1 اسکا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ خوشی اور تکلیف دے کر آزمائے گا تاکہ منافق اور مومن کی تمیز ہوجائے جو دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت کرے گا، وہ مومن ہے اور جو صرف خوشی اور راحت میں اطاعت کرے گا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ صرف اپنے حظ نفس کا مطیع ہے، اللہ کا نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ (وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ ) 47 ۔ محمد :31) ہم تمہیں ضرور آزمائینگے، تاکہ ہم جان لیں تم میں مجاہد اور صابر کون ہیں اور تمہارے دیگر حالات بھی جانچیں گے ،۔ جنگ احد کے بعد، جس میں مسلمان اختیار و امتحان کی بھٹی سے گزارے گئے تھے، فرمایا (مَا كَان اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ ) 3 ۔ آل عمران :179) نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ وہ چھوڑ دے مومنوں کو، اس حالت پر جس پر کہ تم ہو، یہاں تک کہ وہ جدا کر دے ناپاک کو پاک سے۔
[ ١٩] یعنی اللہ تعالیٰ بار بار ایسے موقع پیدا کرتا رہتا ہے جس سے سب کو معلوم ہوجاتا ہے۔ کہ فلاں شخص ایمان کے کس درجہ میں ہے۔ پختہ ایمان والا کون کون ہے، کمزور ایمان والا کون اور منافق کون ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ معرکہ حق و باطل کوئی وقتی اور عارضی سی چیز نہیں۔ اور نہ ہی یہ معرکہ ایسی چیز ہے جس کے نتائج صرف کسی معرکہ کارزار میں سامنے آئیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء چونکہ سب سے زیادہ پختہ ایمان والے ہوتے ہیں۔ اس لئے سب سے سیادہ ایذائیں اور مشکلات خود انہی کے حصہ میں آتی ہیں۔ چناچہ آپ نے فرمایا کہ اَشد البلاء علی الانبیاء ثم الأمثل فالأمثل یعنی سب سے مشکلات و مصائب انبیاء پر آتی ہیں پھر ان سے کم درجہ کے دلوں پر پھر ان سے کم درجہ کے ایمان والوں پر۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان پر مشکلات کا دور آتا ضرور ہے۔ البتہ اس کا معیار یہ ہوگا کہ جتنا زیادہ پختہ ایمان والا ہوتا اتنی ہی سخت اس کی آزمائش ہوگی۔ ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کی پیروی میں تکلیف پہنچنا پیغمبروں کی میراث ہے اور ضروری نہیں کہ یہ تکلیف کافروں کے ہاتھوں ہی پہنچے، یہ مشرکوں کی طرف سے بھی پہنچ سکتی ہے۔ اہل بدعت اور دوسرے گمراہ فرقوں سے بھی اور مناقوں سے بھی۔ لہذا مبارک ہیں وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں ستائے جائیں۔ ان کی عزت پر حملہ ہو یا ان کا کوئی جانی یا مالی نقصان ہو، ان کے لئے سب کچھ باعث فخر ہوتا ہے۔
وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ : یعنی ایسی آزمائشیں بھیج کر اور ایسے حالات پیدا کر کے جن میں یہ منافق اپنے دلوں کا حال چھپائے نہیں رہ سکیں گے۔
وَلَيَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ ١١- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔
(١١) اس کے بعد حضرت عیاش (رض) اور ان کے ساتھی مشرف بااسلام ہوگئے اور ان کا اسلام بھی اچھا ہوا اور اللہ تعالیٰ بدر کے دن ایمان والوں کو بھی ظاہری وباطنی طور پر ممتاز کرکے رہے گا اور منافقین کو بھی۔
آیت ١١ (وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ) ” - یعنی ابھی اس مرض کی ابتدا ہے۔ اگر تم لوگ کے مصداق ابھی سے اس کا علاج کرلو گے تو بچ جاؤ گے۔ منافقت کا مرض ٹی بی کے مرض کی طرح ہے جو انفیکشن سے شروع ہوتا ہے اور مختلف مراحل سے گزرتا ہوا لا علاج روگ بن جاتا ہے۔ چناچہ ابھی تم لوگوں کو اس مرض کی انفیکشن ہوئی ہے۔ اگر ابھی تم نے اس کے تدارک کی فکر نہ کی اور یہ روگ ابتدائی مرحلے سے آگے بڑھ گیا تو مہلک اور لا علاج مرض (باقاعدہ منافقت) کی شکل اختیار کر جائے گا۔ - اس آیت کے حوالے سے ایک خصوصی نکتہ یاد رکھنے کا یہ ہے کہ مکی قرآن کا یہ واحد مقام ہے جہاں لفظ ” منافق “ آیا ہے۔ سورة الحج کی مذکورہ بالا آیت میں بھی منافقانہ کردار کا ذکر ہوا ہے ‘ لیکن ” منافق “ کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 16 یعنی اللہ آزمائش کے مواقع اس لیے بار بار لاتا ہے تاکہ مومنوں کے ایمان اور منافقوں کے نفاق کا حال کھل جائے اور جس کے اندر جو کچھ بھی چھپا ہوا ہے وہ سامنے آجائے ، یہی بات سورہ آل عمران میں فرمائی گئی ہے کہ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ ( آیت 179 ) اللہ مومنوں کو ہرگز اس حالت میں رہنے دینے والا نہیں ہے جس میں تم اس وقت ہو ( کہ صادق الایمان اور منافق سب ملے جلے ہیں ) وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ نمایاں کر کے رہے گا ۔
6: دیکھئے حاشیہ نمبر 1