Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جوکروگے سو بھروگے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم فرماتا ہے کہ رسالت کی تبلیغ کرتے رہیں لوگوں کو کلام اللہ سناتے رہیں اللہ تعالیٰ آپ کو قیامت کی طرف واپس لے جانے والا ہے اور وہاں نبوت کی بابت پرستش ہوگی ۔ جیسے فرمان ہے ۔ آیت ( فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ Č۝ۙ ) 7- الاعراف:6 ) یعنی امتوں سے اور رسولوں سے سب سے ہم دریافت فرمائیں گے ۔ اور آیت میں ہے رسولوں کو جمع کرکے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا ؟ اور آیت میں ہے نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا ۔ معاد سے مراد جنت بھی ہوسکتی ہے موت بھی ہوسکتی ہے ۔ دوبارہ کی زندگی بھی ہوسکتی ہے کہ دوبارہ پیدا ہوں اور داخل جنت ہوں ۔ صحیح بخاری میں ہے اس سے مراد مکہ ہے ۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے مراد مکہ ہے جو آپ کی جائے پیدائش تھی ۔ ضحاک فرماتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکلے ابھی جحفہ ہی میں تھے جو آپ کے دل میں مکے کاشوق پیدا ہوا پس یہ آیت اتری اور آپ سے وعدہ ہوا کہ آپ واپس مکے پہنچائے جائیں گے ۔ اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہو حالانکہ پوری سورت مکی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے بیت المقدس ہے شاید اس کہنے والے کی غرض اس سے بھی قیامت ہے ۔ اس لیے کہ بیت المقدس ہی محشر زمین ہے ۔ ان تمام اقوال میں جمع کی صورت یہ ہے کہ ابن عباس نے کبھی تو آپ کے مکے کی طرف لوٹنے سے اس کی تفسیر کی ہے جو فتح مکہ سے پوری ہوئی ۔ اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے پورا ہونے کی ایک زبردست علامت تھی جیسے کہ آپ نے سورۃ اذاجاء کی تفسیر میں فرمایا ہے ۔ جس کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی موافقت کی تھی ۔ اور فرمایا تھا کہ تو جو جانتا ہے وہی میں بھی جانتا ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہی سے اس آیت کی تفسیر میں جہاں مکہ مروی ہے وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال بھی مروی ہے اور کبھی قیامت سے تفسیر کی کیونکہ موت کے بعد قیامت ہے اور کبھی جنت سے تفسیر کی جو آپ کا ٹھکانا ہے اور آپ کی تبلیغ رسالت کا بدل ہے کہ آپ نے جن وانس کو اللہ کے دین کی دعوت دی اور آپ تمام مخلوق سے زیادہ کلام زیادہ فصیح اور زیادیہ افضل تھے ۔ پھر فرمایا کہ اپنے مخالفین سے اور جھٹلانے والوں سے کہہ دو کہ ہم میں سے ہدایت والوں کو اور گمراہی والوں کو اللہ خوب جانتا ہے ۔ تم دیکھ لوگے کہ کس کا انجام بہتر ہوتا ہے؟ اور دنیا اور آخرت میں بہتری اور بھلائی کس کے حصے میں آتی ہے؟ پھر اپنی ایک اور زبردست نعمت بیان فرماتا ہے کہ وحی اترنے سے پہلے کبھی آپ کو یہ خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ پر کتاب نازل ہوگی ۔ یہ تو تجھ پر اور تمام مخلوق پر رب کی رحمت ہوئی کہ اس نے تجھ پر اپنی پاک اور افضل کتاب نازل فرمائی ۔ اب تمہیں ہرگز کافروں کا مددگار نہ ہونا چاہئے بلکہ ان سے الگ رہنا چاہئے ۔ ان سے بیزاری ظاہر کردینی چاہیے اور ان سے مخالفت کا اعلان کر دینا چاہیے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی اتری ہوئی آیتوں سے یہ لوگ کہیں تجھے روک نہ دیں یعنی جو تیرے دین کی مخالفت کرتے ہیں اور لوگوں کو تیری تابعداری سے روکتے ہیں ۔ تو اس سے اثر پذیر نہ ہونا اپنے کام پر لگے رہنا اللہ تیرے کلمے کو بلند کرنے والا ہے تیرے دین کی تائید کرنے والا ہے تیری رسالت کو غالب کرنے والا ہے ۔ تمام دینوں پر تیرے دین کو اونچا کرنے والا ہے ۔ تو اپنے رب کی عبادت کی طرف لوگوں کو بلاتا رہ جو اکیلا اور لاشریک ہے تجھے نہیں چاہیے کہ مشرکوں کا ساتھ دے ۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکار ۔ عبادت کے لائق وہی ہے الوہیت کے قابل اسی کی عظیم الشان ذات ہے وہی دائم اور باقی ہے حی وقیوم ہے تمام مخلوق مرجائے گی اور وہ موت سے دور ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ 27۝ۚ ) 55- الرحمن:27 ) جو بھی یہاں پر ہے فانی ہے ۔ تیرے رب کا چہرہ ہی باقی رہ جائے گا جو جلالت وکرامت والاہے ۔ وجہ سے مراد ذات ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ سچا کلمہ لبید شاعر کا ہے جو اس نے کہا ہے شعر ( الا کل شئی ماخلا اللہ باطل ) یاد رکھو کہ اللہ کے سوا سب کچھ باطل ہے ۔ مجاہد وثور سے مروی ہے کہ ہر چیز باطل ہے مگر وہ کام جو اللہ کی رضا جوئی کے لئے کئے جائیں ان کا ثواب رہ جاتا ہے ۔ شاعروں کے شعروں میں بھی وجہ کالفظ اس مطلب کے لئے استعمال کیا گیا ہے ملاحظہ ہو ۔ شعر ( استغفر اللہ ذنبا لست محصیہ رب العباد الیہ الوجہ والعمل ) میں اللہ سے جو تمام بندوں کا رب ہے جس کی طرف توجہ اور قصد ہے اور جس کے لئے عمل ہیں اپنے ان تمام گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں جنہیں میں شمار بھی نہیں کرسکتا ۔ یہ قول پہلے قول کے خلاف نہیں ۔ یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ انسان کے تمام اعمال اکارت ہیں صرف ان ہی نیکیوں کے بدلے کا مستحق ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لئے کی ہوں ۔ اور پہلے قول کا مطلب بھی بالکل صحیح ہے کہ سب جاندار فانی اور زائل ہیں صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک ہے جو فنا اور زوال سے بالاتر ہے ۔ وہی اول وآخر ہے ہر چیز سے پہلے تھا اور ہر چیز کے بعد رہے گا ۔ مروی ہے کہ جب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دل کو مضبوط کرنا چاہتے تھے تو جنگل میں کسی کھنڈر کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے اور دردناک آواز سے کہتے کہ اس کے بانی کہاں ہے؟ پھر خود جواب میں یہی پڑھتے ۔ حکم وملک اور ملکیت صرف اسی کی ہے مالک ومتصرف وہی ہے ۔ اس کے حکم احکام کو کوئی رد نہیں کرسکتا ۔ روز جزا سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے ۔ وہ سب کو ان نیکیوں اور بدیوں کا بدلہ دے گا ۔ نیک کو نیک بدلہ اور برے کو بری سزا ۔ الحمد اللہ سورۃ قصص کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

851یا اس کی تلاوت اور اس کی تبلیغ و دعوت آپ پر فرض کی ہے۔ 852یعنی آپ کے مولد مکہ، جہاں سے آپ نکلنے پر مجبور کردیئے گئے تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے صحیح بخاری میں اس کی یہی تفسیر نقل ہوئی ہے۔ چناچہ ہجرت کے آٹھ سال بعد اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا اور آپ8ہجری میں فاتحانہ طور پر مکہ میں دوبارہ تشریف لے گئے۔ بعض نے معاد سے مراد قیامت لی ہے۔ یعنی قیامت والے دن آپ کو اپنی طرف لوٹائے گا اور تبلیغ رسالت کے بارے میں پوچھے گا۔ 853یہ مشرکین کے اس جواب میں ہے جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے آبائی اور روایتی مذہب سی انحراف کی بنا پر گمراہ سمجھتے تھے۔ فرمایا، میرا رب خوب جانتا ہے کہ گمراہ میں ہوں، جو اللہ کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہوں یا تم ہو، جو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو قبول نہیں کر رہے ہو ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٥] یعنی قرآن لوگوں پر پڑھ کر سنانے، قرآن کی تعلیم دینے، اس پر عمل پیرا ہو کر دوسروں کو دکھانے اور اس کی اشاعت و تبلیغ کی ذمہ داری آپ پر ڈالی ہے۔- [١١٦] معاد کے معنی ہیں عود کرنے یا لوٹنے کی جگہ بھی اور وقت بھی۔ چونکہ اس لفظ کے معنی میں کافی وسعت ہے۔ لہذا اس کی تعبیر میں اختلاف ہے۔ اکثر مفسرین سے معاد سے مراد فتح مکہ ہی لیا ہے ان کے قول کے مطابق یہ آیت مکہ سے مدینہ کو ہجرت کے دوران نازل ہوئی تھی۔ اس وقت ہی آپ کو یہ خوشخبری سنادی گئی تھی کہ آپ پھر اس شہر مکہ کو آنے والے ہیں اور یہی مفہوم ( وَاَنْتَ حِـۢلٌّ بِهٰذَا الْبَلَدِ ۝ ۙ ) 90 ۔ البلد :2) سے بھی متبادر ہوتا ہے اور بعض لوگوں نے معاد سے جنت اور اس سلسلہ میں اللہ نے آپ سے جو وعدہ کئے ہیں، یہ سب کچھ مراد لیا ہے اور بعض حضرات نے معاد سے مراد آپ کی زندگی کا آخری وقت لیا ہے۔ جبکہ پورے کا پورا جزیرۃ العرب اسلام کے زیرنگین آگیا تھا۔ اور یہ برتری آپ سے پہلے کسی شخص کو بھی حاصل نہ ہوئی تھی کہ کم از کم سیاسی طور پر ہی سارا عرب اس کے زیر نگین ہو اور پورے جزیرۃ العرب کے محض سیاسی حکمران ہی نہیں تھے بلکہ اسلام کے بغیر کوئی بھی دین جزیرۃ العرب میں باقی نہیں رہ گیا تھا۔- [١١٧] کفار مکہ جن جن القابات سے آپ کو نوازا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ تم آبائی دین کو چھوڑ کر ایک ہوگئے ہو اور یہ بات ایک دفعہ نہیں کئی بار وہ دہرا چکے تھے لہذا یہ اور ایسی ہی دیگر آیات آپ کی تسلی کے لئے مختلف اوقات میں اور مختلف سورتوں میں نازل ہوتی رہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ ۔۔ : ” مَعَادٍ “ میں تنوین تعظیم کی ہے، اس لیے ترجمہ عظیم الشان لوٹنے کی جگہ کیا گیا ہے۔ قرآن فرض کرنے سے مراد اس پر عمل اور اسے تمام دنیا کے لوگوں تک پہنچانے اور اس کے لیے جہاد کرنے کا فریضہ عائد کرنا ہے۔- لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ : پہلے فرمایا تھا : ” وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ “ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس اچھے انجام کا ذکر فرمایا اور سورت کا اختتام عظیم الشان خوش خبری کے ساتھ فرمایا، یعنی جس اللہ نے آپ پر قرآن پر عمل کا اور اس کی دعوت کا فریضہ عائد کیا ہے وہ آپ کی محنت و مشقت اور ادائیگی فرض کے نتیجہ میں آپ کو ایک عظیم الشان انجام تک پہنچانے والا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں اس طرح کہ آپ اس شہر مکہ سے ہجرت کریں گے اور دوبارہ پھر اس میں واپس آئیں گے اور اس شاندار طریقے سے آئیں گے کہ پورا جزیرۂ عرب آپ کے زیرنگین ہوگا۔ جیسا کہ صحیح بخاری (٤٧٧٣) میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس ” مَعَادٍ “ سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ چناچہ ہجرت کے آٹھویں سال اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا اور آپ فاتحانہ شان سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، اور آخرت میں عظیم الشان مقام محمود پر پہنچانے والا ہے، جس کی وجہ سے پہلے اور پچھلے سب آپ پر رشک کریں گے۔ اسے ” معاد “ اس لیے فرمایا کہ قرآن مجید میں آخرت کو سب کے لیے لوٹنے کی جگہ قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ) [ البقرۃ : ٢٨١ ] ” اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ “ اور فرمایا : (ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ) [ البقرۃ : ٢٨ ] ” پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ “ اور فرمایا : (اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ ) [ المائدۃ : ٤٨ ] ” اللہ ہی کی طرف تم سب کا لوٹ کر جانا ہے۔ “ مفسرین میں سے بعض نے ” مَعَادٍ “ سے مراد مکہ اور بعض نے جنت لی ہے، دونوں اقوال اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔- قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَاۗءَ بالْهُدٰى ۔۔ : یہ پیش گوئی کہ آپ کا رب آپ کو اسی مکہ میں فاتحانہ شان سے واپس لائے گا، کفار کے نزدیک ایسی بات تھی جو کوئی گمراہ شخص ہی کرسکتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے آنے والی بات کا جواب پہلے ہی بتادیا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ میرا رب بہتر جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کون ہے جو کھلی گمراہی میں مبتلا ہے اور بہت جلد یہ حقیقت تم پر واضح ہوجائے گی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (اور آپ کے ان مخالفین نے جو آپ کو پریشان کر کے ترک وطن پر مجبور کیا ہے جس کی اضطراری مفارقت کا آپ کو صدمہ ہے تو آپ تسلی رکھیں) جس خدا نے آپ پر قرآن (کے احکام پر عمل اور اس کی تبلیغ) کو فرض کیا ہے (جو مجموعاً دلیل ہے آپ کی نبوت کی) وہ آپ کو (آپ کے) اصلی وطن (یعنی مکہ) میں پھر پہنچا دے گا (اور اس وقت آپ آزاد اور غالب اور صاحب سلطنت ہوں گے اور ایسی حالت میں اگر دوسری جگہ قیام کے لئے تجویز کی جاتی ہے بمصلحت و با اختیار ہوتی ہے جس سے رنج نہیں ہوتا اور باوجود آپ کے تحقق نبوت کے جو یہ لوگ آپ کو غلطی پر اور اپنے کو حق پر سمجھتے ہیں تو) آپ (ان سے) فرما دیجئے کہ میرا رب خوب جانتا ہے کہ کون سچا دین لے کر (منجانب اللہ) آیا ہے اور کون صریح گمراہی میں (مبتلا) ہے (یعنی میرے حق پر ہونے اور تمہارے باطل پر ہونے کے دلائل قطعیہ موجود ہیں مگر جب ان سے کام نہیں لیتے تو اخیر جواب یہی ہے کہ خیر، خدا کو معلوم ہے وہ بتلا دے گا) اور (آپ کی یہ دولت نبوت محض خدا داد ہے حتی کہ خود) آپ کو (نبی ہونے کے قبل) یہ توقع نہ تھی کہ آپ پر یہ کتاب نازل کی جاوے گی مگر محض آپ کے رب کی مہربانی سے اس کا نزول ہوا، سو آپ (ان لوگوں کی خرافات کی طرف توجہ نہ کیجئے اور جس طرح اب تک ان سے الگ تھلگ رہے آئندہ بھی اسی طرح) ان کافروں کی ذرا تائید نہ کیجئے اور جب اللہ کے احکام آپ پر نازل ہوچکے تو ایسا نہ ہونے پاوے (جیسا اب تک بھی نہیں ہونے پایا) کہ یہ لوگ آپ کو ان احکام سے روک دیں اور آپ (بدستور) اپنے رب (کے دین) کی طرف (لوگوں کو) بلاتے رہئے اور (جس طرح اب تک مشرکوں سے کوئی تعلق نہیں رہا، اسی طرح آئندہ ہمیشہ) ان مشرکوں میں شامل نہ ہو جئے اور (جس طرح اب تک شرک سے معصوم ہیں اسی طرح آئندہ بھی) اللہ کے ساتھ کسی معبود کو نہ پکارنا (ان آیتوں میں کفار و مشرکین کو ان کی درخواستوں سے ناامید کرنا ہے اور روئے سخن ان ہی کی طرف ہے کہ تم جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دین میں موافق ہونے کی درخواست کرتے ہو اس میں کامیابی کا کبھی احتمال نہیں، مگر عادت ہے کہ جس شخص پر زیادہ غصہ ہوتا ہے اس سے بات نہیں کیا کرتے اپنے محبوب سے باتیں کر کے اس شخص کو سنایا کرتے ہیں۔ معالم میں حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ یہ خطاب صرف ظاہر میں آپ کو ہے اور مقصود آپ نہیں۔ یہاں تک رسالت کے متعلق مضمون قصداً تھا، گو توحید کا بھی ضمنًا آگیا، آگے توحید کا مضمون قصدا ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود (ہونے کے قابل) نہیں (اس لئے کہ) سب چیزیں فنا ہونے والی ہیں، بجز اس کی ذات کے پس اس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہ ٹھہرا، یہ مضمون توحید کا ہوگیا، آگے معاد کا مضمون ہے کہ) اسی کی حکومت ہے (جس کا ظہور کامل قیامت میں ہے) اور اسی کے پاس تم سب کو جانا ہے (پس سب کو ان کے کئے کی جزا دے گا یہ معاد کا مضمون بھی ختم ہوگیا۔ )- معارف و مسائل - اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ ، آخر سورت میں یہ آیات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی اور اپنے فریضہ رسالت و نبوت پر پوری طرح قائم رہنے کی تاکید کے لئے ہیں اور مناسبت اس کی سابقہ آیات سورت سے یہ ہے کہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تفصیلی قصہ فرعون اور اس کی قوم کی دشمنی اور اس سے خوف کا پھر اپنے فضل سے ان کو قوم فرعون پر غالب کرنے کا ذکر فرمایا تو آخر سورت میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایسے ہی حالات کا خلاصہ بیان فرمایا کہ کفار مکہ نے آپ کو پریشان کیا، قتل کے منصوبے بنائے، مسلمانوں کی زندگی مکہ میں اجیرن کردی مگر حق تعالیٰ نے اپنی عادت قدیمہ کے مطابق آپ کو سب پر فتح اور غلبہ نصیب فرمایا اور مکہ مکرمہ جہاں سے کفار نے آپ کو نکالا تھا وہ پھر مکمل طور پر آپ کے قبضہ میں آیا۔ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ جس ذات پاک نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے یعنی اس کی تلاوت اور تبلیغ اور اس پر عمل آپ پر فرض فرمایا ہے وہ ہی ذات آپ کو پھر معاد پر لوٹائے گی۔ معاد سے مراد مکہ مکرمہ ہے جیسا کہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابن عباس سے معاد کی یہ تفسیر منقول ہے مطلب یہ ہے کہ اگر چند روز کے لئے آپ کو اپنا وطن عزیز خصوصاً حرم اور بیت اللہ چھوڑنا پڑا مگر قرآن کا نازل کرنے والا اور اس پر عمل کو فرض کرنے والا اللہ تعالیٰ آخر کار آپ کو پھر مکہ میں لوٹا کر لائے گا۔ ائمہ تفسیر میں سے مقاتل کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کے وقت غار ثور سے رات کے وقت نکلے اور مکہ سے مدینہ جانے والے معروف راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستوں سے سفر کیا کیونکہ دشمن تعاقب میں تھے۔ جب مقام جحفہ پر پہنچے جو مدینہ طیبہ کے راستہ کی مشہور منزل رابغ کے قریب ہے اور وہاں سے وہ مکہ سے مدینہ کا معروف راستہ مل جاتا ہے اس وقت مکہ مکرمہ کے راستہ پر نظر پڑی تو بیت اللہ اور وطن یاد آیا، اسی وقت جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے جس میں آپ کو بشارت دی گئی ہے کہ مکہ مکرمہ سے جدائی چند روزہ ہے اور بالاخر آپ کو پھر مکہ مکرمہ پہنچا دیا جائے گا جو فتح مکہ کی بشارت تھی۔ اسی لئے حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ یہ آیت جحفہ میں نازل ہوئی ہے نہ مکی ہی نہ مدنی (قرطبی)- قرآن دشمنوں پر فتح اور مقاصد میں کامیابی کا ذریعہ ہے :- اس آیت میں آپ کو دوبارہ مکہ مکرمہ میں فاتحہ واپسی کی بشارت اس عنوان سے دی گئی ہے کہ جس ذات حق نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے آپ کو دشمنوں پر غالب کر کے دوبارہ مکہ مکرمہ لوٹائے گا، اس میں اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قرآن کی تلاوت اور اس پر عمل ہی اس نصرت خداوندی اور فتح مبین کا سبب ہوگی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ۝ ٠ۭ قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَاۗءَ بِالْہُدٰى وَمَنْ ہُوَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝ ٨٥- فرض - الفَرْضُ : قطع الشیء الصّلب والتأثير فيه، کفرض الحدید، وفرض الزّند والقوس، والمِفْرَاضُ والمِفْرَضُ : ما يقطع به الحدید، وفُرْضَةُ الماء : مقسمه . قال تعالی: لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء 118] ، أي : معلوما، وقیل : مقطوعا عنهم، والفَرْضُ كالإيجاب لکن الإيجاب يقال اعتبارا بوقوعه وثباته، والفرض بقطع الحکم فيه «3» . قال تعالی: سُورَةٌ أَنْزَلْناها وَفَرَضْناها[ النور 1] ، أي : أوجبنا العمل بها عليك، وقال : إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ [ القصص 85] ، أي : أوجب عليك العمل به، ومنه يقال لما ألزم الحاکم من النّفقة : فَرْضٌ. وكلّ موضع ورد ( فرض اللہ عليه) ففي الإيجاب الذي أدخله اللہ فيه، وما ورد من : ( فرض اللہ له) فهو في أن لا يحظره علی نفسه . نحو . ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب 38] ، وقوله : قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمانِكُمْ [ التحریم 2] ، وقوله : وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً [ البقرة 237] ، أي : سمّيتم لهنّ مهرا، وأوجبتم علی أنفسکم بذلک، وعلی هذا يقال : فَرَضَ له في العطاء، وبهذا النّظر ومن هذا الغرض قيل للعطية : فَرْضٌ ، وللدّين : فَرْضٌ ، وفَرَائِضُ اللہ تعالی: ما فرض لأربابها، ورجل فَارِضٌ وفَرْضِيٌّ: بصیر بحکم الفرائض . قال تعالی: فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَ إلى قوله : فِي الْحَجِّ «4» أي : من عيّن علی نفسه إقامة الحجّ «5» ، وإضافة فرض الحجّ إلى الإنسان دلالة أنه هو معيّن الوقت، ويقال لما أخذ في الصّدقة فرِيضَةٌ. قال : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ إلى قوله : فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ «1» وعلی هذا ما روي (أنّ أبا بکر الصّدّيق رضي اللہ عنه كتب إلى بعض عمّاله کتابا وکتب فيه : هذه فریضة الصّدقة التي فرضها رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم علی المسلمین) . - والفَارِضُ- : المسنّ من البقر «3» .