گناہ کسی کا اور سزا دوسرے کو کفار قریش مسلمانوں کو بہکانے کے لئے ان سے یہ بھی کہتے تھے کہ تم ہمارے مذہب پر عمل کرو اگر اس میں کوئی گناہ ہو تو وہ ہم پر ۔ حالانکہ یہ اصولا غلط ہے کہ کسی کا بوجھ کوئی اٹھائے ۔ یہ بالکل دروغ گو ہیں ۔ کوئی اپنے قرابتداروں کے گناہ بھی اپنے اوپر نہیں لے سکتا ۔ دوست دوست کو اس دن نہ پوچھے گا ۔ ہاں یہ لوگ اپنے گناہوں کے بوجھ اٹھائیں گے اور جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہے ان کے بوجھ بھی ان پر لادے جائیں گے مگر وہ گمراہ ہلکے نہ ہوں گے ۔ ان کا بوجھ ان پر ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ 25ۧ ) 16- النحل:25 ) یعنی یہ اپنے کامل بوجھ اٹھائیں گے اور جنہیں بہکایا تھا ان کے بہکانے کا گناہ بھی ان پر ہوگا ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جو ہدایت کی طرف لوگوں کو دعوت دے ۔ قیامت تک جو لوگ اس ہدایت پر چلیں گے ان سب کو جتنا ثواب ہوگا اتنا ہی اس ایک کو ہوگا لیکن ان کے ثوابوں میں سے گھٹ کر نہیں ۔ اسی طرح جس نے برائی پھیلائی اس پر جو بھی عمل پیراہوں ان سب کو جتنا گناہ ہوگا اتناہی اس ایک کو ہوگا لیکن ان گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تمام رسالت پہنچا دی آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ظلم سے بچو کیونکہ قیامت والے دن اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا مجھے اپنی عزت کی اور اپنے جلال کی قسم آج ایک ظالم کو بھی میں نہ چھوڑونگا ۔ پھر ایک منادیٰ ندا کرے گا کہ فلاں فلاں کہاں ہے؟ وہ آئے گا اور پہاڑ کے پہاڑ نیکیوں کے اس کے ساتھ ہونگے یہاں تک کہ اہل محشر کی نگاہیں اس کی طرف اٹھنے لگیں گی ۔ وہ اللہ کے سامنے آکر کھڑا ہوجائے گا پھر منادیٰ ندا کرے گا کہ اس طرف سے کسی کا کوئی حق ہو اس نے کسی پر ظلم کیا ہو وہ آجائے اور اپنا بدلہ لے لے ۔ اب تو ادھر ادھر سے لوگ اٹھ کھڑے ہونگے اور اسے گھیر کر اللہ کے سامنے کھڑے ہوجائیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے ان بندوں کو ان کے حق دلواؤ ۔ فرشتے کہیں گے اے اللہ کیسے دلوائیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کی نیکیاں لو اور انہیں دو چنانچہ یوں ہی کیا جائے گا یہاں تک کہ ایک نیکی باقی نہیں رہے گی اور ابھی تک بعض مظلوم اور حقدار باقی رہ جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا انہیں بھی بدلہ دو فرشتے کہیں گے اب تو اس کے پاس ایک نیکی بھی نہیں رہی ۔ اللہ تعالیٰ حکم دے گا ان کے گناہ اس پرلادو ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گھبرا کر اس آیت کی تلاوت فرمائی ( وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ 13ۧ ) 29- العنكبوت:13 ) ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) قیامت کے دن مومن کی تمام کوششوں سے سوال کیا جائے گا یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کے سرمے اور اس کے مٹی کے گوندھے سے بھی ۔ دیکھ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کوئی اور تیری نیکیاں لے جائے ۔
1 2 1یعنی تم اسی آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ، جس پر ہم ابھی تک قائم ہیں، اس لئے کہ وہی دین صحیح ہے، اگر اس روایتی مذہب پر عمل کرنے سے تم گناہ گار ہو گے تو اس کے ذمے دار ہم ہیں، وہ بوجھ ہم اپنی گردنوں پر اٹھائیں گے۔ 1 2 2اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جھوٹے ہیں۔ قیامت کا دن تو ایسا ہوگا کہ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ وہاں تو ایک دوست، دوسرے دوست کو نہیں پوچھے گا چاہے ان کے درمیان نہایت گہری دوستی ہو۔ حتی کہ رشتے دار ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے۔ اور یہاں بھی اس بوجھ کے اٹھانے کی نفی فرمائی۔
[ ٢٠] یہ بات مشرکین مکہ مسلمانوں سے اس لئے کہتے تھے کہ وہ خود آخرت کے قیام کے قائل ہی نہ تھے۔ نہ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ آخرت میں ان سے باز پرس بھی ہونے والی ہے پھر انھیں اپنے اپنے گناہوں کا بار بھی اٹھانا پڑے گا۔ دوسری طرف انھیں اپنا دین مرغوب بھی تھا اور وہ اس مشرکانہ دین کو برحق بھی سمجھتے تھے۔ اسی لئے وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ اگر تم واپس ہمارے دین میں آجاؤ۔ تو تمہارے خیال کے مطابق تمہارے اس ارتداد کا گناہ قیامت کو ہم اٹھائیں گے۔ گویا اس طرح کے سمجھوتہ میں انھیں فائدہ ہی فائدہ نظر آتا تھا۔ یعنی ان کا مطالبہ ارتداد تو ابھی پورا ہوجائے۔ اور اس کے معاوضہ کا جو وعدہ کرتے تھے اس پر وہ ایمان نہیں رکھتے تھے۔- [ ٢١] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہ اٹھاتا ہے نہ اٹھا سکتا ہے۔ لہذا یہ لوگ جھوٹ بکتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب یہ جہنم کا عذاب دیکھیں گے۔ اور انھیں اپنا انجام معلوم ہوجائے گا۔ تو اس وقت کبھی نہ بکیں گے کہ فلاں شخص ہمارے کہنے پر اسلام سے پھر گیا تھا لہذا اسے تو جنت میں بھیج دو اور اس کا عذاب بھی میرے عذاب میں اضافہ کردو۔ اس لحاظ سے بھی یہ جھوٹ بک رہے ہیں۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا ۔۔ : اس آیت میں ایمان لانے والوں کی ایک اور آزمائش کا ذکر فرمایا ہے کہ کفار ہر طریقے سے انھیں بہکانے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے کفار نے ایمان لانے والوں سے کہا، تم ہمارے راستے پر چلو، ہماری طرح بت پرستی کرو اور من مانی زندگی بسر کرو، نہ کچھ کرنے کی پابندی نہ کسی کام سے رکنے کی پابندی اور ہم پر لازم ہے کہ تمہارے گناہ اٹھائیں۔ (” ولنحمل “ امر کا صیغہ تاکید کے لیے استعمال کیا ہے) یعنی ہم ہر صورت تمہارے گناہ اٹھائیں گے، جیسے کہا جاتا ہے، تم یہ کام کرو، تمہارا گناہ میری گردن پر۔- وَمَا هُمْ بِحٰمِلِيْنَ مِنْ خَطٰيٰهُمْ مِّنْ شَيْءٍ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کفار ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں، یقیناً یہ جھوٹ بول رہے ہیں، اس وقت گناہ اٹھانا تو دور کی بات انھوں نے اپنے پیچھے چلنے والوں سے بالکل ہی لا تعلق ہوجانا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْـبَابُ ) [ البقرۃ : ١٦٦ ] ” جب وہ لوگ جن کی پیروی کی گئی تھی، ان لوگوں سے بالکل بےتعلق ہوجائیں گے جنھوں نے پیروی کی اور وہ عذاب کو دیکھ لیں گے اور ان کے آپس کے تعلقات بالکل منقطع ہوجائیں گے۔ “ ان کے گناہ نہ اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کسی صورت نہیں ہوسکتا کہ قیامت کے دن ان کے گناہ خود اٹھا کر انھیں گناہ سے بری کردیں اور کہیں کہ تم جنت میں جاؤ، تمہارے گناہوں کی سزا ہم بھگتیں گے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۭ وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى) [ فاطر : ١٨ ] ” اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہوئی (جان) اپنے بوجھ کی طرف بلائے گی تو اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا، خواہ وہ قرابت دار ہو۔ “
معارف و مسائل - وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا، کفار کی طرف سے اسلام کا راستہ روکنے اور مسلمانوں کو بہکانے کی تدبیریں مختلف طریقوں سے ہوتی رہی ہیں، کبھی زور و زر کی نمائش سے کبھی شکوک و شبہات پیدا کرنے سے اس آیت میں بھی ان کی ایک ایسی ہی تدبیر مذکور ہے، کہ کفار مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم لوگ بلا وجہ عذاب آخرت کے خوف سے ہمارے طریقہ پر نہیں چلتے، لو ہم ذمہ داری لیتے ہیں کہ اگر تمہاری ہی بات سچی ہوئی کہ اس طریقہ پر چلنے کی وجہ سے آخرت میں عذاب ہوگا تو تمہارے گناہوں کا بوجھ ہم اٹھا لیں گے جو کچھ عذاب، تکلیف پہنچنے گی ہمیں پہنچنے گی تم پر آنچ نہ آئے گی۔