Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

231اللہ تعالیٰ کی رحمت، دنیا میں عام ہے جس سے کافر اور مومن، منافق اور مخلص اور نیک اور بد سب یکساں طور پر مستفید ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو دنیا کے وسائل، آسائش اور مال و دولت عطا کر رہا ہے یہ رحمت الٰہی کی وہ وسعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر لیا ہے لیکن آخر میں چونکہ دارالجزاء ہے، انسان نے دنیا کی کھیتی میں جو کچھ بویا ہوگا اسی کی فصل اسے وہاں کاٹنی ہوگی، جیسے عمل کئے ہونگے اس کی جزاء اسے وہاں ملے گی۔ اللہ کی بارگاہ میں بےلاگ فیصلے ہوں گے۔ دنیا کی طرح اگر آخرت میں بھی نیک وبد کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور مومن و کافر دونوں ہی رحمت الہی کے مستحق قرار پائیں تو اس سے ایک تو اللہ تعالیٰ کی صفت عدل پر حرف آتا ہے، دوسرے قیامت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ قیامت کا دن تو اللہ نے رکھا ہی اس لیے ہے کہ وہاں نیکوں کو ان کی نیکیوں کے صلے میں جنت اور بدوں کو انکی بدیوں کی جزا میں جہنم دی جائے۔ اس لیے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے خاص ہوگی۔ جسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت اور معاد کے ہی منکر ہوں گے وہ میری رحمت سے ناامید ہوں گے یعنی ان کے حصے میں رحمت الہی نہیں آئے گی۔ سورة اعراف میں اس کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ (فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف :156) میں یہ رحمت (آخرت میں) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو متقی، زکوٰۃ ادا کرنے والے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہوں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٣٥] اللہ کی آیات سے انکاری درحقیقت اللہ کی رحمت سے دوری کا سب سے بڑا سبب ہے۔ یعنی جو لوگ عقیدہ آخرت، اللہ سے ملاقات اور بعث بعدالموت کے منکر ہیں انھیں رحمت الٰہی کی امید کیونکر ہوسکتی ہے جبکہ وہ اس بات کے قائل ہی نہیں۔ لہذا وہ آخرت میں اللہ کی رحمت سے محروم اور مایوس ہی رہیں گے پہلے یہ بتلایا جاچکا ہے کہ جو شخص اللہ سے ملاقات کی امید رکھتے ہیں تو انھیں یقین رکھنا چاہئے کہ ان کی موت جلد ہی آنے والی ہے (٢٩: ٥) یعنی موت کے فوراً بعد اللہ کی رحمت اسے اپنی آغوش میں لے لے گی۔ یہ دونوں طرح کی آیات ایک دوسری کا عکس ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَلِقَاۗىِٕهٖٓ ۔۔ : اللہ تعالیٰ کی رحمت دنیا میں عام ہے، جس سے کافر اور مومن، منافق اور مخلص، نیک اور بد یکساں طور پر مستفید ہو رہے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کو دنیا کے وسائل، آسائش اور مال و دولت عطا کر رہا - ہے۔ یہ رحمت الٰہی کی وہ وسعت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا : (وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ) [ الأعراف : ١٥٦ ] ” اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر لیا ہے۔ “ لیکن آخرت چونکہ دار الجزاء ہے۔ انسان نے دنیا کی کھیتی میں جو کچھ بویا ہوگا اسی کی فصل اسے وہاں کاٹنا ہوگی، جیسے عمل کیے ہوں گے ویسی ہی جزا اسے وہاں ملے گی۔ اللہ کی بارگاہ میں بےلاگ فیصلے ہوں گے۔ دنیا کی طرح اگر آخرت میں بھی نیک و بد کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور مومن و کافر دونوں ہی رحمت الٰہی کے مستحق قرار پائیں تو اس سے ایک تو اللہ تعالیٰ کی صفت عدل پر حرف آتا ہے اور دوسرے قیامت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ قیامت کا دن تو اللہ نے رکھا ہی اس لیے ہے کہ وہاں نیکوں کو ان کی نیکیوں کے صلے میں جنت اور بدوں کو ان کی بدیوں کی جزا میں جہنم دی جائے۔ اس لیے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے خاص ہوگی۔ جیسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت اور معاد کے منکر ہوں گے وہ میری رحمت سے ناامید ہوں گے، یعنی ان کے حصے میں رحمت الٰہی نہیں آئے گی۔ سورة اعراف میں اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : ( فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ ) [ الأعراف : ١٥٦ ] ” سو میں یہ (رحمت آخرت میں) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو متقی، زکاۃ ادا کرنے والے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہوں گے۔ “ (احسن البیان) اس سورت کی آیت (5) : (مَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍ ) میں اللہ کی رحمت کی امید رکھنے والوں کا بیان ہے اور زیر تفسیر آیت میں اللہ کی رحمت سے ناامید لوگوں کا بیان ہے۔ نیز دیکھیے سورة بقرہ (٢١٨) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ وَلِقَاۗىِٕہٖٓ اُولٰۗىِٕكَ يَىِٕسُوْا مِنْ رَّحْمَتِيْ وَاُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ٢٣- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے روبرو حاضر ہونا ہے ۔- يأس - اليَأْسُ : انتفاءُ الطّمعِ ، يقال : يَئِسَ واسْتَيْأَسَ مثل : عجب واستعجب، وسخر واستسخر . قال تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] ،- ( ی ء س ) یأس - ( مصدرس ) کے معنی ناامید ہونیکے ہیں اور یئس ( مجرد) واستیئاس ( استفعال ) دونوں ہم معنی ہیں جیسے ۔ عجب فاستعجب وسخرو استسخر۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه فيالعَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٣) اور جو لوگ یعنی یہود و نصاری اور تمام مشرکین رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بعث بعد الموت کے منکر ہیں تو یہ لوگ میری جنت سے ناامید ہوں گے اور ان کو درد ناک عذاب ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 36 یعنی ان کا کوئی حصہ میری رحمت میں نہیں ہے ۔ ان کے لیے کوئی گنجائش اس امر کی نہیں ہے کہ وہ میری رحمت میں سے حصہ پانے کی امید رکھ سکیں ۔ ظاہر بات ہے کہ جب انہوں نے اللہ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا تو خود بخود ان وعدوں سے فائدہ اٹھانے کے حق سے بھی وہ دست بردار ہوگئے جو اللہ تعالی نے ایمان لانے والوں سے کیے ہیں ، پھر جب انہوں نے آخرت کا انکار کیا اور یہ تسلیم ہی نہ کیا کہ انہیں کبھی اپنے خدا کے حضور پیش ہونا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے خدا کی بخشش و مغفرت کے ساتھ کوئی رشتہ امید سرے سے وابستہ ہی ہیں کیا ہے ۔ اس کے بعد جب اپنی توقعات کے خلاف وہ عالم آخرت میں آنکھیں کھولیں گے اور اللہ کی ان آیات کو بھی اپنی آنکھوں سے سچا اور برحق دیکھ لیں گے جنہیں وہ جھٹلا چکے تھے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہاں وہ رحمت الہی میں سے کوئی حصہ پانے کے امیدوار ہوسکیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani