مرتد ہونے والے ان منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے جو زبانی ایمان کا دعویٰ کرلیتے ہیں لیکن جہاں مخالفین کی طرف سے کوئی دکھ پہنچا کہ یہ اسے اللہ کا عذاب سمجھ کر مرتد ہوجاتے ہیں ۔ یہی معنی حضرت ابن عباس وغیرہ نے کئے ہیں جیسے اور آیت میں ہے ( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ 11 ) 22- الحج:11 ) یعنی بعض لوگ ایک کنارے کھڑے ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر راحت ملی تو مطمئن ہوگئے اور اگر مصیبت پہنچی تو منہ پھیر لیا یہاں بیان ہو رہا ہے کہ اگر حضور کو کوئی غنیمت ملی کوئی فتح ملی تو اپنا دیندار ہونا ظاہر کرنے لگتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( الَّذِيْنَ يَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ ڮ وَاِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِيْنَ نَصِيْبٌ ١٤١ۧ ) 4- النسآء:141 ) وہ تمہیں دیکھتے رہتے ہیں اگر فتح و نصرت ہوئی تو ہانک لگانے لگتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں ہیں؟ اور اگر کافروں کی بن آئی تو ان سے اپنی ساز جتانے لگتے ہیں کہ دیکھو ہم نے تمہارا ساتھ دیا ورتمہیں بچالیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بہت ممکن ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو بالکل ہی غالب کر دے پھر تو یہ اپنی اس چھپی ہوئی حرکت پر صاف نادم ہوجائیں ۔ یہاں فرمایا کہ یہ کیا بات ہے کیا انہیں اتنا بھی نہیں معلوم کہ اللہ عالم الغیب ہے ۔ وہ جہاں زبانی بات جانتا ہے وہاں قلبی بات بھی اسے معلوم ہے ۔ اللہ تعالیٰ بھلائیاں برائیاں پہنچا کر نیک و بد کو مومن ومنافق کو الگ الگ کردے گا ۔ نفس کے پرستار نفع کے خواہاں یکسو ہوجائیں گے اور نفع نقصان میں ایمان کو نہ چھوڑنے والے ظاہر ہوجائیں گے ۔ جیسے فرمایا ( وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ 31 ) 47-محمد:31 ) ہم تمہیں آزماتے رہا کریں گے یہاں تک کہ تم میں سے مجاہدین کو اور صابرین کو ہم دنیا کے سامنے ظاہر کردیں اور تمہاری خبریں دیکھ بھال لیں ۔ احد کے امتحان کا ذکر کرکے فرمایا کہ اللہ مومنوں کو جس حالت پر وہ تھے رکھنے والا نہ تھاجب کہ خبیث وطیب کی تمیز نہ کریں ۔
1 0 1اس میں اہل نفاق یا کمزور ایمان والوں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ ایمان کی وجہ سے انھیں ایذاء پہنچتی ہے تو عذاب الہی کی طرح وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ نتیجتا وہ ایمان سے پھرجاتے اور دین عوام کو اختیار کرلیتے ہیں۔ 1 0 2یعنی مسلمانوں کو فتح و غلبہ نصیب ہوجائے۔ 1 0 3یعنی تمہارے دینی بھائی ہیں، یہ وہی مضمون ہے جو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ تمہیں دیکھتے رہتے ہیں، اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملتی ہی، تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے ؟ اور اگر حالات کافروں کے لیے کچھ سازگار ہوتے ہیں تو کافروں سے جا کر کہتے ہیں کہ کیا ہم نے تم کو گھیر نہیں لیا تھا۔ اور مسلمانوں سے تم کو نہیں پجایا تھا۔ (الَّذِيْنَ يَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ ڮ وَاِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِيْنَ نَصِيْبٌ ۙ قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭفَاللّٰهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ وَلَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا) 4 ۔ النساء :141) 1 0 4یعنی کیا اللہ ان باتوں کو نہیں جانتا جو تمہارے دلوں میں ہے اور تمہارے ضمیروں میں پوشیدہ ہے۔ گو تم زبان سے مسلمانوں کا ساتھی ہونا ظاہر کرتے ہو۔
