انسان کا وجود پہلے اپنی توحید پر مضبوطی کے ساتھ کاربند رہنے کا حکم فرما کر اب ماں باپ کے سلوک واحسان کا حکم دیتا ہے ۔ کیونکہ انہی سے انسان کا وجود ہوتا ہے ۔ باپ خرچ کرتا ہے اور پرورش کرتا ہے ماں محبت رکھتی ہے اور پالتی ہے ۔ دوسری آیت میں فرمان ہے آیت ( وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا 23 ) 17- الإسراء:23 ) اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماچکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کی پوری اطاعت کرو ۔ ان دونوں یا ان میں سے ایک کا بڑھاپے کا زمانہ آجائے تو انہیں اف بھی نہ کہنا ڈانٹ ڈپٹ تو کہاں کی ؟ بلکہ ان کے ساتھ ادب سے کلام کرنا اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھکے رہنا اور اللہ سے ان کے لیے دعا کرنا کہا اے اللہ ان پر ایسا رحم کر جیسے یہ بچپن میں مجھ پر کیا کرتے تھے ۔ لیکن ہاں یہ خیال رہے کہ اگر یہ شرک کی طرف بلائیں تو ان کا کہا نہ ماننا ۔ سمجھ لو کہ تمہیں ایک دن میرے سامنے کھڑے ہونا ہے ۔ اس وقت میں اپنی پرستش کا اور میرے فرمان کے تحت ماں باپ کی اطاعت کرنے کا بدلہ دونگا ۔ اور نیک لوگوں کے ساتھ حشر کرونگا اگر تم نے اپنے ماں باپ کی وہ باتیں نہیں مانیں جو میرے احکام کے خلاف نہیں تو وہ خواہ کیسے ہی ہوں میں تمہیں ان سے الگ کر لونگا ۔ کیونکہ قیامت کے دن انسان اس کے ساتھ ہوگا جسے وہ دنیا میں چاہتا تھا ۔ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ایمان والوں اور نیک عمل والوں کو میں اپنے صالح بندوں میں ملادونگا ۔ حضرت سعد فرماتے ہیں میرے بارے میں چار آیتیں اتریں جن میں سے ایک آیت یہ بھی ہے ۔ یہ اس لئے اتری کہ میری ماں نے مجھ سے کہا کہ اے سعد کیا اللہ کا حکم میرے ساتھ نیکی کرنے کا نہیں ؟ اگر تو نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار نہ کیا تو واللہ میں کھانا پینا چھوڑ دونگی چنانچہ اس نے یہی کیا یہاں تک کہ لوگ زبردستی اس کا منہ کھول کر غذا حلق میں پہنچا دیتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ ( ترمذی وغیرہ )
8 1قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید و عبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ جس سلوک کی تاکید کی ہے۔ جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ ربوبیت (اللہ واحد) کے تقاضوں کو صحیح طریقہ سے وہی سمجھ سکتا ہے اور انھیں ادا کرسکتا ہے جو والدین کی اطاعت و خدمت کے تقاضوں کو سمجھتا اور ادا کرتا ہے۔ جو شخص یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا میں اس کا وجود والدین کی باہمی قربت کا نتیجہ اور ان کی تربیت و پرداخت، ان کی نہایت مہربانی اور شفقت کا ثمرہ ہے۔ اس لئے مجھے ان کی خدمت میں کوئی کوتاہی اور ان کی اطاعت سے سرتابی نہیں کرنی چاہیے اور یقینا خالق کائنات کو سمجھنے اور اس کی توحید و عبادت کے تقاضوں کی ادائیگی سے بھی قاصر رہے گا۔ اسی لئے احادیث میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے۔ ایک حدیث میں والدین کی رضامندی کو اللہ کی رضا اور ان کی ناراضگی کو رب کی نارضگی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ 8 2یعنی والدین اگر شرک کا حکم دیں (اور اسی میں دیگر معاصی کا حکم شامل ہے) اور اس کے لئے خاص کوشش بھی کریں تو ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ۔ اس آیت کے شان نزول میں حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کا واقعہ آتا ہے کہ ان کے مسلمان ہونے پر انکی والدہ نے کہا کہ میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے یا پھر تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کر دے، بالآخر یہ اپنی والدہ کو زبردستی منہ کھول کر کھلاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی
[ ١٠] اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنے حقوق کے بعد متصلا " والدین کے حقوق اور ان سے بہتر سلوک کا ذکر فرمایا ہے۔ جس سے اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ تفصیل کے لئے سورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٢٣ کا حاشیہ ٢٥- [ ١١] یعنی تمام کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اللہ کی شریک ہوسکے۔ اور اللہ کی اپنی شہادت بھی یہی ہے کہ وہ اللہ جو کائنات کا ایک ایک چیز کا ذرہ ذرہ بھر تک علم رکھتا ہے۔ اس کے علم میں بھی کوئی چیز نہیں جو اس کی شریک ہو۔ تو پھر تجھے یا کسی دوسرے کو کیا علم ہوسکتا ہے اور اس آیت میں لَکَ کا لفظ محض تاکید مزید کے طور پر ہے اور جو لوگ بعض اشیاء یا ہستیوں کو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں تو یہ محض ان کے جاہلانہ اوہام اور بےسند خیالات ہیں۔ حقیقت کی انھیں بھی کچھ خبر نہیں۔ - [ ١٢] یعنی والدین بھی تجھے شرک پر مجبور کریں تو ان کی یہ بات تسلیم نہیں کی جائے گی۔ چناچہ سعد بن ابی وقاص کے بیٹے معصب بن سعد کہتے ہیں کہ اس کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ وہ سعد سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (اسلام) نہ چھوڑے گا، نہ ہی وہ کچھ کھائے گی اور نہ پئے گی۔ وہ سعد سے کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے والدین کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور میں تیری ماں ہوں اور تجھے اس بات کا حکم دے رہی ہوں۔ پھر تین دن اس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا اور نہ ہی سعد سے بات کی۔ تین دن کے بعد اسے غش آگیا تو اس کے ایک دوسرے بیٹے عمارہ نے اسے پانی پلایا۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ سعد کے حق میں بددعا کرنے لگی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب فی فضل سعد بن ابی وقاص)- اور دوسری احادیث و روایات سے جو تفصیل ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جب اسلام لائے اس وقت آپ انیس بیس برس کے نوجوان تھے اور بالکل آغاز اسلام ایمان لائے تھے وہ خود روایت کرتے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد مجھ پر سات دن ایسے گزرے ہیں کہ میں کل مسلمانوں کا تیسرا حصہ تھا (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب اسلام سعد) یعنی رسول اللہ کے گھرانہ کے علاوہ اس وقت تک صرف تین آزاد مرد مسلمان تھے۔ جن میں سے ایک یہی حضرت بن ابی وقاص تھے اور وہ اپنے ایمان میں اس قدر پختہ تھے کہ جب ان کی ماں نے بھوک ہڑتال کی دھمکی دی۔ تو آپ نے اپنی ماں سے کہا : ماں اگر تیری سو جانیں ہوں اور ایک ایک کرکے سب نکل جائیں تو بھی میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین سے نہیں پھروں گا۔ تو کھا یا نہ کھایا تجھے اختیار ہے۔- شرک تو خیر سب گناہوں سے بڑا گناہ ہے۔ شریعت نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ اگر اللہ کی نافرمانی کی کوئی بھی بات ہو تو اللہ کے مقابلہ میں کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہوسکتی ہے۔ (متفق علیہ) خواہ حکم دینے والے والدین ہو یا بادشاہ ہو یا امیر ہو، کسی کی بھی اللہ کے مقابلہ میں اطاعت نہیں کی جاسکتی۔- اس آیت سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ شرک یا اللہ کی نافرمانی کے علاوہ باقی ہر طرح کے معاملات میں والدین کی اطاعت فرض ہے۔ جیسا کہ سعد بن ابی وقاص کی والدہ نے بھی جو کافر تھی یہی کچھ سمجھا تھا۔ مگر دور حاضر کے مفسر قرآن جناب پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن میں اطاعت والدین کے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ ان کے اپنے الفاظ ہیں :- دنیا کے تمام مذاہب اور اخلاق کے دبستانوں میں یہ چیز (اطاعت والدین) ایک مسلمہ کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے کہ ماں باپ کی اطاعت فرض ہے ایسے مسلمہ کی حیثیت جو کسی بھی غور و فکر، تنقید کی محتاج ہی نہیں۔ ان کے ہاں کبھی کسی نے اتنا خیال کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی کہ یہ بھی کوئی ایسی بات ہے جس میں دو رائیں ہوسکتی ہیں۔ لیکن قرآن کو دیکھئے۔ اس نے دنیا میں پہلی بار یہ آواز بلند کی ہے کہ جو لوگ عقل کے انحطاط کے دور میں پہنچ گئے ہوں ان کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوا کرتے۔ ماں باپ حسن سلوک اور نرم برتاؤ کے مستحق ہیں اور بس۔ جب تک بچہ بچہ ہے وہ اس کے نگران اور کفیل ہیں۔ جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو اپنے لئے آپ فیصلے کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے۔ وہ دوسروں کے تجربوں سے مشورہ سے فائدہ تو اٹھا سکتا ہے لیکن اسے ان کے فیصلوں کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔ (قرآنی فیصلے ص ١٣٨)- اس اقتباس سے درج ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے :- ١۔ اخلاق کے تمام دبستان اور دنیا کے تمام مذاہب اطاعت والدین کی فرضیت پر متفق ہیں۔ ان مذاہب میں سب اہل کتاب بھی شامل ہیں۔ جن کے انبیاء پر وحی الٰہی نازل ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ والدین کی اطاعت سب انبیاء کی تعلیم کا حصہ رہا ہے۔- ٢۔ پھر ان مذاہب میں یا اہل کتاب میں مسلمان بھی شامل ہیں جنہیں قرآن جیسی کتاب دی گئی۔ اس قرآن میں پہلی بار یہ صدا بلند کی گئی کہ اطاعت والدین ایک بےمعنی اور لغو چیز ہے۔ لیکن قرآن کی اس صدا پر مسلمانوں نے بھی کان تک نہ دھرا یا انھیں اس صدا کی سمجھ ہی نہ آسکی۔ اور وہ بھی اطاعت والدین دوسرے مذاہب کی طرح واجب ہی سمجھتے رہے تاآنکہ پرویز صاحب نے قرآن کی اس پہلی بار کی صدا کا صحیح مفہوم سمجھا اور وہ مفہوم یہ ہے کہ والدین کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوا کرتے - ٣۔ ماں باپ اپنی اولاد سے صرف حسن سلوک اور نرم برتاؤ کے مستحق ہیں اور بس۔ گویا پرویز صاحب کے خیال کے مطابق والدین کی اطاعت کے بغیر بھی ان سے حسن سلوک اور نرم برتاؤ ممکن ہے۔- پھر اس کے بعد پرویز صاحب اپنے موقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب تک ماں باپ زندہ ہیں ان کا لڑکی خواہ ساٹھ ستر برس کا ہی کیوں نہ ہوجائے اسے کوئی حق حاصل نہیں کہ اپنے فیصلے اپنی صوابدید کے مطابق کرے۔ اسے ان کے فیصلوں کی تعمیل کرنے ہوگی جن کی عقل کے متعلق اس کے خدا کا فیصلہ ہے کہ اس عمر میں اوندھی ہوجاتی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ماں باپ کی اطاعت کو فرض سمجھنے والی اولاد ساری عمر عقلی طور پر اپاہج اور ذہنی طور پر بچے کے بچے رہ جاتے ہیں (ایضاص ١٢٩)- اب دیکھئے اس اقتباس میں پرویز صاحب نے جو مثال پیش فرمائی ہے وہ عقل اور نقل دونوں لحاظ سے غلط ہے۔ عقلی لحاظ سے اس طرح کہ جو اولاد خود ساٹھ ستر برس کی عمر کو پہنچ چکی ہے اس کے والدین سو سال کی لگ بھگ ہی ہوسکتے ہیں۔ اس عمر میں وہ نان شبینہ حتی کہ نقل و حرکت تک کے لئے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس حالت میں وہ کیا فیصلے دے سکتے ہیں اور اولاد کو کیسے حکم دے سکتے ہیں۔ وہ تو اس عمر میں اپنی رائے بتلانے کے بھی قابل نہیں رہتے۔ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو اولاد ساٹھ ستر برس کی عمر کو پہنچ چکی ہے وہ تو خود ارذل العمر کی حدود میں داخل ہوچکی ہے۔ اسے کیا حق ہے کہ اب وہ اپنے فیصلے آپ کرے۔ اب فیصلے کرنے کے لئے اس کی اولاد موجود ہے۔ جو کم از کم چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر عقل کی پختگی حاصل کرچکی ہے۔ لہذا ساٹھ ستر برس کی اولاد کے لئے اس واقعاتی دنیا میں اطاعت والدین کا سوال بھی کم ہی پیدا ہوتا ہے۔- اور نقلی لحاظ سے یہ دلیل اس لئے غلط ہے کہ قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اس عمر میں لوگوں کی عقل اوندھی ہوجاتی ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں :- ( وَمَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۭ اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ 68) 36 ۔ يس :68) اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں۔- یعنی بچے سے جوان، پھر جوان سے بوڑھا کردیتے ہیں۔ جوانی میں وہ طاقتور تھا، بڑھاپے میں کمزور ہوجاتا ہے اس کا جسم بھرا ہوا اور سڈول تھا، بڑھاپے میں وہ نحیف و نزار وہجاتا ہے اور اس کے بند ڈھیلے پڑجاتے ہیں۔ اس آیت میں اس کی خلقت کے اوندھا ہونے کا ذکر ہے۔ عقل کا نہیں، اس مضمون سے ملتی جلتی دوسری آیت یہ ہے :- (وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْــــًٔا ) 22 ۔ الحج :5) اور تم میں سے کچھ ایسے ہیں جو خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور جاننے کے بعد بےعلم ہوجاتے ہیں ۔- یعنی ان کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے۔ وہ اپنا سابقہ حاصل کیا ہوا علم بھی بھول جاتے ہیں۔ اس آیت میں بھی عقل کے اوندھا ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔ پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ جب بچہ بچہ ہے، والدین اس کے نگران اور کفیل ہیں، جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو اپنے لئے آپ فیصلے کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے اب سوال یہ ہے کہ بچپن میں تو بچہ والدین کے زیر تربیت و کفالت ہونے کی وجہ سے ان کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتا، ورنہ اس کی تعلیم و تربیت رک جاتی ہے۔ پھر وہ نابالغ ہونے کی بنا پر شرعی احکام کا مکلف بھی نہیں ہوتا۔ اطاعت والدین کا تو سوال ہی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ عاقل و بالغ ہوجائے اور یہی وہ عمر ہوتی ہے جس میں جوانی کا جوش، جذبات کی فراوانی اور عقل کی ناپختگی ہوتی ہے اور درحقیقت یہی وہ دور ہوتا ہے جس میں اسے والدین کی اطاعت کرنا ضروری ہوتی تاآنکہ وہ عقل کی پختگی کی عمر یعنی چالیس سال کی عمر کو پہنچ جائے جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو وہ اپنے فیصلے آپ کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں اولاد نے والدین کی خدمات کا کیا صلہ دیا ؟ معلوم ہوتا ہے کہ پرویز صاحب کو بھی اپنے اس گھپلے کا احساس ہوگیا۔ چناچہ بعد میں لکھتے ہیں کہ :- اس میں شبہ نہیں کہ ہماری موجودہ معاشرت (جس میں خاندانوں میں مشترکہ زندگی بسر ہوتی ہے) کی عائلی زندگی کا تقاضا ہے کہ افراد خاندان کے متفقہ فیصلوں کے ماتحت زندگی بسر کریں اور خود سر اور سرکش نہ ہوجائیں لیکن خودسری اور سرکشی اور شے ہے اور اصابت رائے اور شے پھر اس عبارت پر حاشیہ دے کر فٹ نوٹ میں لکھتے ہیں کہ یاد رکھئے خود فیصلے کرنے کے لئے عقل کی پختگی اور رائے کی اصابت لاینفک شرط ہے۔ اس لئے بچہ جب تک اس منزل تک نہ پہنچ جائے اسے لامحالٰہ بڑوں کے فیصلہ کے مطابق چلنا ہوگا۔ (ایضا ص ١٢٩)- اس اقتباس میں جواب طلب امور یہ ہیں :- ١۔ کیا بڑوں میں والدین بھی شامل ہیں یا نہیں ؟ یا صرف اطاعت والدین کی مخالفت میں ان بڑوں میں والدین کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا گیا ؟- ٢۔ قرآن نے جو پہلی بار صدا بلند کی تھی کہ بڑوں کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوتے اس صدا کے خلاف اب آپ خود ہی کیوں نوجوانوں کو ایسے مشورے دینے لگے ؟- ٣۔ اگر چھوٹے بڑوں کے فیصلوں کے پابند ہوں گے تو اس طرح وہ عقلی لحاظ سے اپاہج بن جائیں گے اس بات کا آپ کے پاس کیا علاج ہے ؟- اب ہم قرآن ہی سے ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی اطاعت فرض ہے :- ١۔ سورة عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :- ( وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا ۭ وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۭ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت :8)- اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا، پھر اگر وہ اس بات کے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کی حقیقت کا تجھے علم نہیں تو پھر ان کی اطاعت نہ کر - اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ اطاعت والدین حسن سلوک میں شامل ہے اور دوسری یہ کہ شرک کے معاملہ میں والدین کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ باقی سب معاملات میں ان کی اطاعت لازم ہے۔- ٢۔ اور سورة لقمان میں بالکل ایسے ہی الفاظ آئے ہیں البتہ یہ وضاحت زیادہ ہے :- ( وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۙفَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا ۡ وَّاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 15) 31 ۔ لقمان :15)- اور دنیوی معاملات میں والدین کا اچھی طرح ساتھ دے خواہ وہ مشرک ہوں - ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 59 ) 4 ۔ النسآء :59)- اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان کی بھی جو تم میں سے اولی الامر ہیں - یہاں اولی الامر جمع کا صیغہ ہے اور اس سے مراد صرف حکام سلطنت ہی نہیں بلکہ ہر وہ فرد بھی شامل ہے جس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ مثلاً والدین، استاد، محلہ کے چوہدری، خاندان کے سربراہ وغیرہ وغیرہ یعنی اور وہ مسلمان ہیں اور اللہ کی معصیت کا حکم نہیں دیتے تو ان سب کی اطاعت لازم ہے۔ آخر ان اولی الامر کے زمرہ سے والدین کو کس لحاظ سے خارج کیا جاسکتا ہے۔- ٤۔ حضرت یحییٰ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ :- ( وَّځ ابِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا ١ 4 ۔ ) 19 ۔ مریم :14)- یحییٰ اپنے والدین سے نیک سلوک کرنے والے تھے۔ ان پر دباؤ ڈالنے والے اور نافرمان نہیں تھے - اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے والدین کا، خواہ وہ کسی عمر میں ہوں، سرکش اور نافرمان ہو وہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرنے والا ہو ہی نہیں سکتا۔ گویا حسن سلوک میں دو باتیں ضرور ہیں، (١) سختی کے بجائے نرمی کا سلوک اور (٢) ان کی فرمانبرداری۔ الفاظ یدگر والدین کی اطاعت کے بغیر ان سے حسن سلوک کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔- ٥۔ حضرت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں اولاد عطا فرمائی تھی۔ حضرت اسماعیل جب عاقل ہوگئے تو ان سے حضرت ابراہیم نے کہا کہ :- ( فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى ۭ قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ ١٠٢۔ ) 37 ۔ الصافات :102)- میرے پیارے بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر کر رہا ہوں، تم دیکھو کہ اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ حضرت اسماعیل نے کہا : ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہے، وہی کچھ کیجئے - اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ حضرت اسماعیل اس وقت عاقل و بالغ اور رائے دینے کے لئے قابل ہوچکے تھے۔ دوسرے یہ کہ یہ اللہ کا حکم خواب میں حضرت ابراہیم کو ہوا تھا۔ حضرت اسماعیل کو نہیں ہوا تھا۔ باینہمہ حضرت اسماعیل نے اپنے بوڑھے والد کی اطاعت کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ نہ اس واقعہ سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔ حضرت اسماعیل نے اپنے والد کی اطاعت میں جان کی قربانی پیش کرنے سے بھی انکار نہیں کیا۔ یہ نہیں سوچا کہ یہ تو خواب کی بات ہے یا یہ کہ نعوذ باللہ اب باپ بوڑھا ہوگیا ہے جو اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے یا یہ کہ باپ تو محض میری رائے پوچھ رہا ہے کوئی حکم تو نہیں دے رہا۔ یا یہ کہ اگر خواب میں حکم ہوا ہے تو میرے باپ کو ہوا ہے، مجھے تو نہیں ہوا۔ بلکہ اپنے باپ کی منشاء کے آگے (حکم کے آگے نہیں) سرتسلیم خم کردیا اور اللہ تعالیٰ نے (فَلَمَّا أسْلَمَا) کہہ کر اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ حضرت اسماعیل کی اپنے باپ کے منشاء کے اطاعت بھی عین اللہ کی اطاعت تھی، کیا اس سے بڑھ کر بھی بوڑھے والدین کی اطاعت کے سلسلہ میں قرآن سے کوئی درکار ہے ؟- یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی - سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی - مندرجہ بالا تصریحات سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آئے ہیں :- ١۔ بلوغت سے پہلے بچہ والدین کے زیر تربیت و کفالت ہونے کی وجہ سے والدین کی اطاعت پر مجبور ہوتا ہے۔ اور اس بچہ کی اطاعت اس لحاظ سے بھی خارج از بحث ہے کہ اس عمر میں بچہ شرعی احکام کا مکلف نہیں ہوتا۔- ٢۔ بلوغت سے لے کر چالیس سال کی عمر تک (یعنی پختگی عقل اور اصابت رائے کی عمر تک) کے عرصہ میں اولاد کو والدین کی اور بزرگوں کی اطاعت کرنا لازم ہے کیونکہ اس عمر میں جوانی کا جوش اور جذبات کی شدت انسان کی عقل پر غالب ہوتے ہیں۔ لہذا وہ اپنا نفع و نقصان بھی درست طور پر سوچنے کے قابل نہیں ہوتا اور اس کی اپنی عافیت بھی اسی بات میں ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین اور بڑوں کی اطاعت کرے۔- ٣۔ اندازا چالیس سال کی عمر کے بعد جب اس کی عقل پختہ ہوجاتی ہے اس وقت تک اس کے والدین کہولت کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ وہ خود اولاد کے محتاج ہونے کی وجہ سے اپنا کوئی حکم اپنی اولاد کے سرتھوپ نہیں سکتے۔ تاہم اس عمر میں بھی اگر اولاد اپنے والدین کی مرضی کو مقدم رکھے تو یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ اگر کہیں اختلاف واقع ہوجائے تو پھر بھی اولاد کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے بحث وجدال کرے یا ان کو دبائے۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ ایسی حالت میں بھی ان کو اف تک نہ کہے۔ انھیں دبانا یا ڈانٹنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ایسی صورت میں وہ اپنی بات نرمی سے پیش کرکے دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرے اور دنیوی امور میں یعنی ان کے قیام و طعام کے سلسلہ میں دل و جان سے ان کی خدمت کرے۔- ٤۔ اگر والدین اللہ سے شرک یا دوسرے کسی معصیت کے کام پر اولاد کو مجبور کریں یعنی اللہ کے مقابلے میں کوئی حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے۔ بس یہی ایک صورت ہے جس میں ان کی نافرمانی کی جاسکتی ہے۔ خواہ یہ ان کی عمر کا کوئی دور ہو۔ - [ ١٣] یعنی والدین ہو یا اولاد، فرمانروا ہو یا رعایا کا کوئی فرد سب کو اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ وہ ہر ایک معاملہ میں تمہیں بتلا دے گا کہ زیادتی کس کی تھی اور حق پر کون تھا۔
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا : اللہ پر ایمان اور عمل صالح کی تلقین اور اس کی فضیلت بیان کرنے کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا، کیونکہ انھی سے انسان کا وجود ہوتا ہے، باپ خرچ کرتا اور پرورش کرتا ہے، جبکہ ماں دودھ پلاتی اور پالتی ہے۔ قرآن مجید میں عموماً اللہ کے حق کے بعد والدین کا حق بیان ہوا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا ) [ بني إسرائیل : ٢٣ ] ” اور تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر کبھی تیرے پاس دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ ہی جائیں تو ان دونوں کو ” اُف “ مت کہہ اور نہ انھیں جھڑک اور ان سے بہت کرم والی بات کہہ۔ “- بقاعی نے پچھلی آیات کے ساتھ اس آیت کا یہ ربط نکالا ہے کہ آزمائش کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ آدمی کو اس کے والدین کفرو شرک پر مجبور کریں تو ایسے موقع پر اسے ثابت قدم رہنا چاہیے اور کفرو شرک کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔ - وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا : یعنی اگر والدین تجھ پر زور دیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان کا کہنا مت مان، یعنی جس کے شریک ہونے کی تیرے پاس کوئی دلیل نہیں، کیونکہ علم وہ ہے جس کی دلیل ہو۔ مقصد یہ ہے کہ بھلا شرک کی بھی کوئی دلیل ہوسکتی ہے، وہ تو محض توہم پرستی اور تقلید کے اندھے پن سے وجود میں آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کے کہنے پر اللہ کے ساتھ شرک کرنا کسی صورت جائز نہیں، صرف شرک ہی نہیں اللہ اور اس کے رسول کی کوئی بھی نافرمانی ماں باپ یا کسی مخلوق کے کہنے پر جائز نہیں۔ علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِيْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ) [ مسند أحمد : ١؍١٣١، ح : ١٠٩٩، صحیح علٰی شرط مسلم ] ” اللہ عزوجل کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں۔ “ اور ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِیْمَا أَحَبَّ وَکَرِہَ مَا لَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَۃٍ ، فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلاَ سَمْعَ عَلَیْہِ وَ لاَ طَاعَۃَ ) [ ترمذي، الجہاد، باب ما جاء لا طاعۃ لمخلوق في معصیۃ الخالق : ١٧٠٧، و صححہ الترمذي و الألباني ] ” سننا اور ماننا مسلمان آدمی پر فرض ہے ان حکموں میں جو اسے پسند ہوں یا ناپسند ہوں، جب تک اسے (اللہ کی) نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے، تو جب اسے (اللہ کی کسی) نافرمانی کا حکم دیا جائے تو نہ سننا جائز ہے نہ ماننا۔ “ - 3 سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ ان کے بارے میں قرآن کی کئی آیات اتریں، (ان میں سے یہ ہے کہ) سعد کی ماں نے (ان کے مسلمان ہونے پر) قسم کھالی کہ اس سے کبھی کلام نہیں کرے گی جب تک وہ اپنے دین سے کافر نہ ہوجائے اور نہ کھائے گی نہ پیے گی۔ اس نے کہا، تم کہتے ہو کہ اللہ نے تمہیں والدین کے بارے میں وصیت کی ہے اور میں تمہاری ماں ہوں اور تمہیں یہ حکم دیتی ہوں۔ سعد نے کہا، وہ تین دن ایسے ہی رہی، حتیٰ کہ بھوک سے اس پر غشی طاری ہوگئی، تو اس کا ایک بیٹا اٹھا جس کا نام عمارہ تھا، اس نے اسے (پانی وغیرہ) پلایا تو وہ (ہوش میں آ کر) سعد پر ب دعائیں کرنے لگی، اس پر اللہ عز و جل نے قرآن میں یہ آیت نازل فرمائی : (وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا) [ العنکبوت : ٨ ] اور یہ آیت : (وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۙفَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا) [ لقمان : ١٥ ] [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب - في فضل سعد بن أبي وقاص (رض) : ١٧٤٨، بعد الحدیث : ٢٤١٢ ]- اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ ۔۔ : یعنی دنیا کی یہ رشتہ داریاں اور والدین کے حقوق اس دنیا کی حد تک ہیں، آخر کار ماں باپ اور اولاد سب کو اللہ تعالیٰ کے حضور پلٹ کر جانا ہے، پھر اگر ماں باپ نے اولاد کو گمراہی پر مجبور کیا یا ناحق زیادتی کی تو وہ پکڑے جائیں گے اور اگر اولاد نے والدین کے جائز حقوق میں کوتاہی کی تو ان سے باز پرس ہوگی۔
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور (اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ) اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرائے جس (کے معبود ہونے) کی کوئی (صحیح) دلیل تیرے پاس نہیں ہے، (اور ہر چیز ایسی ہی ہے کہ کل اشیاء کے ناقابل عبادت ہونے پر دلائل قائم ہیں) تو (اس باب میں) ان کا کہنا نہ ماننا، تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے سو میں تم کو تمہارے سب کام (نیک ہوں یا بد) جتلا دوں گا اور (تم میں) جو لوگ ایمان لائے ہوں گے ہم ان کو نیک بندوں (کے درجہ) میں (جو کہ بہشت ہے داخل کردیں گے (ور اسی طرح اعمال بد پر ان کے مناسب سزا دیں گے، پس اسی بناء پر جس نے والدین کی اطاعت کو ہماری اطاعت پر مقدم رکھا ہوگا۔ وہ سزا پائے گا اور جس نے اس کا عکس کیا ہوگا نیک جزا پائے گا، حاصل یہ ہوا کہ واقعہ بالا میں ماں باپ کی نافرمانی سے وسوسہ گناہ کا نہ کیا جائے۔- معارف و مسائل - وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ ، وصیت کہتے ہیں کسی شخص کو کسی عمل کی طرف بلانے کو جبکہ وہ بلانا نصیحت و خیر خواہی پر مبنی ہو (مظہری)- بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا، لفظ حسن مصدر ہے بمعنی خوبی، اس جگہ خوبی والے طرز عمل کو مبالغہ کے لئے حسن سے تعبیر کیا ہے۔ مراد واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ وصیت فرمائی کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔- وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ ، یعنی والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے حکم کی اطاعت اسی حد تک کی جائے کہ وہ حکم اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف نہ ہو، وہ اگر اولاد کو کفر و شرک پر مجبور کریں تو اس میں ان کی اطاعت ہرگز نہ کی جائے جیسا کہ حدیث میں ہے لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق (رواہ احمد و الحاکم و صححہ) یعنی خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔- یہ آیت حضرت سعد بن ابی وقاص کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ صحابہ کرام میں سے ان دس حضرات میں شامل ہیں جن کو آپ نے بیک وقت جنتی ہونے کی بشارت دی ہے جن کو عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے یہ اپنی والدہ کے بہت فرمانبردار اور ان کی راحت رسانی میں بڑے مستعد تھے۔ ان کی والدہ حمنہ بنت ابی سفیان کو جب یہ معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے سعد مسلمان ہوگئے تو انہوں نے بیٹے کو تنبیہ کی اور قسم کھالی کہ میں اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی جب تک کہ تم پھر اپنے آبائی دین پر واپس آجاؤ یا میں اسی طرح بھوک پیاس سے مرجاؤں اور ساری دنیا میں ہمیشہ کے لئے یہ رسوائی تمہارے سر رہے کہ تم اپنی ماں کے قاتل ہو (مسلم، ترمذی) اس آیت قرآن نے حضرت سعد کو ان کی بات ماننے سے روک دیا۔- بغوی کی روایت میں ہے کہ حضرت سعد کی والدہ ایک دن رات اور بعض اقوال کے مطابق تین دن تین رات اپنی قسم کے مطابق بھوکی پیاسی رہی۔ حضرت سعد حاضر ہوئے ماں کی محبت و اطاعت اپنی جگہ تھی، مگر اللہ تعالیٰ کے فرمان کے سامنے کچھ نہ تھی، اس لئے والدہ کو خطاب کر کے کہا کہ اماں جان اگر تمہارے بدن میں سو روحیں ہوتیں اور ایک ایک کر کے نکلتی رہتی ہیں اس کو دیکھ کر بھی کبھی اپنا دین نہ چھوڑتا، اب تم چاہو کھاؤ پیو یا مر جاؤ، بہرحال اپنے دین سے نہیں ہٹ سکتا، ماں نے ان کی اس گفتگو سے مایوس ہو کر کھانا کھالیا۔
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ حُسْـنًا ٠ۭ وَاِنْ جَاہَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا ٠ۭ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٨- وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى «2» قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ [ النساء 131] ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] ، يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ [ النساء 11] ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ- ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] اور ہم نے انسان کو حکم دیا ۔ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ۔ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ [ المائدة 106] کہ وصیت کے وقت تم دو مر د ۔ وصی ( ایضاء) کسی کی فضیلت بیان کرنا ۔ تواصی القوم : ایک دوسرے کو وصیت کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر 3] اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات 53] کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں ۔- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے
سورة العنکبوت - مشرک والدین سے بھی حسن سلوک ہو - قول باری ہے : (ووصینا الانسان بوالدیہ حسنا۔ ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ ) ابوعبیدہ نے حضرت عبداللہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا ۔ اللہ کے رسول کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرتا۔ “ میں نے عرض کیا۔ ” پھر کون سا ؟ “ آپ نے فرمایا : ” اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ “ میں نے عرض کیا : ” پھر کون سا ؟ “ آپ نے فرمایا : ” والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ “ حضرت ابو سعید خدری (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لا یدخل الجنۃ عاق ولا مدمن خمر۔ والدین کا نافرمان اور شراب کا رسیا جنت میں نہیں جائیں گے) ۔- آیت اور روایت دونوں اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ایک شخص کے لئے اپنے باپ کو قتل کرنا جائز نہیں ہے خواہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنظلہ (رض) بن عامر کو اپنے مشرک باپ کو قتل کرنے سے منع کردیا تھا۔ اس بات پر بھی دلالت موجود ہے کہ باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔
(٨) اور ہم نے انسان یعنی حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کو اپنے والدین یعنی مالک اور حمنۃ بنت ابی سفیان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرا کہ جس کے شریک ہونے کے بارے میں تیرے پاس کوئی دلیل نہیں اور تجھے معلوم ہے کہ میرا کوئی شریک نہیں تو اس شرک میں ان کا کہنا نہ مان، انکے والدین مشرک تھے۔ تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے میں تمہارے سب کام بتا دوں گا کفر و ایمان نیکی اور برائی۔
آیت ٨ (وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا ط) ” - مکہ کے مذکورہ حالات میں اسلام قبول کرنے والے بہت سے نوجوانوں کے لیے اپنے والدین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی ایک بہت سنجیدہ مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ ایک طرف قرآن کی یہ ہدایت تھی کہ انسان اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے اور ان کی نافرمانی نہ کرے۔ دوسری طرف ایمان لانے والے بہت سے نوجوان عملی طور پر اپنے والدین سے بغاوت کے مرتکب ہو رہے تھے۔ چناچہ ایسے تمام نوجوان اخلاقی اور جذباتی طور پر شدید دباؤ کا شکار تھے۔ مشرک والدین کا ان سے تقاضا تھا کہ تم ہماری اولاد ہو ‘ ہم نے پال پوس کر تمہیں بڑا کیا ہے ‘ لہٰذا تم پر لازم ہے کہ ہمارا حکم مانو اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تعلق توڑ کر اپنے مذہب پر واپس آجاؤ۔ جیسے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کا معاملہ تھا۔ آپ (رض) کے والد فوت ہوچکے تھے۔ والدہ نے انہیں بہت ناز ونعم سے پالا تھا۔ آپ (رض) بہت سلیم الفطرت اور شریف النفس نوجوان تھے اور اپنی والدہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ آپ (رض) کے ایمان لانے پر آپ (رض) کی والدہ نے ” مرن برت “ رکھ لیا اور قسم کھالی کہ اگر اس کا بیٹا اپنے والد کے دین پر واپس نہ آیاتو وہ بھوکی پیاسی رہ کر خود کو ہلاک کرلے گی۔ تصور کریں کہ ماں بھوک اور پیاس سے مر رہی ہے اور بیٹا اس کی اس حالت کو بےچارگی سے دیکھ رہا ہے۔ ایک فرمانبردار بیٹے کے لیے یہ کس قدر سخت امتحان تھا چناچہ یہ سوال بہت اہم تھا کہ ایسے نوجوان ان حالات میں کیا کریں ؟ ایک طرف والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اور وہ بھی اس تاکید کے ساتھ کہ قرآن میں متعدد مقامات پر (البقرۃ : ٨٣ ‘ النساء : ٣٦ ‘ الانعام : ١٥١ ‘ بنی اسرائیل : ٢٣ ‘ لقمان : ١٤) اللہ تعالیٰ نے اپنے حق عبادت کا ذکر کرنے کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر فرمایا ہے۔ دوسری طرف مشرک والدین کا یہ اصرار کہ ان کی اولاد ان کی فرمانبرداری کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کو چھوڑ کر واپس ان کے دین پر آجائے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اس نازک مسئلہ کے بارے میں راہنمائی فرمائی گئی ہے : - (وَاِنْ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا ط) ” - نوٹ کیجیے یہاں ” جہاد “ کا لفظ مشرک والدین کی اس ” کوشش “ کے لیے استعمال ہوا ہے جو وہ اپنی اولاد کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے کرسکتے تھے۔ گویا یہاں یہ لفظ اپنے خالص لغوی معنی (جدوجہد کرنا ‘ کوشش کرنا) میں آیا ہے۔ - اس آیت میں بہت واضح انداز میں اولاد کے لیے والدین کی فرمانبرداری کی ” حد “ ( ) بتادی گئی کہ والدین کے حقوق بہر حال اللہ کے حقوق کے بعد ہیں۔ یعنی اللہ کا حق ‘ اس کا حکم اور اس کے دین کا تقاضا ہر صورت میں والدین کے حقوق اور ان کی مرضی پر فائق رہے گا۔ لہٰذا کسی نوجوان کے والدین اگر اسے کفر و شرک پر مجبور کر رہے ہوں تو وہ ان کا یہ مطالبہ مت مانے۔ البتہ اس صورت میں بھی نہ تو وہ ان کے ساتھ بد تمیزی کرے اور نہ ہی سینہ تان کر جواب دے ‘ بلکہ ادب سے انہیں سمجھائے کہ ان کا یہ حکم ماننا اس کے لیے ممکن نہیں ‘ اس لیے اس کی درخواست ہے کہ وہ اس کے لیے اس پر دباؤ نہ ڈالیں۔ اس سلسلے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے مشرک والد کے ساتھ مکالمہ (سورۂ مریم ‘ آیات ٤٢ تا ٤٥) اس حکمت عملی کی بہترین مثال ہے۔ اس مکالمے میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ( علیہ السلام) اپنے والد کو بار بار یٰاَبَتِ ‘ یٰاَبَتِ ( ابا جان ابا جان ) کے الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں۔ والدین کے حقوق کے حوالے سے یہ مضمون سورة لقمان میں زیادہ وضاحت سے بیان ہوا ہے۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 11 اس آیت کے متعلق مسلم ، ترمذی ، احمد ، ابوداؤد اور نسائی کی روایت ہے کہ یہ حضرت سعد بن ابی وقاص کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ وہ 18 ۔ 19 سال کے تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا ، ان کی ماں حمنہ بنت سفیان بن امیہ ( ابو سفیان کی بھتیجی ) کو جب معلوم ہوا کہ بیٹا مسلمان ہوگیا ہے تو اس نے کہا کہ جب تک تو محمد کا انکار نہ کرے گا میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی ، نہ سائے میں بیٹھوں گی ، ماں کا حق ادا کرنا تو اللہ کا حکم ہے ، تو میری بات نہ مانے گا تو اللہ کی بھی نافرمانی کرے گا ۔ حضرت سعد اس پر سخت پریشان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ماجرا عرض کیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ممکن ہے کہ ایسے ہی حالات سے دوسرے وہ نوجوان بھی دوچار ہوئے جو مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں مسلمان ہوئے تھے ۔ اسی لیے اس مضمون کو سورہ لقمان میں بھی پورے زور کے ساتھ دوہرایا گیا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو آیت 15 ) آیت کا منشا یہ ہے کہ انسان پر مخلوقات میں سے کسی کا حق سب سے بڑھ کر ہے تو وہ اس کے ماں باپ ہیں ۔ لیکن ماں باپ بھی اگر انسان کو شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات قبول نہ کرنی چاہیے ، کجا کہ کسی اور کے کہنے پر آدمی ایسا کرے ۔ پھر الفاط یہ ہیں کہ وَاِنْ جَاهَدٰكَ اگر وہ دونوں تجھے مجبور کرنے کے لیے اپنا پورا زور بھی لگا دیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کم تر درجے کا دباؤ ، یا ماں باپ میں سے کسی ایک کا زور دینا تو بدرجہ اولی رد کردینے کے لائق ہے ۔ اس کے ساتھ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ( جسے تو میرے شریک کی حیثیت سے نہیں جانتا ) کا فقرہ بھی قابل غور ہے ۔ اس میں ان کی بات نہ ماننے کے لیے ایک معقول دلیل دی گئی ہے ۔ ماں باپ کا یہ حق تو بے شک ہے کہ اولاد ان کی خدمت کرے ، ان کا ادب و احترام کرے ، ان کی جائز باتوں میں ان کی اطاعت بھی کرے ۔ لیکن یہ حق ان کو نہیں پہنچتا کہ آدمی اپنے علم کے خلاف ان کی اندھی تقلید کرے ۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک بیٹا یا بیٹی صرف اس بنا پر ایک مذہب کی پیروی کیے جائے کہ یہ اس کے ماں باپ کا مذہب ہے ۔ اگر اولاد کو یہ علم حاصل ہوجائے کہ والدین کا مذہب غلط ہے تو اسے اس مذہب کو چھوڑ کر صحیح مذہب اختیار کرنا چاہیے اور ان کے دباؤ ڈالنے پر بھی اس طریقے کی پیروی نہ کرنی چاہیے جس کی گمراہی اس پر کھل چکی ہو ۔ اور یہ معاملہ جب والدین کے ساتھ ہے تو پھر دنیا کے ہر شخص کے ساتھ بھی یہی ہونا چاہیے ۔ کسی شخص کی تقلید بھی جائز نہیں ہے جب تک آدمی یہ نہ جان لے کہ وہ شخص حق پر ہے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 12 یعنی یہ دنیا کی رشتہ داریاں اور ان کے حقوق تو بس اسی دنیا کی حد تک ہیں ۔ آخر کار ماں باپ کو بھی اور اولاد کو بھی اپنے خالق کے حضور پلٹ کر جانا ہے ، اور وہاں ہر ایک کی باز پرس اس کی شخصی ذمہ داری کی بنیاد پر ہونی ہے ۔ اگر ماں باپ نے اولاد کو گمراہ کیا ہے تو وہ پکڑے جائیں گے ، اگر اولاد نے ماں باپ کی خاطر گمراہی قبول کی ہے تو اسے سزا ملے گی ۔ اور اگر اولاد نے راہ راست اختیار کی اور ماں باپ کے جائز حقوق ادا کرنے میں بھی کوتاہی نہ کی ، لیکن ماں باپ نے صرف اس قصور پر اسے ستایا کہ اس نے گمراہی میں ان کا ساتھ کیوں نہ دیا ، تو وہ اللہ کے مواخذے سے بچ نہ سکیں گے ۔
3: اس آیت نے یہ اصول بتا دیا ہے کہ اگر والدین کافر ہوں، تب بھی ان کے ساتھ عام برتاؤ میں نیک سلوک کرنا چاہئے اور ان کی توہیں یا ان کو تکلیف پہنچانا مسلمان کا کام نہیں ہے لیکن اگر وہ کفر و شرک پر مجبور کریں تو ان کا کہا ماننا جائز نہیں۔