Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91یعنی اگر کسی کے والدین مشرک ہوں گے تو مومن بیٹا نیکوں کے ساتھ ہوگا، والدین کے ساتھ نہیں۔ اس لیے کہ گو والدین دنیا میں اس کے بہت قریب رہے ہوں گے لیکن اس کی محبت دینی اہل ایمان ہی کے ساتھ تھی بنابریں المرء مع من أحب کے تحت وہ زمرہ صالحین میں ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٤] یعنی ایسے نامساعد اور پریشان کن حالات میں جو شخص ایمان لائے اور نیکی کی راہ پر قائم رہے۔ جبکہ ان کے والدین یہی کافر تھے تو اللہ ایسے لوگوں کو صالحین کے زمرہ میں شامل فرما دے گا۔ نیز اللہ کا دستور یہ ہے کہ اگر والدین بھی مسلمان ہوں اور اولاد بھی تو اللہ تعالیٰ اولاد کو اپنے والدین کے ساتھ ملا دے گا۔ اگرچہ والاد کے نیک اعمال اپنے والد کے اعمال کے پایہ کے نہ ہوں۔ اگر والدین کافر تھے تو اللہ ان کی اولاد کو صالحین کے زمرہ میں شامل فرما دے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۔۔ : یعنی اگر کسی کے والدین مشرک ہوں گے تو مومن بیٹا نیکوں کے ساتھ ہوگا، مشرک والدین کے ساتھ نہیں، اس لیے کہ گو والدین دنیا میں اس کے بہت قریب رہے اور محبت بھی کرتے رہے مگر ان کی اس سے اور اس کی ان سے محبت طبعی تھی، دینی نہ تھی، جب کہ حقیقی محبت دینی محبت ہے جو والدین کی کفار کے ساتھ تھی اور اس کی اہل ایمان کے ساتھ تھی اور قیامت کے دن آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اسے حقیقی (دینی) محبت ہوگی۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : ” یا رسول اللہ آپ اس شخص کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے مگر ابھی ان سے نہیں ملا ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ) [ بخاري، الأدب، باب علامۃ الحب في اللہ۔۔ : ٦١٦٩ ] ” آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھے گا۔ “ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا) [ النساء : ٦٩ ] ” اور جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔ “ اس لیے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے صالحین میں داخل فرمائے گا جن کے ساتھ ملانے کی دعا اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کرتے رہے، جیسا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی : (وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ ) [ النمل : ١٩ ] ” اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔ “ اور یوسف (علیہ السلام) نے دعا کی : (تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ ) [ یوسف : ١٠١ ] ” مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ “ ان لوگوں کو صالحین میں داخل کرنے کی اس مقام پر ایک لطیف مناسبت ہے کہ جب والدین کے شرک کا حکم دینے کی صورت میں ان کی بات نہ ماننے کا حکم دیا گیا تو ظاہر ہے اس سے والدین اور اس کے درمیان دوری اور قطع تعلق قدرتی بات ہے، اللہ تعالیٰ نے ان سے اس جدائی کے بدلے اسے صالحین میں داخل فرمایا، تاکہ اسے ان سے انس حاصل ہو اور اس کا دل لگا رہے۔ (ابن عاشور) اپنے عزیزوں سے جدائی کے عوض اللہ تعالیٰ کی طرف سے انس عطا ہونے کی ایک مثال آسیہ[ کی دعا ہے، جس نے ایمان لانے کی وجہ سے خاوند اور گھر چھن جانے پر دعا کی : ( رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ) [ التحریم : ١١ ] ” اے رب میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے۔ “ اس دعا میں ” عندک “ اور ” بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ “ کے الفاظ قابل غور ہیں، فرعون کے بدلے رب تعالیٰ کی ہمسائیگی اور گھر کے بدلے جنت کا گھر، کیا خوب جزا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماں باپ اور دوسرے خویش و اقارب کی مزاحمت کے باوجود ایمان و عمل صالح پر ثابت قدم رہنے والوں کے لیے یہ بہت بڑا انعام ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَــنُدْخِلَنَّہُمْ فِي الصّٰلِحِيْنَ۝ ٩- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩) البتہ تم میں سے جو ایمان لائے ہوں گے اور نیک کام کیے ہوں گے ان کو جنت میں نیک بندوں کے ساتھ داخل کردیں گے یعنی حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) حضرت عثمان غنی (رض) حضرت علی رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین - شان نزول : ( آیت ) ”۔ ووصینا الانسان بوالدیہ “۔ (الخ)- مسلم (رح) اور ترمذی (رح) نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت سعد (رض) کی والدہ نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ بھلائی کا حکم نہیں دیا اللہ کی قسم میں نہ کوئی چیز کھاؤں گی اور نہ پیوں گی جب تک میں مرجاؤں یا تو کفر کرے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩ (وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّہُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ ) ” - نیک اہل ایمان کو صالحین کے گروہ میں شامل کرنے کا یہ وعدہ دنیا کے لیے بھی ہے اور آخرت کے لیے بھی۔ اس مژدۂ جانفزا کے مفہوم کو بھی مکہ کے مذکورہ حالات کے پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے ‘ جہاں اہل ایمان اپنے پیاروں سے کٹ رہے تھے ‘ والدین اپنے جگر گوشوں کو چھوڑنے پر مجبور تھے ‘ اولاد والدین کی شفقت و محبت سے محروم ہو رہی تھی اور بھائی بھائیوں سے جدا ہو رہے تھے۔ جیسے سردار قریش عتبہ بن ربیعہ کے بڑے بیٹے حذیفہ (رض) ایمان لے آئے جبکہ چھوٹا بیٹا ولید کافر ہی رہا۔ (عتبہ اور اس کا بیٹا ولید غزوۂ بدر میں سب سے پہلے مارے جانے والوں میں سے تھے۔ ) اگر انسانی سطح پر دیکھا جائے تو حضرت حذیفہ (رض) کے لیے یہ بہت کڑا امتحان تھا۔ بہرحال جو صحابہ (رض) اس آزمائش اور امتحان سے دو چار ہوئے انہوں نے غیر معمولی حوصلے اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن آخر تو وہ انسان تھے ‘ اندر سے ان کے دل زخمی تھے اور ان کے زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کی ضرورت تھی۔ چناچہ آیت زیر نظر کو اس سیاق وسباق میں پڑھا جائے تو اس کا مفہوم یوں ہوگا کہ اے میرے جاں نثار بندو اگر تم لوگ مجھ پر اور میرے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر اپنے والدین ‘ بھائی بہنوں اور عزیز رشتہ داروں سے کٹ چکے ہو تو رنجیدہ مت ہونا۔ دوسری طرف ہم نے تمہارے لیے نبی رحمت اور اہل ایمان کے گروہ کی صورت میں نئی محبتوں اور لازوال رفاقتوں کا بندوبست کردیا ہے۔ ہمارے ہاں تمہارے لیے ایک نئی برادری تشکیل پا رہی ہے جس کی بنیاد ایک مضبوط نظریے پر رکھی گئی ہے۔ اب تم لوگ اس نئی برادری کے رکن بن کر ہمارے برگزیدہ بندوں کے گروہ میں شامل ہوگئے ہو ‘ جہاں رحمۃٌ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ لوگوں کو اپنے سینے سے لگانے کے لیے منتظر ہیں اور جہاں ابوبکر صدیق (رض) اپنے ساتھیوں سمیت تم لوگوں پر اپنی محبت و شفقت کے جذبات نچھاور کرنے کو بےقرار ہیں۔ اس حوالے سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بار بار یاد دہانی کرائی جا رہی ہے (سورۃ الحجر : ٨٨ اور سورة الشعراء : ٢١٥) کہ مؤمنین کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے کندھوں کو جھکا کر رکھیے اور ان کے ساتھ محبت و رأفت کا معاملہ کیجیے۔ - دوسری طرف صالحین کے گروہ میں شمولیت کی اس خوشخبری کا تعلق آخرت سے بھی ہے ‘ جس کا واضح تر اظہار سورة النساء کی اس آیت میں نظر آتا ہے : (وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا ) ” اور جو کوئی اطاعت کرے گا اللہ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو ایسے لوگوں کو معیت حاصل ہوگی ان لوگوں کی جن پر اللہ کا انعام ہوا یعنی انبیاء کرام ‘ صدیقین ‘ شہداء اور صالحین۔ اور کیا ہی اچھے ہیں یہ لوگ رفاقت کے لیے “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani