رنگ ورغن ، والا خوبصورت ، شکیل ۔ میں نگاہیں جماکر اس کے جمال وکمال کو دیکھنے لگا تو اس نے کہا کیا دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا آپ کے حسن وجمال کامشاہدہ کر رہا ہوں اور تعجب معلوم ہو رہا ہے ۔ اس نے جواب دیا کہ تو ہی کیا خود اللہ تعالیٰ کو بھی تعجب ہے ۔ نوفل کہتے ہیں کہ اس کلمہ کے کہتے ہی وہ گھٹنے لگا اور اس کا رنگ روپ اڑنے لگا اور قد پست ہونے لگا یہاں تک کہ بےقدر ایک بالشت کے رہ گیا ۔ آخرکار اس کا کوئی قریبی رشتہ دار اپنی آستین میں ڈال کرلے گیا ۔ یہ بھی مذکور ہے کہ قارون کی ہلاکت حضرت موسیٰ کی بدعا سے ہوئی تھی اور اس کے سبب میں بہت کچھ اختلاف ہے ۔ ایک سبب تو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قارون ملعون نے ایک فاحشہ عورت کو بہت کچھ مال ومتاع دے کر اس بات پر آمادہ کیا کہ عین اس وقت جب حضرت موسیٰ کلیم اللہ بنی اسرائیل میں کھڑے خطبہ کہہ رہے ہوں وہ آئے اور آپ سے کہے کہ تو وہی ہے نا جس نے میرے ساتھ ایسا ایسا کیا ۔ اس عورت نے یہی کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کانپ اٹھے اور اسی وقت نماز کی نیت باندھ لی اور دو رکعت ادا کرکے اس عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے تجھے اس اللہ کی قسم جس نے سمندر میں سے راستہ دیا اور تیری قوم کو فرعون کے مظالم سے نجات دی اور بھی بہت سے احسانات کئے تو جو سچا واقعہ ہے اسے بیان کر ۔ یہ سن کر اس عورت کا رنگ بدل گیا اور اس نے صحیح واقعہ سب کے سامنے بیان کر دیا اور اللہ سے استغفار کیا اور سچے دل سے توبہ کرلی ۔ حضرت موسیٰ پھر سجدہ میں گر گئے اور قارون کی سزا چاہی ۔ اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ میں نے زمین کو تیرے تابع کردیا ہے ۔ آپ نے سجدے سے سر اٹھایا اور زمین سے کہا کہ تو اسے اور اس کے محل کو نگل لے ۔ زمین نے یہی کیا دوسرا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب قارون کی سواری اس طمطراق سے نکلی سفید قیمتی خچر پر بیش بہا پوشاک پہنے سوار تھا ، اس کے غلام بھی سب کے سب ریشمی لباسوں میں تھے ۔ ادھر حضرت موسیٰ علیہ السلام خطبہ پڑھ رہے تھے بنو اسرائیل کا مجمع تھا ۔ یہ جب وہاں سے نکلا تو سب کی نگاہیں اس پر اور اس کی دھوم دھام پر لگ گئیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے دیکھ کر پوچھا آج اس طرح کیسے نکلے؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ ایک بات اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اور ایک فضلیت مجھے دے رکھی ہے اگر تمہارے پاس نبوت ہے تو میرے پاس یہ جاہ وحشم ہے اور اگر آپ کو میری فضیلت پر شک ہو تو میں تیار ہوں کہ آپ اور میں چلیں اور اللہ سے دعا کریں ۔ دیکھ لیجئے کہ اللہ کس کی دعا قبول فرماتا ہے آپ اس بات پر آمادہ ہوگئے اور اسکو لے کر چلے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے تو دعا کرتا ہے یا میں کروں؟ اس نے کہا نہیں میں کرونگا اب اس نے دعا مانگنی شروع کردی اور ختم ہوگئی لیکن دعا قبول نہ ہوئی ۔ حضرت موسیٰ نے کہا اب دعا میں کرتا ہوں اس نے کہا ہاں کیجئے ۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ زمین کو حکم دے کہ جو میں کہوں مان لے اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور وحی آئی کہ میں نے زمین کو تیری اطاعت کا حکم دے دیا ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ سن کر زمین سے فرمایا اے زمین اسے اور اس کے لوگوں کو پکڑ لے وہیں یہ لوگ اپنے قدموں تک زمین میں دھنس گئے ۔ آپ نے فرمایا اور پکڑے لے ۔ یہ اپنے گھٹنوں تک دھنس گئے ۔ آپ نے فرمایا اور پکڑ یہ مونڈھوں تک زمین میں دھنس گئے ۔ پھر فرمایا ان کے خزانے اور مال بھی یہیں لے آ ۔ اسی وقت ان کے کل خزانے اور مال وہاں آگئے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے ان سب کو دیکھ لیا پھر آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ان کو ان کے خزانوں سمیت اپنے اندر کرلے اسی وقت یہ سب غارت ہوگئے اور زمین جیسی تھی ویسی ہوگئی ۔ مروی ہے کہ ساتوں زمین تک یہ لوگ بقدر انسان دھنستے جا رہے ہیں قیامت تک اسی عذاب میں رہیں گے ۔ یہاں پر بنی اسرائیل کی اور بہت سی روایتیں ہیں لیکن ہم نے ان کا ذکر یہاں چھوڑ دیا ہے ۔ نہ تو مال ان کے کام آیا نہ جاہ و حشم نہ دولت وتمکنت نہ کوئی ان کی مدد کے لئے اٹھا نہ یہ خود اپنا کوئی بچاؤ کرسکے ۔ تباہ ہوگئے بےنشان ہوگئے مٹ گئے اور مٹادئیے گئے ( اعاذنا اللہ ) اس وقت تو ان لوگوں کی بھی آنکھیں کھل گئی جو قارون کی دولت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے تھے ۔ اور اسے نصیب دار سمجھ کر لمبے سانس لیا کرتے تھے اور رشک کیا کرتے تھے کہ کاش ہم ایسے دولت مند ہوتے ۔ وہ کہنے لگے اب دیکھ لیا کہ واقعی سچ ہے دولت مند ہونا کچھ اللہ کی رضامندی کا سبب نہیں ۔ یہ اللہ کی حکمت ہے جسے چاہے زیادہ دے جسے چاہے کم دے ۔ جس پر چاہے وسعت کرے جس پر چاہے تنگ کرے ۔ اس کی حکمتیں وہی جانتا ہے ایک حدیث میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں اخلاق کی بھی اسی طرح تقسیم کی ہے جس طرح روزی کی ۔ مال تو اللہ کی طرف سے اس کے دوستوں کو بھی ملتا ہے اور اس کے دشمنوں کو بھی ۔ البتہ ایمان اللہ کی طرف سے اسی کو ملتا ہے جسے اللہ چاہتا ہو ۔ قارون کے اس دھنسائے جانے کو دیکھ کر وہ جو اس جیسا بننے کی امیدیں کررہے تھے کہنے لگے اگر اللہ کا لطف واحسان ہم پر نہ ہوتا تو ہماری اس تمناکے بدلے جو ہمارے دل میں تھی کہ کاش ہم بھی ایسے ہی ہوتے ۔ آج اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کے ساتھ دھنسادیتا ۔ وہ کافر تھا اور کافر اللہ کے ہاں فلاح کے لائق نہیں ہوتے ۔ نہ انہیں دنیا میں کامیابی ملے نہ آخرت میں ہی وہ چھٹکارا پائیں ۔ نحوی کہتے ہیں ویکان کے معنی ویلک اعلم ان ہیں لیکن مخفف کرکے ویک رہ گیا اور ان کے فتح نے اعلم کے محذوف ہونے پر دلالت کردی ۔ لیکن اس قول کو امام ابن جریر نے ضعیف بتایا ہے ۔ مگر میں کہتا ہوں یہ ضعیف کہنا ٹھیک نہیں ۔ قرآن کریم میں اس کی کتابت کا ایک ساتھ ہونا اس کے ضعیف ہونے کی وجہ نہیں بن سکتا ۔ اس لئے کہ کتابت کا طریقہ تو اختراعی امر ہے جو رواج پا گیا وہی معتبر سمجھا جاتا ہے ۔ اس سے معنی پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ واللہ اعلم ۔ دوسرے معنی اس کے الم تر ان کے لئے گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح یہ دو لفظ ہیں وی اور کان ۔ حرف وی تعجب کے لیے ہیں اور یا تنبیہہ کے لئے اور کان معنی میں اظن کے ہے ۔ ان تمام اقوال میں قوی قول یہ ہے کہ یہ معنی میں الم تر کے ہے یعنی کیا نہ دیکھا تونے جیسے کہ حضرت قتادہ کا قول ہے اور یہی معنی عربی شعر میں بھی مراد لئے گئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

811یعنی قارون کو اس کے تکبر کی وجہ سے اس کے محل اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‏‏، ایک آدمی اپنی ازار زمین پر لٹکائے جا رہا تھا (اللہ کو اس کا یہ تکبر پسند نہیں آیا) اور اسے زمین میں دھنسا دیا گیا، پس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا،۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٠] کہتے ہیں کہ قارون جب موسیٰ کا مخالف بن کر فرعون سے جاملا تو اس نے حضرت موسیٰ کو بدنام کرنے کے لئے ایک سازش تیار کی اور ایک فاحشہ عورت کو کچھ دے دلا کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپ پر زنا کی تہمت لگا دے۔ چناچہ جب حضرت موسیٰ نے اسے قسم دے کر سچ سچ بات بتلانے کو کہا تو اس نے بتلا دیا کہ اس نے قارون کے بہکانے سے یہ حرکت کی تھی اور اصل مجرم قارون تھا۔ حضرت موسیٰ کو اس کی اس حرکت پر سخت غصہ آیا۔ آپ نے اس کے لئے بددعا کی۔ یہ اسی بددعا کا اثر تھا کہ قارون اپنے محل، اپنے خزانوں اور خادموں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ زمین کا اتنا ٹکڑا ہی سارے کا سارا عام سطح زمین سے بہت نیچے چلا گیا اور حب اس پر یہ قہر الٰہی نازل ہوا تو اس وقت نہ اس کے خزانے کچھ کام آسکے نہ اس کے خدام اور نہ ہی فرعون اور اس کی درباری اس کی مدد کو پہنچ سکے کہ وہ اسے زمین دھنس جانے سے بچا لیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَخَسَفْنَا بِهٖ وَبِدَارِهِ الْاَرْضَ : اللہ تعالیٰ کو اس کے تکبر کے اس مظاہرے پر ایسی غیرت آئی کہ اس نے اسے اور اس کے گھر کو جس میں اس کے اہل و عیال، نوکر چاکر اور خزانے تھے، سب کو زمین میں دھنسا دیا۔ قارون کی اس حالت پر وہ حدیث منطبق ہوتی ہے جو ابن عمر (رض) نے بیان کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ إِزَارَہُ مِنَ الْخُیَلاَءِ خُسِفَ بِہِ ، فَہُوَ یَتَجَلْجَلُ فِي الْأَرْضِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب : ٣٤٨٥ ] ” ایک آدمی اپنی چادر تکبر سے گھسیٹتا جا رہا تھا، تو اسی حالت میں اسے زمین میں دھنسا دیا گیا اور وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ “ علمائے تفسیر کا رجحان یہ ہے کہ اس سے مراد قارون ہے۔- 3 اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ تکبر سے چادر لٹکانا بھی اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند ہے کہ اگر اس کی رحمت نہ ہو تو ایسے آدمی کو زمین میں دھنسا دیا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ کپڑا خود بخود ڈھلک جائے تو وہ تکبر نہیں، جیسا کہ ابوبکر صدیق (رض) کا کپڑا ڈھلک جاتا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ تم تکبر سے ایسا نہیں کرتے، مگر بعض لوگ جان بوجھ کر کپڑا لٹکاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تکبر سے ایسا نہیں کرتے۔ ان کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سنیے، جابر بن سلیم (رض) نے ایک لمبی حدیث میں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں فرمایا : ( وَارْفَعْ إِزَارَکَ إِلٰی نِصْفِ السَّاقِ فَإِنْ أَبَیْتَ فَإِلَی الْکَعْبَیْنِ وَ إِیَّاکَ وَ إِسْبَالَ الْإِزَارِ فَإِنَّہَا مِنَ الْمَخِیْلَۃِ وَ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمَخِیْلَۃَ ) [ أبو داوٗد، اللباس، باب ما جاء في إسبال الإزار : ٤٠٨٤، و صححہ الألباني ] ” اپنی چادر نصف پنڈلی تک اٹھاؤ، اگر نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اٹھاؤ، اور چادر لٹکانے سے بچو، کیونکہ یہ تکبر سے ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ “ اس سے ثابت ہوا کہ جان بوجھ کر کپڑا لٹکانا ہی تکبر ہے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سننے کے بعد اسے نہ ماننا اور جان بوجھ کر کپڑا لٹکانا صاف تکبر ہے۔ جان بوجھ کر چادر لٹکانا اتنا بڑا گناہ ہے کہ ابوذر (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ، قَالَ فَقَرَأَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ خَابُوْا وَخَسِرُوْا مَنْ ہُمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ الْمُسْبِلُ إِزَارَہُ وَالْمَنَّانُ وَ الْمُنَفِّقُ سِلْعَتَہُ بالْحَلِفِ الْکَاذِبِ ) [ مسلم، الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار۔۔ : ١٠٦]” تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ ان سے کلام کرے گا، نہ ان کی طرف نگاہ کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ “ تین دفعہ فرمایا تو ابوذر (رض) نے کہا : ” وہ تو ناکام اور نامراد ہوگئے، یا رسول اللہ وہ کون ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اپنی چادر (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے والا اور احسان جتلانے والا اور اپنا سامان جھوٹی قسم کے ساتھ بیچنے والا۔ “ - 3 قرآن مجید کے بیان سے ظاہر ہے کہ اسے زمین میں دھنسانے کا باعث اس کا تکبر اور اس کے اظہار کے لیے اس کا اپنی زینت اور شان و شوکت کے ساتھ نکلنا تھا۔ مگر بعض مفسرین نے اس کی بغاوت اور سرکشی کے اور واقعات بھی بیان کیے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ قارون نے ایک فاحشہ عورت کو اس شرط پر کچھ مال دیا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر بدکاری کی تہمت لگائے، جب وہ بنی اسرائیل میں کھڑے ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کر رہے ہوں تو یہ عورت کہے کہ موسیٰ تم نے میرے ساتھ ایسے ایسے کیا ہے۔ لہٰذا جب اس نے مجلس میں موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بات کہی تو وہ ڈر کر کانپ اٹھے اور دو رکعتیں پڑھ کر اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : ” میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے سمندر کو پھاڑا اور تمہیں فرعون سے نجات دی اور فلاں فلاں احسانات کیے کہ تم ہر صورت وہ شخص بتاؤ جس نے تمہیں اس بات پر آمادہ کیا ہے جو تم نے کہی۔ “ اس نے کہا، جب آپ نے مجھ سے قسم دے کر پوچھا ہے تو قارون نے مجھے اتنا مال دیا ہے، اس شرط پر کہ میں آپ کو اس اس طرح کہوں اور میں اللہ سے معافی مانگتی ہوں اور توبہ کرتی ہوں۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) سجدے میں گرگئے اور قارون کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں وحی کی کہ میں نے زمین کو حکم دے دیا ہے کہ اس کے متعلق تمہارا حکم مانے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے زمین کو حکم دیا کہ اسے نگل جائے، تو ایسا ہی ہوا۔ ابن کثیر نے یہ واقعہ ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے۔ سند اس کی اچھی بھی ہو تو یہ ان کا قول ہے، انھوں نے اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل نہیں فرمایا اور ظاہر ہے کہ اس واقعہ کے وقت ابن عباس (رض) موجود نہیں تھے، بلکہ درمیان میں سیکڑوں ہزاروں سال کا فاصلہ ہے۔ اس لیے اس کے اسرائیلی روایت ہونے میں کوئی شک نہیں، جس پر یقین ممکن نہیں۔ خصوصاً اس لیے کہ اس میں قارون کا سمندر سے پار ہونا بھی مذکور ہے، جب کہ سورة مومن میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون، ہامان اور قارون کی طرف بھیجنے اور ان تینوں کے آپ کو جھٹلانے کا ذکر فرمایا ہے، پھر فرعون اور اس کے ساتھیوں کے متعلق فرمایا : (فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْۗءُ الْعَذَابِ اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّعَشِـيًّا) [ المؤمن : ٤٥، ٤٦ ] ” اور آل فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا۔ جو آگ ہے، وہ اس پر صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں۔ “ اسی طرح سورة عنکبوت (٣٩، ٤٠) میں ان تینوں کے تکبر کی وجہ سے ایمان نہ لانے اور اپنے گناہوں میں پکڑے جانے کا ذکر ہے۔ غرض قرآن مجید سے قارون کے ایمان لانے یا سمندر سے پار جانے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا، بلکہ اس کے مسلسل جھٹلانے، تکبر کرنے اور اس کی پاداش میں زمین کے اندر دھنس جانے کا ذکر ہی ملتا ہے۔ ابن کثیر نے فرمایا : ” یہاں بہت سی اسرائیلیات ذکر کی گئی ہیں جن سے ہم نے پہلو تہی کی ہے۔ “ کاش ابن کثیر یہ اسرائیلیات بھی ذکر نہ کرتے جو انھوں نے ذکر کی ہیں۔ - فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ يَّنْصُرُوْنَهٗ ۔۔ : یعنی اس وقت نہ کوئی جماعت تھی جو اس کی مدد کو پہنچتی، نہ وہ خود اپنے آپ کو بچا سکا۔ اس کے نوکر چاکر، ساتھی اور دوست اس کے کسی کام نہ آسکے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ۝ ٠ۣ فَمَا كَانَ لَہٗ مِنْ فِئَۃٍ يَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝ ٠ۤ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِيْنَ۝ ٨١- خسف - الخُسُوف للقمر، والکسوف للشمس «1» ، وقال بعضهم : الکسوف فيهما إذا زال بعض ضوئهما، والخسوف : إذا ذهب كلّه . ويقال خَسَفَهُ اللہ وخسف هو، قال تعالی: فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص 81] ، وقال : لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص 82] ، وفي الحدیث : «إنّ الشّمس والقمر آيتان من آيات اللہ لا يُخْسَفَانِ لموت أحد ولا لحیاته» «2» ، وعین خَاسِفَة : إذا غابت حدقتها، فمنقول من خسف القمر، وبئر مَخْسُوفَة : إذا غاب ماؤها ونزف، منقول من خسف اللہ القمر . وتصوّر من خسف القمر مهانة تلحقه، فاستعیر الخسف للذّلّ ، فقیل : تحمّل فلان خسفا .- ( خ س ف ) الخسوف - کا لفظ چاند کے بےنور ہونے اور کسوف کا لفظ سورج کے بےنور ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ خسوف قدر ہے بےنور ہونے کو کہاجاتا ہے اور کسوف پوری طرح بےنور ہوجانے کو کہتے ہیں ، عام اس سے کہ وہ سورج ہو یا چاند کہاجاتا ہے خسفہ اللہ اللہ نے اسے زمین میں دھنسادیا ( متعدی ) خسف ھو ( لازمی ) زمین میں دھنس جانا ۔ قرآن میں ہے :۔ فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص 81] پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا ۔ لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص 82] اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا ۔ حدیث میں ہے ( ا اا) ان الشمس والقمر ایتان من ایات اللہ لایخسفان لموت احد ولا لحیاتہ کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو کسی کی موت پاپیدائش کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے ۔ اور عین خاسفہ ( اندر دھنسی ہوئی آنکھ ) کا محاورہ خسف القمر سے منقول ہے بئر مخسوفۃ وہ کنواں جس کا پانی غائب ہوگیا ہو اور چاند گہن لگنے سے چونکہ ماند پڑجاتا ہے اس لیے بطور استعارہ خسیف بمعنی ذلت ورسوائی بھی آجاتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے ۔ تحمل فلان خسفا ۔ فلاں شخص ذلیل ہوگیا ۔- دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - فِئَةُ- والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی:- إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48]- الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے ۔۔۔۔۔ بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- انْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ- وَالانْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ : طلب النُّصْرَة وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری 39] ، وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال 72] ، وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری 41] ، فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر 10] وإنما قال :«فَانْتَصِرْ» ولم يقل : انْصُرْ تنبيهاً أنّ ما يلحقني يلحقک من حيث إنّي جئتهم بأمرك، فإذا نَصَرْتَنِي فقد انْتَصَرْتَ لنفسک، وَالتَّنَاصُرُ : التَّعاوُن . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات 25]- لا نتصار والانتنصار کے منعی طلب نصرت کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری 39] اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم وتعدی ہو تو مناسب طریقے سے بدلہ لیتے ہیں ۔ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال 72] اور اگر وہ تم سے دین کے معاملات میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرتی لا زم ہے ۔ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری 41] اور جس پر ظلم ہوا ہو وہ اگر اس کے بعد انتقام لے ۔ فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر 10] تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ ( بار الہ میں ان کے مقابلے میں کمزور ہوں ان سے ) بدلہ لے ۔ میں انصر کی بجائے انتصر کہنے سے بات پر متنبہ کیا ہے کہ جو تکلیف مجھے پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ذات باری تعالیٰ پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ( ذات باری تعا لی پہنچ رہی ہے کیو ن کہ میں تیرے حکم سے ان کے پاس گیا تھا لہذا میری مدد فر مانا گو یا یا تیرا اپنی ذات کے لئے انتقام لینا ہے ۔ لتنا صر کے معنی باہم تعاون کرنے کے ہیں ۔ چنا نچہ قرآن میں ہے : ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات 25] تم کو کیا ہوا کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨١) پھر ہم نے اس قارون کو اور اس کے محل سرائے کو زمین میں دھنسا دیا سو کوئی اس کے پاس ایسی جماعت نہ ہوئی جو اس کو عذاب خداوندی سے جس وقت وہ اس پر نازل ہو رہا تھا، بچا لیتی اور نہ وہ خود ہی اپنے آپ کو عذاب الہی سے بچا سکا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨١ (فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَقف) ” - چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قارون ” خسف فی الارض “ کے عذاب کا شکار ہوگیا۔- (وَمَا کَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ ) ” - وہ اپنے لاؤ لشکر اور تمام تر جاہ و جلال کے باوجود اس قابل نہ تھا کہ (معاذ اللہ ) اللہ سے اپنی بربادی کا انتقام لے سکتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani