Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

861یعنی نبوت سے قبل آپ کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ کو رسالت کے لئے چنا جائے گا اور آپ پر کتاب الٰہی کا نزول ہوگا۔ 862یعنی نبوت و کتاب سے سرفرازی، اللہ کی خاص رحمت کا نتیجہ ہے جو آپ پر ہوئی اس سے معلوم ہوا کہ نبوت کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جسے محنت اور سعی و کاوش سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا رہا، نبوت و رسالت سے مشرف فرماتا رہا، جیسا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سلسلہ الزہب کی آخری کڑی قرار دے کر اسے موقوف فرما دیا 863اب اس نعمت اور فضل الٰہی کا شکر آپ اس طرح ادا کریں کہ کافروں کی مدد اور ہمنوائی نہ کریں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٨] اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کسی نبی کو بھی نبوت ملنے سے پہلے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسے نبوت عطا ہوگی۔ حضرت موسیٰ کو نبوت عطا ہونے کا واقعہ قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ کہ کس طرح وہ ایک اندھیری اور ٹھنڈی رات کو راہ بھولے ہوئے آگ کی تلاش میں نکلے گئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلا کر نبوت سے سرفراز کردیا۔ بالکل یہ صورت حال آپ سے بھی غار حرا میں پیش آئی تھی۔ پہلی وحی کے بعد آپ گھبرائے ہوئے گھر پہنچے اور کہا : مجھے کپڑا اوڑھا دو ، کپڑا اوڑھا دو پھر جب ذرا گھبراہٹ دور ہوئی تو آپ نے حضرت خدیجہ سے غار حرا کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ (إنِّیْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِی) یعنی مجھے تو اپنی جان کا بھی خطرہ پڑگیا تھا پھر حضرت خدیجہ آپ کو ساتھ لے کر اپنے خالہ زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو ایک نصرانی عالم اور نیک سیرت انسان تھے۔ انہوں نے آپ کو بتلایا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ پر نازل ہوتا تھا (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف بدا الوحی)- دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہر دور کا نبی اپنے دور کا بہترین انسان ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ اسے نبوت کے لئے منتخب فرماتا ہے۔ نبوت عطا ہونے کے بعد اس کے فضل و شرف میں مزید اضافہ ہوجاتا اور ہوتا رہتا ہے۔ شریعت کا ایک اصول یہ ہے۔ (الدال علی الخیر کفاعلہ) یعنی بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا اس کے کرنے والے کی طرح ہی ہوتا ہے ۔ بمعنی اسے بھی اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کرنے والے کو ملتا ہے۔ اس لحاظ سے ہر نبی اپنی امت کے نیک اعمال بجا لانے والوں کے برابر کے اجر کا مستحق ہوتا ہے اور یہ اس کا اضافہ اجر ہوتا ہے۔ اور رسول اللہ کی امت چونکہ تمام انبیاء سے زیادہ ہے لہذا تمام انبیاء پر آپ کی افضلیت بھی ثابت ہوگئی۔ یہی وہ فضل و شرف ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَكَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا ١١٣۔ ) 4 ۔ النسآء :113) اور اللہ تعالیٰ کا آپ پر یہ فضل کہ آپ کو نبوت بھی عطا کی گئی اور کتاب بھی دی گئی ایسا فضل تھا جس کی آپ کو بالکل توقع نہیں تھی۔- [١١٩] یعنی اگر آپ کی قوم قریش اور آپ کے بھائی بند اور رشتہ دار دین کے معاملہ میں آپ کا ساتھ نہیں دے رہے بلکہ مخالفت پر اتر آئے ہیں تو اب نہ انھیں اپنا رشتہ دار سمجھو اور نہ کسی بھی معاملہ میں ان کا ساتھ دو یا ان کی حمایت کرو۔ آپ کی مدد اور حمایت کے اب وہی لوگ مستحق ہیں۔ جو آپ پر ایمان لا کر آپ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اور اللہ نے آپ پر جو اتنی بڑی مہربانی فرمائی ہے تو اس کے شکریہ کے طور پر آپ دین کے معاملہ میں اپنی قوم کی رعایت اور خاطر ہرگز نہ کیجئے۔ اور نہ ہی اپنے آپ کو ان میں کا ایک فرد شمار کیجئے۔ ہاں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت ضرور دیتے رہئے مگر احکام الٰہی میں قرابت داری کی بنا پر کوئی لچک نہ رہنے دیجئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ يُّلْقٰٓى اِلَيْكَ الْكِتٰبُ ۔۔ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں جن حالات سے گزر رہے تھے اور جس طرح کفار نے آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا جینا دو بھر کر رکھا تھا، ان حالات میں یہ پیش گوئی کہ آپ کا رب آپ کو یہاں سے ہجرت کے بعد اسی عظیم الشان مقام میں لانے والا ہے، بظاہر ایک ناممکن کام کی پیش گوئی تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطمینان دلانے کے لیے اس احسان کا ذکر فرمایا جو اس سے کہیں بڑا احسان تھا۔ فرمایا، آپ کو تعجب ہوتا ہے اور یہ بات بہت بعید نظر آتی ہے کہ آپ نہایت باعزت طریقے سے اپنے شہر میں واپس آئیں گے تو ذرا اپنی رسالت پر تو غور کریں، کبھی آپ نے سوچا بھی تھا یا دل میں یہ خیال یا آرزو بھی پیدا ہوئی تھی کہ آپ اللہ کے رسول بن جائیں گے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ نعمت عطا فرمائی اور رسالت کے لیے چن لیا جو آپ کے خیال تک میں نہ تھی، تو وہ ایسی خبر سے آپ کو کیسے محروم رکھے گا جو آپ کی خواہش ہے اور جس کا آپ شوق رکھتے ہیں۔ - 3 یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ کا سچا رسول ہونے کی بھی زبردست دلیل ہے۔ اس میں بتایا ہے کہ رسالت اور نبوت محض اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے، وہ جنھیں چنتا ہے انھیں بھی خبر نہیں ہوتی کہ ہمیں اتنی بڑی نعمت ملے گی۔ یہ نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کا طریقہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے ہی اپنی نبوت کا اشتہار شروع کردیتے ہیں۔ اس سورت میں اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت ملنے کا ذکر ہے، وہ معاملہ بھی اچانک ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کا وہم و گمان تک نہ تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھی جبریل (علیہ السلام) غار حرا میں اچانک آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا رسول ہونے کی دلیل کے طور پر کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ ایک اُمّی شخص، جس کی عمر کے چالیس سال سب کے سامنے گزرے، جو نہ لکھنا جانتا تھا نہ پڑھنا، اگرچہ صدق و امانت اور اخلاق حمیدہ سے پہلے بھی متصف تھا، مگر نہ کسی کے خیال میں یہ بات تھی نہ خود اس کے دل میں یہ امید تک پیدا ہوئی تھی کہ اسے ایسی کتاب عطا کی جائے گی جس کی ایک سورت کی مثل اللہ کے سوا پوری کائنات جمع ہو کر بھی نہیں لاسکے گی۔ چناچہ دوسری جگہ فرمایا : (وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا ۭ وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ) [ الشورٰی : ٥٢ ] ” اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح کی وحی کی، تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے اور لیکن ہم نے اسے ایک ایسی روشنی بنادیا ہے جس کے ساتھ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ دکھا تے ہیں اور بلاشبہ تو یقیناً سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ “ ایک جگہ یہ صراحت فرمائی کہ یہ غیب کی خبریں، جو ہم آپ کو وحی کر رہے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ جانتے تھے نہ آپ کی قوم، فرمایا : (تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَآ اِلَيْكَ ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا) [ ھود : ٤٩ ] ” یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا اور نہ تیری قوم۔ “- فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِيْرًا لِّـلْكٰفِرِيْنَ : اللہ تعالیٰ نے کتاب و نبوت عطا کرنے کی نعمت یاد دلانے کے بعد پانچ حکم دیے، پہلا یہ کہ آپ کی قوم قریش اور آپ کے بھائی بندوں اور رشتہ داروں میں سے جو لوگ دین کے معاملہ میں آپ کا ساتھ نہیں دے رہے، بلکہ مخالفت پر اتر آئے ہیں، آپ کسی صورت نہ ان کا ساتھ دیں نہ ان کی حمایت کریں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا كُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ يُّلْقٰٓى اِلَيْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَہِيْرًا لِّـلْكٰفِرِيْنَ۝ ٨٦ۡ- رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :- إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل - ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء .- اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- ظھیر - ، وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ 22] ، أي : معین «3» . فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ- [ القصص 86] ، وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم 4] ، وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً- [ الفرقان ] ، أي : معینا للشّيطان علی الرّحمن . وقال أبو عبیدة «1» : الظَّهِيرُ هو المَظْهُورُ به . أي : هيّنا علی ربّه کا لشّيء الذي خلّفته، من قولک :- ظَهَرْتُ بکذا، أي : خلفته ولم ألتفت إليه .- ظھیر - الظھیر۔ مدد گار ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ 22] اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے ۔ فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص 86] تو تم ہر گز کافروں کے مددگار نہ ہونا ۔ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم 4] اور ان کے علاوہ اور فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زورمارتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ کافر خدائے رحمٰن کی مخالفت میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں ظھیر کے معنی ہیں پس پشت ڈالا ہوا اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر کی مثال اس چیز کی سی ہے جسے بےوقعت سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ ظھر ت بکذا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور درخواعتناء نہ سمجھا ۔- - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٦) اور آپ کو تو یہ توقع بھی نہ تھی کہ آپ پر قرآن حکیم نازل ہوگا اور آپ نبی ہوں گے مگر محض آپ کے رب کی مہربانی سے آپ پر قرآن کریم نازل ہوا اور آپ کو نبی بنایا گیا تو آپ ان کفار کے کفر کی ذرا تائید نہ کیجیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٦ (وَمَا کُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یُّلْقٰٓی اِلَیْکَ الْکِتٰبُ ) ” - اس سے ملتا جلتا مضمون سورة النمل میں بھی آیا ہے : (وَاِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ ) - ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) قرآن تو یقیناً ایک حکیم اور علیم ہستی کی طرف سے آپ پر القا کیا گیا ہے “۔ ظاہر ہے کہ بعثت سے پہلے نہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کے امیدوار تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل کیا جائے اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے لیے کوشاں تھے۔ اس سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ایک صادق و امین ‘ شریف النفس انسان اور ایک ایماندار تاجر کی زندگی تھی۔ اور جو تاجر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس تاجرانہ زندگی کا اتباع کرتا ہے اس کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بایں الفاظ بشارت فرمائی ہے : - (اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الْاَمِیْنُ مَعَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَاءِ ) (١) یعنی وہ تاجر جو بالکل سچا ہو ‘ اپنے معاملات میں جھوٹ کی آمیزش نہ ہونے دے اور امانت دار ہو ‘ وہ (قیامت کے روز) انبیاء ‘ صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ - (اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ ) ” - یہ تو سراسر اللہ کی رحمت ‘ اس کی عطا اور مہربانی ہے کہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت کے لیے چنا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کتاب عطا فرمائی ہے۔- (فَلَا تَکُوْنَنَّ ظَہِیْرًا لِّلْکٰفِرِیْنَ ) ” - اس جملے کا درست مفہوم سمجھنے کے لیے سورة النساء کے سولہویں (١٦) رکوع کا مضمون پیش نظر رہنا چاہیے۔ اس رکوع میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش ہونے والے ایک مقدمے پر تبصرہ ہوا ہے۔ یہ ایک منافق کا مقدمہ تھا جس نے چوری کی تھی ‘ لیکن اس کے قبیلے کے لوگوں نے قبائلی عصبیت کی بنا پر اس کی بےجا حمایت کر کے چوری کا الزام ایک یہودی کے سر تھوپنے کی کوشش کی تھی۔ چناچہ سورة النساء کی آیت ١٠٩ میں متعلقہ قبیلے کے لوگوں کو تنبیہہ کی گئی کہ آج دنیا میں تو تم لوگوں نے اس کی خوب وکالت کرلی ‘ لیکن کل قیامت کے دن ایسے مجرموں کو اللہ کی پکڑ سے کون چھڑائے گا ؟ گویا مسلمانوں کو واضح طور پر بتادیا گیا کہ حق و انصاف کے سامنے خاندانی رشتوں اور قبائلی عصبیت کی کوئی اہمیت نہیں۔ - آیت زیر مطالعہ کے اس آخری جملے کا مفہوم سمجھنے کے لیے مکہّ کے اس ماحول کو بھی ذہن میں لائیے جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے سبب معاشرہ واضح طور پر دو حصوں میں بٹتا جا رہا تھا۔ رحمی و خونی رشتے منقطع ہو رہے تھے اور دوستیاں دشمنیوں میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقیقی چچا ابولہب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دشمنی کی انتہا کردی تھی۔ اس پس منظر میں آیت زیر مطالعہ کے اس آخری جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کافروں کے ساتھ اپنے رشتوں اور تعلقات کو بالکل کوئی اہمیت نہ دیں۔ عصبیت کا کوئی خفیف سا شائبہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دل کے قریب نہ پھٹکنے دیں اور ان مشرکین کے ساتھ بالکل کوئی موافقت اور ہمدردی نہ رکھیں۔ اس سے پہلے اسی سورت (القصص) کی آیت ١٧ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے بھی بالکل ایسے ہی الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ قبطی کے قتل ہوجانے کے بعد جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی توبہ قبول ہوئی تھی تو اس وقت آپ ( علیہ السلام) نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے عہد کیا تھا : (فَلَنْ اَکُوْنَ ظَہِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ ) کہ میں آئندہ کبھی بھی مجرموں کا پشت پناہ نہیں بنوں گا۔ چناچہ آیت زیر نظر میں یہی حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا جا رہا ہے کہ آپ کسی بھی حیثیت ‘ کسی بھی انداز اور کسی بھی درجے میں ان کافروں کے مددگار نہ بنیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة القصص حاشیہ نمبر : 109 یہ بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت میں پیش کی جارہی ہے جس طرح موسی علیہ السلام بالکل بے خبر تھے کہ انہیں نبی بنایا جانے والا ہے اور ایک عظیم الشان مشن پر وہ مامور کیے جانے والے ہیں ، ان کے حاشیہ خیال میں بھی اس کا ارادہ یا خواہش تو درکنار اس کی توقع تک کبھی نہ گزری تھی ، بس یکایک راہ چلتے انہیں کھینچ بلایا گیا اور نبی بنا کر وہ حیرت انگیز کام ان سے لیا گیا جو ان کی سابق زندگی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا تھا ، ٹھیک ایسا ہی معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی پیش آیا ، مکہ کے لوگ خود جانتے تھے کہ غار حرا سے جس روز آپ نبوت کا پیغام لے کر اترے اس سے ایک دن پہلے تک آپ کی زندگی کیا تھی ، آپ کے مشاغل کیا تھے ، آپ کی بات چیت کیا تھی ، آپ کی گفتگو کے موضوعات کیا تھے ، آپ کی دلچسپیاں اور سرگرمیاں کس نوعیت کی تھیں ، یہ پوری زندگی صداقت ، دیانت ، امانت اور پاکبازی سے لبریز ضرور تھی ، اس میں انتہائی شرافت ، امن پسندی ، پاس عہد ، ادائے حقوق اور خدمت خلق کا رنگ بھی غیر معمولی شان کے ساتھ نمایاں تھا ، مگر اس میں کوئی چیز ایسی موجود نہ تھی جس کی بنا پر کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ خیال گزر سکتا ہو کہ یہ نیک بندہ کل نبوت کا دعوی لے کر اٹھنے والا ہے ، آپ سے قریب ترین ربط ضبط رکھنے والوں میں ، آپ کے رشتہ داروں اور ہمسایوں اور دوستوں میں کوئی شخص یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ آپ پہلے سے نبی بننے کی تیاری کر رہے تھے ، کسی نے ان مضامین اور مسائل اور موضوعات کے متعلق بھی ایک لفظ تک آپ کی زبان سے نہ سنا تھا جو غار حرا کی اس انقلابی ساعت کے بعد یکایک آپ کی زبان پر جاری ہونے شروع ہوگئے ۔ کسی نے آپ کو وہ مخصوص زبان اور وہ الفاظ اور اصطلاحات استعمال کرتے نہ سنا تھا جو اچانک قرآن کی صورت میں لوگ آپ سے سننے لگے ، کبھی آپ وعظ کہنے کھڑے نہ ہوئے تھے ، کبھی کوئی دعوت اور تحریک لے کر نہ اٹھے تھے ، بلکہ کبھی آپ کی کسی سرگرمی سے یہ گمان تک نہ ہوسکتا تھا کہ آپ اجتماعی مسائل کے حل ، یا مذہبی اصلاح یا اخلاقی اصلاح کے لیے کوئی کام شروع کرنے کی فکر میں ہیں ، اس انقلابی ساعت سے ایک دن پہلے تک آپ کی زندگی ایک ایسے تاجر کی زندگی نظر آتی تھی جو سیدھے سادھے جائز طریقوں سے اپنی روزی کماتا ہے ، اپنے بال بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتا ہے ، مہمانوں کی تواضع ، غریبوں کی مدد اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتا ہے ، اور کبھی کبھی عبادت کرنے کے لیے خلوت میں جا بیٹھتا ہے ، ایسے شخص کا یکایک ایک عالمگیر زلزلہ ڈال دینے والی خطابت کے ساتھ اٹھنا ، ایک انقلاب انگیز دعوت شروع کردینا ، ایک نرالا لٹریچر پیدا کردینا ، ایک مستقل فلسفہ حیات اور نظام فکر و اخلاق و تمدن لے کر سامنے آجانا ، اتنا بڑا تغیر ہے جو انسانی نفسیات کے لحاظ سے کسی بناوٹ اور تیاری اور ارادی کوشش کے نتیجے میں قطعا رونما نہیں ہوسکتا ، اس لیے کہ ایسی ہر کوشش اور تیاری بہرحال تدریجی ارتقاء کے مراحل سے گزرتی ہے اور یہ مراحل ان لوگوں سے کبھی مخفی نہیں رہ سکتے جن کے درمیان آدمی شب و روز زندگی گزارتا ہو ، اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ان مراحل سے گزری ہوتی تو مکہ میں سینکڑوں زبانیں یہ کہنے والی ہوتیں کہ ہم نہ کہتے تھے ، یہ شخص ایک دن کوئی بڑا دعوی لے کر اٹھنے والا ہے ، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کفار مکہ نے آپ پر ہر طرح کے اعتراضات کیے ، مگر یہ اعتراض کرنے والا ان میں سے کوئی ایک شخص بھی نہ تھا ۔ پھر یہ بات کہ آپ خود بھی نبوت کے خواہش مند یا اس کے لیے متوقع اور منتظر نہ تھے بلکہ پوری بے خبری کی حالت میں اچانک آپ کو اس معاملہ سے سابقہ پیش آگیا ، اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے جو احادیث میں آغاز وحی کی کیفیت کے متعلق منقول ہوا ہے ، جبریل سے پہلی ملاقات اور سورہ علق کی ابتدائی آیات کے نزول کے بعد آپ غار حرا سے کانپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں ، گھر والوں سے کہتے ہیں کہ مجھے اڑھاؤ ، مجھے اڑھاؤ کچھ دیر کے بعد جب ذرا خوف زدگی کی کیفیت دور ہوتی ہے تو اپنی رفیق زندگی کو سارا ماجرا سنا کر کہتے ہیں کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے وہ فورا جواب دیتی ہیں ہرگز نہیں ، آپ کو اللہ کبھی رنج میں نہ ڈالے گا ، آپ تو قرابت داروں کے حق ادا کرتے ہیں ، بےکس کو سہارا دیتے ہیں ، بے زر کی دستگیری کرتے ہیں ، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں ، ہر کار خیر میں مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔ پھر وہ آپ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس جاتی ہیں جو ان کے چچازاد بھائی اور اہل کتاب میں سے ایک ذی علم اور راستباز آدمی تھے ۔ وہ آپ سے سارا واقعہ سننے کے بعد بلا تامل کہتے ہیں کہ یہ جو آپ کے پاس آیا تھا وہی ناموس ( کار خاص پر مامور فرشتہ ) ہے جو موسی کے پاس آتا تھا ، کاش میں جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی ۔ آپ پوچھتے ہیں کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ وہ جواب دیتے ہیں ہاں ، کوئی شخص ایسا نہیں گزرا کہ وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپ لائے ہیں اور لوگ اس کے دشمن نہ ہوگئے ہوں ۔ یہ پورا واقعہ اس حالت کی تصویر پیش کردیتا ہے جو بالکل فطری طور پر یکایک خلاف توقع ایک انتہائی غیر معمولی تجربہ پیش آجانے سے کسی سیدھے سادھے انسان پر طاری ہوسکتی ہے ۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے نبی بننے کی فکر میں ہوتے ، اپنے متعلق یہ سوچ رہے ہوتے کہ مجھ جیسے آدمی کو نبی ہونا چاہیے ، اور اس انتظار میں مراقبے کر کر کے اپنے ذہن پر زور ڈال رہے ہوتے کہ کب کوئی فرشتہ آتا ہے اور میرے پاس پیغام لاتا ہے ، تو غار حرا والا معاملہ پیش آتے ہی آپ خوشی سے اچھل پڑتے اور بڑے دم دعوے کے ساتھ پہاڑ سے اتر کر سیدھے اپنی قوم کے سامنے پہنچتے اور اپنی نبوت کا اعلان کردیتے ، لیکن اس کے برعکس یہاں حالت یہ ہے کہ جو کچھ دیکھا تھا اس پر ششدر رہ جاتے ہیں ، کانپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں ، لحاف اوڑھ کر لیٹ جاتے ہیں ، ذرا دل ٹھہرتا ہے تو بیوی کو چپکے سے بتاتے ہیں کہ آج غار کی تنہائی میں مجھ پر یہ حادثہ گزرا ہے ، معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے ، مجھے اپنی جان کی خیر نظر نہیں آتی ، یہ کیفیت نبوت کے کسی امیدوار کی کیفیت سے کس قدر مختلف ہے ۔ پھر بیوی سے بڑھ کر شوہر کی زندگی ، اس کے حالات اور اس کے خیالات کو کون جان سکتا ہے؟ اگر ان کے تجربے میں پہلے سے یہ بات آئی ہوئی ہوتی کہ یہاں نبوت کے امیدوار ہیں اور ہر وقت فرشتے کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں تو ان کا جواب ہرگز وہ نہ ہوتا جو حضرت خدیجہ نے دیا ۔ وہ کہتیں کہ میاں گھبراتے کیوں ہو جس چیز کی مدتوں سے تمنا تھی وہ مل گئی ، چلو اب پیری کی دکان چمکاؤ ، میں بھی نذرانے سنبھالنے کی تیاری کرتی ہوں ، لیکن وہ پندرہ برس کی رفاقت میں آپ کی زندگی کا جو رنگ دیکھ چکی تھیں اس کی بنا پر انہیں یہ بات سمجھنے میں ایک لمحہ کی دیر بھی نہ لگی کہ ایسے نیک اور بے لوث انسان کے پاس شیطان نہیں آسکتا ، نہ اللہ اس کو کسی بری آزمائش میں ڈال سکتا ہے ، اس نے جو کچھ دیکھا ہے وہ سراسر حقیقت ہے ۔ اور یہی معاملہ ورقہ بن نوفل کا بھی ہے ۔ وہ کوئی باہر کے آدمی نہ تھے بلکہ حضور کی اپنی برادری کے آدمی اور قریب کے رشتے سے برادر نسبتی تھے ، پھر ایک ذی علم عیسائی ہونے کی حیثیت سے نبوت اور کتاب اور وحی کو بناوٹ اور تصنع سے ممیز کرسکتے تھے ۔ عمر میں کئی سال بڑے ہونے کی وجہ سے آپ کی پوری زندگی بچپن سے اس وقت تک ان کے سامنے تھی ، انہوں نے بھی آپ کی زبان سے حرا کی سرگزشت سنتے ہی فورا کہہ دیا کہ یہ آنے والا یقینا وہی فرشتہ ہے جو موسی علیہ السلام پر وحی لاتا تھا ۔ کیونکہ یہاں بھی وہی صورت پیش آئی تھی جو حضرت موسی کے ساتھ پیش آئی تھی کہ ایک انتہائی پاکیزہ سیرت کا سیدھا سادھا انسان بالکل خالی الذہن ہے ، نبوت کی فکر میں رہنا تو درکنار اس کے حصول کا تصور تک اس کے حاشیہ خیال میں کبھی نہیں آیا ہے ، اور اچانک وہ پورے ہوش و حواس کی حالت میں علانیہ اس تجربے سے دوچار ہوتا ہے ، اسی چیز نے ان کو دو اور دو چار کی طرح بلا ادنی تامل اس نتیجہ تک پہنچا دیا کہ یہاں کوئی فریب نفس یا شیطانی کرشمہ نہیں ہے ، بلکہ اس سچے انسان نے اپنے کسی ارادے اور خواہش کے بغیر جو کچھ دیکھا ہے وہ دراصل حقیقت ہی کا مشاہدہ ہے ۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ایسا بین ثبوت ہے کہ ایک حقیقت پسند انسان مشکل ہی سے اس کا انکار کرسکتا ہے ، اسی لیے قرآن میں متعدد مقامات پر اسے دلیل نبوت کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ، مثلا سورہ یونس میں فرمایا: قُلْ لَّوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَيْكُمْ وَلَآ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ ڮ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۔ ( آیت: 16 ) اے نبی ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا تو میں کبھی یہ قرآن تمہیں نہ سناتا بلکہ اس کی خبر تک وہ تم کو نہ دیتا ۔ آخر میں اس سے پہلے ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے؟ اور سورہ شوریٰ میں فرمایا: مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا ۔ ( آیت: 52 ) اے نبی تم تو جانتے تک نہ تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے ، مگر ہم نے اس وحی کو ایک نور بنا دیا جس سے ہم رہنمائی کرتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتے ہیں ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظۃ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 21 ۔ جلد سوم ، عنکبوت حواشی 88 تا 92 ، جلد چہارم ، الشوری ، حاشیہ 84 ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 110 یعنی جب اللہ نے یہ نعمت تمہیں بے مانگے عطا فرمائی ہے تو اس کا حق اب تم پر یہ ہے کہ تمہاری ساری قوتیں اور محنتیں اس کی علمبرداری پر ، اس کی تبلیغ پر اور اسے فروغ دینے پر صرف ہوں ، اس میں کوتاہی کرنے کے معنی یہ ہوں گے کہ تم نے حق کے بجائے منکرین حق کی مدد کی ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کسی کوتاہی کا اندیشہ تھا ، بلکہ دراصل اس طرح اللہ تعالی کفار کو سناتے ہوئے اپنے نبی کو یہ ہدایت فرما رہا ہے کہ تم ان کے شور و غوغا اور ان کی مخالفت کے باوجود اپنا کام کرو اور اس کی کوئی پروا نہ کرو کہ دشمنان حق اس دعوت سے اپنے قومی مفاد پر ضرب لگنے کے کیا اندیشے ظاہر کرتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani