Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

131یعنی یہ ائمہ کفر اور داعیان ضلال اپنا ہی بوجھ نہیں اٹھائیں گے، بلکہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ان پر ہوگا جو انکی سعی و کاوش سے گمراہ ہوئے تھے۔ یہ مضمون سورة النحل میں بھی گزر چکا ہے۔ حدیث میں ہے، جو ہدایت کی طرف بلاتا ہے، اس کے لئے اپنی نیکیوں کے اجر کے ساتھ ان لوگوں کی نیکیوں کا اجر بھی ہوگا جو اس کی وجہ سے قیامت تک ہدایت کی پیروی کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو۔ اور جو گمراہی کا داعی ہوگا اس کے لئے اپنے گناہوں کے علاوہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ہوگا جو قیامت تک اس کی وجہ سے گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والے ہونگے۔ ، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کمی ہو۔ اسی اصول سے قیامت تک ظلم سے قتل کیے جانے والوں کے خون کا گناہ آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے (قابیل) پر ہوگا۔ اس لیے کہ سب سے پہلے اسی نے ناحق قتل کیا تھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٢] البتہ یوں ہوسکتا ہے کہ اگر ان لوگوں کے بہکانے سے کوئی شخص گمراہ ہوگیا تو گمراہ ہونے والے کو اپنی گمراہی کا عذاب دیا جائے گا۔ اور گمراہ کرنے والے کو دوہرا عذاب اس شکل میں ہوتا کہ ایک تو اسے اپنی گمراہی کی سزا بھگتنا ہوگی اور دوسرے اس گمراہ ہونے والے شخص کا حصہ رسدی عذاب اسے بھی دیا جائے گا جسے اس نے گمراہ کردیا تھا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث اس مضمون کو پوری طرح واضح کر رہی ہے :- منذر بن جریر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کیا اس کے لئے اس کے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کریں ان کا بھی ثواب ہے اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ اور جس نے اسلام میں کوئی بری طرح ڈالی اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس برے طریقہ پر عمل کریں۔ لیکن عمل کرنے والوں کے بوجھ میں کچھ کمی نہ ہوگی (مسلم۔ کتاب الزکوٰ ۃ۔ باب الحث علی الصدقہ۔۔ )- [ ٢٣] مشرکوں کا یہ قول اللہ پر اقتراء اس لحاظ سے ہے کہ انہوں نے دراصل اللہ کے بتلائے ہوئے عقیدہ آخرت، باز پرس اور گناہوں کی سزا ان سب باتوں کا مذاق ارایا تھا۔ جس سے اللہ کی آیات کی بھی تکذیب ہوتی تھی اور اس کے رسول کی بھی۔ یعنی ان مشرکوں کے اپنے شرکیہ کارناموں کے علاوہ یہ اللہ پر افتراء کا جرم مزید اضافہ ہے اور اس جرم کی ان سے باز پرس بھی ہوگی اور عذاب بھی ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ : یعنی یہ جھوٹے ہیں، ان کا بوجھ رتی برابر ہلکا نہیں کرسکتے، ہاں اپنا بوجھ بھاری کر رہے ہیں، ایک تو یہ اپنے ذاتی گناہوں کا بوجھ اٹھائیں گے اور دوسرا اس کے ساتھ ان لوگوں کے گناہوں کا بھی جنھیں انھوں نے گمراہ کیا تھا، اگرچہ ان کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ (دیکھیے نحل : ٢٥) ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ دَعَا إِلٰی ہُدًی کَانَ لَہُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُوْرِ مَنْ تَبِعَہُ لَا یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ أُجُوْرِہِمْ شَیْءًا وَمَنْ دَعَا إِلٰی ضَلَالَۃٍ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الإِْثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَہُ لَا یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ آثَامِہِمْ شَیْءًا ) [ مسلم، العلم، باب من سنّ سنۃ حسنۃ أو سیءۃ۔۔ : ٢٦٧٤ ] ” جو شخص ہدایت کے کسی کام کی طرف دعوت دے اسے ان لوگوں کے اجروں جیسا اجر ملے گا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے اجروں میں کچھ کمی نہیں کرے گا اور جو شخص گمراہی کے کسی کام کی طرف دعوت دے اس پر ان لوگوں کے گناہوں جیسا گناہ ہوگا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے گناہوں میں کچھ کمی نہیں کرے گا۔ “ عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلاَّ کَانَ عَلَی ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ کِفْلٌ مِنْ دَمِہَا، لِأَنَّہُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم و ذریتہ : ٣٣٣٥ ] ” کوئی جان ظلم سے قتل نہیں کی جاتی مگر آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے پر اس کے خون کا ایک حصہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کا طریقہ شروع کیا۔ “- وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۔۔ : یعنی جو جھوٹی باتیں یہ بناتے ہیں کہ ہم تمہارا بوجھ اٹھا لیں گے یہ خود مستقل گناہ ہے، اس افترا کی بھی انھیں سزا ملے گی۔ جس میں ان سے کی جانے والی بازپرس بھی ہوگی، جو بجائے خود نہایت خوفناک مرحلہ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَہُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ۝ ٠ۡوَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ۝ ١٣ۧ- ثقل - الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی - ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح - ( ث ق ل ) الثقل - یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، - اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے - سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- قِيامَةُ- والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ- [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ،- القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔- فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٣) اور یہ لوگ قیامت کے دن اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور ان کے ساتھ ہی ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہے اور قیامت کے دن ان سے یہ لوگ جو جھوٹی باتیں بناتے تھے اس کی باز پرس ہوگی

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَہُمْ وَاَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْز) ” - یعنی آخرت میں یہ لوگ صرف اپنی گمراہی کی سزا ہی نہیں بھگت رہے ہوں گے بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کو گمراہ کرنے کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا ہوگا۔ لیکن اے اہل ایمان اگر تم میں سے کوئی خطا کرے گا تو اس کے لیے وہ خود ہی جوابدہ ہوگا۔ تمہاری کسی خطا کا بوجھ یہ لوگ نہیں اٹھا سکیں گے۔- (وَلَیُسْءَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) ” - اس آیت میں تاکید کا پھر وہی انداز ہے (لام مفتوح اور نون مشدد) جو اس سے پہلے آیات ٣ ‘ ٧ اور ١١ میں آچکا ہے۔ یعنی قیامت کے دن دوسروں کی خطاؤں کا بوجھ اٹھانے کا یہ دعویٰ ان کا خود ساختہ جھوٹ ہے اور اس دن اپنی اس افترا پردازی کا بھی انہیں حساب دینا پڑے گا۔ اس سلسلے میں اللہ کا اٹل فیصلہ اور قانون بہر حال یہ ہے : (وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط) (الاسراء : ١٥) کہ اس دن کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ - اس سورت کی ابتدائی بارہ آیات (پہلی آیت حروف مقطعات پر مشتمل ہے) اپنے مضمون کے اعتبار سے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ چناچہ کسی بھی دینی انقلابی تحریک کے کارکنوں کو چاہیے کہ ان آیات کو حرز جان بنا لیں اور ان میں درج ہدایات و فرمودات کو اپنے قلوب و اذہان میں پتھر پر لکیر کی مانند کندہ کرلیں ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 19 یعنی وہ خدا کے ہاں اگرچہ دوسروں کا بوجھ تو نہ اٹھائیں گے لیکن دوہرا بوجھ اٹھانے سے بچیں گے بھی نہیں ، ایک بوجھ ان پر خود گمراہ ہونے کا لدے گا اور دوسرا بوجھ دوسروں کو گمراہ کرنے کا بھی ان پر لادا جائے گا ۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص خود بھی چوری کرتا ہے اور کسی دوسرے شخص سے بھی کہتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ چوری کے کام میں حصہ لے ۔ اب اگر وہ دوسرا شخص اس کے کہنے سے چوری کرے گا تو کوئی عدالت اسے اس بنا پر نہ چھوڑ دے گا کہ اس نے دوسرے کے کہنے سے جرم کیا ہے ۔ چوری کی سزا تو بہرحال اسے ملے گیا ور کسی اصول انصاف کی رو سے بھی یہ درست نہ ہوگا کہ اسے چھوڑ کر اس کے بدلے کی سزا اس پہلے چور کو دے دی جائے جس نے اسے بہکا کر چوری کے راستے پر ڈالا تھا ۔ لیکن وہ پہلا چور اپنے جرم کے ساتھ اس جرم کی سزا بھی پائے گا کہ اس نے خود چوری کی سو کی ، ایک دوسرے شخص کو بھی اپنے ساتھ چور بنا ڈالا ۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر اس قاعدے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ( النحل آیت 25 ) تاکہ وہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے پورے اٹھائیں اور ان لوگوں کے بوجھوں کا بھی ایک حصہ اٹھائیں جن کو وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے ہیں ۔ اور اسی قاعدے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ من دعا الی ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئا و من دعا الی ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اثام من تبعہ لا ینقص ذلک من اثامھم شیئا ۔ ( مسلم ) جس شخص نے راہ راست کی طرف دعوت دی اس کو ان سب لوگوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا جنہوں نے اس کی دعوت پر راہ راست اختیار کی بغیر اس کے کہ ان کے اجروں میں کوئی کمی ہو ، اور جس شخص نے گمراہی کی طرف دعوت دی اس پر ان سب لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا جنہوں نے اس کی پیروی کی بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی ہو ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 20 افترا پردازیوں سے مراد وہ جھوٹی باتیں ہیں جو کفار کے اس قول میں چھپی ہوئی تھیں کہ تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اوپر لے لیں گی ۔ دراصل وہ لوگ دو مفروضات کی بنیاد پر یہ بات کہتے تھے ۔ ایک یہ کہ جس مذہب شرک کی وہ پیروی کر رہے ہیں وہ برحق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب توحید غلط ہے ، اس لیے اس سے کفر کرنے میں کوئی خطا نہیں ہے ، دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ کوئی حشر نہیں ہونا ہے اور یہ حیات اخروی کا تخیل ، جس کی وجہ سے ایک مسلمان کفر کرتے ہوئے ڈرتا ہے ، بالکل بے اصل ہے ۔ یہ مفروضات اپنے دل میں رکھنے کے بعد وہ ایک مسلمان سے کہتے تھے کہ اچھا اگر تمہارے نزدیک کفر کرنا ایک خطا ہی ہے ، اور کوئی حشر بھی ہونا ہے جس میں اس خطا پر تم سے باز پرس ہوگی ، تو چلو تمہاری اس خطا کو ہم اپنے سر لیتے ہیں ، تم ہماری ذمہ داری پر دین محمد کو چھوڑ کر دین آبائی میں واپس آجاؤ ۔ اس معاملہ میں پھر مزید دو جھوٹی باتیں شامل تھیں ۔ ایک ان کا یہ خیال کہ جو شخص کسی کے کہنے پر جرم کی ذمہ داری سے بری ہوسکتا ہے اور اس کی پوری ذمہ داری وہ شخص اٹھاتا سکتا ہے جس کے کہنے پر اس نے جرم کیا ہے ۔ دوسرا ان کا یہ جھوٹا وعدہ کہ قیامت کے روز وہ ان لوگوں کی ذمہ داری واقعی اٹھالیں گے جو ان کے کہنے پر ایمان سے کفر کی طرف پلٹ گئے ہوں ۔ کیونکہ جب قیامت فی الواقع قائم ہوجائے گی اور ان کی امیدوں کے خلاف جہنم ان کی آنکھوں کے سامنے ہوگی اس وقت وہ ہرگز اس کے لیے تیار نہ ہوں گے کہ اپنے کفر کا خمیازہ بھگتنے کے ساتھ ان لوگوں کا بوجھ بھی پورا کا پورا اپنے اوپر لے لیں جنہیں وہ دنیا میں بہکا کر گمراہ کرتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: یعنی جن لوگوں کو انہوں نے گمراہ کیا، ان کے گناہوں کا بوجھ بھی ان کو اٹھانا ہوگا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لوگ گناہوں کی سزا سے بچ جائیں گے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کو تو گناہ ہوگا ہی، لیکن ان کے ساتھ ان لوگوں کو بھی گناہ ہوگا جنہوں نے ان کو گمراہ کیا۔