[ ١٥] یعنی وہ ہوتا تو کمزور ایمان والا ہے مگر اپنے آپ کو راسخ العقیدہ مسلمانوں میں شامل سمجھتا ہے۔ اور انہی کی طرح اپنے ایمان کا اقرار اور دعویٰ کرتا ہے۔- [١٦] اسلام لانے والوں کا بھی اسلام لانے کے ساتھ ہی امتحان شروع ہوجاتا ہے اور مسلمانوں کو کفار کی جانب سے طرح طرح کے دکھ اور مصائب برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ یہ دراصل حق و باطل کی سرد جنگ ہوتی ہے۔ اور ابتداء چونکہ حق کمزور اور باطل اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ لہذا مسلمانوں کو کئی طرح کی مشکلات اور پریشانیاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ کمزور ایمان والے اس صورت حال کو برداشت نہیں کرسکتے اور اسے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں اور اپنے دعویٰ ایمان سے دستبردار ہونے لگتے ہیں یا کم از کم عملی طور پر اپنے دعویٰ کی تردید کردیتے ہیں۔- [ ١٧] اور اگر سردھڑ کی بازی لگانے کے بعد راسخ الایمان مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ فتح و نصرت سے بہرہ ور کر دے تو ایسے لوگ فتح کے ثمرات سے حصہ بٹانے کے لئے فوراً آموجود ہوں گے اور کہیں گے کہ ہم بھی تو تمہارے ساتھ اور تمہارے اسلام بھائی ہیں۔ - [١٨] یعنی اللہ تعالیٰ ان کے زبانی دعوؤں کی حقیقت کو خوب جانتا ہے کہ وہ کون کون سے مفادات کی خاطر یہ ایمان لانے کے دعوے کرتے ہیں۔ اور تکلیفوں سے بچاؤ کے کون کون سے طریقے سوچتے رہتے ہیں۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا باللّٰهِ ۔۔ : یہ وہ لوگ ہیں جو مکہ میں مسلمان ہوگئے، مگر مشرکین کے ساتھ ان کا حال یہ تھا کہ ان کی دی ہوئی ایذا پر صبر نہیں کرسکتے تھے، جب انھیں ایذا دی جاتی تو دل سے شرک کی طرف پلٹ جاتے، مگر مسلمانوں سے یہ بات چھپاتے اور ان کے ساتھ رہتے۔ یہ لوگ منافق تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ہجرت سے پہلے یہ آیت نازل فرمائی۔ یہ ضحاک اور جابر بن زید کا قول ہے۔ (ابن عاشور) فرمایا، لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو کہتا ہے کہ میں ایمان لایا، پھر جب اسے اللہ کے بارے میں ایذا اور سزا دی جاتی ہے تو وہ لوگوں کی سزا اور ایذا کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیتا ہے، حالانکہ لوگوں کی طرف سے ملنے والی ایذا اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کی آپس میں کوئی مشابہت نہیں۔ لوگوں سے ملنے والی سزا محدود ہے جو ختم ہونے والی ہے، زیادہ سے زیادہ موت تک رہ سکتی ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہمیشہ کے لیے ہے، لوگوں سے ملنے والی سزا اس کے لیے ثواب کا باعث ہے، جب کہ اللہ کا عذاب اس کے غضب کا نتیجہ ہے، اس لیے اسے چاہیے تھا کہ اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے لوگوں کی ایذا اور سزا پر صبر کرتا اور ہمیشہ کی جنت کا حق دار بنتا، مگر اس نے لوگوں کی ایذا و سزا کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا اور دین سے پھر گیا، مگر دنیوی مفادات کی خاطر ظاہری تعلق مسلمانوں سے بھی قائم رکھا۔- وَلَىِٕنْ جَاۗءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ ۔۔ : چناچہ اگر کبھی رب تعالیٰ کی طرف سے مدد آگئی، مسلمانوں کو فتح ہوئی تو کہہ دیں گے ہم تو تمہارے ساتھ تھے، کیا اللہ تعالیٰ اس چیز کو سب سے زیادہ جاننے والا نہیں جو تمام جہانوں کے سینوں میں ہے۔ ابن عاشور فرماتے ہیں : ” معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں ان لوگوں کا دل سے کفر اور ظاہر میں مسلمانوں کے ساتھ رہنا مشرکین کے ساتھ ایک قسم کا طے شدہ معاملہ تھا، کیونکہ یہ سورت مکی ہے۔ “ اس مضمون کی آیت یہ ہے : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِهٖ ۚ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْهِهٖ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةَ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ ) [ الحج : ١١] ” اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی عبادت ایک کنارے پر کرتا ہے، پھر اگر اسے کوئی بھلائی پہنچ جائے تو اس کے ساتھ مطمئن ہوجاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش آپہنچے تو اپنے منہ پر الٹا پھرجاتا ہے۔ اس نے دنیا اور آخرت کا نقصان اٹھایا، یہی تو صریح خسارہ ہے۔ “- 3 اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ایذا اور مجبور کرنے کی وجہ سے کفر کا ارتکاب کرنے والوں کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں، ایک وہ جنھوں نے مجبوری کی وجہ سے کلمۂ کفر کہہ دیا، مگر دل سے اسلام پر مطمئن رہے، دوسرے وہ جنھوں نے شرح صدر کے ساتھ دل سے کفر اختیار کرلیا، جیسا کہ فرمایا : (مَنْ كَفَرَ باللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَـﭟ بِالْاِيْمَانِ وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بالْكُفْرِ صَدْرًا) [ النحل : ١٠٦ ] ” جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اپنے ایمان کے بعد، سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اور لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے۔ “ زیر تفسیر آیت میں مذکورہ لوگ وہ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ” مَّنْ شَرَحَ بالْكُفْرِ صَدْرًا “ (جو کفر کے لیے سینہ کھول دے) کے الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے۔
خلاصہ تفسیر - اور بعض آدمی ایسے بھی ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے پھر جب ان کو راہ خدا میں کچھ تکلیف پہنچائی جاتی ہے تو لوگوں کی ایذا رسانی کو ایسا (عظیم) سمجھ بیٹھتے ہیں جیسے خدا کا عذاب) جس سے آدمی بالکل ہی مجبور ہوجائے حالانکہ کسی مخلوق کو ایسے عذاب پر قدرت ہی نہیں اب تو ان کا یہ حال ہے) اور اگر (کبھی) کوئی مدد (مسلمانوں کی) آپ کے رب کی طرف سے آپہنچتی ہے (مثلاً جہاد ہو اور اس میں ایسے لوگ ہاتھ آجائیں) تو (اس وقت) کہتے ہیں کہ ہم تو (دین اور عقیدہ میں) تمہارے ساتھ تھے (یعنی مسلمان ہی تھے، گو کفار کے اکراہ اور زبردستی کی وجہ سے کفار کے ساتھ ہوگئے تھے، اس پر حق تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے کہ) کیا اللہ تعالیٰ کو دنیا جہان والوں کے دلوں کی باتیں معلوم نہیں ہیں (یعنی ان کے دل ہی میں ایمان نہ تھا) اور (یہ واقعات اس لئے ہوتے رہتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو معلوم کر کے رہے گا اور منافقوں کو بھی معلوم کر کے رہے گا۔- اور کفار مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم (دین میں) ہماری راہ چلو اور (قیامت میں) تمہارے گناہ (جو کفر و معاصی سے ہوں گے) ہمارے ذمہ (اور تم سبکدوش) حالانکہ یہ لوگ ان کے گناہوں میں سے ذرا بھی (اس طور پر کہ وہ سبکدوش ہوجائیں) نہیں لے سکتے یہ بالکل جھوٹ بک رہے ہیں اور (البتہ یہ تو ہوگا کہ) یہ لوگ اپنے گناہ (پورے پورے) اپنے اوپر لادے ہوں گے اور اپنے گناہوں کے ساتھ کچھ گناہ اور بھی (لادے ہوں گے اور یہ گناہ وہ ہیں جن کے لئے یہ سبب بنتے تھے، اور یہ گناہ ان پر لادنے سے اصل گناہگار سبکدوش نہیں ہوں گے، غرض دوسرے تو ہلکے نہ ہوئے مگر یہ لوگ ان کو گمراہ کرنے کے سبب اور زیادہ بھاری ہوگئے) اور یہ لوگ جیسی جیسی جھوٹی باتیں بناتے تھے قیامت میں ان سے باز پرس (اور پھر اس پر سزا) ضرور ہوگی۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ فَاِذَآ اُوْذِيَ فِي اللہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللہِ ٠ۭ وَلَىِٕنْ جَاۗءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ٠ۭ اَوَلَيْسَ اللہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِيْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِيْنَ ١٠- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- أذي - الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة 264] ، قوله تعالی:- فَآذُوهُما [ النساء 16] إشارة إلى الضرب، ونحو ذلک في سورة التوبة : وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ [ التوبة 61] ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 61] ، ولا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسی [ الأحزاب 69] ، وَأُوذُوا حَتَّى أَتاهُمْ نَصْرُنا [ الأنعام 34] ، وقال : لِمَ تُؤْذُونَنِي [ الصف 5] ، وقوله : يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ : هُوَ أَذىً [ البقرة 222] - ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔- ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ ۔ فَآذُوهُمَا ( سورة النساء 16) میں مار پٹائی ( سزا ) کی طرف اشارہ ہے اسی طرح سورة تو بہ میں فرمایا ۔ وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ( سورة التوبة 61) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو خدا کے پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے ۔ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة التوبة 61) اور جو لوگ رسول خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم ( تیار ) ہے ۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى ( سورة الأحزاب 69) تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی ( عیب لگا کر ) رنج پہنچایا ۔ وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا ( سورة الأَنعام 34) اور ایذا ( پر صبر کرتے رہے ) یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی ۔ لِمَ تُؤْذُونَنِي ( سورة الصف 5) تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ( سورة البقرة 222) میں حیض ( کے دنوں میں عورت سے جماع کرنے ) کو اذی کہنا یا تو از روئے شریعت ہے یا پھر بلحاظ علم طب کے جیسا کہ اس فن کے ماہرین بیان کرتے ہیں ۔ اذیتہ ( افعال ) ایذاء و اذیۃ و اذی کسی کو تکلیف دینا ۔ الاذی ۔ موج بحر جو بحری مسافروں کیلئے تکلیف دہ ہو ۔- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ:- يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه .- ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے - :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔
(١٠) اور بعض آدمی ایسے بھی ہیں یعنی عیاش ابن ابی ربیعہ جو کہہ دیتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے پھر جب ان کو اللہ کی راہ میں کوئی تکلیف پہنچائی جاتی ہے تو لوگوں کی اس تکلیف کو ایسا سمجھ لیتے ہیں کہ اللہ کا دوزخ میں ہمیشہ کے لیے عذاب نازل ہوگیا ہو اور پھر ایمان کو چھوڑ کر کفر اختیار کرلیتے ہیں۔- اور اگر مکہ مکرمہ فتح ہونے لگتا ہے تو اس وقت یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم دین میں تمہارے ساتھ ہیں کیا للہ تعالیٰ کو دنیا جہاں والوں کے دلوں کا حال معلوم نہیں۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ ومن الناس من یقول امنا “۔ (الخ)- اس آیت کا شان نزول سورة نساء میں گزر چکا ہے۔
آیت ١٠ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا باللّٰہِ فَاِذَآ اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَاب اللّٰہِ ط) ” - یعنی لوگوں کی طرف سے ڈالی گئی آزمائش سے ایسے گھبرا جاتے ہیں جیسے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوگیا ہو۔ یہاں یہ نکتہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ آیت مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جب اسلام میں منافقت کا شائبہ تک نہ تھا ‘ بلکہ یہ وہ وقت تھا جب کلمہ توحید کا اقرار کرنے والے ہر شخص پر عرصۂ حیات تنگ کردیا جاتا تھا۔ ایسے ماحول میں جو کوئی بھی اسلام قبول کرتا تھا اس کے ایمان میں کسی شک و شبہ کا امکان نہیں تھا۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمّ ہے کہ سب لوگوں کی طبیعتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں اور جذبے ‘ بہادری ‘ استقامت وغیرہ میں سب انسان برابر نہیں ہوتے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اسی حوالے سے ایک ایسے کردار کا ذکر ہو رہا ہے جو ایمان تو پورے خلوص سے لایا ہے مگر اس راستے کی مشکلات اور آزمائشوں کو جھیلنے کا حوصلہ اس میں نہیں ہے۔- (لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ ط) ” - جب صورت حال تبدیل ہوجائے گی اور دین کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگادینے والوں کو اللہ تعالیٰ فتح و نصرت سے ہم کنارکرے گا تو اس کردار کے لوگ فتح کے ثمرات میں حصہ دار بننے کے لیے آموجود ہوں گے کہ ہم تو دل سے آپ ہی کے ساتھ تھے۔ گویا یہ وہی کردار ہے جس کا ذکر سورة البقرۃ کے آغاز میں بھی ہوا ہے اور سورة الحج کی اس آیت میں اس کی نفسیاتی کیفیت کو مزید واضح کردیا گیا ہے : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍج فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُ نِ اطْمَاَنَّ بِہٖج وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖج خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَط ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ) (الح ج) ” اور لوگوں میں سے کوئی وہ بھی ہے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے کنارے پر رہ کر۔ پھر اگر اسے کوئی فائدہ پہنچے تو اس کے ساتھ مطمئن رہے ‘ اور اگر اسے کوئی آزمائش آجائے تو منہ کے بل الٹا پھرجائے۔ وہ دنیا میں بھی خسارے میں رہا اور آخرت میں بھی۔ یہی ہے واضح خسارہ۔ “
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 13 اگرچہ کہنے والا ایک شخص ہے ، مگر میں ایمان لایا کہنے کے بجائے کہہ رہا ہے ہم ایمان لائے امام رازی نے اس میں ایک لطیف نکتے کی نشاندہی کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ منافق اپنے آپ کو ہمیشہ زمرہ اہل ایمان میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے ایمان کا ذکر اس طرح کرتا ہے کہ گویا وہ بھی ویسا ہی مومن ہے جیسے دوسرے ہیں ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بزدل اگر کسی فوج کے ساتھ گیا ہے اور اس فوج کے بہادر سپاہیوں نے لڑ کر دشمنوں کو مار بھگایا ہے ، تو چاہے اس نے خود کوئی کارنامہ انجام نہ دیا ہو ، مگر وہ آکر یوں کہے گا کہ ہم گئے اور ہم خوب لڑے اور ہم نے دشمن کو شکست فاش دے دی ، گویا آپ بھی انہی بہادروں میں سے ہیں جنہوں نے داد شجاوت دی ہے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 14 یعنی جس طرح اللہ کے عذاب سے ڈر کر کفر و معصیت سے باز آنا چاہیے ، یہ شخص بندوں کی دی ہوئی تکلیفوں میں سے ڈر کر ایمان اور نیکی سے باز آگیا ۔ ایمان لانے کے بعد کفار کی دھمکیوں اور مار پیٹ اور قید و بند سے جب اسے سابقہ پیش آیا تو اس نے سمجھا کہ اللہ کی وہ دوزخ بھی بس اتنی ہی کچھ ہوگی جس سے مرنے کے بعد کفر کی پاداش میں سابقہ پیش آنا ہے ۔ اس لیےء اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ عذاب تو بعد میں بھگت لوں گا ، یہ نقد عذاب جو اب مل رہا ہے اس سے بچنے کےلیے مجھے ایمان چھوڑ کر پھر زمرہ کفار میں جا ملنا چاہیے تاکہ دنیا کی زندگی تو خیریت سے گزر جائے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 15 یعنی آج تو وہ اپنی کھال بچانے کے لیے کافروں میں جا ملا ہے اور اہل ایمان کا ساتھ اس نے چھوڑ دیا ہے ، کیونکہ دین حق کو فروغ دینے کے لیے وہ اپنی نکیر تک پھڑوانے کو تیار نہیں ہے ۔ مگر جب اس دین کی خاطر سر دھڑ کی بازی گلا دینے والوں کو اللہ تعالی فتح و کامرانی بخشے گا تو یہ شخص فتح کے ثمرات میں حصہ بٹانے کے لیے آموجود ہوگا اور مسلمانوں سے کہے گا کہ دل سے تو ہم تمہارے ہی ساتھ تھے ، تمہاری کامیابی کے لیے دعائیں مانگا کرتے تھے ، تمہاری جانفشانیوں اور قربانیوں کی بڑی قدر ہماری نگاہ میں تھی ۔ یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ناقابل برداشت اذیت یا نقصان ، یا شدید خوف کی حالت میں کسی شخص کا کلمہ کفر کہہ کر اپنے آپ کو بچا لینا شرعا جائز ہے بشرطیکہ آدمی سچے دل سے ایمان پر ثابت قدم رہے ۔ لیکن بہت بڑا فرق ہے اس مخلص مسلمان میں جو بحالت مجبوری جان بچانے کے لیے کفر کا اظہار کرے اور اس مصلحت پرست انسان میں جو نظریہ کے اعتبار سے اسلام ہی کو حق جانتا اور مانتا ہو مگر ایمانی زندگی کے خطرات و مہالک دیکھ کر کفار سے جا ملے ۔ بظاہر ان دونوں کی حالت ایک دوسرے سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی ، مگر درحقیقت جو چیز ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق کردیتی ہے وہ یہ ہے کہ مجبوراً کفر ظاہر کرنے والا مخلص مسلمان نہ صرف عقیدے کے اعتبار سے اسلام کا گرویدہ رہتا ہے ، بلکہ عملا بھی اس کی دلی ہمدردیاں دین و اہل دین کے ساتھ رہتی ہیں ۔ ان کی کامیابی سے وہ کوش اور ان کو زک پہنچنے سے وہ بے چین ہوجاتا ہے ۔ مجبوری کی حالت میں بھی وہ مسلمانوں کا ساتھ دینے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اس تاک میں رہتا ہے کہ جب بھی اس پر سے اعدائے دین کی گرفت ڈھیلی ہو وہ اپنے اہل دین کے ساتھ جا ملے ۔ اس کے برعکس مصلحت پرست آدمی جب دین کی راہ کٹھن دیکھتا ہے اور خوب ناپ تول کر دیکھ لیتا ہے کہ دین حق کا ساتھ دینے کے نقصانات کفار کے ساتھ جا ملنے کے فوائد سے زیادہ ہیں تو وہ خالص عافیت اور منفعت کی خاطر دین اور اہل دین سے منہ موڑ لیتا ہے ، کافروں سے رشتہ دوستی استوار کرتا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر ان کی کوئی ایسی خدمت بجا لانے سے بھی باز نہیں رہتا جو دین کے سخت خلاف اور اہل دین کے لیے نہایت نقصان دہ ہو ۔ لیکن اس کے ساتھ وہ اس امکان سے بھی آنکھیں بند نہیں کرلیتا کہ شاید کسی وقت دین حق ہی کا بول بالا ہوجائے ۔ اس لیے جب کبھی اسے مسلمانوں سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے وہ ان کے نظریے کو حق ماننے اور ان کے سامنے اپنے ایمان کا اقرار کرنے اور راہ حق میں ان کی قربانیوں کو خراج تحسین ادا کرنے میں ذرہ برابر بخل نہیں کرتا ، تاکہ یہ زبانی اعترافات سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں ۔ قرآن کریم ایک دوسرے موقع پر ان منافقین کی اسی سوداگرانہ ذہنیت کو یوں بیان کرتا ہے: الَّذِيْنَ يَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ ڮ وَاِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِيْنَ نَصِيْبٌ ۙ قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۔ ( آیت 141 ) یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے معاملے میں انتظار کر رہے ہیں ( کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ) اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آکر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کا پلہ بھاری رہا تو ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور ہم نے پھر بھی تمہیں مسلمانوں سے بچایا ؟ ۔
4: یعنی اﷲ تعالیٰ کا عذاب جتنا سنگین ہے، یہ لوگ اِنسانوں کی پہنچائی ہوئی تکلیف کو بھی اتنا ہی سنگین سمجھتے ہیں، اور اِس کی وجہ سے کفار کی بات مان کر واپس کفر کی طرف چلے جاتے ہیں، اور یہ بات منافقت کے طور پر مسلمانوں سے چھپاتے ہیں۔ 5: یعنی جب مسلمانوں کو فتح ہوگی، اور فتح کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے تو یہ لوگ مسلمانوں سے کہیں گے کہ ہم تو دل سے تمہارے ساتھ تھے، اس لئے ہم سے کافروں جیسا معاملہ کرنے کے بجائے ہمیں اس فتح کے نتائج میں شریک کرو۔