[ ٣٤] یعنی نہ تم میں اتنا زور ہے کہ زمین کی حدود سے باہر نکل جاؤ اور نہ اتنی طاقت ہے کہ آسمانوں تک پہنچ جاؤ۔ یہ غالباً اس لئے فرمایا کہ انسان اس زمین کے علاوہ کسی دوسری جگہ زندہ رہ ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کی تمام غذائی اور جسمانی ضروریات اس زمین سے وابستہ ہیں الا یہ کہ چند دنوں کے لئے کوئی عارضی سا بندوبست کرلے اور جب اللہ کی گرفت آجائے تو نہ تم میں اتنا زور ہے کہ اس کی گرفت سے بچ سکو اور نہ کوئی دوسری ہستی اتنی طاقتور ہے کہ وہ اس کے عذاب سے تمہیں پناہ دے سکے یا اس کے عذاب کو روک سکے۔
وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ : یہاں یہ سوال ہوسکتا تھا کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے قابو ہی نہ آیا تو وہ اسے اپنے پاس کیسے حاضر کرے گا ؟ لہٰذا فرمایا، تم زمین کے کسی کونے میں چلے جاؤ یا آسمان کے کسی کنارے پر، تم اللہ تعالیٰ کو ہرگز عاجز نہیں کرسکتے کہ وہ تمہیں پکڑ نہ سکے۔ سورة رحمن میں یہی بات فرمائی : (يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ ) [ الرحمٰن : ٣٣ ] ” اے جنّ و انس کی جماعت اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ، کسی غلبے کے سوا نہیں نکلو گے۔ “- وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ : مطلب یہ ہے کہ نہ تم خود اتنے زور آور ہو کہ کہیں بھاگ کر اللہ کی گرفت سے نکل سکو اور نہ تمہارے کوئی حمایتی یا مددگار ہیں جو تمہیں اس کی گرفت سے بچا سکیں۔
وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ ٠ ۡوَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ ٢٢ ۧ- عجز - والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] ، - ( ع ج ز ) عجز الانسان - عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی۔
(٢٢) اے مکہ والو نہ تم زمین والوں میں سے کسی کو عذاب الہی سے بچا سکتے ہو اور نہ آسمان والوں میں سے اور عذاب الہی کے مقابلہ مٰن نہ تمہارا کوئی کارساز ہے جو تمہیں فائدہ پہنچائے اور نہ تمہارا کوئی مددگار ہے جو تم سے عذاب الہی کو روک سکے۔
آیت ٢٢ (وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِز) ” - تم زمین یا آسمان میں کہیں بھی کسی بھی طریقے سے اس کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتے۔- (وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ ) ” - عربی میں دُوْنَ کا لفظ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ عبارت کے سیاق وسباق سے پتا چلتا ہے کہ کس جگہ اس کے کون سے معنی مناسب ہیں۔ اس جگہ ” دُوْنِ اللّٰہ “ کا بہتر مفہوم یہی ہے کہ اللہ کے مقابلے میں تمہارا کوئی حمایتی اور مدد گار نہیں ہوگا۔- آیت ١٨ سے شروع ہونے والا جملہ معترضہ یہاں پر ختم ہوا۔ اب اگلی آیات میں پھر سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے جس کا سلسلہ آیت ١٧ سے منقطع ہوگیا تھا۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 34 یعنی تم کسی ایسی جگہ بھاگ کر نہیں جاسکتے جہاں اللہ کی گرفت سے بچ نکلو ، خواہ تم زمین کی تہوں میں کہیں اتر جاؤ یا آسمان کی بلندیوں میں پہنچ جاؤ ، بہرحال تمہیں ہر جگہ سے پکڑ کر لایا جائے گا اور اپنے رب کے سامنے تم حاضر کردیے جاؤ گے ۔ یہی بات سورہ رحمن میں جنوں اور انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے چیلنج کے انداز میں فرمائی گئی ہے کہ تم خدا کی خدائی سے اگر نکل سکتے ہو تو ذرا نکل کر دکھاؤ ، اس سے نکلنے کے لیے زور چاہیے اور وہ زور تمہیں حاصل نہیں ہے ، اس لیے تم ہرگز نہیں نکل سکتے ۔ يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ ( آیت 33 ) سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 35 یعنی نہ تمہارا اپنا زور اتنا ہے کہ خدا کی پکڑ سے بچ جاؤ ، اور نہ تمہارا کوئی ولی و سرپرست یا مددگار ایسا زور آور ہے کہ خدا کے مقابلے میں تمہیں پناہ دے سکے اور اس کے مواخذہ سے تمہیں بچا لے ۔ ساری کائنات میں کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ جن لوگوں نے کفر و شرک کا ارتکاب کیا ہے ، جنہوں نے احکام خداوندی کے آگے جھکنے سے انکار کیا ہے ، جنہوں نے جرات و جسارت کے ساتھ خدا کی نافرمانیاں کی ہیں اور اس کی زمین میں ظلم و فساد کے طوفان اٹھائے ہیں ، ان کا حمایتی بن کر اٹھ سکے اور خدا کے فیصلہ عذاب کو ان پر نافذ ہونے سے روک سکے ، یا خدا کی عدالت میں یہ کہنے کی ہمت کرسکے کہ یہ میرے ہیں اس لیے جو کچھ بھی انہوں نے کیا ہے اسے معاف کردیا جائے ۔