- اسی طرح کا ایک شخص کا واقعہ سورة نجم کے آخری رکوع میں ذکر کیا گیا ہے اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ تَوَلّٰى وَاَعْطٰى قَلِيْلًا وَّاَكْدٰى جس میں مذکور ہے کہ ایک شخص کو اس کے کافر ساتھیوں نے یہ کہہ کر دھوکا دیا کہ تم ہمیں کچھ مال یہاں دے دو تو ہم قیامت اور آخرت کے دن تمہارے عذاب کو اپنے ذمہ لے کر تمہیں بچا دیں گے، اس نے کچھ دینا بھی شروع کردیا پھر بند کردیا۔ اس کی بےوقوفی اور اس کے عمل کے لغو ہونے کا بیان سورة نجم میں تفصیل سے مذکور ہے۔- اسی طرح کا ایک قول کفار کا عام مسلمانوں سے یہاں مذکور ہے، یہاں حق تعالیٰ نے ان کے جواب میں ایک تو یہ فرمایا کہ ایسا کہنے والے بالکل جھوٹے ہیں، یہ قیامت میں ان لوگوں کے گناہوں کا کوئی بوجھ نہ اٹھائیں گے۔ وَمَا هُمْ بِحٰمِلِيْنَ مِنْ خَطٰيٰهُمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ، یعنی وہاں کے ہولناک عذاب کو دیکھ کر ان کو ہمت نہ ہوگی کہ اس کے اٹھانے کے لئے تیار ہوجائیں اس لئے یہ وعدہ ان کا جھوٹا ہے اور سورة نجم میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اگر یہ لوگ کچھ بوجھ اٹھانے کو تیار بھی ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو اس کا اختیار نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ یہ قانون عدل کے خلاف ہے کہ ایک کے گناہ میں دوسرے کو پکڑ لیا جاے۔- دوسری بات یہ فرمائی کہ ان لوگوں کا یہ کہنا تو غلط اور جھوٹ ہے کہ وہ تمہارے گناہوں کا بوجھ اٹھا کر تمہیں سبکدوش کردیں گے، البتہ یہ ضرور ہوگا کہ تمہارا بہکانا اور تمہیں راہ حق سے ہٹانے کی کوشش کرنا خود ایک بڑا گناہ ہے جو ان کے اپنے اعمال کے عذاب کے علاوہ ان پر لاد دیا جائے گا۔ اس طرح ان پر اپنے اعمال کا بھی وبال ہوگا اور جن کو بہکایا تھا ان کا بھی۔- گناہ کی دعوت دینے والا بھی گناہگار ہے گناہ کرنے والے کو جو عذاب ہوگا وہی اس کو بھی ہوگا :- اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی دوسرے کو گناہ میں مبتلا کرنے کی تحریک کرے یا گناہ میں اس کی مدد کرے وہ بھی ایسا ہی مجرم ہے جیسا یہ گناہ کرنے والا۔ ایک حدیث جو حضرت ابوہریرہ اور انس بن مالک سے روایت کی گئی ہے یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص ہدایت کی طرف لوگوں کو دعوت دے تو جتنے لوگ اس کی دعوت کی وجہ سے ہدایت پر عمل کریں گے ان سب کے عمل کا ثواب اس داعی کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے اجر وثواب میں کوئی کمی کی جائے اور جو شخص کسی گمراہی اور گناہ کی طرف دعوت دے تو جتنے لوگ اس کے کہنے سے اس گمراہی میں مبتلا ہوں گے ان سب کا گناہ اور وبال اس شخص پر بھی پڑے گا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے وبال و عذاب میں کوئی کمی ہو (مسلم عن ابی ہریرة و ابن ماجہ عن انس، قرطبی)
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِيْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰيٰكُمْ ٠ۭ وَمَا ہُمْ بِحٰمِلِيْنَ مِنْ خَطٰيٰہُمْ مِّنْ شَيْءٍ ٠ۭ اِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ ١٢- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102]- ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- خطأ - الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب :- أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله،- وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] .- والثاني : أن يريد ما يحسن فعله،- ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء 92] .- والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله - ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، - والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان،- لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا - لتولّد ذلک الفعل منه - ( خ ط ء ) الخطاء - والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں - اس کی مختلف صورتیں ہیں - ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔- یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے - ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔- کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے - ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔- اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔- الخطیتۃ - یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے
(١٢) اور ابوجہل اور اس کے ساتھی حضرت علی (رض) اور حضرت سلمان (رض) سے کہتے ہیں کہ ہمارا دین اختیار کرلو قیامت کے دن تمہارے گناہوں کا بوجھ ہمارے ذمہ ہے حالانکہ یہ لوگ قیامت کے دن ان کے گناہوں میں سے ذرا بھی نہیں لے سکتے یہ بالکل جھوٹ بک رہے ہیں۔
آیت ١٢ (وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ ط) ” - اس آیت میں مکہ کے ماحول میں ایمان لانے والے نوجوانوں کے تیسرے اہم مسئلے کی نشاندہی ملتی ہے۔ یعنی رشتوں کے کٹنے اور کہیں کہیں حوصلے کی کمزوری کے اظہار کے علاوہ ایک سنجیدہ مسئلہ یہ بھی تھا کہ قبیلے کے بڑے بوڑھے ناصحانہ انداز میں نوجوانوں کو سمجھانے بیٹھ جاتے تھے کہ دیکھو برخوردار تم نوجوان ہو ‘ باصلاحیت ہو ‘ خاندانی کاروبار کے وارث ہو ‘ ایک مثالی کیرئیر اور روشن مستقبل تمہارے سامنے ہے۔ مگر تم جذبات میں آکر ایک ایسا راستہ اپنانے جا رہے ہو جس میں مشکلات ‘ پریشانیوں اور افلاس کے سوا تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ ہماری طرف دیکھو ہم نے اس دنیا میں ایک عمر گزاری ہے ‘ ہم نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ‘ ہم زندگی کے نشیب و فراز اور نفع و نقصان کے تمام پہلوؤں کو خوب پہچانتے ہیں۔ اس نئے دین کی باتیں ہم نے بھی سنی ہیں ‘ مگر ہم ان کو سن کر جذباتی نہیں ہوئے۔ ہم نے پوری سمجھ بوجھ سے ان باتوں کا تجزیہ کیا ہے اور پھر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارا فائدہ اپنے پرانے طریقے اور اپنے باپ دادا کے دین کی پیروی میں ہی ہے۔ لہٰذا تم ہماری بات مانو اور اپنے پرانے طریقے پر واپس آجاؤ۔ رہی بات آخرت کے احتساب کی تو اس کی ذمہ داری تمہاری طرف سے ہم اٹھاتے ہیں۔ وہاں اگر کوئی سزا ہوئی تو وہ تمہاری جگہ ہم بھگت لیں گے۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 17 ان کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ اول تو زندگی بعد موت اور حشر و نشر اور حساب و جزا کی یہ باتیں سب ڈھکوسلا ہیں ۔ لیکن اگر بالفرض کوئی دوسری زندگی ہے اور اس میں کوئی باز پرس بھی ہوتی ہے تو ہم ذمہ لیتے ہیں کہ خدا کے سامنے ہم سارا عذاب اپنی گردن پر لے لیں گے ۔ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو چھوڑ دو اور اپنے دین آبائی کی طرف واپس آجاؤ ، روایات میں متعدد سرداران قریش کے متعلق یہ مذکور ہے کہ ابتدا جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے ان سے مل کر یہ لوگ اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عمر کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ ایمان لائے تو ابو سفیان اور حرب بن امیہ بن خلف نے ان سے مل کر بھی یہی کہا تھا ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 18 یعنی اول تو یہی ممکن ہے کہ کوئی شخص خدا کے ہاں کسی دوسرے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لے اور کسی کے کہنے سے گناہ کرنے والا خود اپنے گناہ کی سزا پانے سے بچ جائے ، کیونکہ وہاں تو ہر شخص اپنے کیے کا آپ ذمہ دار ہے ۔ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۔ لیکن اگر بالفرض ایسا ہو بھی تو جس وقت کفر و شرک کا انجام ایک دھکتی ہوئی جہنم کی صورت میں سامنے آئے گا اس وقت کس کی یہ ہمت ہے کہ دنیا میں جو وعدہ اس نے کیا تھا اس کی لاج رکھنے کے لیے یہ کہہہ دے کہ حضور ، میرے کہنے سے جس شخص نے ایمان کو چھوڑ ارتداد کی راہ اختیار کی تھی ، آپ اسے معاف کر کے جنت میں بھیج دیں ، اور میں جہنم میں اپنے کفر کے ساتھ اس کے کفر کی سزا بھی بھگتنے کے لیے تیار ہوں ۔