- قال تعالی: لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة 68] ، وقیل : إنما سمّي فَارِضاً لکونه فارضا للأرض، أي : قاطعا، أو فارضا لما يحمّل من الأعمال الشاقّة، وقیل : بل لأنّ فَرِيضَةُ البقر اثنان : تبیع ومسنّة، فالتّبيع يجوز في حال دون حال، والمسنّة يصحّ بذلها في كلّ حال، فسمّيت المسنّة فَارِضَةً لذلک، فعلی هذا يكون الفَارِضُ اسما إسلاميّا .- ( ف ر ض ) الفرض ( ض ) کے معنی سخت چیز کو کاٹنے اور اس میں نشان ڈالنے کے ہیں مثلا فرض الحدید لوہے کو کاٹنا فرض القوس کمان کا چلہ فرض الزند چقماق کا ٹکڑا اور فر ضۃ الماء کے معنی در یا کا دہانہ کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء 118] میں تیرے بندوں سے ( غیر خدا کی نذر ( لو ا کر مال کا یاک مقرر حصہ لے لیا کروں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں مفروض کے معنی معین کے ہیں اور بعض نے کاٹ کر الگ کیا ہوا مراد لیا ہے ۔ اور فرض بمعنی ایجاب ( واجب کرنا ) آتا ہے مگر واجب کے معنی کسی چیز کے لحاظ وقوع اور ثبات کے قطعی ہونے کے ہیں اور فرض کے معنی بلحاظ حکم کے قطعی ہونے کے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها وَفَرَضْناها[ النور 1] یہ ایک سورة ہے جس کو ہم نے نازل کیا اور اس ( کے احکام ) کو فرض کردیا ۔ یعنی اس پر عمل کرنا فرض کردیا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ [ القصص 85] ( اے پیغمبر ) جس نے تم پر قرآن ( کے احکام ) کو فرض کیا ہے ۔۔۔۔ یعنی اس پر عمل کرنا تجھ پر واجب کیا ہے اور اسی سے جو نفقہ وغیرہ حاکم کسی کے لئے مقرر کردیتا ہے اسے بھی فرض کہا جاتا ہے اور ہر وہ مقام جہاں قرآن میں فرض علٰی ( علی ) کے ساتھ ) آیا ہے ۔ اس کے معنی کسی چیز کے واجب اور ضروری قرا ردینے کے ہیں اور جہاں ۔ فرض اللہ لہ لام کے ساتھ ) آیا ہے تو اس کے معنی کسی چیز سے بندش کود ور کرنے اور اسے مباح کردینے کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب 38] پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا ۔ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمانِكُمْ [ التحریم 2] خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ۔ اور آیت کریمہ : وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً [ البقرة 237] لیکن مہر مقررکر چکے ہو ۔ کے معنی یہ ہیں چونکہ تم ان کے لئے مہر مقرر اور اپنے اوپر لازم کرچکے ہو اور یہی معنی فرض لہ فی العطاء کے ہیں ( یعنی کسی کے لئے عطا سے حصہ مقرر کردینا ) اسی بنا پر عطیہ اور قرض کو بھی فرض کہا جاتا ہے اور فرئض اللہ سے مراد وہ احکام ہیں جن کے متعلق قطعی حکم دیا گیا ہے اور جو شخص علم فرائض کا ماہر ہوا سے فارض و فرضی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَإلى قوله : فِي الْحَجِّ تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرے تو حج ( کے کو اپنے اوپر لازم کرلیا ہو اور اس کی پختہ نیت کرلی ہو یہاں پر فرض کی نسبت انسان کی طرف کرنے میں اس بات پر دلیل ہے کہ اس کا وقت مقرر کرنا انسان کا کام ہے ( کہ میں امسال حج کرونگا یا آئندہ سال اور زکوۃ میں جو چیز وصول کی جاتی ہے اس پر بھی فریضہ کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ إلى قوله : فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ صدقات ( یعنی زکوۃ نہ خیرات ) تو مفلسوں ۔۔۔۔ کا حق ہے ( یہ ) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں ۔ اسی بنا پر مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے ایک عامل کیطرف خط لکھا اور اس میں ارقام فرمایا کہ یہ یعنی جو مقادیرلکھی جاری ہی میں فریضہ زکوۃ ہے ۔ جو رسول اللہ نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے ۔ - الفارض - عمر رسیدہ گائے یا بیل ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة 68] نہ بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا ۔ بعض نے کہا کہ بیل کو فارض اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو پھاڑ تا یعنی جو تنا ہے اور یا اس لئے کہ اس پر سختکاموں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے اور یا اس لئے کہ گائے کی زکوۃ میں تبیع اور مسنۃ لیا جاتا ہے اور تبیع کا لینا تو بعض حالتوں میں جائز ہوتا ہے اور بعض احوال میں ناجائز لیکن مسنۃ کی ادائیگی ہر حال میں ضروری ہوتی ہے اس لئے مسنۃ کو فارضۃ کہا گیا ہے اس توجیہ کی بناپر فارض کا لفظ مصطلحات اسلامیہ سے ہوگا ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- مَعادُ- والمَعادُ يقال للعود وللزّمان الذي يَعُودُ فيه، وقد يكون للمکان الذي يَعُودُ إليه، قال تعالی: إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرادُّكَ إِلى مَعادٍ- [ القصص 85] ، قيل : أراد به مكّة «3» ، والصحیح ما أشار إليه أمير المؤمنین عليه السلام وذکره ابن عباس أنّ ذلك إشارة إلى الجنّة التي خلقه فيها بالقوّة في ظهر آدم «4» ، وأظهر منه حيث قال : وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ ... الآية [ الأعراف 172] . - المعاد کے معنی لوٹنے کے ہیں اور لوٹنے کہ جگہ یا زمانہ کو بھی المعاد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرادُّكَ إِلى مَعادٍ [ القصص 85]( اے پیغمبر ) جس خدا ) نے تم پر قرآن ( کے احکام ) کو فرض کیا وہ تمہیں باز گشت کی جگہ لوٹا دیگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ معاد سے مکہ مکرمہ مراد ہے مگر اس کے صحیح معنی وہ ہیں جن کی طرف حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا ہے اور حضرت ابن عباس (رض) نے بھی ذکر کئے ہیں ۔ کہ اس سے جنت مراد ہے ۔ جس میں آنحضرت کو بالقوہ اس وقت پیدا کیا تھا جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صلب آدم (علیہ السلام) میں تھے پھر وہاں سے عالم دنیا میں لاکر آنحضرت کو دنیا پر جو اہ گر کیا گیا جیسا کہ آیت : ۔ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ ... الآية [ الأعراف 172] الایۃ میں مذکور ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٥) جس ذات نے آپ پر بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) قرآن کریم نازل کیا ہے وہ آپ کو آپ کے اصلی وطن مکہ مکرمہ میں پہنچا دے گا یا یہ کہ جنت میں تو آپ ان سے فرما دیجیے کہ میرا رب خوب جانتا ہے کہ کون توحید و قرآن کریم لے کر آیا اور کون صریح کفر اور گمراہی میں مبتلا ہے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ ان الذی فرض علیک القران “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے اور مقام حجفہ میں پہنچے تو آپ کو مکہ مکرمہ کا اشتیاق ہوا اس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی یعنی جس ذات نے آپ پر قرآن حکیم فرض کیا ہے وہ آپ کو آپ کے اصلی وطن کی طرف پھر لوٹا دے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٥ (اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ط) ” - یہاں پر فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ کے حوالے سے سورة النمل کی آیت ٩٢ کے یہ الفاظ پھر سے ذہن میں تازہ کرلیں : (وَاَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ ج) یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تم لوگوں کو قرآن سناتا رہوں۔ قرآن ہی کے ذریعے سے انذار ‘ تبشیر اور تبلیغ کا فرض ادا کرتا رہوں اور اسی کی مدد سے تمہارے نفسانی اور روحانی امراض کی شفا کے لیے کوشاں رہوں۔ گویا سورة النمل کی مذکورہ آیت میں قرآن پڑھ کر سنانے کے جس حکم کا ذکر ہے اسی کی تعبیر یہاں آیت زیر مطالعہ میں فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ کے الفاظ میں کی گئی ہے۔ یعنی قرآن کی تبلیغ و اشاعت کی ذمہ داری آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے فرض کردی ہے۔ سورة المائدۃ کی آیت ٦٧ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس ذمہ داری کا ذکر اس طرح فرمایا گیا ہے : (یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسٰلَتَہٗ ط) ” اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچا دیجیے جو کچھ نازل کیا گیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی جانب سے۔ اور اگر (بالفرض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔ “ - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ بھاری ذمہ داری اپنی امت کو منتقل کردی اور اس سلسلے میں حکم دیا : (فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَاءِبَ ) ” پس جو حاضر ہے وہ اس تک پہنچا دے جو حاضر نہیں ہے “۔ گویا یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر امتی اپنی استطاعت کے مطابق تبلیغ دین کا یہ فریضہ لازماً ادا کرے۔ اس حکم کے ذریعے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ” فریضۂ رسالت “ کا سلسلہ قیام قیامت تک دراز فرما دیا۔ چناچہ اس امت کے افراد ہونے کے ناتے سے اب یہ ذمہ داری ہم میں سے ہر ایک پر عائد ہوتی ہے۔ میں نے اپنے کتابچے ” مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق “ میں اس ذمہ داری کے مختلف پہلوؤں کی تفصیل بیان کی ہے۔ اس لحاظ سے اس ذمہ داری کے پانچ پہلو ہیں ‘ یا یوں سمجھئے کہ قرآن کے یہ پانچ بنیادی حقوق ہیں جو ہم میں سے فرداً فرداً سب کے ذمہ ہیں۔ یعنی : (١) قرآن پر ایمان لانا ‘ جیسا کہ اس پر ایمان لانے کا حق ہے۔ (٢) قرآن کی تلاوت کرنا ‘ جیسا کہ اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے۔ (٣) قرآن کو سمجھنا ‘ جیسا کہ اسے سمجھنے کا حق ہے۔ (٤) قرآن پر عمل کرنا ‘ جیسا کہ اس کا حق ہے۔ اور (٥) قرآن کی تبلیغ کرنا اور اسے دوسروں تک پہچانا ‘ جیسا کہ اس کا حق ہے۔- آیت زیر مطالعہ میں اسی ذمہ داری کے حوالے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری سنائی گئی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس اللہ نے آپ پر قرآن کی یہ بھاری ذمہ داری ڈالی ہے وہ یقیناً آپ کو لوٹائے گا لوٹنے کی بہت اچھی جگہ پر۔ مَعَاد اسم ظرف ہے عاد یَعُوْدُ سے ‘ یعنی لوٹنے کی جگہ۔ اس سے مراد آخرت بھی لی جاتی ہے اور اسی لیے ایمان بالآخرت کو ” ایمان بالمعاد “ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن اس آیت کے حوالے سے ایک رائے یہ ہے کہ یہاں ” مَعاد “ سے مراد ” مکہ “ ہے اور ان الفاظ میں گویا ہجرت کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری سنائی گئی تھی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ کی طرف لوٹادے گا۔ اس سلسلے میں جو روایات ملتی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ہجرت کے دوران جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار ثور میں تین راتیں گزارنے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو چونکہ تعاقب کا اندیشہ تھا اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احتیاطاً ایک ایسا غیر معروف پہاڑی راستہ اختیار فرمایا جو آگے جا کر مکہ سے مدینہ جانے والے معروف راستے سے مل جاتا تھا۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چلتے چلتے جب اس معروف راستے پر پہنچے تو وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بڑی جذباتی اور رقت آمیز صورت حال پیدا ہوگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راستوں کے ملاپ کی جگہ ( ) پر کھڑے تھے۔ دائیں طرف کا راستہ مدینہ کو جاتا تھا جبکہ بائیں جانب مکہ تھا۔ اس وقت مکہ اور خانہ کعبہ کی جدائی کے غم میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل سے ایک ہوک اٹھی۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس کیفیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے آپ کے اطمینان کے لیے یہ آیت نازل فرمائی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دل گرفتہ نہ ہوں ‘ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ضرور مکہ واپس لے کر آئیں گے۔ اگرچہ اب تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے مجبور ہو کر نکلے ہیں لیکن عنقریب ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل کرنے والے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق ایسی ہی کیفیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکہ سے روانگی کے وقت بھی طاری ہوئی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کعبہ سے لپٹ کر فرمایا تھا : اے کعبۃ اللہ مجھے تجھ سے بہت محبت ہے ‘ مگر میں کیا کروں ‘ یہاں کے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔- بہر حال میرے نزدیک اس آیت کا اصل مفہوم یہی ہے کہ یہاں ” مَعاد “ سے مراد آخرت اور جنت ہے۔ جیسا کہ سورة الضحیٰ میں بھی فرمایا گیا ہے : (وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی ) ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یقیناً آخرت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس دنیا کی زندگی سے بہتر ہوگی “۔ اس معنی میں یہاں پر ” مَعاد “ بطور اسم نکرہ گویا ” تفخیم شان “ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یعنی لوٹنے کی وہ جگہ بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ ہوگی۔ اس مفہوم کی مزید وضاحت سورة بنی اسرائیل کی اس آیت میں بھی ملتی ہے : (عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ) ” اُمید ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا “۔ آیت زیر مطالعہ میں اسی ” مقام محمود “ کی طرف اشارہ ہے۔ اور اس مقام (معاد) کی شان کیسی ہوگی ؟ کسی انسان کے لیے اس کا تصور بھی محال ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 107 یعنی اس قرآن کو خلق خدا تک پہنچانے اور اس کی تعلیم دینے اور اس کی ہدایت کے مطابق دنیا کی اصلاح کرنے کی ذمہ داری تم پر ڈالی ہے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 108 اصل الفاظ ہیں لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ ۔ تمہیں ایک معاد کی طرف پھیرنے والا ہے ۔ معاد کے لغوی معنی ہیں وہ مقام جس کی طرف آخر کار آدمی کو پلٹنا ہو ، اور اسے نکرہ استعمال کرنے سے اس میں خودبخود یہ مفہوم پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ مقام بڑی شان اور عظمت کا مقام ہے ، بعض مفسرین نے اس سے مراد جنت لی ہے ، لیکن اسے صرف جنت کے ساتھ مخصوص کردینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے ، کیوں نہ اسے ویسا ہی عام رکھا جائے جیسا خود اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے ، تاکہ یہ وعدہ دنیا اور آخرت دونوں سے متعلق ہوجائے ۔ سیاق عبارت کا اقتضاء بھی یہ ہے کہ اسے آخرت ہی میں نہیں اس دنیا میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر کار بڑی شان و عظمت عطا کرنے کا وعدہ سمجھا جائے ۔ کفار مکہ کے جس قول پر آیت نمبر 57 سے لے کر یہاں تک مسلسل گفتگو چلی آرہی ہے اس میں انہوں نے کہا تھا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم اپنے ساتھ ہمیں بھی لے ڈوبنا چاہتے ہو ، اگر ہم تمہارا ساتھ دیں اور اس دین کو اختیار کرلیں تو عرب کی سرزمین میں ہمارا جینا مشکل ہوجائے ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالی اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ اے نبی جس خدا نے اس قرآن کی علم برداری کا بار تم پر ڈالا ہے وہ تمہیں برباد کرنے والا نہیں ہے ، بلکہ تم کو اس مرتبے پر پہنچانے والا ہے جس کا تصور بھی یہ لوگ آج نہیں کرسکتے ۔ اور فی الواقع اللہ تعالی نے چند ہی سال بعد حضور کو اس دنیا میں ، انہی لوگوں کی آنکھوں کے سامنے تمام ملک عرب پر ایسا مکمل اقتدار عطا کر کے دکھا دیا کہ آپ کی مزاحمت کرنے والی کوئی طاقت وہاں نہ ٹھہر سکی اور آپ کے دین کے سوا کسی دین کے لیے وہاں گنجائش نہ رہی ۔ عرب کی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی نظیر اس کی موجود نہ تھی کہ پورے جزیرۃ العرب پر کسی ایک شخص بے غل و غش بادشاہی قائم ہوگئی ہو کہ ملک بھر میں کوئی اس کا مد مقابل باقی نہ رہا ہو ، کسی میں اس کے حکم سے سرتابی کا یارانہ ہو ، اور لوگ صرف سیاسی طور پر ہی اس کے حلقہ بگوش نہ ہوئ؁ ہوں بلکہ سارے دینوں کو مٹا کر اسی ایک شخص نے سب کو اپنے دین کا پیرو بھی بنا لیا ہو ۔ بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سورہ قصص کی یہ آیت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے راستہ میں نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ تعالی نے اپنے نبی سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ وہ آپ کو پھر مکہ واپس پہنچائے گا ۔ لیکن اول تو اس کے الفاظ میں کوئی گنجائش اس امر کی نہیں ۃے کہ معاد سے مکہ مراد لیا جائے ۔ دوسرے یہ سورۃ روایات کی رو سے بھی اور اپنے مضمون کی اعلی شہادت کے اعتبار سے بھی ہجرت حبشہ کے قریب زمانہ کی ہے اور یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کئی سال بعد ہجرت مدینہ کے راستہ میں اگر یہ آیت نازل ہوئی تھی تو اسے کس مناسبت سے یہاں اس سیاق و سباق میں لاکر رکھ دیا گیا ۔ تیسرے اس سیاق و سباق کے اندر مکہ کی طرف حضور کی واپسی کا ذکر بالکل بے محل نظر آتا ہے ، آیت کے یہ معنی اگر لیے جائیں تو یہ کفار مکہ کی بات کا جواب نہیں بلکہ ان کے عذر کو اور تقویت پہنچانے والا ہوگا ۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ بیشک اے اہل مکہ ، تم ٹھیک کہتے ہو ، محمد اس شہر سے نکال دیے جائیں گے ، لیکن وہ مستقل طور پر جلا وطن نہیں رہیں گے ، بلکہ آخر کار ہم انہیں اسی جگہ واپس لے آئیں گے ، یہ روایت اگرچہ بخاری ، نسائی ، ابن جریر اور دوسرے محدثین نے ابن عباس سے نقل کی ہے ، لیکن یہ ہے ابن عباس کی اپنی ہی رائے ۔ کوئی حدیث مرفوع نہیں ہے کہ اسے ماننا لازم ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

49: قرآنِ کریم میں اصل لفظ ’’معاد ‘‘استعمال ہوا ہے، بعض مفسرین کے نزدیک یہ ’’عادت‘‘ سے نکلا ہے، یعنی وہ جگہ جس میں رہنے اور آنے جانے کا اِنسان عادی اور اس سے مانُوس ہو۔ اور بعض حضرات نے اس کے معنیٰ ’’لوٹنے کی جگہ‘‘ بیان کئے ہیں۔ دونوں صورتوں میں اس سے مکہ مکرَّمہ مراد ہے، اور یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی تھی جب حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ مکرَّمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منوَّرہ تشریف لے جارہے تھے، جب جحفہ کے قریب اُس جگہ پہنچے جہاں سے مکہ مکرَّمہ کا راستہ الگ ہوتا تھا، تو آپ کو اپنے وطن سے جدائی کا اِحساس ہوا، اِس موقع پر اِس آیت کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے تسلی دی، اور وعدہ فرمایا کہ آپ کو دوبارہ اِس سرزمین میں فاتح کی حیثیت سے لایا جائے گا۔ چنانچہ آٹھ سال کی مدت میں یہ وعدہ پورا ہوگیا اور مکہ مکرَّمہ میں آپ فاتح بن کر داخل ہوئے، اور بعض مفسرین نے ’’انسیت کی جگہ‘‘ یا ’’لوٹنے کی جگہ‘‘ سے مراد جنّت لی ہے اور آیت کا مطلب یہ بتایا ہے کہ آپ کو اگرچہ اس دُنیا میں تکلیفیں پہنچ رہی ہیں، لیکن آخر کار آپ کا مقام جنّت ہے۔