Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی ہے ۔ آپ کو خبر دی جاتی ہے کہ نوح علیہ السلام اتنی لمبی مدت تک اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلاتے رہے ۔ دن رات پوشیدہ اور ظاہر ہر طرح آپ نے انہیں اللہ کی دین کی طرف دعوت دی ۔ لیکن وہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں بڑھتے گئے ۔ بہت ہی کم لوگ آپ پر ایمان لائے آخرکار اللہ کا غضب ان پر بصورت طوفان آیا اور انہیں تہس نہس کردیا تو اے پیغمبر آخرالزمان آپ اپنی قوم کی اس تکذیب کو نیا خیال نہ کریں ۔ آپ اپنے دل کو رنجیدہ نہ کریں ہدایت وضلالت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ جن لوگوں کا جہنم میں جانا طے ہوچکا ہے انہیں تو کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا ۔ تمام نشانیاں گو دیکھ لیں لیکن انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا بالآخر جیسے نوح علیہ السلام کو نجات ملی اور قوم ڈوب گئی اسی طرح آخر میں غلبہ آپ کا ہے اور آپ کے مخالفین پست ہوں گے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ چالیس سال کی عمر میں نوح علیہ السلام کو نبوت ملی اور نبوت کے بعد ساڑھے نو سو سال تک آپ نے اپنی قوم کو تبلیغ کی ۔ طوفان کی عالمگیر ہلاکت کے بعد بھی نوح علیہ السلام ساٹھ سال تک زندہ رہے یہاں تک کہ بنو آدم کی نسل پھیل گئی اور دنیا میں یہ بہ بکثرت نظر آنے لگے ۔ قتادہ فرماتے ہیں نوح علیہ السلام کی عمر کل ساڑھے نو سو سال کی تھی تین سو سال تو آپ کے بےدعوت ان میں گذرے تین سو سال تک اللہ کی طرف اپنی قوم کو بلایا اور ساڑے تین سو سال بعد طوفان کے زندہ رہے لیکن یہ قول غریب ہے اور آیت کے ظاہر الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلاتے رہے ۔ عون بن ابی شداد کہتے ہیں کہ جب آپ کی عمر ساڑھے تین سو سال کی تھی اس وقت اللہ کی وحی آپ کو آئی اس کے بعد ساڑھے نو سو سال تک آپ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے رہے اس کے بعد پھر ساڑھے تین سو سال کی عمر اور پائی ۔ لیکن یہ بھی غریب قول ہے ۔ زیادہ درست قول ابن عباس کا قول نظر آتا ہے واللہ اعلم ۔ ابن عمر نے مجاہد سے پوچھا کہ نوح علیہ السلام اپنی قوم میں کتنی مدت تک رہے؟ انہوں نے کہا ساڑھے نو سو سال ۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے بعد سے لوگوں کے اخلاق ان کی عمریں اور عقلیں آج تک گھٹتی ہی چلی آئیں ۔ جب قوم نوح پر اللہ کا غضب نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اپنے نبی کو اور ایمان والوں کو جو آپ کے حکم سے طوفان سے پہلے کشتی میں سوار ہوچکے تھے بچالیا ۔ سورۃ ہود میں اس کی تفصیل گزرچکی ہے اس لئے یہاں دوبارہ وارد نہیں کرتے ۔ ہم نے اس کشتی کو دنیا کے لئے نشان بنادیا یا تو خود اس کشتی کو جیسے حضرت قتادۃ کا قول ہے کہ اول اسلام تک وہ جودی پہاڑ پر تھی ۔ یا یہ کہ کشتی کو دیکھ کر پھر پانی کے سفر کے لئے جو کشتیاں لوگوں نے بنائیں ان کو انہیں دیکھ کر اللہ کا وہ بچانا یاد آجاتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ 41؀ۙ ) 36-يس:41 ) ہماری قدرت کی نشانی ان کے لئے یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں بٹھا دیا ۔ اور ہم نے ان کے لئے اور اسی جیسی سواریاں بنادیں ۔ سورۃ الحاقہ میں فرمایا جب پانی کا طوفان آیا تو ہم نے تمہیں کشتی میں بٹھالیا ۔ اور ان کا ذکر تمہارے لئے یادگار بنادیا تاکہ جن کانوں کو اللہ نے یاد کی طاقت دی ہے وہ یاد رکھ لیں ۔ یہاں شخص سے جنس کی طرف چڑھاؤ کیا ہے ۔ جیسے آیت ( وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّـيٰطِيْنِ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيْرِ Ĉ۝ ) 67- الملك:5 ) والی آیت میں ہے کہ آسمان دنیا کے ستاروں دنیا کے ستاروں کا باعث زینت آسمان ہونا بیان فرما کر ان کی وضاحت میں شہاب کا شیطانوں کے لئے رجم ہونا بیان فرمایا ہے ۔ اور آیت میں انسان کے مٹی سے پیدا ہونے کا ذکر کرکے فرمایا ہے پھر ہم نے اسے نطفے کی شکل میں قرار گاہ میں کردیا ۔ ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں ھا کی ضمیر کا مرجع عقوبت اور سزا کو کیا جائے واللہ اعلم ( یہاں یہ خیال رہے کہ تفسیر ابن کثیر کے بعض نسخوں میں شروع تفسیر میں کچھ عبارت زیادہ ہے جو بعض نسخوں میں نہیں ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کا ساڑھے نو سو سال تک آزمایا جانا بیان کیا اور ان کے قول کو ان کی اطاعت کے ساتھ آزمانا بتلایا کہ ان کی تکذیب کی وجہ سے اللہ نے انہیں غرق کردیا ۔ پھر اس کے بعد جلادیا ۔ پھر قوم ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کا ذکر کیا کہ انہوں نے بھی اطاعت ومتابعت نہ کی پھر لوط علیہ السلام کی آزمائش کا ذکر کیا اور ان کی قوم کا حشر بیان فرمایا ۔ پھر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے واقعات سامنے رکھے پھر عادیوں ، ثمودیوں ، قارونیوں ، فرعونیوں ، ہامانیوں وغیرہ کا ذکر کیا کہ اللہ پر ایمان لانے اور اس کی توحید کو نہ ماننے کی وجہ سے انہیں بھی طرح طرح کی سزائیں دی گئیں ۔ پھر اپنے پیغمبر اعظم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین اور منافقین سے تکالیف سہنے کا ذکر کیا اور آپ کو حکم دیا کہ اہل کتاب سے بہترین طریق پر مناظرہ کریں )

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کی دعوت و تبلیغ کی عمر ان کی پوری عمر کتنی تھی ؟ اس کی صراحت نہیں کی گئی۔ بعض کہتے ہیں چالیس سال نبوت سے قبل اور ساٹھ سال طوفان کے بعد، اس میں شامل کر لئے جائیں۔ اور بھی کئی اقوال ہیں۔ واللہ اعلم۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٤] پچھلی آیات میں ان کفار کا ذکر ہو رہا تھا جو دور نبوی میں رسول اللہ کے مخاطب اور مخالف تھے۔ آگے بعض دوسرے انبیاء اور ان کے مخالفین کا ذکر آرہا ہے اور ایسے واقعات کا آغاز حضرت نوح سے کیا جارہا ہے۔ حضرت نوح کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ نو سو پچاس برس آپ نے اپنی قوم کو تبلیغ کی پھر طوفان نوح کے بعد آپ ساٹھ برس زندہ رہے۔ اس لحاظ سے آپ کی کل عمر ایک ہزار پچاس برس بنتی ہے اور اپنی عمر کا بیشتر حصہ آپ نے اپنی قوم کو سمجھانے اور ان سے بحث وجدال میں گزارا۔ وہ لوگ گویا ان کفار مکہ سے بھی زیادہ بدبخت تھے۔ انہوں نے حضرت نوح کو اس قدر پریشان کیا اور ناک میں دم کردیا تھا کہ نوح نے ان سے تنگ آکر اور ان سے سخت مایوس ہو کر اللہ سے بددعا کی تھی کہ یا اللہ ان پر ایسی تباہی نازل فرما کہ ان میں سے ایک گھرانہ بھی زندہ نہ بچے۔ چناچہ اللہ نے طوفان کے ذریعہ اس قوم کو تباہ کر ڈالا۔ اور یہ واقعہ پہلے کئی مقامات پر تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ : سورت کے آغاز میں جو فرمایا تھا کہ ہم نے پہلے لوگوں کی بھی آزمائش کی، اس کی کچھ تفصیل کے لیے ان پیغمبروں کا ذکر فرمایا جنھوں نے لمبے عرصے تک آزمائش پر صبر کیا اور قوم کی طرف سے بیشمار اذیتوں کے باوجود ان کی خیر خواہی میں اور انھیں دعوت دینے میں کمی نہیں کی۔ مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے نقش قدم پر چلنے والوں کو تسلی دینا ہے۔ ان واقعات کا آغاز نوح (علیہ السلام) سے فرمایا، کیونکہ وہ پہلے رسول ہیں جو زمین والوں کی طرف بھیجے گئے۔ نوح (علیہ السلام) کا ذکر قرآن مجید میں تینتالیس (٤٣) جگہ آیا، ان واقعات میں انبیاء اور اہل ایمان کی آزمائش کا ذکر بھی ہے اور اس بات کا بھی کہ کافر اس گمان میں نہ رہیں کہ وہ ہماری گرفت سے بچ نکلیں گے۔ نوح (علیہ السلام) کے متعلق مزید دیکھیے سورة آل عمران (٣٣) ، نساء (١٦٣) ، انعام (٨٤) ، اعراف (٥٩ تا ٦٤) ، یونس (٧١ تا ٧٣) ، انبیاء (٧٦، ٧٧) ، مومنون (٢٣ تا ٣٠) ، فرقان (٣٧) ، شعراء (١٠٥ تا ١٢٢) ، صافات (٧٥ تا ٨٢) ، قمر (٩ تا ١٥) ، حاقہ (١١، ١٢) اور سورة نوح مکمل۔- فَلَبِثَ فِيْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا : نوح (علیہ السلام) کی اپنی قوم کو سمجھانے کی مدت ساڑھے نو سو (٩٥٠) سال تھی۔ ظاہر ہے کہ منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے بھی انھوں نے عمر کا ایک حصہ گزارا ہوگا اور طوفان کے بعد بھی زندہ رہے ہوں گے۔ مفسرین کے ان کی کل عمر کے متعلق مختلف اقوال ہیں، مگر صحت سند کے ساتھ کوئی بات ثابت نہیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ نوح (علیہ السلام) کے اپنی قوم میں رہنے کی مدت بیان کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب یہ ہے کہ اس میں دو فائدے ہیں، ایک یہ کہ کفار کے اسلام قبول نہ کرنے اور کفر پر اڑے رہنے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل تنگ ہوتا تھا، آپ کی تسلی کے لیے فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) تقریباً ہزار برس دعوت دیتے رہے، جس کے نتیجے میں ان کی قوم میں بہت تھوڑے لوگ ہی ایمان لائے، اس کے باوجود وہ نہ اکتائے، نہ انھوں نے دعوت دینا ترک کیا، تو آپ کا زیادہ حق بنتا ہے کہ صبر کریں، کیونکہ آپ ان کے مقابلے میں بہت تھوڑا عرصہ ان میں رہے ہیں اور آپ پر ایمان لانے والے کہیں زیادہ ہیں۔ دوسرا فائدہ کفار کو تنبیہ ہے کہ انھیں عذاب میں تاخیر سے کسی دھوکے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہزار برس کی مہلت بھی دے دیا کرتا ہے، مگر کفر پر اصرار کرنے والی قوم پر آخر کار اس کا عذاب آجاتا ہے، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم جب ظلم وتعدی سے باز نہ آئی تو طوفان نے انھیں آلیا۔ ” فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ “ سے ظاہر ہے کہ طوفان کا باعث ان کا ظلم پر اصرار تھا، اگر وہ توبہ کرلیتے تو ان پر عذاب نہ آتا۔ - 3 بعض لوگوں کو نوح (علیہ السلام) کی اتنی عمر پر تعجب ہوتا ہے، مگر اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح قرآن مجید میں نوح (علیہ السلام) کی طویل عمر کا ذکر ہے، صحیح حدیث کے مطابق انسان کی پیدائش کی ابتدا میں اس کا قد بھی آج کے قد سے کہیں لمبا تھا۔ مدت ہائے دراز گزرنے کے ساتھ دونوں میں کمی آتی گئی۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہِ ، طُوْلُہُ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا۔۔ فَکُلُّ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ آدَمَ ، فَلَمْ یَزَلِ الْخَلْقُ یَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّی الْآنَ ) [ بخاري، الاستئذان، باب بدء السلام : ٦٢٢٧ ] ” اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس کی صورت پر پیدا کیا، اس کا طول (قد) ساٹھ ہاتھ تھا۔۔ تو جو شخص بھی جنت میں جائے گا آدم کی صورت پر ہوگا۔ پھر بعد میں اب تک خلقت (کا قد) کم ہوتا چلا گیا ۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف (پیغمبر بنا کر) بھیجا سو وہ ان میں پچاس سال کم ایک ہزار برس رہے (اور قوم کو سمجھاتے رہے) پھر (جب اس پر بھی وہ لوگ ایمان نہ لائے تو) ان کو طوفان نے آ دبایا اور وہ بڑے ظالم لوگ تھے (کہ اتنی مدت دراز کی فرمائش سے بھی متاثر نہ ہوئے) پھر (اس طوفان آنے کے بعد) ہم نے ان کو اور کشتی والوں کو (جو ان کے ساتھ سوار تھے اس طوفان سے) بچا لیا اور ہم نے اس واقعہ کو تمام جہان والوں کے لئے (جن کو تواتر کے ساتھ خبر پہنچی) موجب عبرت بنایا (کہ غور کر کے سمجھ سکتے ہیں کہ مخالفت حق کا کیا انجام ہے) اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے (جو کہ بت پرست تھے) فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو (اور ڈر کر شرک چھوڑ دو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم کچھ سمجھ رکھتے ہو (بخلاف طریقہ شرک کے کہ محض بےوقوفی ہے کیونکہ) تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر محض بتوں کو (جو بالکل عاجز اور ناکارہ ہیں) پوج رہے ہو اور (اس کے متعلق) جھوٹی باتیں تراشتے ہو، (کہ ان سے ہماری روزی روزگار کی کار برآری ہوتی ہے اور یہ محض جھوٹ ہے کیونکہ) تم خدا کو چھوڑ کر جن کو پوج رہے ہو وہ تم کو کچھ بھی رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے، سو تم لوگ رزق خدا کے پاس سے تلاش کرو، (یعنی اس سے مانگو، مالک رزق وہی ہے) اور (جب مالک رزق وہی ہے تو) اسی کی عبادت کرو اور (چونکہ پچھلا رزق بھی اسی کا دیا ہوا ہے تو) اسی کا شکر کرو (ایک تو سبب وجوب عبادت کا یہ ہے کہ وہ مالک نفع کا ہے) اور (دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ مالک ضرر کا بھی ہے چنانچہ) تم سب کو اسی کی طرف لوٹ جانا ہے (اس وقت کفر پر تم کو سزا دے گا) اور اگر تم (ان باتوں میں) مجھ کو جھوٹا سمجھو تو (یاد رکھو کہ میرا کوئی ضرر نہیں) تم سے پہلے بھی بہت سی امتیں (اپنے پیغمبروں کو) جھوٹا سمجھ چکی ہیں (مگر ان پیغمبروں کا کوئی ضرر نہیں ہوا) اور (وجہ اس کی یہ ہے کہ) پیغمبر کے ذمہ تو صرف (بات کا) صاف طور پر پہنچا دینا ہے (منوانا اس کا کام نہیں پس سب انبیاء تبلیغ کے بعد سبکدوش ہوگئے، اسی طرح میں بھی، پس ہم کو کوئی ضرر نہیں پہنچا۔ البتہ ماننا تمہارے ذمہ واجب تھا اس کے ترک سے تمہارا ضرر ضرور ہوا۔- معارف و مسائل - سابقہ آیات میں کفار کی مخالفت اور ان کی ایذاؤں کا بیان تھا جو مسلمانوں کو پہنچتی رہتی ہیں۔ آیات صدر میں اس طرح کے واقعات پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے انبیاء سابقین اور ان کی امتوں کے چھ حالات کا بیان ہے، کہ قدیم سے یہ سلسلہ اہل ہدایت کو کفار کی طرف سے ایذاؤں کا جاری ہے۔ مگر ان تکلیفوں کی وجہ سے انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری، اس لئے آپ بھی ایذاء کفار کی پرواہ نہ کریں، اپنے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں مضبوطی سے کام کرتے رہیں۔- انبیاء سابقین میں سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ ذکر فرمایا، اول تو اس وجہ سے کہ وہ ہی سب سے پہلے پیغمبر ہیں جن کو کفر و شرک کا مقابلہ کرنا پڑا۔ دوسرے اس لئے بھی کہ جتنی ایذائیں اپنی قوم سے ان کو پہنچیں وہ کسی دوسرے پیغمبر کو نہیں پہنچیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عمر طویل دینے کا خصوصی امتیاز عطا فرمایا، اور ساری عمر کفار کی ایذاؤں میں بسر ہوئی، ان کی عمر قرآن کریم میں جو نو سو پچاس سال مذکور ہے وہ تو قطعی اور یقینی ہے ہی، بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ یہ عمر زمانہ تبلیغ و دعوت کی ہے اور اس سے پہلے اور طوفان کے بعد مزید عمر کا ذکر ہے۔ واللہ اعلم - بہرحال اتنی غیر معمولی طویل عمر مسلسل دعوت و تبلیغ میں صرف کرنا اور ہر تبلیغ و دعوت کے وقت کفار کی طرف سے طرح طرح کی ایذائیں مار پیٹ اور گلا گھونٹنے کی سہتے رہنا اور ان سب کے باوجود کسی وقت ہمت نہ ہارنا یہ سب خصوصیات حضرت نوح (علیہ السلام) کی ہیں۔- دوسرا قصہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا جو بڑے بڑے سخت امتحانات سے گذرے ہیں۔ آتش نمرود، پھر ملک شام سے ہجرت کر کے ایک لق و دق جنگل بےآب وگیاہ کا قیام، پھر صاحبزداے کے ذبح کرنے کا واقعہ وغیرہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے قصہ کے ضمن میں حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی امت کے واقعات اور آخر سورة تک دوسرے بعض انبیاء اور ان کی سرکش امتوں کے حالات کا سلسلہ یہ سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت محمدیہ کی تسلی کے لئے اور ان کو دین کے کام پر ثابت قدم رکھنے کے لئے بیان ہوا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِيْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا۝ ٠ ۭ فَاَخَذَہُمُ الطُّوْفَانُ وَہُمْ ظٰلِمُوْنَ۝ ١٤- رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- عام - العَامُ کالسّنة، لکن كثيرا ما تستعمل السّنة في الحول الذي يكون فيه الشّدّة أو الجدب . ولهذا يعبّر عن الجدب بالسّنة، والْعَامُ بما فيه الرّخاء والخصب، قال : عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] ، وقوله : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً- [ العنکبوت 14] ، ففي كون المستثنی منه بالسّنة والمستثنی بِالْعَامِ لطیفة موضعها فيما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، - ( ع و م ) العام ( سال ) اور السنۃ کے ایک ہی معنی ہیں ۔ لیکن السنۃ کا لفظ عموما اس سال پر بولا جاتا ہے جس میں تکلیف یا خشک سالی ہو اس بنا پر قحط سالی کو سنۃ سے تعبیر کرلیتے ہیں اور عامہ اس سال کو کہا جاتا ہے جس میں وسعت اور فروانی ہو قرآن پاک میں ہے : ۔ عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف 49] اس کے بعد ایک ایسا سال آئیگا جس میں خوب بارش ہوگی اور لوگ اس میں نچوڑیں گے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے ۔ میں لفظ سنۃ کو مستثنی منہ اور لفظ عام کو مستثنی لانے میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد کسی دوسرے موقع پر بیان کریں گے انشا اللہ - ۔ أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔- لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- طُّوفَانُ- والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت 14] - الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب نے آپکڑا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤) ہم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف رسول بناکر بھیجا سو وہ اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تک توحید کی طرف بلاتے رہے مگر اس کے باوجود بھی وہ لوگ ایمان نہیں لائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو طوفان کے ذریعے سے ہلاک کردیا وہ بڑے کافر تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

یہاں سے سورت کے دوسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ حصہ تین رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس میں بنیادی طور پر انباء الرسل کا مضمون ہے ‘ لیکن وقفے وقفے سے بین السطور میں مکہ کے ماحول میں جاری کش مکش کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔ اس کے بعد آخری تین رکوعوں پر مشتمل اس سورت کے آخری حصے میں مشرکین اور اہل ایمان سے خطاب ہے۔ یہ دو نوں موضوعات سورت کے آخری حصے میں یوں متوازی چلتے نظر آتے ہیں جیسے ایک رسی کی دو ڈوریاں آپس میں گندھی ہوئی ہوں۔ ان میں سے کبھی ایک ڈوری نمایاں ہوتی نظر آتی ہے تو کبھی دوسری۔ سورت کے اس حصے میں اہل ایمان سے خطاب کے دوران انہیں دس اہم ہدایات بھی دی گئی ہیں جو غلبۂ دین کی جدوجہد کرنے اور اس راستے میں مصائب و مشکلات برداشت کرنے والے مجاہدین کے لیے رہتی دنیا تک گویا مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں۔- آیت ١٤ (وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا ط) ” - یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کے درمیان ساڑھے نو سو سال تک رہے۔ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر قرآن مجید میں متعدد بار آچکا ہے لیکن یہ بات اور کہیں نہیں کہی گئی کہ انہوں نے ساڑھے نو سو سال کا طویل عرصہ اپنی قوم کے ساتھ گزارا۔ اگر ہم مکہ کے ان حالات کا نقشہ ذہن میں رکھیں جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی تھی اور پہلے رکوع کا مضمون بھی مد نظرّ رکھیں تو حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت اور جدوجہد کے ساڑھے نو سو سال کے ذکر کی وجہ صاف نظر آجاتی ہے اور بین السطور میں یہاں جو پیغام دیا جا رہا ہے وہ اقبال کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے : ؂- یہ موج پریشاں خاطر کو پیغام لب ساحل نے دیا - ہے دور وصال بحر ابھی ‘ تو دریا میں گھبرا بھی گئی - کہ اے مسلمانو تم لوگ چند برس میں ہی گھبرا گئے ہو۔ ذرا ہمارے بندے نوح (علیہ السلام) کی صدیوں پر محیط جاں گسل جدوجہد کا تصور کرو اور پھر ان کے صبر و استقامت کا اندازہ کرو چناچہ تم لوگوں کو اس راستے میں مزید امتحانات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے : ؂- ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں (اقبال)- سورۃ الانعام میں اسی حوالے سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے یوں فرمایا گیا ہے : (وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰیٓ اَتٰٹہُمْ نَصْرُنَاج ولاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِج وَلَقدْ - جَآءَ کَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ ) ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بھی رسولوں ( علیہ السلام) کو جھٹلایا گیا ‘ تو انہوں نے اس تکذیب پر صبر کیا ‘ اور انہیں ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ان تک ہماری مدد پہنچ گئی۔ اور (دیکھئے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اللہ کے ان کلمات کو بدلنے والا کوئی نہیں ‘ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رسولوں ( علیہ السلام) کی خبریں تو آ ہی چکی ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 21 تقابل کے لیے ملاحظۃ ہو آل عمران آیات 33 ۔ 34 ۔ النساء ، 163 ۔ الانعام 84 ۔ الاعراف 59 تا 64 ۔ یونس 71 ۔ 73 ۔ ہود 25 ۔ 48 ۔ الانبیاء 76 ۔ 77 ۔ المومنون 23 ۔ 30 ۔ الفرقان 37 ۔ الشعرا 105 تا 123 ۔ الصافات 75 ۔ 82 ۔ القمر 9 ۔ 15 ۔ الحاقہ 11 ۔ 12 ۔ نوح مکمل ۔ یہ قصے یہاں جس مناسبت سے بیان کیے جارہے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے سورہ کی ابتدائی آیات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے وہاں ایک طرف اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ان سب اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالا ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ۔ دوسری طرف ظالم کافروں سے فرمایا گیا ہے کہ تم اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ تم ہم سے بازی لے جاؤ گے اور ہماری گرفت سے بچ نکلو گے ۔ انہی دو باتوں کو ذہن نشین کرنے کے لیے یہ تاریخی واقعات بیان کیے جارہے ہیں ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 22 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضرت نوح کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے کے بعد سے طوفان تک پورے ساڑھے نو سو برس حضرت نوح اس ظالم و گمراہ قوم کی اصلاح کے لیے سعی فرماتے رہے ، اور اتنی طویل مدت تک ان کی زیادتیاں برداشت کرنے پر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری ، یہی چیز یہاں بیان کرنی مقصود ہے ۔ اہل ایمان کو بتایا جارہا ہے کہ تم کو تو ابھی پانچ سات برس ہی ظلم و ستم سہتے اور ایک گمراہ قوم کی ہٹ دھرمیاں برداشت کرتے گزرے ہیں ۔ ذرا ہمارے اس بندے کے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کو دیکھو جس نے مسلسل ساڑھے نو صدیوں تک ان شدائد کا مقابلہ کیا ۔ حضرت نوح کی عمر کے بارے میں قرآن مجید اور بائیبل کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ بائیبل کا بیان یہ ہے کہ ان کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی ۔ وہ چھ سو برس کے تھے جب طوفان آیا ۔ اور اس کے بعد ساڑھے تین سو برس اور زندہ رہے ( پیدائش ، باب7 ۔ آیت 6 ۔ باب 9 ۔ آیت 28 ۔ 29 ) لیکن قرآن کے بیان کی رو سے ان کی عمر کم از کم ایک ہزار سال ہونی چاہیے کیونکہ ساڑھے نو سو سال تو صرف وہ مدت ہے جو نبوت پر مامور ہونے کے بعد سے طوفان برپا ہونے تک انہوں نے دعوت و تبلیغ میں صرف کی ۔ ظاہر ہے کہ نبوت انہیں پختہ عمر کو پہنچنے کے بعد ہی ملی ہوگی ۔ اور طوفان کے بعد بھی وہ کچھ مدت زندہ رہے ہوں گی ۔ یہ طویل عمر بعض لوگوں کے لیے ناقابل یقین ہے ۔ لیکن خدا کی اس خدائی میں عجائب کی کمی نہیں ہے ، جس طرف بھی آدمی نگاہ ڈالے اس کی قدرت کے کرشمے غیر معمولی واقعات کی شکل میں نظر آجاتے ہیں ۔ کچھ واقعات و حالات کا اولاد ایک خاص صورت میں رونما ہوتے رہنا اس بات کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس معمول سے ہٹ کر کسی دوسری غیر معمولی صورت میں کوئی واقعہ رونما نہیں ہوسکتا ۔ اس طرح کے مفروضات کو توڑنے کے لیے کائنات کے ہر گوشے میں اور مخلوقات کی ہر صنف میں خلاف معمول حالات و واقعات کی ایک طویل فہرست موجود ہے ۔ خصوصیت کے ساتھ جو شخص خدا کے قادر مطلق ہونے کا واضح تصور اپنے ذہن میں رکھتا ہو وہ تو کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ کسی انسان کو ایک ہزار برس یا اس سے کم و بیش عمر عطا کردینا اس خدا کے لیے بھی ممکن نہیں ہے جو موت و حیات کا خالق ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر خود چاہے تو ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رہ سکتا ۔ لیکن اگر خدا چاہے تو جب تک وہ چاہے اسے زندہ رکھ سکتا ہے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 23 یعنی طوفان ان پر اس حالت میں آیا کہ وہ اپنے ظلم پر قائم تھے ۔ دوسرے الفاظ میں اگر وہ طوفان آنے سے پہلے اپنے ظلم سے باز آجاتے تو اللہ تعالی ان پر یہ عذاب نہ بھیجتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani