Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٥] لفظ وَجَعَلْنٰھَا میں ھا کی ضمیر کشی کی طرف بھی رجع ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کشتی اس طوفان کے بعد طویل مدت جودی پہاڑ پر ہی ٹکی رہی۔ لوگ اسے دیکھتے رہے اور اس سے طوفان نوح اور مجرم قوم کے انجام کی یاد تازہ ہوتی رہی۔ اور ھا کی ضمیر اس پورے قصہ قوام نوح کی طرف بھی راجع ہوسکتی ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس قوم کی سرکشی پھر ان کی سرکشی کے اس دردناک انجام کو ہم نے بعد میں آنے والے سب لوگوں کے کے لیے ایک مثالی بنادیا کہ لوگ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَصْحٰبَ السَّفِيْنَةِ : یہ واقعہ سورة ہود (٣٧ تا ٤٨) میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔- وَجَعَلْنٰهَآ اٰيَةً لِّــلْعٰلَمِيْنَ : اس جملے کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ ہم نے اس واقعہ کو تمام جہانوں کے لیے نشانی بنادیا کہ جو بھی اسے سنے اس سے عبرت حاصل کرے۔ دوسرا یہ کہ ہم نے اس کشتی کو تمام جہانوں کے لیے نشانی بنادیا کہ پانی میں غرق ہونے سے بچاؤ کا یہ طریقہ ہے۔ چناچہ اس کے بعد تمام زمانوں میں انسان نے اس کی مانند کشتیاں بنا کر غرق ہونے سے بچنے کا اور سمندر میں سفر کا بندوبست کیا۔ یہ مضمون ان آیات میں بھی بیان کیا گیا ہے : (وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا يَرْكَبُوْنَ وَاِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِيْخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ يُنْقَذُوْنَ اِلَّا رَحْمَةً مِّنَّا وَمَتَاعًا اِلٰى حِيْنٍ ) [ یٰسٓ : ٤١ تا ٤٤ ] ” اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ بیشک ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ اور ہم نے ان کے لیے اس جیسی کئی اور چیزیں بنائیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں۔ اور اگر ہم چاہیں تو انھیں غرق کردیں، پھر نہ کوئی ان کی فریاد سننے والا ہو اور نہ وہ بچائے جائیں۔ مگر ہماری طرف سے رحمت اور ایک وقت تک فائدہ پہنچانے کی وجہ سے۔ “ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” جس وقت یہ سورت اتری ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے اصحاب کافروں کی ایذاؤں سے تنگ آکر جہاز پر سوار ہو کر ملک حبشہ کی طرف گئے تھے، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ ہجرت کر آئے تب وہ جہاز والے صحابہ بھی سلامتی سے آ ملے۔ “ (موضح) گویا نوح (علیہ السلام) اور سفینۂ نوح کی تاریخ اس رنگ میں دہرائی گئی۔- تیسرا مطلب اس کا یہ ہوسکتا ہے کہ وہ کشتی صدیوں تک جودی پہاڑ کی چوٹی پر موجود رہی اور بعد کی نسلوں کو خبر دیتی رہی کہ اس سرزمین میں کبھی ایسا طوفان آیا تھا جس کی بدولت یہ اتنی بڑی کشتی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچی۔ اب بھی اخباروں میں اس کشتی کی تلاش کے لیے مہمات روانہ ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اس مطلب کی تائید اللہ کے اس فرمان سے ہوتی ہے : (وَحَمَلْنٰهُ عَلٰي ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ تَجْرِيْ بِاَعْيُنِنَا ۚ جَزَاۗءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ وَلَقَدْ تَّرَكْنٰهَآ اٰيَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ) [ القمر : ١٣ تا ١٥ ] ” اور ہم نے اسے تختوں اور میخوں والی (کشتی) پر سوار کردیا۔ جو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی، اس شخص کے بدلے کی خاطر جس کا انکار کیا گیا تھا۔ اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اسے ایک نشانی بنا کر چھوڑا، تو کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟ “ چوتھا مطلب اس کا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور کشتی میں سوار لوگوں کو نجات دی اور اس نجات کو تمام جہانوں کے لیے نشانی بنادیا، جو کئی لحاظ سے نشانی تھی، ایک یہ کہ طوفان آنے سے پہلے کشتی تیار ہوگئی، دوسرا یہ کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنا اور کشتی میں موجود تمام انسانوں اور جانوروں کی خوراک کا ذخیرہ کرلیا، تیسرا یہ کہ خوراک ختم ہونے سے پہلے پہلے پانی زمین میں جذب ہو کر خشک ہوگیا، جب کہ اتنا بڑا سمندر جو پہاڑوں کی بلندی کے برابر گہرا ہو، اتنی مدت میں کبھی خشک نہیں ہوتا، اگر اتنی جلدی پانی جذب نہ ہوتا تو ان میں سے کوئی زندہ باقی نہ رہتا، چوتھا یہ کہ وہ کشتی اتنی مدت تک ہوا کے تھپیڑوں اور خطرناک بحری جانوروں کے حملوں سے بھی محفوظ رہی۔ ان تمام باتوں میں کشتی کا یا کشتی والوں کا کچھ کمال نہ تھا، یہ ہم تھے جنھوں نے ان تمام چیزوں کا اہتمام کر کے نوح (علیہ السلام) اور کشتی والوں کو نجات دی اور اس نجات کو تمام جہانوں کے لیے نشانی بنادیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چاروں مطالب میں کوئی تضاد نہیں، چاروں بیک وقت مراد ہوسکتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَنْجَيْنٰہُ وَاَصْحٰبَ السَّفِيْنَۃِ وَجَعَلْنٰہَآ اٰيَۃً لِّــلْعٰلَمِيْنَ۝ ١٥- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور عرف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - سفن - السَّفَنُ : نحت ظاهر الشیء، كَسَفَنَ العودَ ، والجلدَ ، وسَفَنَ الرّيح التّراب عن الأرض، قال الشاعر : فجاء خفيّا يَسْفِنُ الأرض صدره والسَّفَنُ نحو النّقض لما يُسْفَنُ ، وخصّ السَّفَنُ بجلدة قائم السّيف، وبالحدیدة التي يَسْفِنُ بها، وباعتبار السَّفْنِ سمّيت السَّفِينَةُ. قال اللہ تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ [ الكهف 79] ، ثمّ تجوّز بالسفینة، فشبّه بها كلّ مرکوب سهل .- ( س ف ن ) السفن - ۔ اس کے اصل معنی چوب اور چمڑا وغیرہ کو چھیلنے کے ہیں اور سفن الریح التراب عن الارض کے معنی ہیں ہوا نے زمین سے مٹی کو گھس ڈالا شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 230 ) فجاء خفیا یسفن الارض صدرہ وہ زمین پر اپنا سینہ رگڑتے ہوئے پوشیدہ طور پر وہاں جا پہنچا ۔ اور تراشی ہوئی چیز کو سفن ( فعل بمعنی مفعول ) کہتے ہیں جیسے نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اور السفن خاص کر اس کھردرے چمڑے کو کہا جاتا ہے جس کو تلوار کے قبضہ پر لگاتے ہیں اور چوب تراشی کے اوزار کو بھی سفن کہا جاتا ہے جیسے تیشہ وغیرہ اور چھیلنے کے معنی کے لحاظ سے کشتی کا نام سفینۃ رکھا گیا ہے ۔ کیونکہ وہ بھی سطح آب کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ أَمَّا السَّفِينَةُ [ الكهف 79] لیکن کشتی ۔ پھر مجازا کشتی کے ساتھ تشبیہ دے کر ہر آرام دہ سواری کو سفینۃ کہا جاتا ہے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، - العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥) اور ہم نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور جو کشتی میں انکے ساتھ اہل ایمان تھے ان سب کو بچا لیا اور ہم نے اس کشتی کے واقعہ کو تمام جہان والوں کے لیے موجب عبرت بنایا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 24 یعنی ان لوگوں کو جو حضرت نوح پر ایمان لائے تھے اور جنہیں کشتی میں سوار ہونے کی اللہ تعالی نے اجازت دی تھی ۔ سورہ ہود میں اس کی تصریح ہے: ﱑ اِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ ۭ وَمَآ اٰمَنَ مَعَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلٌ ۔ ( ہود ۔ آیت 40 ) یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا کہ ( اے نوح ) اس کشتی میں سوار کر لے ہر قسم کے ( کے جانوروں ) میں سے ایک ایک جوڑا ، اور اپنے گھر والوں کو سوائے ان کے جنہیں ساتھ نہ لینے کا پہلے حکم دے دیا گیا ہے ، اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں ، اور اس کے ساتھ بہت ہی کم لوگ ایمان لائے تھے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 25 اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس ہولناک حقوبت کو یا اس عظیم الشان واقعہ کو بعد والوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا گیا ۔ لیکن یہاں اور سورہ قمر میں یہ بات جس طریقہ سے بیان فرمائی گئی ہے اس سے متبادر یہی ہوتا ہے کہ وہ نشان عبرت خود وہ کشتی تھی جو پہاڑ کی چوٹی پر صدیوں موجود رہی اور بعد کی نسلوں کو خبر دیتی رہی کہ اس سرزمین میں کبھی ایسا طوفان آیا تھا جس کی بدولت یہ کشتی پہاڑ پر جا ٹکی ہے ۔ سورہ قمر میں اس کے متعلق فرمایا گیا ہے: وَحَمَلْنٰهُ عَلٰي ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ ۔ تَجْرِيْ بِاَعْيُنِنَا ۚ جَزَاۗءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ ۔ وَلَقَدْ تَّرَكْنٰهَآ اٰيَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ( آیات ۔ 13 تا 15 ) اور ہم نے نوح کو سوار کیا تختوں اور میخوں والی ( کشتی ) پر ، وہ چل رہی تھی ہماری نگرانی میں اس شخص کے لیے جزا کے طور پر جس کا انکار کردیا گیا تھا اور ہم نے اسے چھوڑ دیا ایک نشانی بنا کر ، پس ہے کوئی سبق لینے والا ؟ ۔ سورہ قمر کی اس آیت کی تفسیر میں ابن جریری نے قتادہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ عہد صحابہ میں جب مسلمان الجزیرہ کے علاقہ میں گئے ہیں تو انہوں نے کوہ جودی پر ( اور ایک روایت کی رو سے باقروی نامی بستی کے قریب اس کشتی کو دیکھا ہے ۔ موجودہ زمانہ میں بھی وقتا فوقتا یہ اطلاعات اخبارات میں آتی رہتی ہیں کہ کشتی نوح کو تلاش کرنے کے لیے مہمات بھیجی جا رہی ہیں ۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بسااوقات ہوائی جہاز جب کوہستان اراراط پر سے گزرے ہیں تو ایک چوٹی پر انہوں نے ایسی چیز دیکھی ہے جو ایک کشتی سے مشابہ ہے ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ 47 ، ہود حاشیہ 46 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۂ ہود : 25 میں گذر چکا ہے۔