Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عقلی اور نقلی دلائل حضرت ابراہیم کا یہ عقلی اور نقلی دلائل کا وعظ بھی ان لوگوں کے دلوں پر اثر نہ کرسکا اور انہوں نے یہاں بھی اپنی اس شقاوت کا مظاہرہ کیا جواب تو دلیلوں کا دے نہیں سکتے تھے لہذا اپنی قوت سے حق کو دبانے لگے اور اپنی طاقت سے سچ کو روکنے لگے کہنے لگے ایک گڑھا کھودو اس میں آگ بھڑکاؤ اور اس آگ میں اسے ڈال دو کہ جل جائے ۔ لیکن اللہ نے ان کے اس مکر کو انہی پر لوٹا دیا مدتوں تک لکڑیاں جمع کرتے رہیں اور ایک گڑھا کھود کر اس کے اردگرد احاطے کی دیواریں کھڑی کرکے لکڑیوں میں آگ لگادی جب اس کے شعلے آسمان تک پہنچنے لگے اور اتنی زور کی آگ روشن ہوئی کہ زمین پر کہیں اتنی آگ نہیں دیکھی گئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پکڑ کر باندھ کر منجنیق میں ڈال کر جھلاکر اس آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ نے اسے اپنے خلیل علیہ السلام پر باغ وبہار بنادیا آپ کئی دن کے بعد صحیح سلامت اس میں سے نکل آئے ۔ یہ اور اس جیسی قربانیاں تھیں جن کے باعث آپ کو امامت کا منصب عطا ہوا ۔ اپنا نفس آپ نے رحمان کے لئے اپنا جسم آپ نے میزان کے لئے اپنی اولاد آپ نے قربان کے لئے اپنا مال آپ نے فیضان کے لئے کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیاکے کل ادیان والے آپ سے محبت رکھتے ہیں ۔ اللہ نے آگ کو آپ کے لئے باغ بنادیا اس واقعہ میں ایمانداروں کے لئے قدرت الٰہی کی بہت سی نشانیاں ہیں ۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ جن بتوں کو تم نے معبود بنا رکھاہے یہ تمہارا ایکا اور اتفاق دنیا تک ہی ہے ۔ مودۃ زبر کے ساتھ مفعول لہ ہے ۔ ایک قرأت میں پیش کے ساتھ بھی ہے یعنی تمہاری یہ بت پرستی تمہاری لئے گو دنیا کی محبت حاصل کرادے ۔ لیکن قیامت کے دن معاملہ برعکس ہوجائے گا مودۃ کی جگہ نفرت اور اتفاق کے بدلے اختلاف ہوجائے گا ۔ ایک دوسرے سے جھگڑوگے ایک دوسرے پر الزام رکھوگے ایک دوسرے پرلعنتیں بھیجوگے ۔ ہر گروہ دوسرے گروپ پر پھٹکار برسائے گا ۔ سب دوست دشمن بن جائیں گے ہاں پرہیزگار نیک کار آج بھی ایک دوسرے کے خیر خواہ اور دوست رہیں گے ۔ کفار سب کے سب میدان قیامت کی ٹھوکریں کھا کھا کر بالآخر جہنم میں جائیں گے ۔ گو اتنا بھی نہ ہوگا کہ ان کی کسی طرح مدد کرسکے ۔ حدیث میں ہے تمام اگلے پچھلوں کو اللہ تعالیٰ ایک میدان میں جمع کرے گا ۔ کون جان سکتا ہے کہ دونوں سمت میں کس طرف ؟ حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیرہ ہیں جواب دیا کہ اللہ اور اس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ علم والا ہے ۔ پھر ایک منادی عرش تلے سے آواز دے گا کہ اے موحدو بت توحید والے اپنا سر اٹھائیں گے پھر یہی آواز لگائے گا پھر سہ بارہ یہی پکارے گا اور کہے اللہ تعالیٰ نے تمہاری تمام لغزشوں سے درگزر فرمالیا ۔ اب لوگ کھڑے ہونگے اور آپ کی ناچاقیوں اور لین دین کا مطالبہ کرنے لگیں گے تو اللہ وحدہ لاشریک لہ کی طرف سے آواز دی جائے گی کہ اے اہل توحید تم تو آپس میں ایک دوسرے کو معاف کردو تمہیں اللہ بدل دے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

241ان آیات سے قبل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان ہو رہا تھا، اب پھر اس کا بقیہ بیان کیا جا رہا ہے، درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر اللہ کی توحید اور اس کی قدرت و طاقت کو بیان کیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وعظ کا حصہ ہے۔ جس میں انہوں نے توحید و معاد کے اثبات میں دلائل دیئے ہیں، جن کا کوئی جواب جب ان کی قوم سے نہیں بنا تو انہوں نے اس کا جواب ظلم و تشدد کی اس کاروائی سے دیا، جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اسے قتل کردو یا جلا ڈالو۔ چناچہ انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کر کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو منجنیق کے ذریعے سے اس میں پھینک دیا۔ 242یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو گلزار کی صورت میں بدل کر اپنے بندے کو بچا لیا۔ جیسا کہ سورة انبیاء میں گزرا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٣٦] حضرت ابراہیم کے حالات کے درمیان آیت نمبر ١٩ سے لے کر آیت نمبر ٢٣ تک اللہ تعالیٰ کا اپنا کلام ہے۔ جس میں ربط مضمون کی نسبت سے توحید اور آخرت پر کچھ دلائل پیش کرنے کے بعد اب پھر حضرت ابراہیم کے حالات کی طرف غور کیا جارہا ہے۔- حضرت ابراہیم کے دلائل توحید کا جب قوم ابراہیم سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو وہ اوچھے ہتھیاروں پر اتر ائے اور یہی باطل پرستوں کی عادت ہوتی ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم کے ان کے بتوں کو توڑنے پھوڑنے کا واقعہ حذف کردیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم نے یہ کام اس لئے کیا تھا کہ قوم پر عملی طور پر واضح کرسکیں کہ ان کے معبود بالکل ناکارہ چیزیں ہیں جو اپنی حفاظت اور اپنے آپ سے نقصان کو دور نہیں کرسکتے وہ دوسروں کی مشکل کشائی کیسے کرسکتے ہیں۔ اسی مشاہداتی دلیل نے ان لوگوں کو اور بھی زیادہ مشتعل اور سیخ پا بنادیا۔ آخر انہوں نے یہ مشورہ کیا کہ ابراہیم کو مار ہی ڈالو اور اگر ایسا نہ کرو تو اسے آگ میں جلا ڈالو۔ آگ میں جلانے کے مشورہ میں بھی دو پہول ہیں۔ ایک یہ کہ یہ اسے دکھ دینے والا آگ کا عذاب دے کر مارنا چاہئے۔ دوسرے یہ کہ شاید یہ کہ آگ کا عذاب دیکھ کر اپنی باتوں سے باز رہنے کا عہد کرلے۔ بہرحال ان لوگوں نے لمبا چوڑا آگ کا الاؤ تیار کیا اور حضرت ابراہیم کو اس آگ میں پھینک دیا۔- [ ٣٧] لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ حضرت ابراہیم کے حق میں ٹھنڈی اور غیر مضر بن جائے۔ چناچہ ابراہیم اس آگ میں اس طرح رہے جیسے کوئی شخص باغ اور گلزار میں رہتا ہے۔ اور اس میں نشانیاں یہ ہیں :- (١) ہر چیز کی کچھ طبیعی خواص ہیں اور یہ خواص اللہ تعالیٰ نے ہی ہر چیز میں ودیعت کر رکھے ہیں۔- (٢) ان خواص میں اللہ تعالیٰ جب چاہے تبدیلی لاسکتا ہے۔ اگرچہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کہ اگر اللہ چاہے تو بعض اشیاء کے طبیعی خواص سلب بھی کرسکتا ہے اور ان میں تبدیلی بھی لاسکتا ہے۔- (٣) اللہ کے بندوں کو اللہ کی مدد پہنچتی ضرور ہے۔ مگر پہلے انھیں ابتلا کے دور سے گزارا جاتا ہے اور ایسی خرق عادت مدد صرف اس وقت آتی ہے جب اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔ - اس واقعہ پر منکرین معجزات کی تاویل اور اس کا جواب سورة انبیاء کے حاشیہ نمبر ٥٨ کے تحت ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّا اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ : ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ توحید اور آخرت کے متعلق ان کے دلائل کا جواب نہ دے سکے تو تشدد پر اتر آئے اور باطل پرستوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے، ان کے پاس دلیل کا جواب دلیل نہیں ہوتا، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ مار دو ، جلا دو ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کا ان کے بتوں کو توڑنے کا واقعہ حذف کردیا ہے۔ وہ واقعہ بھی بتوں کے باطل ہونے کی عملی دلیل تھا، جب وہ علمی اور عملی دلائل کے مقابلے میں لاجواب ہوگئے تو سب نے اتفاق کے ساتھ انھیں ختم کرنے کا فیصلہ کیا، تاہم اس میں اختلاف تھا کہ انھیں ختم کرنے کا طریقہ کیا ہو، تو وہ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اسے قتل کر دو یا جلا دو ۔ آخری فیصلہ یہی ہوا کہ اسے عبرت ناک طریقے سے جلا دو ، کیوں کہ وہ انھیں زیادہ سے زیادہ اذیت پہنچانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے باقاعدہ ایک عمارت بنا کر اسے ایندھن سے بھر کر آگ سے جلا دینے کا اہتمام کیا، جیسا کہ فرمایا : (قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْيَانًا فَاَلْقُوْهُ فِي الْجَــحِيْمِ ) [ الصافات : ٩٧ ] ” انھوں نے کہا اس کے لیے ایک عمارت بناؤ، پھر اسے بھڑکتی ہوئی آگے میں پھینک دو ۔ “ - فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ : اس جملے سے یہ بات خود بخود واضح ہو رہی ہے کہ ان لوگوں نے آخر کار ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینک دیا۔ یہاں صرف اتنا بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں آگ سے بچا لیا، مگر دوسری جگہ صراحت کے ساتھ فرمایا : (قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ ) [ الأنبیاء : ٦٩ ] ” ہم نے کہا اے آگ ابراہیم پر سراسر ٹھنڈک اور سلامتی بن جا۔ “ ظاہر ہے اگر انھیں آگ میں پھینکا ہی نہ گیا ہوتا تو آگ کو یہ حکم دینے کا کوئی مطلب نہیں تھا، نہ یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں آگ سے بچا لیا۔- اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : ان نشانیوں میں سے سب سے پہلی نشانی تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش ضرور کرتا ہے اور جو جتنا مقرب ہو آزمائش اتنی ہی سخت ہوتی ہے۔ اس واقعہ ہی کو دیکھ لیجیے، اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کو ان پر ہاتھ ڈالنے ہی نہ دیتا، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا : (فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا ) [ القصص : ٣٥ ] ” کہ یہ لوگ تم دونوں تک نہیں پہنچیں گے۔ “ اور یہ بھی ممکن تھا کہ ان کی قوم میں سے ان کا کوئی ہمدرد کھڑا کردیتا، جیسا کہ ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ابوطالب کو کھڑا کردیا، جس نے مشرک ہونے کے باوجود کہا ؂ - وَاللّٰہِ لَنْ یَّصِلُوْا إِلَیْکَ بِجَمْعِہِمْ- حَتّٰی أُوَسَّدَ فِي التُّرَابِ دَفِیْنَا - ” اللہ کی قسم یہ لوگ اپنی جماعت کے ساتھ بھی تم تک نہیں پہنچیں گے، حتیٰ کہ مجھے مٹی میں دفن کردیا جائے۔ “- مگر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے دنیا کا کوئی سبب یا ذریعہ نہیں رہنے دیا جس کے ساتھ وہ آگ میں جلنے سے بچ جائیں۔ یہاں آزمائش اور امتحان میں ابراہیم (علیہ السلام) کی کمال کامیابی ظاہر ہوتی ہے کہ دنیا کا ہر سہارا ختم ہونے اور شعلے مارتی ہوئی آگ سامنے دیکھنے کے باوجود انھوں نے نہ اللہ کی توحید کا دامن چھوڑا، نہ قوم کے سامنے جھکے، نہ کسی غیر کو پکارا، زبان سے نکلا تو یہی نکلا : ( حَسْبِيَ اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( الذین قال لھم الناس۔۔ ) : ٤٥٦٤ ] ” مجھے اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔ “ دوسری نشانی یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کا صدق آزما لیا تو آگ کو ان کے لیے برد وسلام بنادیا، حالانکہ اس کا کام ہی جلانا ہے اور دنیا کے تمام ظاہری اسباب ختم ہونے کے باوجود کلمہ کن (کونی بردا وسلم ا) کے ساتھ انھیں بچا لیا۔ تیسری نشانی یہ کہ جس اللہ نے دنیا کی تمام چیزوں میں مختلف خاصیتیں رکھی ہیں، وہ اپنے خاص بندوں کے لیے ان میں ان کے الٹ خاصیتیں پیدا کردیتا ہے۔ پانی کا کام بہنا ہے، وہ اللہ کے حکم سے موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کی نجات کے لیے الگ الگ پہاڑوں کی شکل میں کھڑا ہوگیا۔ آگ کا کام جلانا ہے لیکن اللہ کے حکم سے وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے گلزار بن گئی۔- چوتھی نشانی یہ کہ وہی مشرکین جنھوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو پکڑا، باندھا اور آگ میں پھینک دیا، آگ سے نکلنے کے بعد انھیں ذرہ برابر نقصان نہ پہنچا سکے، حالانکہ کچھ مشکل نہ تھا کہ وہ انھیں قید کردیتے یا قتل کردیتے، مگر یہ اللہ تعالیٰ کا زبردست ہاتھ تھا جس کے زیر حفاظت وہ ان کا بال بیکا نہ کرسکے۔ پانچویں نشانی یہ کہ اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے باوجود ان کی قوم کے لوگ کفر پر اڑے رہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جب کوئی قوم انکار پر اڑ جاتی ہے تو بڑے سے بڑا معجزہ بھی انھیں نفع نہیں دیتا۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا سچ ہونا ثابت ہوا : (اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) [ البقرۃ : ٦ ] ” بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ان پر برابر ہے، خواہ تو نے انھیں ڈرایا ہو یا انھیں نہ ڈرایا ہو، ایمان نہیں لائیں گے۔ “ اور دیکھیے سورة انعام (١١١) اسی لیے فرمایا کہ اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے بہت سے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔ ” لقوم یومنون “ میں لام انتفاع کا ہے، یعنی ان نشانیوں سے فائدہ ایمان والے ہی اٹھاتے ہیں، ایمان سے محروم لوگوں کو ان سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - سو (ابراہیم (علیہ السلام) کی اس تقریر دلپذیر کے بعد) ان کی قوم کا (آخری) جواب بس یہ تھا کہ (آپس میں) کہنے لگے کہ ان کو یا تو قتل کر ڈالو یا ان کو جلا دو (چنانچہ جلانے کا سامان کیا) سو اللہ نے ان کو اس آگ سے بچا لیا (جس کا قصہ سورة انبیاء میں گذر چکا ہے) بیشک اس واقعہ میں ان لوگوں کے لئے جو کہ ایمان رکھتے ہیں کئی نشانیاں ہیں (یعنی یہ واقعہ کئی چیزوں کی دلیل ہے اللہ کا قادر ہونا، ابراہیم (علیہ السلام) کا نبی ہونا، کفر و شرک کا باطل ہونا اس لئے یہ ایک ہی دلیل متعدد دلائل کے قائم مقام ہوگئی) اور ابراہیم (علیہ السلام) نے (وعظ میں یہ بھی) فرمایا کہ تم نے جو خدا کو چھوڑ کر بتوں کو (معبود) تجویز کر رکھا ہے، بس یہ تمہارے باہمی دنیا کے تعلقات کی وجہ سے ہے (چنانچہ مشاہدہ ہے کہ اکثر آدمی اپنے تعلقات اور دوستی اور رشتہ داروں کے طریقہ پر رہتا ہے اور اس وجہ سے حق بات میں غور نہیں کرتا اور حق کو سمجھ کر بھی ڈرتا ہے کہ سب دوست اور رشتہ دار چھوٹ جاویں گے) پھر قیامت میں (تمہارا یہ حال ہوگا کہ) تم میں ایک دوسرے کا مخالف ہوجائے گا اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گا (جیسا کہ سورة اعراف میں ہے لَّعَنَتْ اُخْتَهَا اور سورة سباء میں ہے يَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ اور سورة بقرہ میں ہے اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا الخ خلاصہ یہ ہے کہ آج جن احباب و اقارب کی وجہ سے تم گمراہی کو اختیار کئے ہوئے ہو قیامت کے روز یہی احباب تمہارے دشمن بن جائیں گے اور (اگر تم اس بت پرستی سے باز نہ آئے تو) تمہارا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور تمہا را کوئی حمایتی نہ ہوگا سو (اتنے وعظ پند پر بھی ان کی قوم نے نہ مانا) صرف لوط (علیہ السلام) نے ان کی تصدیق فرمائی اور ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں (تم لوگوں میں نہیں رہتا، بلکہ) اپنے پروردگار کی (بتلائی ہوئی جگہ کی) طرف ترک وطن کر کے چلا جاؤں گا بیشک وہ زبردست حکمت والا ہے (وہ میری حفاظت کرے گا اور مجھ کو اس کا ثمرہ دے گا) اور ہم نے (ہجرت کے بعد) ان کو اسحاق (بیٹا) اور یعقوب (پوتا) عنایت فرمایا اور ہم نے ان کی نسل میں نبوت اور کتاب (کے سلسلہ) کو قائم رکھا اور ہم نے ان کا صلہ ان کو دنیا میں بھی دیا اور آخرت میں بھی (بڑے درجہ کے) نیک بندوں میں ہوں گے (اس صلہ میں مراد قرب و قبول ہے، کقولہ تعالیٰ فی البقرة لَقَدِ اصْطَفَيْنٰهُ فِي الدُّنْيَا الخ)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْہُ اَوْ حَرِّقُوْہُ فَاَنْجٰىہُ اللہُ مِنَ النَّارِ۝ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝ ٢٤- جوب - والجواب يقال في مقابلة السؤال،- والسؤال علی ضربین :- طلب مقال، وجوابه المقال .- وطلب نوال، وجوابه النّوال .- فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] ،- وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما .- ( ج و ب ) الجوب - جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے - اور سوال دو قسم پر ہے - ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- حرق - يقال : أَحْرَقَ كذا فاحترق، والحریق : النّار، وقال تعالی: وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج 22] ، وقال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة 266] ، وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء 68] ، لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه 97] ، و ( لنحرقنّه) قرئا معا، فَحَرْقُ الشیء :إيقاع حرارة في الشیء من غير لهيب، کحرق الثوب بالدّق ۔- ( ح ر ق )- احرق کذا ۔ کسی چیز کو جلانا ) احترق ( جلنا ) الحریق ( آگ) قرآن میں ہے :۔ وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج 22] کہ عذاب ( آتش ) سوزاں کے مزے چکھتے رہو ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل ( کر راکھ کا ڈھیرہو ) جائے ۔ وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء 68] ( تب ) وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه 97] ہم اسے جلا دیں گے ۔ ایک قرآت میں لنحرقنہ ہے ۔ پس حرق الشئ کے معنی کسی چیز میں بغیر اشتعال کے جلن پیدا کرنے کے ہیں جیسے دھوبی کے پٹخنے سے کپڑے کا پھٹ جانا ۔ - نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٤) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی توحید خداوندی کی دعوت کے بعد ان کی قوم کا بھی یہی جواب تھا کہ ان کو یا تو قتل کر ڈالویا ان کو آگ میں جلا دو لہذا اللہ تعالیٰ نے صحیح وسالم ان کو اس آگ سے بچا لیا۔- حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے ساتھ جو ہم نے معاملہ کیا اس میں ان حضرات کے لیے جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں بڑی نشانیاں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 37 یہاں سے پھر سلسلہ کلام حضرت ابراہیم کے قصے کی طرف مڑتا ہے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 38 یعنی حضرت ابراہیم کے معقول دلائل کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا ۔ ان کا جواب اگر تھا تو یہ کہ کاٹ دو اس زبان کو جو حق بات کہتی ہے اور جینے نہ دو اس شخص کو جو ہماری غلطی ہم پر واضح کرتا ہے اور ہمیں اس سے باز آنے کے لیے کہتا ہے ۔ قتل کردو یا جلا ڈالو کے الفاظ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پورا مجمع اس بات پر متفق تھا کہ حضرت ابراہیم کو ہلاک کردیا جائے ، البتہ ہلاک کرنے کے طریقے میں اختلاف تھا ۔ کچھ لوگوں کی رائے یہ تھی کہ قتل کیا جائے ، اور کچھ کی رائے یہ تھی کہ زندہ جلا دیا جائے تاکہ ہر شخص کو عبرت حاصل ہو جسے آئندہ کبھی ہماری سرزمین میں حق گوئی کا جنون لاحق ہو ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 39 اس فقرے سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ ان لوگوں نے آخر کار حضرت ابراہیم کو جلانے کا فیصلہ کیا تھا اور وہ آگ میں پھینک دیے گئے تھے ۔ یہاں بات صرف اتنی کہی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو آگ سے بچا لیا ۔ لیکن سورہ الانبیاء میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ آگ اللہ تعالی کے حکم سے حضرت ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور غیر مضر ہوگئی: قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ ( آیت 69 ) ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر ۔ ظاہر ہے کہ اگر ان کو آگ میں پھینکا ہی نہ گیا ہو تو آگ کو یہ حکم دینے کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ تو ان پر ٹھنڈی ہو جا اور ان کے لیے سلامتی بن جا ۔ اس سے یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ تمام اشیاء کی خاصیتیں اللہ تعالی کے حکم پر مبنی ہیں ، اور وہ جس وقت جس چیز کی خاصیت کو چاہے بدل سکتا ہے ۔ معمول کے مطابق آگ کا عمل یہی ہے کہ وہ جلائے اور آتش پذیر چیز اس میں پڑ کر جل جائے ۔ لیکن آگ کا یہ معمول اس کا اپنا قائم کیا ہوا نہیں ہے بلکہ خدا کا قائم کیا ہوا ہے ۔ اور اس معمول نے خدا کو پابند نہیں کردیا ہے کہ وہ اس کے خلاف کوئی حکم نہ دے سکے ۔ وہ اپنی آگ کا مالک ہے ، کسی وقت بھی وہ اسے حکم دے سکتا ہے کہ وہ جلانے کا عمل چھوڑ دے ، کسی وقت بھی وہ اپنے ایک اشارے سے آتش کدے کو گلزار میں تبدیل کرسکتا ہے ۔ یہ غیر معمولی خرق عادت اس کے ہاں روز روز نہیں ہوتے ، کسی بڑی حکمت اور مصلحت کی خاطر ہی ہوتے ہیں ، لیکن معمولات کو جنہیں روز مرہ دیکھنے کے ہم خوگر ہیں ، اس بات کے لیے ہرگز دلیل نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ اللہ تعالی کی قدرت ان سے بندھ گئی ہے اور خلاف معمول کوئی واقعہ اللہ کے حکم سے بھی نہیں ہوسکتا ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 40

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعے کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء :51